ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میری والدہ محترمہ – ڈاکٹر فلزہ آفاق

ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا کی ہمہ پہلو اور متحرک شخصیت کا تذکرہ جو حسنِ عمل کی بہت سی راہیں دکھا رہا ہے

 

بے شک پوری انسانیت کے لیے ، قیامت تک کے لیے اسوۂ حسنہ ، نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ ہے۔ اُمہات المومنین تمام خواتین کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔
اخلاقِ حسنہ کی جھلک آج کے دور میں بھی جہاں کہیں ہمیں نظر آتی ہے ، وہ ہمارےعمل کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔
اپنی امی جان کی زندگی کے چند روشن پہلو اس نیت سے آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں کہ آج کے حالات میں ، عمل کے لیے ، کسی کو کوئی نکتہ مل سکے تو اُن کے لیے اجر کا باعث ہوگا ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ ان کو عافیت والی زندگی عطا فرمائیں آمین۔
میری والدہ محترمہ ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا کے اتنے پہلومثالی ہیں کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کن پہلو ئوں پربات کی جائے ۔ ایک خاتون کی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ مصروف گائناکالوجسٹ ، مخلص سوشل ورکر، ذمہ دار کونسلر اور صوبائی کونسل کی رکن ، تمام معروف میڈیکل دینی ، ریلیف اور خواتین کے حقوق کے لیے متحرک تنظیموں سے مضبوط رابطہ رکھنے والی، علوم و فنون ، شعر و ادب ، مضمون نگاری پینٹنگ او دیگر سکلز، علم دوست داعی، ہر طبقے اور ہر عمر میں یکساں مقبول ، تعلیمی اداروں اور اساتذہ سے خصوصی تعلق ان کی تربیت کے لیے کوشاں ، معذور افراد ، بزرگوں کی خدمت ، غرض ہر اچھی سر گرمی میں عملی شرکت ، دیرینہ دوستوں سے رابطہ اور ہر ایک کی خیر خواہ مخلص ، صاف دل اور حق گو۔
حسن اخلاق کے چند موتی
نرمی، عمل، تواضع، انہیں زندگی کے مختلف ادوار میں خوشی اور غم میں ، ہمیشہ پر وقار اور پر سکون پایا ۔ دل میں طوفان بھی اٹھے ہوں تو صبر و ضبط کا دامن نہ چھوڑا ۔یہ سب اُن کی فطرت کا خاصہ ، رب کی خصوصی مہر بانی ، والدہ کی تربیت اور پاکستان کے لیے نو عمری میں ہجرت کے سفر کے اثرات تھے ۔ ہمیشہ دوسروں سے سیکھنے کی کوشش میںرہیں ۔ ہر علمی محفل میں کاپی پنسل لے کر نوٹس بنانا ان کی عادت تھی ۔ پھر اخذ کردہ نکات کو گھر میں بچوں کو ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، مریضوں ، تمام ملنے والوں تک موقع کے مطابق پہنچانا۔ہمیشہ اس بات سے اجتناب کیا کہ کسی لفظ سے بھی کسی کو تکلیف پہنچے یا کوئی شرمندہ ہو اس پر بچپن سے والدہ کی سخت نظر تھی۔
گھر میں جس وقت بھی کسی بیمار نے رجوع کیا ( ان میں اکثر مستحق افراد ہوتے ) تو ہر کام چھوڑ کر خوشدلی سے وقت دیا ، ضرورت مندوں کو خود سے دوا دینا اور ضرورت پڑنے پر گھر رکھ کر عملاً خدمت کرنا بھی ان کا خاصا تھا ۔ گائنی کی مصروف پریکٹس کے باوجود کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا، بچوں کی پرورش اور تربیت بھی سختی اور ڈانٹ کے بغیر کی ۔ ہر آنے والے ، ملنے والے سے خوش دلی سے ملنا جیسے اسی کا انتظار تھا اور یہ سلسلہ بیماری کی حالت میں بھی جاری ہے۔
کبھی بھی اپنے کسی کام یا عمل کو خصوصی نہ سمجھا بلکہ اپنا فرض سمجھ کر مستحق افراد کی ، معذوروں کی ، بزرگوں کی ، مریضوں کی خدمت کی اور ملک و قوم کی ہر مشکل میں ، سیلاب، زلزلہ ، جنگ میں دل و جان سے اپنا فرض سمجھ کر تن ، من ، دھن سے کام کیا ۔
اپنی کئی مریضائوں کے بچوں کی کفالت ، تعلیم اور شادی کی ذمہ داری از خود ذمہ لے کر ادا کی ۔ دوسروں کی صلاحیتوں کو ابھارا ، حوصلہ افزائی کی اور بہت سی خواتین کو مشورہ اور مدد دی کہ وہ ان صلاحیتوں کو وسیع تر مفاد میں مثبت انداز میں استعمال کر سکیں۔
ابا جان کی اچانک جوانی میں وفات پر ان کا صبر مثالی تھا ، شوہر بھی ایسے جو دوست بھی تھے اور مزلّی بھی ، جنہوں نے ہمیشہ ہر میدان میں رہنمائی بھی کی اور ساتھ بھی دیا ۔ مقصد حیات پر گہری نظر رکھنے والے انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والے ، ہر دل عزیز انسان ، جنہوں نے ہر لمحہ رفیقۂ حیات کو ساتھ شامل رکھا اوران کے زمانۂ طالب علمی میں روزانہ خط لکھنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ امی نے شادی کے بعد ایم بی بی ایس مکمل کیا اور بیرون ملک پوسٹ گریجوایشن کی ۔
اللہ کی رضا پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے کبھی شکوہ زبان پر نہ لائیں بلکہ ان کے جاری کردہ کاموں کو اور ان کے بچوں کو ان کے لیے صدقہِ جاریہ بنانے کو زندگی کاہدف بنا لیا اور بہت تحمل ، حکمت اور مثبت سوچ کے ساتھ بچوں کو ہمیشہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی رہیں۔
تحفظ نسوانیت
نہایت اہم بات یہ کہ اندرون خانہ کے علاوہ ، بیرون خانہ بے شمار ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود ، اپنے بنیادی کردار کو ، جو بحیثیت ایک مسلمان عورت کے اللہ تعالیٰ نے سونپا ہے ہمیشہ اولیت دی ۔ رفیق حیات کا ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں تھا ۔ سارے کام مل جل کر ہوتے تھے مگر ہمیشہ ان کی بات کو احترام دیا ، اولیت دی ۔ ان کی موجودگی میں کبھی کسی ملازم کو بھی نہیں ڈانٹا بچوں کو اُن سے گفتگو کا پورا موقع دیا اور خود بھی ہمیشہ ہمہ تن گوش رہیں اگرکوئی اختلاف ہؤا بھی ہوگا تو کبھی بچوں کے سامنے نہیں ہؤا۔
باہر کی ذمہ داریوں کے باوجود گھر کے تمام اُمور کی نگرانی خود کی ۔ خود سے کام کم کیے( گو شوق میں کیے بھی ) مگر جس کام کو خود اپنے ہاتھ میں رکھا وہ بچوں سے رابطہ تھا ۔ ہر بچے سے علیحدہ علیحدہ گفتگو ، دن بھر کی کارکردگی سننا معمول تھا ۔ سننا زیادہ تھا اور غیر محسوس انداز میں تربیت ہوتی رہتی تھی ۔ کہانیوں کے ذریعے ، لوریوں کے ذریعے ، قربانی ، جذبوں کی داستانیں ، عملی مثال کے ذریعے ۔ بقول بھائی کے جو بات وہ ہمیں بتانا چاہتی تھیں۔ وہ ڈسکشن کے ذریعے ہماری زبان سے ادا ہو جاتی تھی ۔ خود ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتے تھے جو وہ بتانا چاہتی تھیں ۔
ناشتے کے بعد درسِ قرآن کی مجلس بھی ہوتی اور کوئی شامل نہ ہونا چاہتا تو مجبور نہ کیا جاتا رفتہ رفتہ سب اسی رنگ میں رنگ گئے الحمد للہ ان کے صبر اور تحمل، محبت اور حکمت ، تہجد کی دعائوں کے نتیجے میں۔
خواتین کے حقوق کی پر زور داعی تھیں لیکن وہ حقوق جو اسلام کے دیے ہوئے مقام کو سمجھ کر ، فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ہوں ۔
ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل و مشکلات کو ہمیشہ سمجھ کر ان کے جائز حقوق کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کرتیں تاکہ محفوظ ماحول میں خواتین اپنا کام کر سکیں ۔بے شمار خواتین کو روز گار کی فراہمی کے لیے کام کیا ، دستکاری ، گھریلو صنعتوں ، ہیلتھ ورکر کے طور پر تربیت کاانتظام کر کے ملازمتوں کا انتظام کیا اور ہر ممکن حوصلہ ، مشورہ ، ہمدردی۔
80 کی دہائی میں خواتین یونیورسٹی کی تجویز صوبائی کونسل میں بھرپور انداز میں پیش کی اور اعتراضات کا جواب دیا ( یہ اعتراضات اکثر خواتین ہی کی طرف سے تھے )۔اسلام کے دیے ہوئے آفاقی اصولوں ، خواتین کے حقوق کوبین الاقوامی فورم پر پیش کیا ۔
ایک مزے کی بات یہ کہ انہوں نے بہترین ساس کا ایوارڈ شروع کیا ۔ گھریلو تعلقات کی بہتری کے لیے فریقین کو مشورہ دیے ، ملاقاتیں کیں۔ ان کی رائے خواتین کی ملازمت کے بارے میں ہمیشہ یہ رہی کہ گھریلو ذمہ داریاں اولین ترجیح ہیں اگر حالات اجازت دیں اور ملک و ملت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ، علم اور صلاحیت ہو تو کام کیا جائے مگر پیسہ کمانے کی نیت نہ ہو تو بہتر ہے کہ کفالت مردوں کی ذمہ داری ہے۔ کبھی پیسے کو اپنے اور خدمتِ انسانیت کے بیچ نہ آنے دیا۔
عوامی روابط اور صحبت صالحہ کی تلاش
امی جان نے ہمیشہ معاشرے کے ہر طبقے سے روابط رکھے ہیں۔ بچپن کی دوستوں سے ،کالج ، یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والوں سے ملتے رہنا ان کی خوشی ، غمی میں شرکت ، ابا جان کے بعد ان کے دوستوں کی فیملیز سے بھی دلی تعلق ، بچوں کے اساتذہ اوردوستوں سے بھی قریبی تعلق رکھا ہے ۔ رشتے دار اورپڑوسی تو تھے ہی آیا سے لے کر فوجی اور سول افسران کی بیگمات تک سب ان کے حلقے میں شامل ہیں۔
پہلے خواتین کی تمام این جی اوز میں سر گرم رہیں ۔ پھر جب دین کا گہرا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو تقریباً تمام دینی جماعتوں سے تعلق ، ہر نیک کام میں شرکت رہی اپنے گھر کے دروازے دینی ، اصلاحی اجتماعات کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے ۔ ایک دن کے یا چند گھنٹوں کے نوٹس پر بھی پروگرام بنا کر سب کو اکٹھا کر لیتیں۔
دینی، علمی شخصیات کی محبت ہمیشہ تلاش کرتی رہیں ۔(خواہ وہ عمر میں چھوٹی ہی ہوں ) ایف جے ہاسٹل میں ڈاکٹر اختر حیات اورڈاکٹر کوثر فردوس سے ملاقاتیں ، ڈاکٹر ام کلثوم کے دروس میں شرکت ، بنت الاسلام صاحبہ سے خصوصی ملاقات ، جس میں انہوںنے کہا کہ میں آپ کو اجازت دیتی ہوں آپ مضا مین لکھیں تو میری کتابوں سے استفادہ کرلیں ۔ مریم جمیلہ صاحبہ سے کوشش کر کے ڈھونڈ کے ان کے گھر پہنچیں اور ان کے خیالات سے مستفید ہوئیں ۔مولانا مودودیؒ کی منجھلی بیٹی اسما صاحبہ سے خصوصی دوستی اور محبت کا تعلق رہا ۔آپا نیئر بانو صاحبہ ، بلقیس صوفی صاحبہ اور دیگر علمی دینی شخصیات سے بھی تعلق رہا ۔ آپا نثار فاطمہ نے خواتین کی تنظیم بنائی تو ان سے رابطے میں رہیں اور جب اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے خاتون رکن کے نام پر غور ہو رہا تھا تو نثار فاطمہ صاحبہ کا نام دیا ۔ ان کے علاوہ بھی اہل قلم ، اہل علم لوگوں سے استفادہ کیا اور بزم اقبال میں بھی سر گرم رہیں۔
کتابیں خریدنا اور بانٹنا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ۔ خود بھی پڑھتیں اور ہر وقت کتابیں ساتھ ہوتیں ۔ ملنے والے ، مریض ، رشتہ دار ، سفر کے ساتھی ، سب کو دیتی رہیں ۔ شادیوں پر ان کا مخصوص تحفہ تفہیم القرآن کا سیٹ اور اسوہ حسنہ رہا۔
جہلم میںمختلف دینی حلقوں کے زیر اثرانہیں ترجمہ تفسیر قرآن کے کئی حلقے جاری کرنے کا موقع ملا ۔
خدمت خلق
قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد جب خاندان کی ایک عمارت ’المرکز ‘ کے نام پر اس کام کے لیے وقف کی گئی تو شوہر کے ساتھ انسانیت کی خدمت اور اصلاح معاشرہ ، تعمیر معاشرہ کے کام میں لگ گئیں اور خواتین کے شعبے کو سنبھال لیا جبکہ دور دور تک ان جیسی مصروف کو الیفائڈ گائنی کالوجسٹ موجود نہیں تھیں ۔ سول ڈیفنس کی چیف وارڈن کی حیثیت سے سکولوںمیں بچیوںکو ٹریننگ کا انتظام کیا ۔ پاک بھارت جنگوں میں مہینوںبعد تک متاثرین کی امداد کے لیے کام کرتی رہیں ، اسی طرح زلزلہ،سیلاب اوردیگر آفات میں تن من دھن سے کام کیا ۔
سماعت سے محروم بچوں کے لیے ایک کمرے سے سکول کا آغاز کیا اور بالآخر ان کے لیے ایک کھلی جگہ پر بڑی درس گاہ کے قیام تک کوشاں رہیں ۔ ان کی دلجوئی کرنا ، ان کے پروگرام کروانا ، حوصلہ افزائی کے لیے بھی وقت نکالتی رہیں۔
’’ ورک اینڈارن سنٹر ‘‘کے ذریعے مستحق خواتین کے لیے روز گار کا بندو بست کرنا ، ایم سی ایچ سنٹر کے ذریعے بچوں کے صحت کے مقابلے ، مائوں کی تربیت ، مستحق خواتین کی ٹریننگ ہوتی رہی ، غرض جہاں بھی خدمت خلق کا کام تھا وہاں پیش پیش رہیں پنجاب حکومت کی طرف سے بھی خدمت خلق کے کاموں میں انہیں بورڈز میں شامل کیا گیا اور متعدد ایوارڈز بھی دیے گئے ، گو وہ صلے اور ستائش سے بالا ہو کر ، خلوص نیت سے کام کرتی رہیں۔
ایدھی سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا تو پورے علاقے میں انہیں ایدھی سرکل کی ذمہ داری دی گئی جو وہ بیماری آنے سے پہلے جانفشانی سے نبھاتی رہیں۔
قیام پاکستان کی تحریک کا قریب سے مشاہدہ کرنے اور عملاً قربانی دینے کے نتیجے میں نظریہ پاکستان سے محبت ان کی رگ رگ میں بسی صرف اپنے لیے جینا اُن کا مقصد کبھی نہ رہا ۔ ہمیشہ پاکستان کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں رہیں ۔ جہاں کوئی بات نظریہ پاکستان کے خلاف دیکھی تواصلاح کی کوشش ضرور کی اس کے لیے قلم سے گفتگو سے اور متعلقہ افراد سے ملاقاتوں تک تمام ذرائع استعمال کیے ۔
جب شہر کے لوگوں نے لیڈی کونسلر شپ کے لیے مجبور کیا تو شرط رکھی کہ ان کی سیٹ مردوں سے فاصلے پر علیحدہ ہو گی اور وہ ہسپتال کے اوقات میں وقت نہیں دیں گی تاکہ مریضوں کو تکلیف نہ ہو ۔ کونسل کے اجلاس میں شرکت سے پہلے ہسپتال سے آکر ، عملی تیاری میں لگ جاتیں ۔
خدمت خلق
لوگوں کے مسائل جاننا( انفرادی اور اجتماعی) علما و دانشوروں سے ملاقاتیں ، مشورے کرنا جس کے لیے نوٹس تیار کرتیں ۔ اجلاس کے دوران بھی مسلسل لکھتی رہتیں اوراپنی رائے اتنے ٹھوس طریقے سے رکھتیں کہ فوراً منظور کرلی جاتی یہ وہ وقت تھا جب ضلع میں ایک لیڈی کونسلر ، صوبے میں چند ( غالباً دس ) ممبر تھیں ۔ چیدہ چیدہ خواتین کو اس ذمہ داری کے لیے چُنا گیا تھا ۔ ممبرز کو تنخواہ نہیں ملتی تھی ۔ مختصر سا ٹی اے ڈی اے ملتا تھا جو بس سفر کے اخراجات کو ہی پورا کرتا جب کہ اس وقت کفالت کی ذمہ داری تنہا ان کے کندھوں پر تھی ، مگر ایک قومی ذمہ داری سمجھ کر بڑے جذبے سے اس فرض کو نبھایا لوگوں کی خدمت کے نتیجے میں بہت عزت محبت اور ڈھیروں دعائیں ملتی رہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین۔
اپنی نرم طبیعت کے باوجود امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے حتی الامکان کوشش کرتی رہیں کئی ملکوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا بہت سی بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کی ۔ تعلیم کی غرض سے ، مشاہدہ کے لیے بھی اور پیغام پہنچانے کے لیے بھی ہرموقع پر ان کی کوشش ہوتی کہ ملک و قوم کی صحیح نمائندگی ہو، اور دوسری قوموں کے مثبت پہلوئوں کے مشاہدے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا یا جائے ۔خصوصاً جنوبی کوریا کی تحریک سمائول اندونگ کی اس بات نے متاثر کیا کہ انہوں نے ترقی کے لیے کچھ اخلاقی قدروں کو لازمی قرار دیا اور انہیں اپنے ملک میں رائج کیا۔
ملکی تعلیمی اداروں ، اساتذہ کی تربیت کے لیے کوشاں رہیں اور غیر ملکی یونیورسٹی میں بھی پاکستان کے موقف ، اسلام میں خواتین کے حقوق اور کشمیر کے لیے بھرپور انداز میں بات کی۔
انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے تو پہلے بھی سر شار تھیں ، جب زندگی کی عین بہار میں بظاہر غم کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑا تو اللہ کی رضا پر لبیک کہتےہوئے اللہ کے سہارے کو مضبوطی سے تھام لیا ، دین کو سمجھنے پہچاننے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور اس تعلق نے ان کی شخصیت میں مضبوطی دل میں گداز پیدا کیا ، سوچ کو ایسا مثبت رُخ دیا کہ اللہ نے اُن کے ذریعے بہت سے انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں عطا کیں ۔ پھول کی طرح ہر محفل میں ہر کام میں خوشبو بکھیرتی رہیں محبت بانٹتی رہیں ۔ دین کی محبت ، پاکستان کی محبت تخلیق پاکستان اور تعمیر پاکستان کے لیے کام کرنےوالوں سے عقیدت اور اس کے نتیجے میں بے شمار لوگوں کی دعائوں اور محبتوں میں حصہ دار ہیں ۔
اللہ ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے آمین۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x