ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک ستارہ تھی میں – قسط۸ – بتول مئی ۲۰۲۳

پون سے تفتیش جاری ہے۔زرَک روزانہ آکر اس سے گھما پھرا کر طرح طرح کے سوالات پوچھتا ہے مگر ابھی تک اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ زرَک کو یقین ہے کہ وہ اپنی معصوم صورت کا فائدہ اٹھا کر بہت سارے ایسے کام کر چکی ہے جو وطن کے خلاف ہیں مگر اس کے باوجود وہ سخت بے چینی محسوس کرتا ہے۔اسے کبھی کبھی یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں پون کے ساتھ وہ زیادتی تو نہیں کر رہا؟ شدید خوف اور ذہنی اذیت کا شکار پون اللہ سے رابطہ بحال کرنا چاہتی ہے مگر نہیں کر پارہی۔اسے لگتا ہے کہ اس کی آزمائش اس کے اور اس کے خدا کے بیچ کھڑی ہے۔

 

آج پھر اُس پر مایوسی کادورہ پڑا ہؤا تھا ۔ بے زاری اپنی انتہا کوپہنچی ہوئی تھی ۔ بے چارگی اور اکیلے پن کا احساس تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُسے لگر رہا تھا وہ یہاں سے کبھی نکل نہیں پائے گی، یہیںپر ختم ہوجائے گی۔
مگر کاش وہ ختم ہی ہو جاتی… ایسا بھی تو نہیں ہو رہا تھا ناں !
وہ زندگی اور موت کی کیفیت کے بیچ میں معلق تھی کوئی سہارا نہیں تھا کوئی کنارا نہیںتھا۔
تب ایک بار پھر اُس کے ذہن میںبی بی کا صحن روشن ہو گیا۔ جب بھی وہ بد ترین مایوسی کا شکار ہوتی یہی ہوتا تھا۔ بی بی کا ایمان اور اُمید سے چمکتا چہرہ اس کے سامنے تھا اور اس کے کانوںمیں اُن کی آوازگونج رہی تھی۔
’’تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا ‘‘۔
اس نے ایک دم سے بڑی سانس لی تھی ۔ اُسے لگا وہ ڈوب رہی تھی مگر پھر اچانک گہرے تاریک پانیوںمیں سے کسی نے اُسے کھینچ کر باہر نکال لیا تھا ۔ یہ تو اُس دن کا سبق تھا جس دن وہ گرفتار ہوئی تھی ۔
آخری سبق ! وہ اسے کیسے بھول گئی تھی ! اتنے دن کیوںاسے یہ بات یاد نہ آئی تھی ؟ وہ اتنے دنوں سے تریاق مٹھی میں لیے پھر رہی تھی اور اسے اس کا خیال تک نہ آیا تھا ۔
’’ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا‘‘۔
یہی سبق تو اسے بی بی کے ساتھ رکھ کر سکھایا گیا تھا ، بی بی جن کا ایمان ہزاروں چراغوں جیسا تھا یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی بی بی کے پاس ہو اور اُمید اور یقین سے محروم رہے، نہیں وہ محروم نہیں تھی۔
سیل کا دروازہ کھل رہا تھا۔ شاید وہ ہی ہوگا موت کا فرشتہ …!
مگر وہ نہیں تھا ۔ جو بھی تھا اس نے کھانا باہر سے ہی اندرسرکا کر دروازہ بند کر دیا تھا ۔حیرت سے آج اتنی دیر ہو چکی تھی مگر وہ نہیں آیا تھا ۔ اچھا ہے نہ آئے آج کادن سکون میں گزرے گا۔ مگرکھانا کھاتے ہوئے بھی وہ اس کے قدموں کی مخصوص چاپ کی منتظر ہی رہی۔
لیکن وہ نہیں آیا ۔ سارا دن گزر گیا تھا ۔ اس کا مطلب تھا آج وہ چھٹی منا رہا تھا ۔ وہ سارا دن سیل میں ادھر سے اُدھر ٹہلتی رہی ۔ کاش وہ آ ہی جاتا ! شام کووہ بڑی شدت سے خواہش کر رہی تھی ۔ اُسے اپنے آپ پر رحم بھی آرہا تھا ۔ وہ اپنی اس جان لیوا تنہائی سے بچنے کے لیے موت کے فرشتے کا کس شدت سے انتظار کر رہی تھی جوصرف تکلیف دیتا تھا اذیت پہنچاتا تھا مگرپھر بھی کوئی دوسری شکل تواسے نظر آتی تھی ناں … کوئی دوسری آوازتو سنائی دیتی تھی ناں !اب جبکہ یہ آوازبیرونی دنیا سے اس کا واحد رابطہ تھی تو یہی آواز کوئی امید بھرا فیصلہ بھی لا سکتی تھی۔ مگر آج تو وہ اس سے بھی محروم تھی ۔
اگلی صبح پھر وہی انتظار تھا اور قدموں کی ہر آواز پروہ دوڑ کردروازے کے پاس جاتی تھی مگر اس کا دروازہ نہیں کھلتا تھا ۔ صبح سے دوپہر اور پھر شام ہوچکی تھی وہ نہیں آیا تھا ۔
آخر وہ کیوں نہیں آیا ؟ اُسے آنا چاہیے تھا ، وہ شدید تکلیف کے

آخر وہ کیوں نہیں آیا ؟ اُسے آنا چاہیے تھا ، وہ شدید تکلیف کے عالم میں تھی۔ یہ بھی سزا دینے کا اُس کا کوئی طریقہ تھا ، وہ حیران تھی ۔
وہ بے دم ہو کردیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ، وہ اپنے آپ کو سوچوں میں اور خیالوں میں گم کر دینا چاہتی تھی تاکہ اُس کی طرف سے اُس کا دھیان ہٹ جائے۔
وہ سوچنے لگی اُس کی زندگی میں سب سے خوبصورت دن کون سے تھے ۔ یونیورسٹی کے دن … ہاں یہ دو سال اس کی زندگی کے بہترین دن تھے ۔ وہ انھیں کبھی نہیںبھول سکتی تھی۔ وہ ایک ایک کر کے اپنے سب کلاس فیلوز کو یاد کرنے لگی ۔ لڑکیاں تو اُسے ساری ہی یاد تھیں مگر لڑکوں میں سے بعض کے نام یاد تھے تو چہرہ یاد نہیں آ رہا تھا اور جن کے چہرے یاد تھے اُن کا نام یاد نہیں آ رہا تھا ۔ حالانکہ اُسے یونیورسٹی چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، اُسے اظفر کابھی خیال آیا تھا مگر اب وہ بے چہرہ تصویر بن کررہ گیا تھا۔ اُس کے لیے اظفر اب ایک پچھتاوے کانام تھا ۔ اس کی اس حالت کا وہی ذمہ دار تھا ۔ اگر وہ اتنا خود غرض نہ ہوتا توآج وہ ایک پر سکون گھر میں با عزت زندگی گزاررہی ہوتی۔
اظفر کے ساتھ ہی اُسے اپنے ٹیچرز کا بھی خیال آیا تھا ۔ سب کس قدر اچھے تھے ، کس قدرتعاون کرنے والے ۔ اُسے یاد آیا شروع دنوںمیں لیکچر ختم ہونے کے بعد پچھلی کسی سیٹ سے کوئی سوال کیا کرتا تھا ۔ اُف کیا زبر دست تھی سوال کرنے والے کی آواز! وہ جو بھی تھا اس کی آواز میں بے حد کشش تھی ۔ اتنی کشش کہ بے اختیار پوّن کا دل چاہتا مڑ کردیکھے کون بول رہا تھا، مگر وہ یہ کبھی نہ کر سکی تھی۔ وہ اپنی کلاس کے سب لڑکوں کی صورت پہچانتی تھی مگر اُن میں کون اس پرکشش آواز کا مالک تھا یہ کبھی پتہ نہ چل سکا۔
اور پھر یہ معمہ حل ہو ہی گیا تھا برسوں بعد ۔ جب اس نے اپنے سیل میں وہی آواز سنی تھی… زرک کی آواز !
تو کیا یہ اس کی آواز تھی ؟ اُسے یقین نہیں آرہا تھا ۔ اُسے تو اس کا بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ زرک صلاح الدین کو اپنے سیل میںدیکھ رہی ہے اور آج پھر وہ اس کو دیکھنے اور اس کی آوازکو سننے کے لیے ترس رہی تھی ۔ یہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا ، وہ اس قدر پاگل کیوں ہو رہی تھی ؟ سیل کی تنہائی اور بے زاری نے اُسے شاید ذہنی طور پر بالکل ہی ناکارہ کردیا تھا کہ وہ اس بے رحم شخص کو ہزاروں دفعہ پکار چکی تھی جو اُس کے سیل میں ہمیشہ تکلیف اور اذیت کے نئے نئے طریقوں سے لیس آتا تھا ۔ یہ اُسے کیا ہو رہا تھا وہ اس قدر کمزور کیوں پڑ گئی تھی کہ اُسے دشمن کا انتظار رہنے لگا تھا۔اُس دشمن کاجس سے بھلائی کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی۔
وہ اپنی اس نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی ۔جیل کو شایداس لیے بہت بُری جگہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں انسان کی قوت فیصلہ اور قوت ارادی دونوںنہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں اور پھر جونا خوب ہوتا ہے وہی خوب ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہو رہا تھا ۔ وہ ذہنی طور پر سخت کمزور ہوچکی تھی یہی وجہ تھی کہ جس سے وہ سخت نفرت کرتی تھی اسی کوسامنے دیکھناچاہتی تھی۔ شام تک اس کی ذہنی کیفیت اس کے جسم پر بھی اثر انداز ہو چکی تھی ، ووہ شدید بخار میں مبتلا ہو چکی تھی ۔ ساری رات اس نے نہایت کرب اوراذیت میں گزاری تھی اور پھر صبح تک وہ اس کا نام لے کر اسے پکار رہی تھی۔
اور پھر ایک دم سے جیسے اُسے ہوش آگیا تھا۔
اُس نے چونک کرسیل میں ادھر اُدھردیکھا کہیںکسی نے وہ سب کچھ سن تو نہیں لیا جواُس نے نیم بے ہوشی کے عالم میں کہا تھا ۔ نہیں ، وہاں کوئی نہیں تھاجواس کی وہ آواز سنتا جو وہ خود کو بھی سنانا نہیں چاہتی تھی ۔ اُس کا بخار رات کے مقابلے میں کافی کم تھا ، مگر وہ شدید کمزوری محسوس کر رہی تھی ، اُسے یقین تھا اگر شام تک اس کی یہی ذہنی اور جسمانی کیفیت رہی تو وہ زندہ نہیں بچے گی۔
…٭…
اور آج پورے پانچ دنوں کے بعد وہ پھر اس کے سیل میں موجود تھا ۔ بخار کا اثر ابھی تک اُس پر باقی تھا وہ بڑی مشکل سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی اور ہر لمحہ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ ادھر گرے گی یا اُدھر۔
وہ چپ چاپ سامنے کھڑا تھا ۔ اس کے چہرے کی طرف تو دیکھنے کی اس میںہمت ہی نہیںتھی ، بس اس کے جوتوں سے ہی اس نے اس کو پہچانا تھا ۔ یہ شایداس کے پسندیدہ جوتے تھے وہ اکثر انہی میں نظر آتا ۔

مگر وہ کچھ بول کیوںنہیں رہا ؟ وہ شدت سے کسی آواز کی منتظر تھی… اُس کی آواز کی ! یہ آواز اُسے کس قدر خوب صورت لگا کرتی تھی مگر یہاںاس سیل میں اس نے اسی آواز سے ہر طرح کی تکلیف اٹھائی تھی۔
وہ قدم قدم آگے بڑھتا عین اس کے سامنے آ کھڑا ہؤا۔ وہ چاہتی تو ذرا سی نظر اٹھا کر اس کا چہرہ بھی دیکھ سکتی تھی۔
’’ آخر تم کب تک خاموش رہو گی ؟ کب تک اپنے گناہ چھپا ئو گی؟‘‘
وہ آج بھی اپنے اسی پرانے لہجے میں اس سے سوال کر رہا تھا کچھ بھی تونہیں بدلا تھا ۔ ان دنوں میں اس نے اس کے متعلق کیسی کیسی خوش فہمیاں پال لی تھیں ۔ پتا نہیںکب اور کیسے اس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ اب جب وہ آئے گا تو پہلے جیسا نہیں ہوگامگر وہ تو آج پہلے سے بھی زیادہ غصے میں لگ رہا تھا ۔ اس کی خوش فہمیاں دور کھڑی اس پر ہنس رہی تھیں۔
’’ تمہاری اور تمہارے بڑوں کی مکاری کی داد دینے کو دل کرتا ہے ‘‘ وہ دانت پیس پیس کرکہہ رہا تھا ’’ کس چالاکی کے ساتھ تم لوگوں نے ایک ایسے گائوں کا انتخاب کیا جو بہت پسماندہ ہے ۔ پھر تم وہاں اُستانی لگ گئیں ۔ رہنے کے لیے ایسی خاتون کا گھر چنا جہاں کوئی مردنہیں تھا اورجنہیںڈرانا دھمکانا آسان تھا اور اگر انہیں تمھاری سر گرمیوں کا علم ہو بھی جائے تو بھی وہ کچھ نہ کر سکیںاور گائوںمیں اُستاد کی ویسے بھی عزت کی جاتی ہے لہٰذا وہاں سے بھی کسی انگلی کے اٹھنے کاڈر نہیں تھا ‘‘۔
وہ اس پر ہر طرف سے وار کررہا تھا مگر یہ بھی جانتا تھا کہ اُسے اتنا غصہ پون پر نہیں تھا جتناخود پر تھا، اپنی اُس بے بسی اور کمزوری پر تھاجو کچھ دنوں سے اُس پر حاوی ہوتی جا رہی تھی ۔ وہ چاہنے کے باوجود اس کے ساتھ وہ سب نہیں کر رہا تھا جو اصول کے مطابق اسے کرنا چاہیے تھا ۔ وہ نجانے کیوںاُسے ڈھیل دے رہا تھا نرمی دکھا رہا تھا اور یہی چیز اُسے غصے اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔ اُسے لگتا تھا ہر فساد کی جڑ یہی لڑکی ہے ، جب سے وہ آئی تھی کچھ بھی ٹھیک نہیں رہا تھا ۔ کچھ بھی اُس کی مرضی کے مطابق نہیں ہو رہا تھا۔
اس کے تابڑ توڑ سوالوں کا سلسلہ ابھی جاری تھا جب وہ اچانک ایک طرف ڈھلک گئی تھی وہ ایک دم چپ ہوکر اسے غور سے دیکھتا رہا تھا مگر وہ تواسی طرح بے حس و حرکت پڑی تھی ’’ پون … پون!‘‘
اس نے دو تین دفعہ اسے آواز دی تھی اور پھر باہر کھڑی لیڈی گارڈ کو پکارا تھا ۔ اس نے بھی دو تین دفعہ اسے آواز دی مگر اس کے وجود میں کوئی حرکت نہیں تھی ۔اور پھر اس نے زور سے اس کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری تھی مگر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہؤا۔
’’ نہیں سر!یہ ڈرامہ نہیں کر رہی واقعی بے ہوش ہے ‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’ جائو جلدی سے ڈاکٹر کو بلائو ‘‘ زرک کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ گارڈ خاتون نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ اس کا چہرہ بالکل پتھرایا ہؤا تھا اور لہجہ خوفناک ۔
ان کواچانک کیا ہؤا ؟ وہ حیران ہوتی باہر آ گئی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر اسے چیک کر رہاتھا۔
یہ بیہوش بھی ہے اور اسے بخار بھی ہے ‘‘ وہ اسے چیک کرنے کے بعد بولا تھا ’’ اس کمرے میں حبس بہت ہے یہ یقینا اچھی طرح سو بھی نہیں سکی اورکھانے کو بھی بہت کم مل رہا ہے اسے اور باقی کسر آپ کی تفتیش کے طریقوںنے پوری کردی ہے ‘‘۔
آخر کار وہ ڈاکٹر تھا اور اس کی نظر میں کوئی بھی معصوم یا مجرم نہیں بلکہ محض ایک انسان تھا اسی لیے وہ اپنی رائے دیے بغیررہ نہیں سکا ۔
’’ اسے جلدی ہوش میں لائو ‘‘ وہ بہت ہی خشک لہجے میں بول رہاتھا’’ میں تھوڑی دیر بعد دو بارہ آتا ہوں ‘‘ وہ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا تھا ۔
پھر تو اچھا ہے یہ کبھی ہوش میں نہ آئے ‘‘ اس نے نکلتے نکلتے ڈاکٹر کی بڑ بڑاہٹ صاف سنی تھی ۔
…٭…

شام تک وہ خودکو بہت بہتر محسوس کر رہی تھی ۔ دوا نے اپنا کام دکھایا تھا مگر اس مایوسی کا کیا کرتی جو لمحہ لمحہ اس کے دل پر وار کر رہی تھی ۔ وہ بار باریہی سوچ رہی تھی آخر وہ یہاں کیوںتھی۔وہ ایک اچھی زندگی گزار رہی تھی پھر اس نے اپنے لیے پر خار راستوں کا انتخاب کرلیا اور یہی راستے اسے آخر کار اس سیل تک لے آئے تھے جہاں اس کا کوئی مدد گار نہیں تھا کوئی ہمدرد نہیںتھا ۔ وہ تنہا تھی بالکل اکیلی۔ کیا اُسے آسان راستے کا انتخاب کرلینا چاہیے اور ان مصیبتوں سے جان چھڑا لینی چاہیے ؟ پلٹ جانا چاہیے ؟ وہ سیل کی تنہائی میں بیٹھی طرح طرح کی باتیں سوچ رہی تھی۔ زرک کے آج کے رویے کے بعد تو وہ خود کوکسی طرح کی کوئی امید نہیں دلا پا رہی تھی لیکن اس سے پہلے کہ مایوسیوں کے اندھیرے اُسے اپنے اندر گم کر لیتے بی بی پھر اس کی تسلی بن گئی تھیں ۔ ایک دن وہ محلے کی عورتوں کو درس دے رہی تھیں اسے یاد تھا وہ کہہ رہی تھیں۔
’’ اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کراللہ کی بندگی کرتا ہے ،اگر فائدہ ہؤا تو مطمئن ہو گیا اور جوکوئی مصیبت آئی تو الٹا پھر گیا۔ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ، یہ ہے صریح خسارہ‘‘۔
درس میں اس دن بی بی نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا مگر سورہ الحج کی یہ آیت اُس کے دماغ اور دل میں جیسے اتر گئی تھی اور آج یہاں سیل میں بیٹھے ہوئے جب وہ اپنے اندر کی مایوسی اور تاریکی سے لڑ رہی تھی ، اسے لگا یہ آیت اُس نے پہلی مرتبہ سنی ہے ۔ کیا وہ ان لوگوں میں شامل ہو سکتی ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں ؟کیا وہ اتنا طویل سفر کرنے کے بعد کسی خسارے کی متحمل ہو سکتی ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں !اس نے خسارے کو چھوڑ کر نفع کا سودا بہت پہلے کرلیا تھا اوراب اس کاجینا مرنا اسی کے ساتھ تھا ۔
امید ایک نقطے کی صورت اُس کے دل کے کسی کونے میں نمو دار ہوئی تھی اور اب آہستہ آہستہ اس کے اندر بڑھتی جا رہی تھی پھیلتی جارہی تھی ۔ اسے اب گمان نہیں بلکہ یقین تھا کہ وہ بی بی کے گھر یونہی اتفاقیہ نہیں جا پہنچی تھی ، اسے وہاں بھیجا گیا تھا اس آزمائش کی تیاری کے لیے اگر وہ وہاں جانے سے پہلے اس سیل میں آ پہنچتی تو نجانے کب سے مایوسی اور گمراہی کے کسی گڑھے میں گر گئی ہوتی ، صریح خسارے کا سودا کر چکی ہوتی ۔ مگر اللہ ہر دفعہ اسے گرنے سے بچا لیتا تھا ۔
وہ پوری طرح سے ہوش میں آچکی تھی اور پھر سے خود کو توانا محسوس کر رہی تھی۔ ان دنوں کے دوران اس نے زرک کے متعلق جو باتیں سوچیں اور محسوس کی تھیں وہ ایک خواب لگ رہی تھیں ، حماقت لگ رہی تھیں ۔ آخر وہ کیسے اتنی کمزور پڑ گئی تھی ! اس نے یہ سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ وہ زخم دینے والا مرہم بن سکتا ہے ، اس کے دکھوںکا مداوا کر سکتا ہے ، اُس کا چارہ گرہو سکتا ہے ۔ اسے شرم آرہی تھی اس بات پر کہ وہ اس کو نیم بے ہوشی میں پکارتی رہی تھی کیوں وہ خود پر اختیار کھو بیٹھی تھی ۔ کیوں اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ دل میں اُس کا خیال آیا اور وہ اس خیال کی نفی نہ کر سکی یہاں تک کہ یہ خیال اس کے پورے وجود پر حاوی ہو گیا ۔ مگر صد شکر اب وہ پھر سے خود کو طاقتور محسوس کر رہی تھی ۔ اب اگر وہ ساری زندگی بھی نہ آئے وہ پروا نہیں کرے گی اس نے طے کرلیا تھا۔
…٭…
وہ اپنے بیڈ پر لیٹا مسلسل کر وٹیں بدل رہا تھا ۔ آج کا دن بہت مصروف گزرا تھا ۔ وہ بہت تھکا ہؤا تھا سو نا چاہتا تھا مگر نیند نہیں آ رہی تھی۔ اے سی کی ٹھنڈک بھی اسے سکون پہنچانے سے قاصر تھی ۔ بار بار اس کا دھیان سیل نمبر دو کی طرف جاتا تھا جہاں حبس تھا گرمی تھی اور اس حبس اور گرمی میں وہ وہاں تھی ، بیمار لاچار کمزور … وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا اسے کیا سمجھے ۔ وہ اسی یقین بے یقینی ، انکار اور اقرار کے بیچ اُلجھ کر رہ گیا ۔ اُس کے دماغ کا فیصلہ کچھ اور تھا دل کا کچھ اور ۔ اُسے خود پربھی غصہ تھا پون پر بھی اور اپنے اَفسروں پر بھی جنھوں نے یہ کیس اس کے حوالے کیا تھا اور پھر وہ مصیبت میں پھنستا چلا گیا ۔ ابتدا میں جب اسے پتہ چلا کہ وہ اس کی کلاس فیلو ہے تو اُس نے اس کے ساتھ ایک تعلق محسوس کیااگرچہ اس تعلق کو اس نے زیادہ اہمیت نہیںدی تھی ۔ مگرپھر نجانے کب اُسے اس سے ہمدردی محسوس ہونے لگی اور پھر یہ ہمدردی ایک ایسے جذبے میں تبدیل ہوتی چلی گئی جس کا اقرار وہ خود سے بھی کرتے ہوئے ڈرتا تھا ۔اس جذبے کے سامنے وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا اور یہی چیز اسے اپنی کمزوری اپنی

ناکامی کا احساس دلاتی تھی ،اسے جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرتی تھی ۔ اسے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ بعض جذبے کس طرح انسان کی ساری زندگی کو پلٹ کررکھ دیتے ہیں ،اسے بے اختیار کر دیتے ہیں ۔ وہ اس کیفیت سے نکلنا چاہتا تھا ، اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتا تھا ۔ کچھ تو تھا جو اُسے معلوم نہیں تھا ، کچھ تو ایسا تھا جو مسلسل اس کی نگاہوں سے روجھل تھا ۔ اُسے اس زنجیر کا وہی گمشدہ سرا تلاش کرنا تھا ۔ پون نے تو تمام تر ذہنی دبائواور اذیت کے باوجود اسے کچھ نہیں بتایاتھا شاید اسے اس پراعتبارنہیں تھا کہ وہ جوکچھ کہے گی وہ اس کا یقین کرے گا ۔ مگر اسے حقیقت تک پہنچنا تھا یہ پون سے زیادہ خود اس کے لیے بہت ضروری ہو گیا تھا ۔
کچھ سوال تھے جو پہلے دن سے اس کے ذہن میں موجود تھے ۔ آخر کسی نے اُسے تلاش کیوں نہیں کیا تھا ؟ اس کے ماںباپ بہن بھائی کوئی بھی تو نہیں آیا تھا اُس کے پیچھے اور پھر وہ اظفر … وہ بھی تو تھا، اس نے بھی پتہ نہیں کیا تھا ۔ آخرکیا وجہ تھی ؟ سب اس سے اس قدر لا تعلق کیوں تھے؟
…٭…
صبح سویرے ہی وہ سفر پر نکل آیا تھا ۔ اس کی پہلی منزل پون کا گھر تھی جس کا پتہ اس نے اس کے ڈاکو منٹس سے لیا تھا ۔ وہ سب سے پہلے اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنا چاہتا تھا ۔
دوپہر کے قریب وہ اس کے گھر پہنچا تھا اور اس کے ماں باپ سے ملا تھا اس نے انہیںبتایا تھا وہ پون کا کلاس فیلو ہے اور چونکہ وہ ان کی بیٹی کی قابلیت سے واقف ہے اس لیے اس کے لیے نوکری کی پیش کش لایا ہے ۔ مگر اس کے ماں باپ اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے ۔ انھوں نے صاف کہہ دیا تھا وہ ان کے لیے مر گئی ہے اور وہ اُس کے متعلق کچھ سننا اور کہنا نہیں چاہتے ۔
وہ وہاں سے اُٹھ آیا تھا ۔ اُن سے اُسے کچھ زیادہ معلومات نہیں ملی تھیں لیکن جب اس نے پون کے محلے سے اس کے متعلق معلومات کروائی تھیں تو ایک عجیب انکشاف ہؤا تھا ۔ پتہ چلا وہ اپنی شادی کے دن گھرچھوڑ کرچلی گئی تھی ۔ اُس کے باپ بھائی اسے بہت دنوں تک ڈھونڈتے رہے تھے مگر اُس کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ اُس کے بھائی کے سر پر خون سوار تھا، وہ اُسے مارنے کے لیے ڈھونڈ رہا تھا ۔ تب اُس کے ماںباپ نے اپنا سب کچھ بیچ کر اسے بہنوں کے ساتھ بیرون ملک روانہ کر دیا تھا ۔ بیٹی تو وہ کھو ہی چکے تھے اب بیٹے کو پھانسی کے پھندے پر نہیںدیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ خود بھی یہاں سے جا رہے تھے بس مکان بکنے کا انتظار تھا انہیں۔
وہ ضروراظفر کے لیے گھر چھوڑ کر گئی ہوگی! وہ فوراً ہی نتیجے پر پہنچ گیا تھا ۔ لیکن اگر وہ اظفر کے لیے گھر چھوڑ کر گئی تھی تو پھر وہ اس کے ساتھ کیوں نہیں تھا ، وہ وہاں اکیلی اس گائوں میں کیا کر رہی تھی ؟ اور پھر گرفتارکیسے ہوئی تھی؟
وہ مزید الجھ گیا تھا ۔ اُسے یہ بات بھی بہت تکلیف دے رہی تھی کہ اُس نے اظفر کے لیے ایسا انتہائی قدم اٹھا لیا تھا ۔ مطلب وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی ۔ اب اظفر سے ملنا بہت ضروری ہوگیا تھا ۔ پون نے اس کی خاطر گھر چھوڑ ا تھا اسکے بعد کیا ہؤا یہ وہی بتا سکتا ہے ۔
…٭…
کچہری لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ بوڑھے جوان ، عورتیں کچھ بچوں کے ساتھ کچھ بغیر بچوں کے ۔ ہاتھوں میں درخواستیں اورچہروں پر ظلم اورجبر کی داستانیں جنہیں پڑھنے والا کوئی نہ تھا ۔ اسی کچہری میں اے سی صاحب کا دفتر تھا ۔ ایک بج چکا تھا مگر وہ حسب معمول ابھی دفتر تشریف نہیں لائے تھے ۔ مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنا کوئی بچوں کا کھیل تھوڑی تھا۔وہ کئی برسوں سے اس کی تھکن اتار رہے تھے ۔ لہٰذا وقت پر دفتر آنا اور وہاںبیٹھ کرکوئی ’کام‘ بھی کرنا یہ اُن کا مسئلہ نہ تھا۔
اے سی صاحب کے اسسٹنٹ نے کمرے میں کب سے اے سی چلایا ہؤا تھا ۔ ائیر فریشنز کا چھڑکائو بھی ہوچکا تھا ۔ اُن کی ضرورت کی تمام چیزیں تیار تھیں ، نجانے کب ان کا ورود ہو جائے ، اُسے ہرچیز کا خیال رکھنا تھا۔
’’بھائی کچھ بتائو یہ تمہارے افسر کب آئیں گے ؟‘‘
ایک بوڑھا شخص درخواست اٹھائے پوچھ رہا تھا ۔ اے سی صاحب کا اسسٹنٹ صبح آٹھ بجے سے اور لوگوں کے ساتھ یہاں موجود

تھا، اور سب نے مل کر اُس کا دماغ کھا لیا تھا ۔ وہ شدید جھنجھلاہٹ کا بھی شکار ہوجاتا اورکبھی سرے سے کوئی جواب ہی نہ دیتا۔ ان احمقوں کو اب کون سمجھاتا یہ بڑی بڑی عمارتیں جن کے ماتھے پر موٹے موٹے نہ سمجھ میں آنے والے غیر ملکی زبان کے لفظ زبردستی چپکائے گئے تھے ، یہ محض عمارتیں تھیں اور نام کے ادارے تھے ، صرف بھولی اور بے وقوف عوام کی تسلی کے لیے بنائے گئے تھے ، مسائل کی سمجھ اور ان کاحل ان کا کام ہی نہیںتھا ۔ عدالتیں کچہریاں اے سی کا دفتر ، ڈی سی کا دفتر ، تھانہ ، یہ سب دھوکہ اور فریب تھے ۔ پولیس کا کام عوام کی حفاظت ہر گز نہیںتھا ۔ یہ تو حکمرانوں کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے تھی ۔ اسی بات کی اُن کی تنخواہ ملتی تھی۔
’’ بھئی کچھ تو بتائوتمہارا افسر کب آئے گا ؟‘‘ ایک عورت نے بھی آگے بڑھ کر وہی سوال پوچھا تھا۔
’’ اے سی صاحب کی آج طبیعت خراب ہے آجائیں گے کسی وقت ‘‘ اس نے ہمیشہ کا رٹا رٹایا جملہ دہرایا ۔
اب وہ کیسے بتاتا اُن کی طبیعت خراب نہیں تھی انہیں باہرنکلتے گرمی لگتی تھی ۔ ایک اے سی سے دوسرے اے سی تک کا سفر ان کے لیے سوہانِ روح تھا اور پھر درخواستیں اٹھائے یہ مخلوق جو یہاں کھڑی تھی ، ان کی اتنی اوقات نہیں تھی کہ وہ ان کے لیے یہ مصیبت اٹھاتے ۔ اب وہ چپڑاسی سے بات کر رہا تھا ۔
’’ سنو کھانے پینے کی تمام چیزیں تیار رکھنا صاحب ایک گھنٹے تک پہنچ جائیں گے ‘‘۔
اُن کے گھر کے ملازم سے یہی اطلاع ملی تھی کہ صاحب اُٹھ چکے ہیں، نہا دھو کر اور ناشتہ کر کے نکلنے والے ہیں ۔ اے سی صاحب کی بھوک بہت زیادہ بھی تھی اور بے قابو بھی کھانے کی ترسیل میںذرا بھی تعطل آتا تووہ چراغ پا ہو جاتے۔اور آج تو غالباً اُن کی تحصیلدار کے ساتھ کوئی پارٹی بھی ہونا تھی اس لیے اس نے چپڑاسی کو پہلے سے سب کچھ تیار رکھنے کا کہہ دیا تھا ، مبادا دیر ہو جائے اور اس کی نوکری خطرے میں پڑ جائے ۔ رہ گئے درخواستیں اٹھائے یہ بے وقوف تو انہیں بھگانے کا طریقہ اسے اچھی طرح آتا تھا ۔
’’ لائو بھئی اپنی درخواست دکھائو ‘‘ اس نے سامنے کھڑے بوڑھے سے کہا ’’ کیا مسئلہ ہے تمہارا ؟‘‘
’’ جی میری زمین پر بد معاش بھتیجے نے قبضہ کرلیا ہے اور میرے گھر پر بھی ‘‘۔
’’ اچھا بابا جی ایسا کرو ‘‘ وہ ہاتھ سے لکھی درخواست دیکھ کر بولا تھا ’’اسے باہر لے جائواور ٹائپ کروا لائو ۔ ہاتھ سے لکھی درخواست کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔
’’ اچھا ایسا ہے ؟‘‘ بوڑھے کے لہجے میں مایوسی تھی ’’ کتنے کوئی پیسے لگ جائیں گے ؟‘‘ اسے نیا خیال آیا ۔
’’ یہ تو ٹائپ کرنے والا ہی بتائے گا ‘‘ اُس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہہ کر درخواست اٹھائے عورت کوپاس بلا لیا تھا۔
’’ ہاں جی مسئلہ بتائو ‘‘۔
’’ جی میرا باپ مر گیا ہے ۔ بیوہ ہوں بھائی میراحصہ نہیں دے رہے ‘‘ وہ لجاجت سے کہہ رہی تھی ۔
’’ یہ مسئلہ ہم نہیں حل کر سکتے ‘‘ وہ قطعیت سے بولا ۔
’’جی جی میں نے تو سنا تھا اے سی صاحب بڑے اختیار والے ہیں زبانی بھی یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں ‘‘۔
’’ نہیں نہیںکسی نے غلط بتایا آپ کو۔ آپ تحصیلدار صاحب کے پاس جائیں وہی آپ کامسئلہ حل کر سکتے ہیں ۔ ان کے پاس کیس کریں ، وکیل کے ذریعے ‘‘۔
’’ مگر میرے پاس تو وکیلوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ‘‘ عورت بڑی مایوسی سے کہہ رہی تھی ۔
’’ پھر بھی آپ کو جانا تحصیلدار کے پاس ہی ہوگا ۔ تقسیم کا مقدمہ کریں ۔ ہاں بھئی اگلا کون ہے ؟‘‘
عورت درخواست لیے پیچھے ہٹ گئی تھی ۔ اب عورت کا رخ تحصیلدار کے دفتر کی طرف تھا اور وہ جانتا تھا کہ تحصیلدار بھی اپنے نام کا ایک ہی ہے، مجال ہے جودرخواست پڑھنے کی بھی تکلیف کرے ۔ وہ

یقینایہی کہے گا بی بی ، ڈی ایس پی تک چلی جائو ، اور ڈی ایس پی کے کارندے تھانے جانے کا مشورہ دیں گے ۔ ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری جگہ فٹ بال کی طرح پھینکے جانے کے بعد یہ عورت ، یہ بوڑھا، یہ مجبور وہ مظلوم ، سب اپنے اپنے حق پر صبر کر کے بیٹھ جائیں گے ۔ مگر ظالموں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے نظام کے خلاف غصہ بڑھتا جائے گا اور ایک دن یہ چھوٹے بڑے مسئلے جو ایک صدی سے حل نہیں ہو پائے خانہ جنگی میں تبدیل ہو جائیں گے ۔
…٭…
دن کے دو بج چکے تھے اور اے سی صاحب بھی تشریف لا چکے تھے ۔ اُن کا اسسٹنٹ اکثریت کودوسرے دفتروں کاراستہ دکھا چکا تھا جو چند ایک ڈھیٹ باقی رہ گئے تھے اُن میں زرک بھی شامل تھا جو بڑی دیر سے اس کی پھرتیاںدیکھ رہا تھا ۔
’’ آپ نے بھی صاحب کے سامنے پیش ہونا ہے ؟‘‘اُس نے زرک سے وہی تضحیک آمیزجملہ بولا جو باقی لوگوں سے کہہ رہا تھا ۔
’’ پیش تو میںاللہ کے سامنے ہی ہوںگا قیامت کے دن‘‘ زرک اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہاتھا’’رہ گئے تمہارے اے سی صاحب تو یہ تو عوام کے خدمت گار ہیں ان کے سامنے کا ہے کو پیش ہونا ۔ ویسے بھی انگریزیہاں سے جا چکاہے اب وہ اپنے گماشتوں کی پشت پناہی نہیں کرسکتا ۔ لہٰذا تم بھی انہیں ظلِ الٰہی مت بنائوعوام کے لیے ‘‘وہ آنکھوں میں غصہ لیے اے سی کے دفتر کا دروازہ کھول کر اندر آگیا تھا ۔ اسسٹنٹ اس کے پیچھے دوڑا آیا تھا ۔
’’ صاحب یہ بغیر بتائے اندر آگئے ‘‘ وہ وضاحت کر رہا تھامگر اظفر نے اُسے دیکھ لیا تھا اور پہلی نظرمیں ہی پہچان بھی گیا تھا ۔
’’ ٹھیک ہے تم جائو ‘‘ اس نے اسسٹنٹ کو باہر بھیج دیا ’’ زرک تم ؟ یہاں کیسے ؟‘‘ وہ اسے دیکھ کرخوش تو نہیں تھامگرحیران ضرور تھا ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جو وہ تحصیلدار کے ساتھ بے تکلفی سے خوش گپیاں لگا رہا تھا اب اس کے لہجے میںخاص قسم کی رعونت آگئی تھی گردن کا سریا اور سخت اورلمبا ہوگیا تھا۔اس کا لہجہ کرسی کے غرور اورنشے سے بھرپور تھا ۔
اُس کے متعلق ابتدائی معلومات زرک نے پہلے ہی لے لی تھیں۔ وہ سی ایس پی افسر تھا ، ملک کے جس علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اُسے دونوںہاتھوں سے لوٹ رہا تھا ۔ ابھی پچھلے دنوں اس نے اپنے ادارے کے لیے سکینڈ ہینڈ گاڑیاں خریدی تھیں لیکن کاغذوںمیںانہیں نیا ظاہرکر کے ایک بڑی رقم حکومت سے وصول کی تھی اور کمیشن الگ کمایا تھا اس طرح اس نے دس سے پندرہ کروڑ بنا لیے تھے ۔ اس کادوسرا دھندہ غیر قانونی بھرتیاںکرنے کا تھا ۔ وہ ہر بھرتی پر ماہانہ وصول کرتا تھا۔ مثلاً اپنے دفتر کے غیر موجود لان کے لیے کئی مالی بھرتی کر رکھے تھے ۔
اگرچہ اظفر اس سے بڑے محتاط انداز میں ملا تھا مگر پھر بھی زرک جانتا تھا کہ وہ اسے اپنا ٹھاٹ باٹ دکھا کر دل ہی دل میں خوش ہے ۔
’’ لو یہ کیک کھائو‘‘ اُس نے پلیٹ زرک کے سامنے رکھی تھی ۔
’’ نہیں شکریہ مجھے بھوک نہیں‘‘اُس نے نرمی سے انکار کیا ۔ اُسے واقعی بھوک نہیںتھی اور ہوتی تو بھی وہ حرام منہ کو نہیں لگا سکتا تھا ۔
’’ تم کیا کر رہے ہو آجکل؟‘‘ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اظفر نے پوچھا تھا۔
’’ کچھ خاص نہیںمیرے بابا کا ایک چھوٹا سا کاروبار تھا وہی دیکھ رہاہوں ‘‘۔
اظفر یہ سن کر بہت خوش ہؤا تھا مگر ظاہر نہیں کیا تھا ۔ یونیورسٹی میں جس کے ساتھ اس کا سب سے زیادہ مقابلہ تھا وہ اب صرف ایک چھوٹے سے کاروبار تک محدود تھا۔جبکہ وہ کہاں سے کہاںپہنچ گیا تھا ۔ زرک جانتاتھا وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ خودایک آفیسر کے روپ میں اس کے سامنے تھااورزرک جو کچھ سال پہلے اُس سے زیادہ قابل تھا اب محض ایک چھوٹا سا کاروباری آدمی تھا ۔
’’پون کیسی ہے ؟ اُس نے اچانک پوچھا تھا ۔
’’ پون ؟ مجھے کیا پتا وہ کیسی ہے ‘‘ اُس کے نام پروہ بری طرح سے چونکا تھا’’ تم نے کیوںپوچھا؟‘‘ وہ الجھا ہؤالگ رہا تھا ۔
’’ بھئی تم دونوںشادی کرنے والے تھے ناںاس لیے پوچھا۔ میرا توخیال تھا وہ تمہاری بیوی ہوگی ‘‘ زرک بغور اُس کے چہرے کا جائزہ

لیتے ہوئے بول رہا تھا۔
’’ نہیں نہیںتمہیںغلط فہمی ہوئی ہے ہمارا ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا اورمجھے نہیںمعلوم وہ اب کہاں ہے ‘‘ وہ ایسے ظاہرکر رہا تھا جیسے اس کی پون سے معمولی جان پہچان بھی نہ ہو ۔
زرک وہاں سے بھی اٹھ آیا تھا۔ اگر پون نے اپنا گھر اس کے لیے بھی نہیںچھوڑا تو پھر کس کے لیے چھوڑا تھا وہ سیڑھیاںاترتے یہی سوچ رہا تھا ۔ اتنی بات تو اسے سمجھ آ گئی تھی کہ ان کا تعلق بہت پہلے ختم ہوگیا تھا اور اب وہ دونوںہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہا تھا ۔ زرک نے سر اٹھا کر اس کے دفتر کی طرف دیکھا ۔ اُس کا انجام بہت قریب تھا۔
اس کی فہرست میںاگلا نام عائشہ ، پون کی سہیلی کا تھا ۔ وہ اس کے متعلق کبھی نہ جان پاتا مگر اس نے پون کی امی سے اس کا نام سنا تھا ۔ وہ روتے ہوئے اسے پون اوراپنے خاندان کی بربادی کاذمہ دار ٹھہرا رہی تھیں ۔ اُس نے ایسا کیا کیا تھاکہ پون کی امی اسے کوسنے اور بد دعائیں دے رہی تھیں۔ وہ جاننا چاہتا تھا مگر شام گہری ہو چکی تھی ۔ اُس نے عائشہ کے گھر صبح جانے کا پروگرام بنایا تھا ۔ اُس کی بے چینی کسی حد تک کم ہوچکی تھی۔ اُسے تسلی تھی کہ اب اظفر پون کی زندگی میں کہیں نہیں تھا۔
صبح ہوتے ہی وہ عائشہ کے گھر جا پہنچا تھا ۔ توقع کے عین مطابق وہ کسی اجنبی کو پون کے متعلق معلومات دینے کو تیار نہیںتھی۔ تب اس کا اپنا مخصوص کارڈ کام آیا تھا ۔ زرک کو اُسے اصل صورتحال سے آگاہ کرنا پڑا تھا۔ اُس نے اسے بتایا تھا کہ پون کے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں اور اگراس کے متعلق درست معلومات نہ ملیں تو وہ کسی بڑی مشکل میںپھنس سکتی ہے ۔
تب عائشہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ زرک کے لیے ہوشربا تھا۔تصویر کا بالکل ہی دوسرارخ… یہ سب تو اُس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ وہ پہلے کیوںنہ جان پایا تھا۔
عائشہ کے بعد وہ بی بی سے بھی ملا جن کے ساتھ پون گرفتاری سے پہلے رہ رہی تھی ۔ انہوں نے بھی عائشہ کی بات کی تصدیق کی تھی اگرچہ مختلف الفاظ میں ۔ وہ پون کے سکول بھی گیا تھا اس کی کلاس کے بچوں سے بھی ملا تھا اورٹیچرز سے بھی اُسے پتہ چلا تھا کہ وہ کتنی محبت کرتی تھی، ان کا کس قدر خیال رکھتی تھی ۔ ٹیچرز نے بھی اس کی تعریف ہی کی تھی۔ اُس نے سکول سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا پون کے لگائے پھول بوٹے خوب پھل پھول رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا معصوم بچوں سے پیار کرنے والی اور پھول اُگانے والی وطن فروش کیسے ہو سکتی ہے ۔
اس کی کچھ الجھنیں سلجھ گئی تھیں تو کچھ مزید بڑھ گئی تھیں کچھ سوالوں کے جواب اُسے مل گئے تھے مگر کچھ نئے سوال بھی پیدا ہو گئے تھے۔ دل کہتا تھا اس نے جو کچھ سناہے اُس پر آنکھ بند کر کے یقین کر لے مگر دماغ کہتا تھا کسی فیصلے تک پہنچنے کے لیے یہ سب کافی نہیں ۔ ابھی بہت کچھ ایسا تھا جو اس کی نظروں سے اوجھل تھا ، جو صرف پون جانتی تھی۔ زرک کے ذہن میں ایک ادھوری تصویر بنی تھی اوراسے صرف پون ہی مکمل کر سکتی تھی۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x