ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سیماں- رفعت محبوب

17دسمبر 1987 سردیوں کی ایک شام تھی جب ہم اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے میں اپنے ساتھ اپنی پرانی مدد گار کچھ دنوں کے لیے لے آئی تھی تاکہ نئی جگہ پہ جا کرمشکل نہ ہو اورگھر سیٹ کرنے میں مدد گاربنے ۔ میرے ساس سسربھی میرے ساتھ رہتے تھے۔ میری مرحومہ ساس نے محلے میں صفائی کے لیے جلدہی ایک خادمہ کا بندو بست کردیا جس سے کافی آسانی ہو گئی لیکن کچن کے لیے مجھے مدد گار کی سخت ضرور ت تھی۔
بچے چھوٹے تھے مستقل ساس سسر کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مہمان داری بھی بہت تھی ، جب ہمارا گھر بن رہا تھا توچوکیدار اپنی فیملی کے ساتھ ادھر ہی رہتا تھا ، اس کی ایک بیٹی دبلی پتلی کمزور سی جان صبح سویرے سردی میں کسی دفتر کی صفائی کے لیے جاتی تھی ۔میری ساس نے اس کے والد سے کہا کہ تمہاری کمزور سی بچی ہے اور تم اس کو صبح سویرے اتنی ٹھنڈ میں دفتر کی صفائی کے لیے بھیج دیتا ہے۔بہتر یہ ہے کہ تم اس کو اندر باجی کے ساتھ کام پہ لگا دو، وہ اس کے پاس رہے گی اورکام میں بھی ہاتھ بٹائے گی کھائے پئے گی تو اس کی صحت بھی بہتر ہو جائے گی ۔ اس طرح سیماں میرے پاس مدد گار کے طورپر رہنے لگی۔
بچی بہت اچھی اورایمان دار تھی ، خوش دلی اوردل جمعی سے میرے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانے لگی ۔ میں نے بھی کھانے پینے کے ساتھ ساتھ اس کے علاج معالجہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی میری ساس نے اس کودینی تعلیم دینے کی کوشش شروع کی ۔لیکن افسوس وہ زیادہ دین نہ سیکھ سکی۔
اچھی خوراک اور اچھے ماحول سے اس کی صحت بہت جلد بہتر ہو گئی اور وہ اپنے کام خوب دل چسپی اورذمہ داری سے کرنے لگ گئی ۔آٹا ، روٹی ، کپڑے استری کرنے دھلائی کے علاوہ بچوں کے بوٹ پالش تک کر کے جاتی ۔
بچے جب کیرم یا لڈوکھیلتے تو اس کو بھی ساتھ کھلاتے۔ مل جل کر رہنے سے وہ بھی مجھے اپنے بچوں جیسی ہی لگتی یوں وہ میرے بچوں کے ساتھ پلی بڑھی اورجوان ہوئی ۔وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ احساس نہ ہؤا۔
یہ لوگ اپنے بچوں کی شادیاں بہت جلد کردیتے ہیں لہٰذا اس کے باپ کو بھی فکر ہوئی ۔ اس کی والدہ کسی موذی مرض میں مبتلا تھی کافی علاج کے باوجود وہ زندہ نہ رہ سکی ۔ باپ چونکہ بوڑھا تھا اس کی خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں بچوں کی شادیوں سے فارغ ہو جائے۔ لہٰذا سیما کی شادی ہو گئی اور وہ گائوں چلی گئی اور مجھے ایک دفعہ پھر اچھی مدد گار کی تلاش شروع کرنی پڑی۔
گائوں میں اس کے خاوند کا کوئی خاص کام نہ تھا سوائے بھیڑ بکریاں چرانے کے ۔ کچھ عرصہ بعد سیما اس کو لے کر لاہور آگئی تو دوبارہ اپنے کام پر واپس آگئی میں نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔ کچھ عرصہ بعد اس کے ہاں پہلی بچی کی پیدائش ہوئی جوچند دنوں بعد فوت ہو گئی۔
اس کے بعد اس کے ہاں اوپر تلے 4 بیٹے پیدا ہوئے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد وہ چند ہفتوں سے زیادہ چھٹی نہ کرتی جس سے مجھے بھی اس کے کھانے پینے میں آسانی رہتی اوراس کو صحت مند ہونے میں زیادہ وقت نہ لگتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ میرے بچے جوان ہو گئے اوراس کے بچے سکول اور مسجد جانا شروع ہوگئے ۔ سکول آتے ہی وہ سیدھا ماں کے پاس کچن میں چلے جاتے اورپہلی بات پوچھتے کہ آج کیا پکایا ہے بہت بھوک لگی ہے ۔ بچے چونکہ اس گھر میں ہی پلے بڑھے تو مجھے بہت اچھا لگتا ۔ماں روٹی پکاتی جاتی اور بچے کھا کھا اپنے کوارٹر میں چلے جاتے جو میرے گھر کے بالکل سامنے گھر میں تھا ۔ یونیفارم اتارتے اورعصر کے وقت وہ قرآن پڑھنے مسجد چلے جاتے بڑے دونوں بیٹوں نے قرآن پاک کے ساتھ نماز بھی باقاعدگی سے پڑھنی شروع کردی۔
بڑے بچے نے میٹرک کے بعد بجلی کے کام میں ڈپلومہ حاصل کر لیا اوراسے فیکٹری میں جاب مل گئی ۔چھوٹے بیٹے کو محلے میں اچھی جگہ کام مل گیا ۔ بچوں کے بر سرروز گار ہونے سے اس کے حالات بھی دن بدن اچھے ہوتے جا رہے تھے ۔ خاوند بھی روزانہ مزدوری پہ جاتا،شام کو چاربچے فارغ ہو کر یہ بھی چلی جاتی۔
مالک مکان کی نا چاقی کی وجہ وہ کچھ عرصہ میرے پاس آگئی۔ بچے چونکہ بڑے ہو گئے تھے اس لیے یہاں گزارا مشکل تھا اللہ تعالیٰ کی خاص مدد سے گرین ٹائون کے پاس 3 مرلے کا ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا اور وہ اپنے نئے گھر میں چلی گئی ۔ لیکن اس نے میرا کام نہ چھوڑا ۔ وہ باقاعدگی سے صبح 8 بجے میرے پاس پہنچ جاتی بیٹا فیکٹری جاتے ہوئے راستے میں ماں کو چھوڑ جاتا اورواپسی پرچھوٹا بیٹا 4 بجے ماں کو گھر چھوڑ آتا۔ زندگی اب اس ڈگر پہ چلنا شروع ہوگئی ۔ اس کے آنے جانے کی روٹین سیٹ ہو گئی اوروہ خوش تھی۔
ایک دن ماں بیٹا گھر سے کام کے لیے نکلے تو بیٹے کا فون عین اس وقت مجھے آیا جب اس کے میرے گھر پہنچنے کا وقت تھا ۔ یہ 28 مئی 2022 کا دن تھا کہنے لگا باجی امی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اوراس کا سرسیورج پائپ لگنے کی وجہ سے خون بہت بہہ رہا ہے ، میں کیا کروں۔
میں نے کہا دیر نہ کرو فوراً 1122 کوکال کرواورامی کو جناح ہاسپٹل لے آئو میں بھی پہنچ جاتی ہوں ۔ہیڈ انجری تھی ، اس کا خون کافی بہہ چکا تھا جس کی وجہ سے وہ قومہ میں چلی گئی ۔فوراً ہی ڈاکٹروں نے سی ٹی سکین بھی کردیا۔
6 گھنے کے طویل آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا لیکن میرے میاں صاحب نے یہ بات مجھ سے چھپائی کہ اس کے سر کی ہڈی ایک جارمیں ڈال کر میرے فرج میں رکھ دی گئی کہ زخم بھرنے پر دوبارہ جوڑ دیں گے ۔
میرے پوچھنے پر بتاتے دعا کرو وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی ۔ جبکہ ڈاکٹروں کی طرف سے کوئی امید افزا رپورٹ نہیں تھی بہر حال پانچ دن وہ زندگی اورموت کی کشمکش میں رہنے کے بعد 2 جون 2022 اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئی اور میں دیکھتی ہی رہ گئی کہ ٹھیک ہو جائے گی ۔ جمعرات کا دن تھا 4 بجے کا وقت اس کو لے کر اس کے گھر والے میرے پاس آگئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا میں کیا کہوں۔
رات دس بجے جنازے کا وقت تھا ۔قبر ابھی تیار نہیں تھی ، میں گیارہ بجے تک اس کے ساتھ قبرستان میںموجود رہی ۔ جب وہ اپنی آخری آرام گاہ میں سوئی اس وقت جمعے کی صبح کا آغاز ہو رہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے ، درجے بلند کرے ، میری دعائوں میں وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے ۔ وہ میری مدد گار ہی نہیں ایک ایسی بیٹی تھی جس کو میں نے جنم تونہیں دیا لیکن اس کی خوشی اوردکھ میں ماں کی طرح ساتھ ساتھ رہی ۔ وہ میرے بچوں کی پیدائش سے لے کر تعلیم و تربیت میں ایک مدد گار بنی رہیؒ جانے سے پہلے اپنے بڑے بیٹے کی منگنی تو کر گئی لیکن شادی دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کڑی دھوپ میں محنت کر کے بغیر خوشی دیکھے اپنے اللہ کے حضورحاضر ہو جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دلی دعا ہے کہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ آمین ثم آمین۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x