ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جیل کہانی – معصوم کلیاں – آسیہ راشد

ٹھیک پندرہ روز بعد ہم سب دوبارہ کو لکھپت جیل جا رہے تھے ۔ ہمارے ساتھ لیڈی ہیلتھ وزیٹرفرحت ( مرحومہ) غزالہ ہاشمی ، فرزانہ ، اسما خان اوردونوجوان بچیاں تھیں جنہوں نے میڈیکل باکس اوربلڈ پریشر چیک کرنے والے آلات اُٹھا رکھے تھے۔
اس دن کی طرح دوبارہ ہماری شناخت ہوئی اورکچھ دیر بعد ہم جیل کی چار دیواری میں بنی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں سے ایک عمارت میں بیٹھے تھے ۔ خالدہ بٹ صاحبہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں وہ بہت متحرک دکھائی دے رہی تھیں۔وہ ہمارے سوالات کے جواب بہت تسلی اور اطمینان سے دے رہی تھیں ۔ میرے دل و دماغ میں بہت سے سوالات پنپ رہے تھے جو میں ان سے پوچھنا چاہ رہی تھی ، قیدی بیمار عورتیں ایک ایک کرکے کمرے میں آنے لگیں اور کمرے میں پڑے بنچوں پربیٹھنے لگیں ۔سبھی لوگ مستعدی سے ان کا چیک اپ کر نے لگے ۔ ایک نے بلڈ پریشر چیک کیا ، دوسری نے تھرما میٹرلگایا، فرحت نے ان کے گلے ، آنکھیں ، کان چیک کیں اور نسخہ لکھ کر گروپ کی ایک ممبرکوپکڑا دیا جو دوائیوں کا باکس کھولے بیٹھی تھی۔ اس نے دوائیاں لفافے میں ڈال کر مریضہ عورتوں کودینا شروع کیں ۔ایک گھنٹے میں پندرہ بیس عورتوں کا طبی معائنہ ہو چکا تھا ۔
جتنی دیر مریض عورتوں کا چیک اپ ہوتا رہا میں خالدہ بٹ صاحبہ کے ساتھ مصروفِ گفتگو رہی ۔وہ چونکہ یہاں سوشل ویلفیئرآفیسر تھیں اس لیے جیل کی تمام خواتین کے ہر طرح کے مسائل پر ان کی نگاہ تھی۔ اس روز سے تمام ننھی معصوم بچیاں میرے دل و دماغ میں گھوم رہی تھیں کہ آخر وہ کس جرم کی پاداش میں جیل میں لائی گئی تھیں۔
میں نے ان کے بارے میں پوچھا توخالدہ صاحبہ گویا ہوئیں ’’بد کاری کے جرم میں ‘‘ ۔ میں نے بے یقینی سے انہیں دیکھا وہ بولیں ۔
’’ یہ وہ بھکاری بچیاں ہیںجنہیں ہمارے معاشرے کے نا سو ر بدکار مرد صرف ایک وقت کے اچھے کھانے کے عوض اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور ان کا یہ حال ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ ایک کبیرہ گناہ کی مرتکب ہوچکی ہیں جوکہ ایک قبیح اورمکروہ عمل ہے مگر انہیں اس بات کا ادراک تک نہیں ہے ‘‘۔
’’ کیا ان مردوں کو بھی پکڑ ا گیا جنہوں نے ان کی نا سمجھی اورمعصومیت کافائدہ اٹھایا ؟‘‘
’’ نہیں ابھی تک تو نہیں ‘‘وہ بولیں ’’ یہ مردوں کا معاشرہ ہے ۔مرد گناہ کرے تب بھی وہ پارسا ہی رہتا ہے ۔ عورت کا گناہ تا قیامت کلنک کا ٹیکہ بن کراس کے ماتھے پر سجا رہتا ہے‘‘۔
’’ کیا آپ لوگ جیل میں ان بچیوں کی تربیت کر رہے ہیں ؟‘‘ میرا اگلا سوال تھا۔
’’ کیا آپ نے انہیں اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے گناہ کی مرتکب ہوچکی ہیں ؟ کیا جیل میں اس حوالے سے کوئی تربیت گاہ ہے ؟‘‘
جواب میں انہوں نے بتایا کہ جیل میں ایسی کوئی تربیت گاہ نہیں ہے ۔’’ آپ لوگ کوئی انتظام کریں ، آپ میں سے کوئی ہر ہفتے آکر یہاں درس دے توشاید کوئی بہتری آجائے ‘‘۔
پاکستانی جیلوں کے بارے میں ہم سنتے ہیں اس سے دل و دماغ اورروح کرچی کرچی ہو جاتی ہے ۔ کاش ہماری حکومت ان قیدیوں کے بارے میں کچھ سوچے اوران کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے تاکہ یہ جیل سے باہر آکر معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔
’’ کیا ان بچیوں کی یہاں عزت محفوظ ہے ؟ کیا انہیں بتایا گیا ہے کہ ان سے کیا غلطی سر زد ہوچکی ہے ۔ جس کی پاداش میں وہ اس تعفن زدہ ماحول میں آ بیٹھی ہیں ؟‘‘ میں نے پرامید نگاہوں سے خالدہ صاحبہ کی طرف دیکھا ۔
’’ جی ہاں ۔ یہاں کی جیل سپرنٹنڈنٹ اورڈپٹی سپرنٹنڈنٹ دونوں بہت مہر بان ، سمجھ دار اورباوقار خواتین ہیں ۔ وہ ان کے کیس کودیکھ رہی ہیں اور بچیوں کے معاملے میں بہت محتاط بھی ہیں ‘‘ خالدہ صاحبہ کھڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں۔
مجھے ان کی بات سے تسلی نہیں ہوئی کیوں کہ جوباتیں ہم جیل کے بارے میں سنتے ہیں اورمیڈیا پردیکھتے ہیں اس کے بعد ان کا ایک جملہ مجھے مطمئن کرنے کونا کافی تھا۔
خالدہ بٹ صاحبہ نے میرے چہرے پر پھیلی ہوئی بے یقینی کو بھانپ لیا اور جیل کی ایک محرر سے کہا کہ ان بچیوں کو لے آئے ۔
تھوڑی دیرمیں دس بارہ بچیاں میرے سامنے بیٹھی تھیں ۔وہ اس بات سے قطعی بے نیاز تھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہؤا تھا۔ غربت زدہ ماحول میں ایک وقت کا اچھا کھانا ان کے بھوکے پیٹ اورنفس کی تسکین کا باعث تھا۔
میں ایک ٹک ان بچیوں کودیکھے جا رہی تھی کہ خالدہ صاحبہ کی آواز نے مجھے چونکا دیا ’’ آپ ان بچیوں سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں ؟‘‘
’’ نہیں مجھے ان سے کچھ نہیں پوچھنا بلکہ مجھے اپنے ارباب اختیار، ان کے والدین ، اپنے معاشرے کے بے حس لوگوں سے پوچھنا ہے کہ ان بچیوں کو اس گناہ کی دلدل میں کس نے دھکیلا؟ ان کا مجرم کون ہے ؟ کیا کبھی کسی نے سڑکوں پرکھڑے بھکاریوں اورنوجوان بھکاری بچیوں کے بارے میں سوچا کہ یہ مفلوک الحال کیوں ہیں ؟ ان کے پیچھے کون لوگ ہیں جو ان کی حالت بہتر نہیں کرنا چاہتے یا اصلاح معاشرے کا کوئی اقدام روبعمل نہیں ہونے دیتے ؟‘‘
میری آواز غم سے بھرا گئی ۔ انہوں نے بچیوں کو جانے کا اشارہ کیا اوروہ منہ میں دوپٹے ٹھونسے کھی کھی کرتے ہوئے اُٹھ کر چل دیں ، میں نے دکھ سے اپنا سر جھکا لیا۔
’’ آپ پریشان نہ ہوں‘‘ انہوں نے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ آج ہم نے آپ کے لیے قیدی عورتوں کو کھلائے جانے والے کھانے کا انتظام کیا ہے ۔ آج آپ جیل کی قیدیوں کی مہمان ہیں ‘‘۔
’’ نہیں نہیں ہم لوگ گھر جا کر کھانا کھائیں گے ‘‘ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی جیل کے کھانے کا سن کر مجھے لگا جیسے ہم بھی قیدیوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں ۔
’’ مگر آپ ہمیں کیوں کھانا کھلا رہی ہیں ؟‘‘ میں نے استفسار کیا ۔
’’ تاکہ آپ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں ‘‘۔
ان کی بات ماننے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔ ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں سرخ رنگ کا قالین بچھا تھا ۔ وہیں پر آرام دہ صوفے اور میزیں بھی تھیں ۔غالباً کسی ڈرائنگ روم کا منظر لگ رہا تھا ۔میری یاد داشت نے کام کیا ۔
’’ یہ تووہی کمرہ ہے جہاں ہم پچھلی بار بیٹھے تھے ۔ اب یہ پہچانا بھی نہیں جا رہا ۔ اُس روز یہاں چند کرسیاں اور لکڑی کے بنچ پڑے تھے ‘‘۔
وہ مسکرائیں اور بولیں ’’ آپ نے ٹھیک پہچانا یہ وہی ہے ۔ ہماری صوبائی وزیر شاہین عتیق الرحمٰن کے آنے کی خوشی میں تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ چند دن بعد عید کا پروگرام ہے انہیں بٹھا نے کے لیے یہ کمرہ تیارکیا گیا ہے ۔ اس روز قیدی خواتین کو تحفے تحائف اورعیدی دی جائے گی ۔ آپ بھی ضرور آئیے گا ‘‘۔
تھوڑی دیر میں چند قیدی خواتین ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے سجائے کمرے میں داخل ہوئیں ۔چنے کی دال کا سالن اورتندوری روٹیاں لائی گئی تھیں۔
گھی کے بگھار والی دال کی اشتہا انگیز خوشبو کمرے میں پھیل گئی تھی ۔ تندوری روٹی ایک بڑی چنگیر کے سائز کی تھی ۔ سب نے کھانا شروع کیا ۔ میں نے ہچکچاتے ہوئےایک دونوالےبمشکل کھائے ۔
’’ کیا آپ سب قیدی عورتوں کوایسی بگھار والی دال کھلاتے ہیں یا یہ خاص ہمارے لیے تیارکی گئی ہے ‘‘۔
سب نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کھانے میں مصروف ہوگئے۔ خالدہ بٹ صاحبہ نے بتایا ’’ہفتے میں ایک یا دو بار گوشت پکتا ہے ۔ کوئی صدقےکے بکرے یا دیگیں بھجوا دیتا ہے ۔کبھی کبھار بریانی کی دیگیں آجاتی ہیں اور قیدیوں کواچھا کھانا مل جاتا ہے‘‘۔
’’ کیا دیگیں اتنی ہوتی ہیں کہ سب قیدیوں کواچھا کھانا مل جائے یا یہاں کا عملہ ہی ہڑپ کرجاتا ہے ‘‘۔
’’سب کچھ ساتھ ساتھ ہی چلتا ہے ‘‘ وہ بولیں۔
کھانے کے بعد کہنے لگیں ’’ آئیے آج میں آپ کو ایک خاص قیدی عورت سے ملواتی ہوں جس کے بھائیوں نے جائیداد ہتھیانے کے لیے اسے جیل بھجوا دیا ‘‘۔
اورہم اس نا کردہ گناہ کی مجرم سے ملنے اس کی کوٹھڑی کی جانب چل پڑے۔مگر ہمیں بتایا گیا ملاقات کا وقت ختم ہوچکا ہے ، ہمارے بھی وزیٹنگ آورز ختم ہوچکے ہیں اس لیے اب ہم اگلے ہفتے آئیں ۔ہم سب واپسی کے لیے گیٹ کی جانب چل دیے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x