ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قسط14 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

خلاصہ:نین تارا غیر ملکی مذموم مقاصد کو پورا کرتی ایک این جی او چلا رہی ہے۔وہ پون کو نوکری کی پیشکش کرتی ہےجو کہ صالحہ آنٹی کے مطابق ایک خطرناک پیش کش ہے۔مگر نین تارا خود ہی لا پتہ ہو جاتی ہے۔پون کو ہاسٹل میں ایک لڑکی نظر آتی ہے جو اسی کے محلےکی رہنے والی تھی۔وہ اس سے ڈر کرگائوں کے سکول میں استانی کی نوکری کے لیے درخواست دے دیتی ہے۔حمیرا اس کی سہیلی ہاسٹل چھوڑ کر جا رہی ہے۔خود پون کا اگلا ٹھکانہ کیا ہو گا وہ نہیں جانتی۔

 

وہ بہت دیر پہلے خاموش ہو چکی تھی اور اب گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھی تھی ۔ ماضی کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہؤا تھا ۔ وہ ذہنی طور پر بُری طرح سے تھک گئی تھی مگر اتنا ضرورہؤا تھا کہ اس نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا تھا جو وہ آج تک کسی سے نہیں کہہ پائی تھی۔ وہ سارے دکھ وہ ساری تکلیفیں وہ ساری یادیں جواس کے اندربیماری بنتی جا رہی تھیں ، آج اس نے نکال کراس شخص کے سامنے رکھ دی تھیں جوبیک وقت اجنبی بھی تھا اور اپنا بھی…جو بے نیاز تھا ، لا تعلق اور خود پسند تھا … پھر بھی اس کا دل اس کے ساتھ تھا ۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس نے اس کی کہانی کو سچ مانا تھا یا جھوٹ، اس پر اعتبار کیا تھا یا نہیں … اس کے چہرے پر کیا تاثرات تھے وہ یہ بھی نہیں مان پائی تھی۔
اُس کے پاس سے وہ کب کاجا چکا تھا اوروہ اسی طرح بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ اب مزید کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔ اب جوبھی ہوتا ہے ہو جائے، اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاتھا۔
٭
زرک نے پون کیس کی فائل رپورٹ تیار کرلی تھی جس کے ساتھ تمام ضروری ثبوت بھی تھے جن کی روشنی میں وہ بے گناہ ثابت ہو رہی تھی ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انیل جس نے اس کے خلاف رپورٹ درج کروائی تھی اس نے بھی حراستی مرکز میں اس بات کا اعتراف کر لیا تھا کہ اس نے ذاتی دشمنی کے نتیجے میں اس کے خلاف شکایت کی تھی جسے ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا ۔
اور اب وہ رپورٹ لیے اپنے سینئر آفیسر عامر صاحب کے پاس موجود تھا۔
’’ تم نے کافی دل لگا کر رپورٹ تیار کی ہے ‘‘۔
وہ فائل دیکھتے ہوئے بولے تھے اور اسے کیوں لگا تھا کہ انہوں نے دل پرخاص طور پر زور دیا تھا … نہیں یہ اس کا وہم تھا ۔ بھلا اس کے دل کی خبر کسی کو بھی کیسے ہو سکتی ہے! وہ اس کے کام کی پہلے بھی تعریف کرتے رہتے تھے اور ان کی یہ بات بھی اس کی تعریف کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔
’’ تو پھر تم نے اپنی کلاس فیلوکو رہا کرانے کا سامان کر ہی لیا ‘‘ وہ فائل ایک طرف رکھتے ہوئے بولے تھے ۔
’’ جی …؟‘‘ وہ بھونچکارہ گیا ۔ اُسے معلوم تھا یہ راز جلد یا بدیر ضرورکھلے گا مگریوں اچانک …اُسے اندازہ نہیں تھا ۔ اس کا خیال تھا کسی مناسب موقع پر سر سری انداز میں اس بات ذکر کردے گا مگر یہاں تو یوں لگتا تھا کہ سارے جہان کوپہلے سے اس بات کی خبر تھی۔
’’ اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو ‘‘ انہوں نے مسکرا کر اس کی آنکھوں میںجھانکا ’’ تمہارا کیا خیال تھا تم نہیں بتائو گے تو ہمیں کبھی خبر نہیں ہو گی ؟‘‘
’’ نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا تھا ‘‘ اس نے فوراً تردیدکی ’’اوراس میں کوئی چھپانے والی بات تھی بھی نہیں ۔ بس میں یکسوئی سے پہلے اپنا کام کرنا چاہتا تھا پھر ہر بات سے آپ کو مطلع کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن آپ کو یہ بات کیسے پتہ چلی ؟‘‘ وہ متجسس تھا ۔
’’ بھئی ڈھونڈ نا، تلاش کرنا تمہاری نوکری ہے تو ہمارا بھی تویہی دھندا ہے بلکہ ہم تو تم سے زیادہ پرانے ہیں اس کام میں … ہم نے اس کا تمام تعلیمی ریکارڈ متعلقہ جگہوں سے منگوا لیا تھا ۔ وہ تمہاری کلاس فیلو رہی ہے یہ پتہ چلانا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ یونیورسٹی ایک ، ڈیپارٹمنٹ ایک ، سال ایک … کوئی بچہ بھی اس حقیقت تک پہنچ سکتا تھا ‘‘۔
وہ بولتے ہوئے مسلسل مسکرا رہے تھے جیسے اس کی حالت کا لطف لے رہے ہوں ۔
’’ اور پھر تمہیں تو معلوم ہوگا کہ یونیورسٹی میں تمہارے ڈیپارٹمنٹ کے آفس میں کئی بیچزکی فریم شدہ تصویریں لگی ہیں جس میں سے ایک تمہاری اور تمہارے کلاس فیلوز کی بھی ہے … اور جہاں آپ جناب تشریف رکھتے ہیں اس کے عین پیچھے محترمہ کھڑی ہیں ۔ ہمارا ایک بندہ جاکے چپکے سے اس فریم شدہ تصویر کی تصویر بنا لایا تھا ۔ یہ دیکھو !‘‘
انہوں نے ثبوت کے طور پر ایک بڑا سا گروپ فوٹواس کے سامنے رکھا ۔ شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔یہ اسی کی تصویر تھی جوکہ لائبریری کے سامنے لی گئی تھی ۔ پہلی رو میں کرسیوں پر ٹیچرز کے ساتھ وہ بھی بیٹھا ہؤا تھا اوراس کے عین پیچھے لڑکیوں کی رو میں پون کھڑ ی تھی ۔ یونیورسٹی کی ڈگری پالینے کی خوشی سے سر شار ! اس وقت اسے اس بات کی بالکل خبر نہیں تھی کہ اس کے پیچھے کون کھڑا ہے اور اگر ہوتی بھی تو اسے پروا کب تھی ۔ مگر آج یہ گروپ فوٹو اس کے اعمال نامے کی طرح اس کے سامنے موجود تھا ۔ وہ اس اتنی بڑی حقیقت کوچھپانے کا کوئی بھی جواز دے، کیا اس پر اعتبار کیا جائے گا ؟
’’ تو کیا آپ نے میری آزمائش کرنے کے لیے مجھے پون کے پاس بھیجا تھا ؟‘‘ وہ کافی دیر بعد بولا تھا ۔
’’ ہر گز نہیں ۔ تم بہت پہلے آزمائے جا چکے ہو ، اب مزید آزمائش کی ضرورت نہیں ‘‘ عامر صاحب جلدی سے بولے تھے ’’ تمہیں وہاں بھیجنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو ، ہو سکتا ہے وہ تمہیں زیادہ آسانی سے سب کچھ بتا دے اور ہمیں کوئی ظالمانہ طریقہ اختیار نہ کرنا پڑے ‘‘۔
’’ تو پھر یہ بات آپ نے مجھے کیوں نہیں بتائی ؟‘‘ اس کے لہجے میں شکوہ تھا ۔
’’ صرف اس لیے کہ اگر تمہیں معلوم ہو جاتا کہ ہم تمہارے اور اس کے تعلق کے بارے میں جانتے ہیں تو تم اسےانٹیروگیٹ کرنے سےصاف انکار کر دیتے جبکہ ہم ہر حال میں یہ کام تمہی سے کروانا چاہتے تھے کیونکہ ہمیں یقین تھا تم یہ کام زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہو ۔ مس پون کا ایک خاص بیک گرائونڈ تھا لہٰذا وہ مشکوک تو تھی ۔ پھر اس کے خلاف رپورٹ درج کرائی گئی تھی اورہمیں اس کی تحقیق کرنا ہی تھی ۔ پھر ہمیں معلوم ہؤا اس نے اسلام قبول کر لیا ہے ، اس بات نے اسے اور مشکوک بنا دیا ۔ ہمیں لگا وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس چیز کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ لیکن مجھے کہنا پڑے گا کہ تم نے اس سارے معاملے کی تحقیق بڑی محنت اورغیر جانبداری سے کی ہے ‘‘ وہ اسے تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
’’ ہم نے دوسرے ذرائع سے بھی معلومات حاصل کی ہیں اور وہ معلومات تمہاری اس رپورٹ سے ملتی جلتی ہیں ۔ اس حساب سے وہ بالکل بے گناہ ثابت ہوتی ہے لہٰذا اسے رہا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔ وہ کل تک رہا ہو جائے گی ‘‘ انہوں نے جیسے اسے خوشخبری سنائی تھی ۔
’’ ویسے کیا خیال ہے ‘‘ انہیں جیسے اچانک کچھ یاد آیا تھا ’’ اس لیڈی گارڈ کوپکڑ کر پون کی جگہ سیل میں نہ ڈال دیا جائے جس نے اسے ٹھوکر ماری تھی ؟ سنا ہے تم بہت ناراض ہوئے تھے ‘‘۔
اس کے سینئر کی آنکھوں میں شرارت صاف ناچ رہی تھی اوروہ جسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا ۔ اس کاچہرہ ایک دم سے بے حد سرخ ہو چکا تھا ۔وہ اٹھا اورمیز پر رکھا گروپ فوٹو اٹھائے باہرآگیا۔ اسے معلوم تھا اب تک اس تصویر کی ڈھیروں کاپیاں ہوچکی ہو ںگی ، اس لیے ایک کو گھر لے جانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ۔ چلوسنبھال رکھنےکوکچھ تو ہو گا ،اُس نے تصویر کوبڑی احتیاط سے رکھتے ہوئے سوچا تھا۔
٭
وہ اُس کے سامنے کھڑا جوتے کی نوک سے زمین کھُرچ رہا تھا ، وہی اُس کے پسندیدہ جوتے جن کا رنگ بادامی تھا ۔بڑی دیر سے وہ اُس کے سیل میں موجود تھا …بالکل خاموش ۔ وہ اُسے رہائی کی خوشخبری سنانے آیا تھا ۔ لیکن کیا یہ واقعی خوشخبری تھی وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا ۔ کیا یہ خوشخبری اُس کے اُن سارے بد صورت رویوں کی تلافی کر پائے گی جواُس نے پون کے ساتھ روا رکھے تھے … وہ سارے چبھتے ہوئے طنز یہ تکلیف سوال وہ اپنے ذہن سے کبھی نکال پائے گی جو اُس نے کئی کئی بار اُس سے پوچھے تھے … وہ سارے الزام وہ ساری تہمتیں جو وہ اُس پراچھالتا رہا تھا کبھی انھیں بھلا پائے گی …؟ اُسے اپنی کہی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی اوراُس کے احساس جرم کو بڑھا رہی تھی ۔
وہ جب سے آیا تھا وہ چہرہ گھٹنوں پہ رکھ کر بس روئے جا رہی تھی۔نجانے اتنے آنسو کہاں سے اُمڈآئے تھے ۔ اُس کے جوتوں کی مخصوص چاپ پراُس کا دل بیک وقت ڈوبا اوراُبھرا تھا ۔ کئی دنوں سے وہ عجیب دو رُخی کیفیات کا شکار تھی ۔وہ اُس کے لیے زندگی بھی تھا اورموت بھی۔ وہ اُمید بھی تھا اورمایوسی بھی۔وہ سامنے بھی تھا مگردسترس سے بہت دور بھی ۔
’’ مبارک ہوپون تمہاری رہائی کے آرڈرز آچکے ہیں ۔تمہیں کل رہا کردیا جائے گا ‘‘۔
بہت دیربعد سیل میں اُس کی آواز گونجی تھی ۔اُس نے سنا اُس کی آواز کا جادوآج بھی جوان تھا آج بھی جان لیوا تھا ۔
’’ کچھ کہو گی نہیں ؟‘‘ وہ جان نکال لینے والی اُسی آواز کے ساتھ دوبارہ بولا تھا ۔
وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اُس کی آواز آنسوئوں میں کہیں گھٹ کر رہ گئی تھی ۔ وہ اُسے بتانا چاہتی تھی کہ جس رہائی کی خوشخبری وہ لایا تھا وہ رہائی نہیں تھی بلکہ ایک اورجدائی تھی …ایسی جدائی جو اُسے ہمیشہ کے لیے محروم کردے گی … خالی کردے گی …
پھر اُس کے بعد اس کی زندگی میں نہ کوئی آہٹ ہو گی نہ کوئی آواز اورنہ ہی کوئی انتظار… ایک صحرا جیسی زندگی ہو گی جس میں یہاں وہاں کچھ یادیں بکھری ہو ں گی۔
’’ اور ہاں ! شاید تمہیں علم نہ ہوکہ تمہارے خلاف شکایت تمہارے کزن انیل نے درج کرائی تھی ۔ لیکن اب وہ ہماری حراست میں ہے ۔ ایک سکیورٹی ایجنسی کو گمراہ کرنے اور اُس کا وقت ضائع کرنے کی اُسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔اس کے علاوہ اگر تم بھی چاہو تواُس کے خلاف شکایات درج کروا سکتی ہو‘‘۔
وہ دشمن کو سزا دینے کے سارے طریقے بتا رہا تھا مگر اُس کے دل کے درد کے لیے کوئی نسخہ نہیں تھا اُس کے پاس ۔ وہ کافی دیر تک اُس کے جواب کا انتظار کر کے واپس چلا گیا تھا ۔ وہ کچھ بول نہیں پائی تھی اُسے دیکھ نہیں پائی تھی ، اُس میں ہمت ہی نہیں تھی ۔اُسے لگتا تھا وہ کچھ بولے گی یا اُس کی طرف دیکھے گی توٹوٹ جائے گی بکھر جائے گی …اُس کے دل کا راز اُس پرظاہرہو جائے گا … وہ راز جوہر چیز سے بڑھ کرقیمتی تھا ۔وہ اُسے اپنی کوئی کمزوری دکھانا نہیں چاہتی تھی ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُسے پتہ چلے کہ وہ کتنی بڑی شکست سے دو چارہوچکی ہے۔
وہ ایک بار پھرمایوس تھی اُداس تھی ناکام تھی … خالی ہاتھ خالی دل تھی ۔ ایک نئی آزمائش اُس کا راستہ روکے کھڑی تھی ۔بی بی کہتی تھیں ہر آزمائش امتحان گاہ میں ملنے والے پرچے کی طرح ہوتی ہے ۔ جو پرچہ اچھی طرح حل کرتا ہے اگلے درجے پہنچا دیا جاتا ہے ۔ اب معلوم نہیں اللہ نے اُس کے لیے کوئی بہت اونچا درجہ طے کررکھا تھا جو اُس کی آزمائشیں ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں یا پھر وہی نالائق تھی ، اپنے پرچے ٹھیک طرح سے حل ہی نہیں کر پا رہی تھی ۔ تبھی توامتحان پہ امتحان دیے جا رہی تھی ۔ آزمائشیں چہرے بدل بدل کر اُس کے سامنے آ رہی تھیں اور اس کی نئی آزمائش کا نام تھا زرک صلاح الدین !
اُسے ابھی سے معلوم تھا وہ یہ پرچہ کبھی حل نہیں کر پائے گی اس کی یاد کوکبھی دل سے نہیں نکال پائے گی لیکن نہیں اُسے مایوس نہیں ہونا تھا اچانک اُس کے اندرامید کسی ستارے کی طرح چمکی تھی ۔ اُس نے تو سب سے بڑی مایوسی یعنی کفر کو شکست دے ڈالی تھی ، اُسے اپنے اندر سے نوچ پھینکا تھا ۔ اُس کے مقابلے میں یہ آزمائش تو بہت چھوٹی تھی وہ ان کی وجہ سے اپنا ایمان کمزورنہیں کرے گی ۔اُسے ہرمصیبت پرصبرکرنا تھا اورہر آسانی کا شکر کرنا تھا ۔ اُسے دنیا کے ہر انسان اورہرچیز پر اللہ کوترجیح دینا تھی ۔ کل بہت خاموشی اور بہادری کے ساتھ اُسے زرک کی زندگی سے نکل جانا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے !
٭
وہ صبح نو بجے سے وہاں موجود تھا جہاں پون کولایا جانا تھا ۔ وہ جلد از جلداسے رہاہوتےدیکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ خود بھی اس مشکل میں سے نکل سکے جس میں وہ پچھلے کچھ عرصے سے پھنسا ہؤا تھا ۔وہ اس کی نظروں سے دورہوجاتی تو زندگی سے بھی نکل جاتی اورپھر وہ دوبارہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتا تھا جس میں نہ بے بسی ہوتی نہ کوئی کمزوری ….ایک اُس کے چلے جانے سے اس کے تمام مسئلے حل ہوجانے تھے وہ خود کو باربار اس بات کا یقین دلا رہا تھا ۔
اُس نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا ۔ اُس کے ادارے کی مخصوص وین اُسے سڑک کنارے اتارکرجا چکی تھی وہ کافی دیرتک ایک ہی جگہ کھڑی رہی تھی ۔یقیناً خود کو آس پاس کے ماحول کا عادی بنانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ آج موسم خوشگوار تھا ، ہوا ٹھنڈی تھی ۔ شاید …. بارش ہونے والی تھی۔
کچھ دیرایک ہی جگہ کھڑے رہنے کے بعد اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیا تھا ۔وہ آزاد ہوچکی تھی ۔اب اسے پرسکون ہوجانا چاہیے تھا لیکن نجانے کیوں زرک کے دل کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔ وہ اس کی دسترس سے باہرہو رہی تھی اوریہ بات اسے تکلیف دے رہی تھی۔
یہاں سے وہ کہاں جائے گی بھلا ….وہ اندازے لگانے کی کوشش کررہا تھا ۔ شاید بی بی کے پاس جائے اور تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ ماں باپ بہن بھائی میں سے توکوئی بھی یہاں نہیں تھا اوراگرہوتے بھی تو کیا فرق پڑتا تھا ۔ اس کی آنے والی زندگی آسان نہیں ہو گی اتنا تواُسے معلوم تھا ۔ وہ سیل سے نکل کر ایک بڑے قید خانے میں قدم رکھ چکی تھی جہاں اُس کی ساری زندگی وضاحتیںدیتے اوریقین دہانیاں کراتے گزر جائے گی ۔بی بی بھی آخر کب تک اس کا سہارا بنیں گی ….
آخر میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں ؟ یہ میرا مسئلہ نہیں۔ وہ اپنی سوچوں پر جھنجھلا گیا تھا ۔وہ رہا ہوچکی ہے اورمیری ذمہ داری ختم ہوگئی ہے۔
بارش ہونے والی تھی وہ یہاں سے جلدی نکلنا چاہتا تھا ، اُسے اور بھی بہت سارے کام کرنے تھے ۔ اُس نے گاڑی سٹارٹ کی ہی تھی جب اس کے شیشے پرموٹے موٹے قطرے گرنا شروع ہو گئے ۔وہ چلے چلتے رُک گئی تھی ۔یقیناً سوچ رہی ہوگی اب کہاں جائے ۔ میں کم از کم اسے کسی ٹھکانے پر توپہنچا سکتا ہوں ناں …. وہ گاڑی موڑتے موڑتے رُک گیا تھا اورپھر کچھ ہی دیر بعد اس کے سامنے موجود تھا ۔ شاید اس بہانے وہ اُس سے معافی مانگ سکے اُس نے اپنے آپ کو تسلی دی۔وہ آس پاس سے بے نیاز تیزتیزقدموں سے چل رہی تھی ۔
’’ کہاں جانا ہے آپ کوآئیے میں چھوڑ دوں ‘‘۔
پھر وہی آواز ….یہ اُس کا وہم تھا یا واقعی وہ بول رہا تھا ۔ اُس نے سراٹھا کرساتھ چلنے والی گاڑی کو دیکھا ۔ وہی تھا …. واقعی وہی تھا جس سے دوربھاگنے کی وہ سرتوڑ کوشش کررہی تھی ، پھراُس کا راستہ روکے کھڑا تھا ۔
’’ خدا کی دنیا بہت بڑی ہے میں کہیںبھی چلی جائوں گی آپ تکلیف نہ کریں ‘‘ وہ شروع دنوں والی رُکھائی سے بولی تھی۔
’’اتفاق سے میں بھی خدا کی اُس بڑی دنیا کودریافت کرنے نکلا ہوں ….ساتھ ہی چلتے ہیں ‘‘۔
اُس نے چونک کراسے دیکھا ۔یہ وہ سیل والا جن بھوت تو نہیں لگ رہا تھا ۔
’’ بارش تیز ہو رہی ہے اور لوگ بھی دیکھ رہے ہیں ۔ آپ کوبھیگتے بھاگتے اتنے سارے لوگ دیکھیں کچھ اچھا نہیں لگے گا‘‘ وہ اُسے بارش اور لوگوں سے ڈرا رہا تھا۔
اور وہ ڈر بھی گئی تھی ۔ دور دور تک نہ کوئی سٹاپ نظر آ رہا تھا نہ ٹیکسی۔ اُس کا سفرلمبا تھا ۔ کیا وہ اکیلے کسی اجنبی کے ساتھ اتنا لمبا سفرکر پائے گی ؟ بہت سارے سوال تھے جن کا کوئی جواب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اور اوپرسے بارش ….اس نے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا تھا ۔
’’ اس طرح آسمان کودیکھنے سے بارش نہیں رکے گی ‘‘ وہ کھڑکی سے سر نکالے اس کے جواب کا منتظرتھا’’ آئیں گاڑی میں بیٹھ جائیں ‘‘ اس نے ہاتھ بڑھا کرساتھ والا دروازہ کھول دیا تھا ۔
’’ مجھے کہیں نہیں جانا تمہارے ساتھ ‘‘‘ وہ نہایت بے دردی سے اُس کی پیش کش پر پانی پھیرتی آگے بڑھ گئی تھی۔ کوئی مذاق ہےبھلا ! ابھی کچھ ہی وقت پہلے وہ سیل میں اس کی جان لینے پر تلا ہؤا تھا اور اب یوں ظاہر کررہا تھا جیسے اس سے بڑا ہمدرد کوئی نہیں ۔ کچھ بھی ہو جائے وہ اس کے ساتھ نہیں جائے گی ، وہ پکا فیصلہ کر کے درخت کے نیچے جا کھڑی ہوئی تھی ۔
درخت کافی گھنا تھا ۔ اُس پر پانی گر تو رہا تھا مگرکم ۔ سارے لوگ بارش سے بچنے کے لیے ادھر اُدھر پناہ لے چکے تھے ۔ اب سامنے کہیں کوئی نظر نہیں آ رہا تھا ۔ دنیا ویران پڑی تھی ۔ ایک وہ تھی اورتھوڑے فاصلے پرگاڑی میں بیٹھا زرک ۔ وہ کبھی کبھار درزیدہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھ لیتی تھی اورمنتظر تھی کہ وہ کب مایوس ہوکر وہاں سے جاتا ہے ۔ اس کے کان اسی کی طرف لگے ہوئے تھے ۔ وہ خوش تھی کہ اس نے اپنے بے وقوف دل کی کوئی بات نہیں سنی تھی۔اُس نے اپنے دماغ کا فیصلہ مانا تھا ۔ وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑی تھی ۔ اب وہ سیل والی مجبور اوربے بس پون نہیں تھی ۔ وہ آزاد تھی …. ہر الزام سے بری ! اسے اس ظالم اوربے حس انسان کے ساتھ کہیں نہیں جانا …. وہ بار بار یہ جملہ دل ہی دل میں دہرا رہی تھی جیسے اسے یہ خوف ہو کہ کہیں اس کا فیصلہ نہ بدل جائے ۔
اُس نے کنکھیوں سے دیکھا ، وہ ابھی بھی وہیں موجود تھا ۔مزے سے گاڑی میں بیٹھا بارش کا مزہ لے رہا ہے اور کیا …. وہ نجانے کیوں تلملا گئی تھی ۔ اسے طرح طرح کے وہم آ رہے تھے اگر بارش اسی طرح برستی رہی تو وہ گائوں کیسے پہنچے گی ۔ یہاں درخت کے نیچے تورات نہیں گزر سکتی۔ اگرکوئی گاڑی نہ ملی تو پھر کیا ہوگا ۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب اُسے لگا جسے دورکھڑی گاڑی کا دروازہ کھلا ہو۔
اُس نے چپکے سے ایک نظرڈالی اور پکڑی گئی ۔ وہ گاڑی سے ٹیک لگائے باہرکھڑا تھا ۔ اوراسی کی طرف دیکھ رہا تھا چند ہی لمحوں میں وہ پوری طرح بھیگ چکا تھا ، اسے کیا ضرور ت تھی یوں باہرنکلنے کی …. اچھا بھلا اندر بیٹھا تھا محفوظ ، اس کی بے چینی اوربڑھ گئی …. آخر وہ یہاں سے چلا کیوں نہیں جاتا …. یوں تیزبارش میں کھڑا رہ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے؟
اورپھر یہ بات تھوڑی دیر بعد ہی اس کی سمجھ میں آگئی تھی ۔وہ اسے بتاناچاہ رہا تھا وہ اسے اکیلا چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا ، چاہے بارش ہو طوفان ہو یا قیامت ۔
نہیں نہیں میں اس کا یقین نہیں کرسکتی ۔اس نے شور مچاتے دل کوچپ کرایا تھا ۔ اب پون نے اس کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ وہ جوں جوں بارش میں بھیگتا جا رہا تھا اس کے ارادوں کی فصیل کمزور پڑتی جا رہی تھی ۔ وہ آنکھیں بند کیے کئی دعائیں مانگ رہی تھی ۔
یا اللہ وہ یہاں سے چلا جائے کہیں بہت دور …. یا اللہ بارش رک جائے …. یا اللہ آج سورج دیر سے غروب ہوتاکہ میں مغرب سے پہلے بی بی کے پاس پہنچ جائوں ۔ اورپھر جیسے اس کے دل نے سرگوشی کی کہ اُس کی دعا قبول ہو گئی ہے ۔تو کیا وہ چلا گیا تھا ؟ اس نے فوراً آنکھیں کھولی تھیں ۔
نہیں ۔بارش رک چکی تھی مگر وہ وہیں موجود تھا ۔ ہوا خوب تیز چل رہی تھی ۔ ابھی تھوڑی دیرپہلے ہر شے جل تھل ہو رہی تھی مگر اب سب کچھ تیزی سے خشک ہوتا جا رہا تھا ۔ کچھ دیر پہلے کے وسوسے اوراندیشے جیسے بارش نے دھودیے تھے ۔ وہ خود کوبہت ہلکا پھلکا اورتازہ دم محسوس کر رہی تھی ۔ وہ درخت کے نیچے سے نکل کرسڑک کی طرف آگئی تھی ۔ وہ بھی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا ۔ گاڑی اس کے قریب آگئی تھی ۔
’’ میرا خیال ہےاب تمہارا غصہ ختم ہو گیا ہو گا ‘‘ وہ کہہ رہا تھا ضد مت کرو میرے ساتھ چلو۔ تم جہاں جانا چاہتی ہو میں تمہیں چھوڑ آئوں گا ۔ اتنا اعتبارتوتم کرہی سکتی ہو مجھ پر ‘‘وہ اسے کسی بھی طرح آمادہ کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کا دل یقین کرنا چاہتا تھا مگردماغ مسلسل اس کی نفی کررہا تھا ۔ وہ دل اوردماغ کی اس مستقل لڑائی سے تھک چکی تھی ۔ کوئی ایک فیصلہ کرنا چاہتی تھی تاکہ اس کشمکش سے نجات ملے ۔
مگرکیا وہ کسی اورانجان شخص کے ساتھ اتنی دور تک جا سکتی تھی ؟ تو پھر کیوں نہ اسی پر اعتبار کر لیا جائے ؟ اسے کم از کم جانتی توتھی ۔ زرک نے ایک بارپھراگلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا تھا جانتا تھا۔اس نے ہراونچ نیچ پرغورکر لیا ہےلہٰذا اب بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔ وہ چپکے سے گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔ کوئی بے بسی سی بے بسی تھی بھلا …. وہ ایک دفعہ پھر اسی کےرحم وکرم پر تھی۔ اس نے سیل والا کوئی ایک بھی رویہ اپنایا تو وہ گاڑی سے چھلانگ لگا دے گی اس نے طے کر لیا تھا ۔ بس بہت ہو گئی اس کی غنڈہ گردی !
وہ بالکل دروازے کے ساتھ لگی شیشے سے باہرایسے دیکھ رہی تھی جیسے باہرکی ہر ایک چیز حفظ کرنے کا ارادہ ہو ۔گاڑی میں مکمل خاموشی تھی یہاں تک کہ اسے اس خاموشی سے ڈر لگنے لگا تھا ۔ وہ اتنا چپ کیوں تھا ؟ اُسے کہاں لیے جا رہا تھا جبکہ اس نے اپنی منزل تواسے بتائی ہی نہیں تھی۔
اُس نے چپکے سے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے چہرے پرسنجیدگی تھی اورسن گلاسز ہمیشہ کی طرح اس کی آنکھوں کی بجائے اس کے ماتھے پر تھے ۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا ، وہ تو ویسے کا ویسا ہی تھا ۔ وہاں یونیورسٹی میں بھی پورے ڈیڑھ گھنٹے کی کلاس کے دوران اس کے گلاسز بڑے آرام سے آنکھوں کی بجائے اس کے ماتھے پردھرے رہتے تھے ۔ معلوم نہیں وہ انہیں آنکھوں پر کب لگاتا تھا ، لگاتا بھی تھا یا نہیں ۔
وہ نجانے کب سےاُسے دیکھ رہی تھی جب وہ اچانک اس کی طرف پلٹا تھا ۔ اس نے گھبرا کرچہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔
’’ پون میں جانتا ہوں تم مجھےسے شدید نفرت محسوس کر رہی ہو ‘‘ وہ اسے اچانک رخ موڑنے پرنجانے کیا سمجھا تھا ’’ اسی وجہ سے میں تمہاری زندگی سے نکل جانا چاہتا تھا ۔ دورچلا جانا چاہتا تھا …. مگرنہیں جا سکا …. چاہنے کے باوجود نہیں جا سکا ‘‘‘ اس کا لہجہ کسی گہرے دُکھ اور بے بسی کا پتا دے رہا تھا ۔
’’ میں خود کو تمہاری تمام مشکلوں اورمصیبتوں کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔اسی بات نے میرے قدم روک لیے اورمجھے دوبارہ تمہارے سامنے لا کھڑا کیا ۔ اگر آج میں تمہیں یوں سڑک کنارے بےیارو مدد گار چھوڑ کر چلا جاتا تومیرا احساسِ جرم دُگنا ہو جاتا جبکہ مجھے معلوم ہے تم سارے رشتے سارے سہارے اورسارے ٹھکانے کھو چکی ہو‘‘۔
گاڑی میں اس کی جادو اثر آواز گونج رہی تھی اور وہ جیسے ایک ایک لفظ دل میں اتار رہی تھی یہ سوچ کرکہ وہ آخر ی بار بول رہا تھا اوروہ آخری بارسن رہی تھی ۔ پھر اس کے بعد شاید یہ ماحول یہ سفر اور یہ ہم سفر اسے دوبارہ نہ مل سکے ۔
’’ جب پہلی بار میں نے تمہیں سیل میں دیکھا تھا ۔یونیورسٹی کے دو سالوں کے دوران ہم نے کبھی آپس میں بات نہیں کی تھی مگراس کے باوجود ہم کلاس فیلو تو تھے ۔ اور یہی ہمارا تعلق تھا جس سے انکار نا ممکن تھا ۔ اوراسی چیز نے ہماری مشکلات میں اضافہ کردیا ۔ میری ایمانداری اور فرض شناسی پر کوئی حرف نہ آئے اس کے لیے میں نے تم پر ہر طرح کی سختی کی ، تمہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں صرف اس لیے کہ کہیں مجھ پر یہ الزام نہ آئے کہ میں نے تمہارے ساتھ کسی طرح کی رعایت برتی ہے ۔ کیونکہ جلد یا بدیر یہ بات سامنے آ ہی جاتی کہ ہم کلاس فیلورہ چکے ہیں۔ تب میں سب کو جتنا بھی یقین دلاتا کہ یونیورسٹی کے دو سالوں کے دوران ہم نے کبھی ایک دوسرے کوسلام تک نہیں کیا کوئی یقین نہ کرتا اس بات کا …. تم رو رہی ہو ؟‘‘
اس نے بات کرتے کرتے اچانک اس کی طرف دیکھا تھا ۔ تب اسے بھی احساس ہؤا کہ آنسو نجانے کب سے اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے اور اسے معلوم ہی نہیں ہو سکا تھا ۔
’’ تم روتی ہو تو میرے ضمیرکی چبھن بڑھ جاتی ہے ۔ مت رو پلیز ….‘‘ وہ بہت سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا مگر اُسے اپنے آنسوئوں پر کوئی اختیارہی نہیں رہا تھا ۔
’’ میں نے تمہیں بہت تکلیف دی ہے جانتا ہوں ۔ میرے معافی مانگنے سے تمہاری تکلیف کم نہیں ہو گی ۔یہ بھی جانتا ہوں ۔ لیکن ایک لمحے کے لیے سوچو کہ تم میرے سامنے ایک ایسے ملزم کی حیثیت میں آئیں جس پرسنگین الزامات تھے اور ان الزامات کی حقیقت جاننے کی ذمہ داری مجھے دی گئی تھی ۔ مگر تم نے مسلسل خاموشی اختیار کیے رکھی جس سے میرے شک میں اوراضافہ ہؤا اور معاملات بگڑتے چلے گئے ۔مجھے اس بات کا بھی بہت افسوس ہے کہ جو تحقیق میں نے آخر میں کی وہ پہلے کرلی ہوتی توتم اتنی اذیت سے دو چار نہ ہوتیں ‘‘ وہ بہت افسوس بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’ پون ! تم نے اپنے سیل میں مجھے جس روپ میں دیکھا وہ میری نوکری ہے …. میرا فرض ہے جو مجھے ہرچیز سے پیارا ہے …. کیونکہ میں اس وطن کے محافظوں میں سے ہوں۔ورنہ اپنی ذاتی زندگی میں مَیں ایک بہت مختلف انسان ہوں ‘‘ وہ نجانے اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
’’ میرا تعلق ایک ایسے ادارے سے ہے جس کی ذمہ داری ہر اس شخص سے نمٹنا ہے جو ملک دشمن ہو ۔ یہ ادارہ در اصل حفاظت کرنے والی وہ آنکھیں ہیں جو ہر وقت کھلی رہتی ہیں ہمارے ہاں کبھی اتوار نہیں آتا کبھی رات نہیں ہوتی، کوئی چھٹی نہیں ملتی ہمارے لیے سارا وقت ایک جیسا ہے دن ہو یا رات …. بد ترین حالات میں ہمیں کئی کئی راتیں مسلسل کام کرنا پڑتا ہے خطروںسے کھیلنا پڑتا ہے ۔ ہمارے پاس جو بھی ملزم آتا ہے ہمیں اس کی تفتیش کرنا ہوتی ہے ۔ وہ مجرم ہے یا معصوم یہ توبعد میں پتہ چلتا ہے۔لیکن ہمیں حقیقت تک پہنچنے کے لیے کچھ ایسے طریقے اپنانے پڑتے ہیں جو ہمیں دوسروں کی نظروں میں بُرا بنا دیتے ہیں ، جیسا کہ میں تمہاری نظروں میں برا بن چکا ہوں ۔ لیکن یقین کرو تمہارے ساتھ جوبھی ہؤا مجھے بھی اُس کا بہت افسوس ہے ۔
اور جب مجھے پتا چلا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہ سب کچھ تمہارے ساتھ اسی کی پاداش میں ہو رہا ہے تو میری شرمندگی اور بھی بڑھ گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ میں خود سے بہت ناراض ہوں ۔ اپنے آپ سے بہت شکایت ہے مجھے …. لیکن میری خود سے ناراضگی یا شکایت تمہاری کسی تکلیف کا ازالہ نہیں ۔ اس لیے میرے ضمیر نے میرے لیے اور کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا سوائے اس کے کہ میں مردوں کی طرح تمہارے سامنے آکر اپنے کیے کی پوری پوری ذمہ داری تسلیم کروں اور اس کی تلافی کروں۔
وہ خاموش ہوچکا تھا ۔ گاڑی بھی رک چکی تھی ۔ پون نے آنکھوں میں آئے آنسوئوں کی دبیز تہہ کو صاف کرتے ہوئے سامنے کی طرف بڑی حیرت سے دیکھا تھا ۔ یہ بی بی کا گھر تو نہیں تھا بلکہ اسے ایک بڑا سا ادھ کھلا دروازہ نظر آ رہا تھا ۔
(جاری ہے )
٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

وہ دروازہ جو صبح و شام لوگوں کوپکارتا ہے آئومیری طرف آئو میں تمہیں باغوں نہروں اورچشموں کی سر زمین پر لے جائوں ….تمہیں کامیاب کردوں‘‘ ۔
وہ بھلا اسے یہاں کیوں لایا تھا ؟ اُس نے بہت راز داری کے ساتھ خود سے سر گوشی کی تھی ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی …. اتنی کہ اسے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا ۔ ہاتھ پائوں ٹھنڈے اوربے جان ہو رہے تھے ۔ لگتا تھا وہ اپنی ایک انگلی بھی نہیں ہلا پائے گی ۔ اب بھلا زندگی کون سا رنگ دکھاتی ہے ! وہ سامنے موجود دروازے کودیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
’’ پون !‘‘ بہت دیر بعد گاڑی میں اس کی آواز گونجی تھی ۔ اُس نے اپنا سارا رخ اس کی طرف پھیر لیا تھا ۔ اور زرک اس کے چہرے کوبہت غور سے دیکھ رہا تھا جیسے اس کے دل کا حال جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’ تمہیں اپنائیت اورتحفظ کا احساس دینے کی مجھے اتنی جلدی تھی کہ میں نے تم سے کچھ پوچھا ہی نہیں اور یہاں تک پہنچ گیا ‘‘ ۔
اُس نے کیا نہیں پوچھا تھا ؟ اور وہ کیا پوچھنے والا تھا ؟ وہ کیا کہنے والا تھا ؟ اس کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہؤا جا رہا تھا ۔
’’ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟‘‘
پون کا دل ڈوبا تھا یا اُبھرا تھا، اس کی سانس رُکی تھی یا چلی تھی اسے کچھ یا د نہیں تھا سوائے اس کے کہ قوس قزح کے سارے رنگ اس کے آس پاس بکھر چکے تھے ۔ باہر بارش پھر سے تیز ہوگئی تھی اور اندراس کے آنسوئوں کی برسات ۔باہربرستی بارش کا منظر زیادہ خوبصورت تھا یا اندر برستی آنکھوں کا ، زرک فیصلہ نہیں کر پایا تھا ۔وہ اس کے جواب کا منتظر تھا ، مگر اس کے آنسوئوں سے بھیگےچہرے پر موجود رنگوں اور لبوں میں دبی مسکراہٹ نے اسے وہ جواب دے دیا تھا جوبہت سارے الفاظ بھی نہ دے پاتے۔
ؕ٭
نکاح ہوتے ہی اس کے تو سارے انداز ہی بدل گئے تھے ۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے گاڑی کے دروازے تک لایا تھا پھر نہایت احترام کے ساتھ دروازہ کھول کر اسے اندر بٹھایا تھا ۔
’’ ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا چاہیے کچھ بہت ضروری کام نمٹانے ہیں ‘‘۔
وہ کوئی لمبا چوڑا منصوبہ بنا رہا تھا جبکہ ابھی کچھ دیر پہلے کا منظر پون کی آنکھوں کے سامنے روشن تھا جب وہ زرک کے ساتھ مسجد کی طرف جا رہی تھی ۔ اسے یاد آیا بہت سال پہلے اس کی ٹیچر نے اسے مسجد میں جانے سے روک دیا تھا مگر آج دنیا کی کوئی طاقت اسے اللہ کے گھر میں قدم رکھنے سے روک نہیں سکتی تھی ۔ کیونکہ اس نے اس گھر کے مالک کو اپنا رب مان لیا تھا ۔ اس کے ایک ہونے کی گواہی دے ڈالی تھی ۔ اس نے دایاں پائوں دروازے کی طرف بڑھا کرمسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھی تھی آج اسے ویسے بھی پیغمبر ؐ کی دعائوں کی سخت ضرورت تھی ۔ اُس کا ہررشتہ ٹوٹ چکا تھا ۔ اب ان ؐ کے سوا کون تھا جو اُسے دعائیں دیتا ! اسے لگ رہا تھا وہ یہیں کہیں آس پاس اس کے ساتھ ہیں ۔
کچھ ہی دیربعد وہ مسجد کے اندر بیٹھے تھے مولوی صاحب نکاح نامہ پُر کررہےتھے ۔ اس کی طرف کی تمام معلومات بھی زرک ہی فراہم کررہا تھا ۔ حیرت انگیز طورپر وہ اس کے متعلق ایک ایک تفصیل جانتا تھا ۔
’’دلہن کا نام پون مہر‘‘ وہ لکھوا رہا تھا ’’ دلہن کے والد کا نام مہر رمیش ٹھاکر‘‘ ۔
مولوی صاحب لکھتے لکھتے جیسے چونکے تھے ۔ اورپھر انہوںنے سراٹھا کرسوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تھا ۔
’’ آپ ٹھیک سمجھے‘‘‘ زرک ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بولا تھا ’’ یہ صاحب ہندو ہیں ۔‘‘
’’ اور دلہن کا مذہب ؟‘‘ مولوی صاحب کا دوسرا سوال فطری تھا ۔
’’ اسلام !‘‘ اس نے زرک کوبڑے فخر کے ساتھ کہتے سنا ۔
’’ پھر تو آپ کوبہت مبارک ہو ‘‘ مولوی صاحب پون سے مخاطب تھے ’’ اللہ نے آپ پر اپنی نعمت تمام کردی اورآپ کے لیے اسلام کوبطور دین پسند کیا اوربے شک دین تو صرف اسلام ہی ہے ‘‘ وہ یقیناً آیت کا ترجمہ سنا رہے تھے جواس کے حال کے عین مطابق تھا ۔
’’ تم تھکی ہوئی تو نہیں ہو ؟‘‘ زرک کی آواز اسے اپنی زندگی کے حسین ترین منظر سے باہر لے آئی تھی ۔
’’’ نہیں ‘‘ اس نے مختصر جواب دیا ۔
’’ شکر ہے تمہاری آواز توسنائی دی ورنہ میں توسمجھ رہا تھا میرےساتھ شادی ہونے کی خوشی میں تم گونگی ہو گئی ہو ‘‘وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ تمہارا شکریہ کے تم نے میری وضاحت کایقین کیا ‘‘ وہ واقعی شکر گزار لگ رہا تھا ’’ اور میری زندگی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ‘‘۔
مجھے تمہارا یقین کرنا ہی تھا ! وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوئی تھی ۔ کیونکہ میں اپنے دل کے خلاف نہیں جا سکی۔ چاہنے کے باوجود تم سے نفرت نہیں کرسکی ۔تمہیں برانہیں سمجھ سکی ۔ وہ مسلسل کھڑکی سے باہردیکھ رہی تھی زرک کی طرف دیکھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی اسے اچانک اس سے بہت شرم محسوس ہو رہی تھی ۔
’’ سب سے پہلے ہم کسی بوتیک جائیں گے ۔وہاں سے نکاح کا جوڑا خرید یں گے ۔پھرابھی زیور بھی خریدنا ہے‘‘۔
’’ اس کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ وہ اس کی بات سن کرتیزی سے بولی تھی ۔
’’ یا اللہ مجھے بے ہوش ہونے سے بچا لے ‘‘ اُس نے سٹیئرنگ چھوڑ کردعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ‘‘ یہ میں کیا سن رہا ہوں …ایک لڑکی عین اپنی شادی کے دن کہہ رہی ہے کہ اسے شادی کے جوڑے اورزیور کی کیا ضرورت ہے ‘‘۔
پون نے ہونٹ بھینچ کر بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ روکی تھی گاڑی کہیں ٹریفک میں پھنس گئی تھی اور وہ اب اسے وہاں سے نکالنے کی کوشش میں مصروف تھا ۔ اُس کا سارا دھیان اسی طرف تھا پون موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی ۔ اس نے دیکھا وہ آستین لپیٹے دونوں ہاتھوں سے سٹیئرنگ پکڑے بے ہنگم ٹریفک کے ساتھ اُلجھ رہا تھا۔ اس کے بال چھوٹےچھوٹے کٹے ہوئے تھے ۔غالباً یہ اہتمام گرمی کی وجہ سے کیا گیا تھا ۔ کانوں کی لویں بہت سُرخ ہو رہی تھیں ۔ شاید شادی کی خوشی میں اور سن گلاسز بھی اب کی دفعہ ماتھے کی بجائے آنکھوں پرتھے ۔بلیک گلاسز کے مقابلے میں اُس کی رنگت مزید صاف لگ رہی تھی ۔
یہ شخص میرا ہے ! اس کے دل نے سر گوشی کی تھی۔ میرے نام کے ساتھ اس کا نام لگا ہؤااور یہ میرے لیے اتنی بڑی بات ہے کہ میں اس کے لیے دنیا لٹا سکتی ہوں ۔ اسے مجھ سے محبت ہے یانہیں مجھے نہیں معلوم کیونکہ اس نے ابھی تک ذمہ داری احساس اورہمدردی کی بات کی تھی … مگر محبت کی نہیں ۔شاید وہ ذمہ داری احساس اورہمدردی کومحبت سے زیادہ اہم سمجھتا تھا لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میرے لیے یہ شخص زندگی کی علامت ہے ۔
تھوڑی دیربعد وہ ایک بوتیک کے سامنے کھڑے تھے ۔ زرک نے خود ا س کے لیے سرخ رنگ کا ایک بہت نفیس اورخوبصورت جوڑا پسند کیا تھا ۔ پھر فٹنگ وغیرہ کے مسائل حل کراتے وہ تقریباً آدھے گھنٹے بعد قریب ہی موجود جیولری کی دکان پر پہنچے تھے ۔ وہ اس کے لیے بھاری جڑائو سیٹ لینا چاہتا تھا مگریہاں پون نے اس کی ایک نہیں سنی تھی ۔ اُسے معلوم تھا اتنا بھاری سیٹ وہ چند منٹ سے زیادہ پہن ہی نہیں سکے گی ۔ لہٰذا اس نے ایک چھوٹا سا سیٹ جس میں سفید رنگ اورسرخ موتی لگے ہوئے تھے اپنے لیے پسند کیا تھا ۔
’’ ولیمہ ہم کچھ دن کے بعد کریںگے ‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ‘‘ ویسے تو کل بھی ہو سکتا ہے لیکن عالیہ، میری بہن دبئی ہوتی ہے اُسے وہاں سے آنے میں کچھ دن لگیں گے ۔ اگر جلدی میں بلایا تو وہ بہت ناراض ہو گی ۔ ابھی تو اس اچانک نکاح پر بھی اس کا غصہ برداشت کرنا پڑے گا ۔ تم اُس سے مل کربہت خوش ہو گی ‘‘۔
’’ کیا تم ڈرتے ہو اس سے ؟‘‘ پون نے اس کی باتوں سے یہی اندازہ لگایا تھا ۔
’’ نہیں ،محبت کرتا ہوں بہت اس سے … میرا واحد خون کا رشتہ ہےمیری جڑواں بہن …اُسے تم میرا ہی عکس سمجھو ۔ہم بہن بھائی میں بہت پیار ہے ‘‘ وہ نہ بھی کہتا تب بھی اس کے چہرے سے چھلکتی محبت دیکھ کراندازہ لگانا مشکل نہیں تھا ۔
’’ اورتمہارے والدین ؟‘‘ پون کی اس کی ذات میں دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی ۔
’’ میں میٹرک میں تھا جب ابو فوت ہوگئے ۔دوسال پہلے امی بھی چلی گئیں ‘‘۔
وہ اس کے لہجے میں موجود دُکھ محسوس کر سکتی تھی کیونکہ وہ خود بھی ماں باپ سے جدائی کی تکلیف سے گزر چکی تھی ۔
’’ تم اپنی بہن اور دوسرے لوگوں کو اس اچانک شادی کی کیا وجہ بتائوگے ؟‘‘ اُس نے آخروہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جو بہت دیر سے اس کے دل میں کھٹک رہا تھا ۔
’’عالیہ سے تومیںکہہ دوں گا کہ تمہارے والدین باہر جا رہےتھے اس لیے ہمیںجلدی شادی کرنا پڑی ۔باقی گھر پہ صرف ایک ملازم ہی ہے اور ہمارے درمیان خاموش معاہدہ ہے ۔ وہ کوئی سوال نہیں کرتا نہ کرے گا ۔لہٰذا تم بالکل فکر نہ کرو ‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ میں کسی کوبھی چاہے وہ میرا کتنا ہی قریبی رشتہ دار یا دوست کیوں نہ ہو تم سے ایسا کوئی سوال نہیں کرنے دوں گا جس سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے۔ تم پہلے ہی بہت تکلیفیں اٹھا چکی ہو لہٰذا آج کے بعد تکلیف کی تم سے ملاقات پر پابندی ہے۔ اور رہ گیا میں تو مجھ سے کوئی سوال کرنے کی ہمت کم ہی کرتا ہے ‘‘۔
اوریہ بات پون جانتی تھی وہ درست کہہ رہا تھا ۔اس کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جولوگوں کو اس سے زیادہ بے تکلف ہونے سے روکتا تھا۔
’’ تمہیں معلوم ہے تمہارے والدین یہاں سے جا چکے ہیں ؟‘‘ وہ سامنے دیکھتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا ۔
’’ نہیں ‘‘ وہ آہستہ سے بولی تھی ’’ لیکن میرا اندازہ تھا وہ کچھ ایسا ہی کریں گے ‘‘ پرانے زخم اسے پھر سے تکلیف دینے لگے تھے ۔
اگر تم ان سے ملنا چاہو تومجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ بلکہ میں ان سے تمہاری ملاقات کا بندو بست کروا سکتا ہوں‘‘ وہ اس کی دلجوئی کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا ۔
’’ ابھی نہیں ‘‘ کہیں دور دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’ شاید یہ پھر کسی وقت … ابھی تو میں صرف بی بی سے ملنا چاہوں گی ‘‘۔
’’لگتا ہے تمہیں ان سے بہت محبت ہے ‘‘زرک نے دیکھا بی بی کے ذکر پر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی ۔
’’ ہاں بہت … وہ میرے لیے ایک پاورہائوس کی طرح ہیں ۔ جب میری اداسی اورمایوسی بڑھنے لگتی تھی تو میں ان سے بات کرتی تھی یا سیل میں ان کی باتیں یاد کرتی تھی تو میری ہمت بڑھ جاتی تھی میں نے اسلام کا عملی تعارف انہی کو دیکھ کے حاصل کیا ۔ وہ بالکل نبیؐ کے زمانے کی عورت لگتی ہیں … بھولی بھالی معصوم … اور زندگی کے ہر معاملے میں قرآن وسنت کی پیرو کار … اس زمانے میں تو وہ شاید ہم جیسوں کو راہ دکھانے اور یہ بتانے کے لیےپیدا ہوئیں کہ اسلام آج بھی اتنا ہی قابلِ عمل ہے جتنا کہ چودہ سو سال پہلے تھا ‘‘۔
گاڑی اب ایک سیلون کے سامنے رک چکی تھی اوراسے نہ چاہتے ہوئے بھی اندر جانا پڑا تھا کیونکہ یہ زرک کا فیصلہ تھا۔بقول اس کے وہ اس کی شادی کے دن کو ہرطرح سے یاد گار بنانا چاہتا تھا ۔ جب وہ باہرآئی توشام کب کی ڈھل چکی تھی دن کوہونے والی بارش کی وجہ سےفضا خوشگوار تھی ۔ اس کی شادی کا دن موسم اور واقعات کے حساب سے حسین ترین دن بن گیا تھا زرک اس کے لیے یہ دن یاد گار بنانا چاہا تھا ۔ اس کی اس خواہش میں قدرت اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔
’’ چلیں ؟‘‘ وہ اس کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بولا تھا ۔’’ ہوں‘‘ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی ۔ سیل میں وہ کتنی آسانی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لیا کرتی تھی مگر اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی طرف دیکھنا اوراس کی گہری آنکھوں کا سامنا کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا ۔
٭
تھوڑی دیر بعد ہی وہ گھر پہنچ چکے تھے ، وہ اسے صوفے پربٹھا کرکچن سے جوس کے دو گلاس لے آیا تھا جبکہ وہ اس دوران گردن گھما گھما کراس کا گھردیکھ رہی تھی ۔ کافی کشادہ آرام دہ اورصاف ستھرا لگ رہا تھا۔
’’ تمہیں یقیناً بھوک بھی لگ رہی ہو گی ‘‘ وہ اسے جوس کا گلاس پکڑاتے ہوئے بولا تھا ‘‘ ٹھہرو میں کچن میں جا کردیکھتا ہوں شاہدصاحب آج ڈنر کے لیے کیا بنا کر گئے ہیں ‘‘ وہ ایک دفعہ پھر کچن میں غائب ہوچکا تھا ۔
’’ نہیں بھئی ‘‘ وہ مایوسی سے سرہلاتا واپس آیا تھا ’’ نہایت ہی غیر شاعرانہ قسم کا کھانا بنا ہؤ ا ہے اور میں ساری زندگی یہ طعنہ نہیں سن سکتا کہ عین تمہاری شادی کے دن تمھیں ایسا کھانا کھلا یا تھا ۔ یہاں قریب ہی ایک اٹالین ریستوران ہے اُن کا لزانیہ اور مارغریتا پزا بہت مزے کا ہوتا ہے ، وہی منگوا لیتے ہیں ‘‘ اس نے فیصلہ کیا اور پھر فون کر کے آرڈر بھی دے دیا ۔ کھانے پینے کے مسائل سے نمٹ کر وہ اس کے پاس آ بیٹھا تھا ۔ پون دیکھ رہی تھی وہ جوس پیتے ہوئے بالکل خاموش تھا جیسے اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو ۔ یا جوکہنا چاہتا ہووہ کہہ نہ پا رہا ہو ۔
’’ میں نے پچھلے کچھ عرصے میںبہت سارے گھاگ مجرموں کی زبانیں کھلوائی ہیں ۔ اُن سے اپنی مرضی کی باتیں اُگلوا ئی ہیں ‘‘ وہ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا تھا ’’ لیکن آج تمہارے سامنے اپنی مرضی کی کوئی بات نہیں کہہ پا رہا ۔ تم میرے متعلق یہ توجان ہی گئی ہو کہ میرا کام کیا ہے … ایک مشکل اورخطر ناک کام ! ‘‘ وہ کہیں دوردیکھتے ہوئے بول رہا تھا ’’ لیکن اپنی ذاتی زندگی میں میں ایک بہت آسان اور سادہ طبیعت کا انسان ہوں ‘‘۔
’’ اچھا ؟ لگتا تونہیں ‘‘ پون دل ہی دل میں بولی تھی۔
’’ لگتا نہیں ہوں ناں !‘‘ اُس نے جیسے اس کا ذہن پڑھ لیا تھا ’’مجھے معلوم ہے میرے پیچھے لوگ مجھے طرح طرح کے القابات دیتے ہیں ، اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ بڑا مسئلہ ہے کہ جو اپنے کام سے کام رکھے کسی کے معاملات میں مداخلت نہ کرے نہ اپنے میں کرنے دے ، لوگ اسے پتا نہیں کیا کیا مشہور کردیتے ہیں ۔ میرا قصور بھی بس یہی ہے ‘‘۔
پون نے دیکھا وہ اپنے آپ کواس کے سامنے معصوم ثابت کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اور اس کی اس معصومانہ کوشش پردل ہی دل میں مسکرا رہی تھی ۔
’’ جب تک تم سیل میں تھیں ، میرا یہ پر آسائش گھر بھی مجھے سکون نہیں دے پا رہا تھا ۔ میں راتوں کو سو نہیں پاتا تھا ۔ تم میری کلاس فیلو تھیں ، اس راز کی میں نے جان سے بڑھ کر حفاظت کی صرف اس لیے کہ تمہارا کیس مجھ سے لے کرکسی بے رحم شخص کے حوالے نہ کردیا جائے ‘‘۔
اور وہ سمجھتی رہی تھی ، اس سے زیادہ بے رحم بھلا کون ہو سکتا ہے ، یہ سمجھے بغیر کہ وہ کس کس محاذ پر اس کے لیے لڑ رہا تھا ۔
’’ اور جب لیڈی گارڈ نے تمہیں ٹھوکر ماری تھی تو مجھے لگا وہ ٹھوکرتمہیں نہیں مجھے لگی ہے ‘‘اس کی یادوں کا سلسلہ بہت طویل تھا ’’ سیل میں تمہیں دیکھ کر جو تعلق محسوس کیا وہ کب میری ذمہ داری بنا اوریہ ذمہ داری کب میرے دل کی بیماری بن گئی مجھے خبر ہی نہ ہو سکی ‘‘۔
پون نے چونک کر اسے دیکھا ۔ وہ کیا کہنے کی کوشش کر رہا تھا ؟ اب تک جو کچھ وہ سمجھتی آ رہی تھی کیا کچھ اس کے برعکس بھی تھا ؟
’’ ایسے مت دیکھو ‘‘ وہ اس کی حیران آنکھوں میں دیکھ کر بولا ’’ کیونکہ یہی سچ ہے ۔ ہمارے دلوں نےبہت پہلے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا ۔ میں نے اس حقیقت سے بھاگنے کی بہت کوشش کی ۔ لیکن میں جتنا تم سے دوربھاگا اتنا ہی خود کو تمہارے قریب پایا ۔ تم نے سیل میں اگر اپنی زندگی کا مشکل ترین وقت گزارا تو زندگی میری بھی آسان نہیں رہی تھی ۔ میں ہر وقت خود اپنے ہی ساتھ حالتِ جنگ میں تھا ۔ لیکن میں اتنا سا اعتراف نہیں کر پایا نہ خود سے نہ تم سے کہ مجھے تم سے محبت ہے ‘‘۔
پون کا سارا وجود جیسے خوشبو میں ڈھل چکا تھا۔ اسے اپنا آپ کسی حسین خواب کا حصہ لگ رہا تھا ۔ وہ اس کے لیے محض ایک ذمہ داری نہیں تھی بلکہ وہ اس کی محبت تھی۔
’’ تم بہت خوش قسمت ہو پون !‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’ اللہ نے جیسے خود تمہارا ہاتھ پکڑ کر اندھیرے سے نکالا اورتمہیں روشنی میں لے آیا ۔ تمہیں اس دنیا کی سب سے بڑی دولت یعنی ایمان کی دولت دی اورپھر تم نے اس راستے میں آنے والی ہر آزمائش کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا ۔ تم اللہ کی نظر میں بہت قیمتی ہو اور میری نظر میں بھی ‘‘۔
’’ میں نے اسلام قبول کر کے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا سوائے اپنے آپ کے ‘‘ وہ جیسے خود سے بات کر رہی تھی ۔ ’’ مجھے آگ سے بہت خوف آتا تھا ۔ تب دنیا کے سب سے سچے انسان حضرت محمد ؐ نے آگے سے بچنے کا یہی طریقہ بتایا کہ اللہ کو ایک مان لو تومیں نے مان لیا ‘‘ وہ بہت سادگی سے کہہ رہی تھی اور زرک کو اس کا انکسا ر اچھا لگا تھا ۔
’’ پون میں تمہیں یقین دلاتا ہوں میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں میں ساری زندگی تم سے محبت کروں گا … میں ساری زندگی تمہاری عزت کروں گا … میں لمحہ لمحہ تمہاری حفاظت کروں گا‘‘۔
وہ اپنی جادو بھری آواز میں اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی ۔ آج اس کی خوش قسمتی کی کوئی حد تھی بھلا … اس کے رب نے اس کےلیےسب کچھ مکمل کردیا تھا … اپنا دین بھی اور زرک کی محبت بھی ۔
اچانک روتے روتے اس کے چہرے پرمسکراہٹ آگئی تھی ۔’’ ’’کیا ہؤا؟‘‘ زرک حیران تھا ۔ ابھی تو وہ رو رہی تھی اور اب یہ ہنسی ۔
’’ کچھ نہیں ‘‘ وہ اسی طرح ہنستے ہوئے بولی ’’ بس ایک لڑکا یاد آگیا تھا ‘‘۔
لڑکا ؟ کون لڑکا ؟
’’ میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ۔
’’ آںہاں… ‘‘ زرک نے پیچھے ہو کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی ۔ صاف لگ رہا تھا وہ کسی شرارت کے موڈ میں ہے۔
’’ لوگ اس لڑکے کو مغرور خود پسند لا تعلق اورنہ جانے کیا کیا کہتے تھے مگرمیں ایسا نہیں سمجھتی تھی ‘‘۔
’’ اچھا بڑی مہربانی آپ کی ‘‘ وہ شکر گزارنظر آیا ۔
’’ اب دیکھو ناں ! جسے یہ تک پتا نہ ہو کہ سن گلاسز ماتھے پر نہیں آنکھوں پر لگائے جاتے ہیں اس کی عقل میں فتور تو ہو سکتا ہے مگروہ خود پسند اورمغرور نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔
’’ اچھا تو عقل بی بی ! آپ نے جا کر اسے سن گلاسز کا صحیح مقام کیوں نہ بتا دیا ؟‘‘
’’ میرے پاس اتنی فرصت نہیں تھی ‘‘ وہ بے نیازی سے بولی ۔
’’ اگر آپ تھوڑی سی فرصت نکال کراسی وقت اس کے پاس چلی گئی ہوتیں توبیچ کے یہ مسئلے پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے ، یا پھراسی وقت حل ہو جاتے … اُف یہ پزے والا ابھی تک کیوں نہیں آیا ؟‘‘ بات کرتے اسے اچانک دھیان آیا تھا ۔ ’’ یہ لوگ ذرا بھی دور اندیش نہیں ۔ اتنا بھی نہیں جانتے آج میری شادی کا دن ہے آج توکھانا وقت پر پہنچا دیں ۔ میرا خیال ہے میں خود ہی چلا جاتا ہوں ‘‘ وہ بات کرتے کرتے دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
’’ اورہاں ‘‘‘ اسے جیسے کچھ یاد آیا ’’ کیا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ تم دنیا کی خوبصورت ترین دلہن ہو ؟‘‘ پون کے چہرے پر اچانک ایک رنگ آیا تھا اوراس نے میکانکی انداز میں گردن دوسری طرف موڑ لی تھی۔کافی دیر تک اسے یہی محسوس ہوتا رہا تھا کہ وہ یہیں کہیں کھڑا اسے دیکھ رہا ہے حالانکہ وہ جا چکا تھا ۔ اورپھرتھوڑی دیربعد وہ اس کے گھر میں گھوم رہی تھی ، پورے حق اوراپنائیت کے ساتھ ۔ ہرچیز پر اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے ان چیزوں کے مالک کا لمس ان پر تلاش کر رہی ہو ۔ سب کچھ بہت صاف ستھرا اوراپنی اپنی جگہ پر موجود تھا … زرک کی نفاست اور صفائی پسند طبیعت کا آئینہ دار۔
وہ سارا گھردیکھنے کے بعد ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئی تھی اورداخل ہوتے ہی اسے احساس ہوگیا تھا وہ زرک کا کمرہ تھا ۔سامنے لگے بڑے سے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آ رہا تھا ۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ۔ آج وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ زرک کے پسند کردہ جوڑے ، اس کے اپنے پسند کردہ زیور اورمہارت سے کیے گئے میک اپ نے اسے انوکھا ہی رنگ دیا تھا ۔ اور ان رنگوں میں سب سے نمایاں زرک کی محبت کا رنگ تھا … خوبصورت پائیدار ۔
صبح وہ جیل سے نکلنے والی پژمردہ اداس خالی ہاتھ لڑکی تھی ۔ مگراب اس سے زیادہ امیراورکوئی نہیں تھا ۔ اس کا دامن مالا مال تھا ۔ برسوں پہلے جنت میں جانے کی ایک معصوم سی خواہش جنت کے مالک کوبہت پسند آئی تھی ، پھر وہی تھا جس نے اس کے دل میں اپنے پیغمبر ؐ کی محبت ڈالی ،اپنے ایک ہونے کا یقین دیا ، اس کے اندرجہنم کی آگ کا خوف پیدا کیا اور جنت کے سکون اورآسائشوں کا شوق دلایا ۔ اورجب اس نے ان سب چیزوں کو بر حق مان لیا ، ان پرایمان لائی تو پھر اسے جنت دینے کا وعدہ کیا ۔ یہی نہیں اس کے بدلے میں اس کی دنیا کی زندگی میں جنت بنا دی جس میں ایمان تھا سکون تھا اورزرک کی محبت تھی ۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے ! اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ دل ہی دل میں اپنے اللہ سے مخاطب تھی ۔ اے میرے مالک ! میں تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلا تی … میں تیری کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرتی … میں تیری شکر گزار ہوں اورہمیشہ رہوں گی !
ؕ٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x