ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انسانیت اس قعرِ مذلت میں کیسے گری – بتول نومبر ۲۰۲۲

ہم جنس پرستی اور ہم جنس شادی، چند حقائق

کائنات میں موجود تمام جاندار اشیامیں فطرت نے نر اور مادہ کا فرق بقائے نوع اور تناسل (reproduction)کے لیے رکھا ہے۔ دونوں کی یکجائی سے ان کی نسل چلتی ہے اور اسی مقصدکے لیے ان کے درمیان کشش رکھی گئی ہے۔ فطرت کے انہی مقاصد کو پورا کرنےکے لیے انسانوں کے درمیان خاندان کا ادارہ وجود میں لایا گیا جو نکاح کے ذریعے شوہر اور بیوی میں باہم رفاقت و تسکین اور اولاد کی پیدائش، پرورش اور تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ انسان نے اپنے ارادے و اختیار کی آزادی کی بنا پر زندگی کے جن مختلف رویوں میں راہ فطرت سے انحراف کیا، اس میں جنسی خواہش کی تسکین کا انحراف بھی شامل رہا۔ البتہ ان رویوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ مذہبی اور معاشرتی حوالوں سے مغرب اور دیگر علاقوں میں اسے 19ویں صدی تک ممنوع اور قابل سزا جرم بھی تصور کیا گیا۔
بیسویں صدی کے وسط سے ہم جنس پرستی کی تحریک اجتماعی طور پر مضبوط ہونا شروع ہوئی اور بتدریج پیش قدمی کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے آغاز میں ہم جنس شادی کے آغاز پرمنتج ہوئی اور آج 33ممالک میں ایسی شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کر کے مختلف معاشروں میں رائج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس سلسلے میں غیر معمولی قوانین ، پا لیسیا ں ، رویے، اصطلاحات اور اقدامات دنیا کے منظر نامے پر ابھرے ہیں۔ مخالف جنس کے ساتھ فطری اورروایتی طریقہ زوجیت کے برخلاف ہم جنس تعلقات و شادی کو ایک عموم کے طور پر دنیا میں نافذ کرنےکے لیے ہمہ جہتی طریقے اختیار کیے جار ہے ہیں۔ ان رویوں اور طرز عمل کو’’انسانی حقوق‘‘ ’’شہری حقوق‘‘، ’’خواتین کے حقوق‘‘ اور’’مساوات ‘‘ کے لبادے میں آگے بڑھایا گیا ہے۔ فلسفیانہ بنیادوں اور قانونی کوششوں کے ساتھ ساتھ افراد کی ذہن سازی کے لیے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں، فلم ، ڈرامہ ، ناولز حتی کہ بچوں کے کارٹون پروگرام اور کرداروں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں ہم جنس تعلقات کی موجودگی ، ناپسندیدگی اور بیخ کنی کی کوششوں سے لے کر اسے ایک معاشرتی رویے کے طور پر تسلیم کر لیا جانا، اس کے خلاف رویوں اور قوانین کا خاتمہ ، اس کے تحفظ اور فروغ کی کوششیں ، اور اسے ایک جوڑے کی حیثیت میں (Same-sex Union)اور ایک شادی شدہ جوڑے کی حیثیت میں (same-sex Marriage)قانوناً تسلیم اور رائج کرنا ۔ اور ان تمام حقوق سے بہرہ مند کرنا جو ایک فطری اور روایتی مختلف جنس شادی شدہ جوڑے کا استحقاق ہے،یہ ایک ایسے سفر کی داستان ہے جس کے چند نمایاں خدوخال اور سنگ ِمیل ہی اس مضمون میں بیان کیے جا سکتے ہیں ۔
ہم جنس پرستی کا تاریخی پس منظر
مغربی ذرائع کے مطابق ہم جنس تعلقات تمام قدیم تہذیبوں میں پائے جاتے تھے جن میں یونان، روم، فارس، جاپان، چین اور یورپی اور امریکی نوآبادیاتی مقامی آبادیاں شامل کی جاتی رہیں۔ یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ یونان اور اس کے بعد کی تمام تہذیبوں میں ہم جنس پرستی کی موجودگی کو اس کے جواز اور ہر معاشرے میں اسے تسلیم کرنے اور روا رکھے جانے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ مگر یہ ذرائع تاریخی پس منظر میں اس سے بھی قدیم ترین شاندار تہذیب (میسو پو ٹیمیا Mesopotamia) ،2000سے 8000بر س قبل مسیح کا ذکر نہیں کرتے، جو سمیرین ، اسیرین، اکیڈین اور بابیلونینن تہذیبوں کے مختلف ادوار پر مشتمل تھی۔ جہاںتقریباً2500برس قبل مسیح میں’’ار‘‘کے مقام پر پید

ہونے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام اپنا وطن چھوڑ کر نکلے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کو اپنا مسکن بنایا اور حضرت لوط علیہ السلام کو شرق اردن (سدوم، عمورہ اور دیگر شہروں) کے علاقے میں آباد کیا اور یہیں وہ قوم بستی تھی جو دیگر غیر اخلاقی بے راہ رویوں کے ساتھ ہم جنس پرستی میں مبتلا تھی۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں تنبیہ کی:
’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ، کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا، تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو‘‘۔ (الاعراف81-80:7)
اور پھر حضرت لوط علیہ السلام کی طرف سے اصلاح کی تمام کوششوں کی ناکامی اور فرشتوں کی آمد پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر ایسا عذاب بھیجا جس نے ان کی بستی کو الٹ پلٹ کر تباہ کر دیا۔ قرآن میں بتایا گیا:
’’پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں ہے‘‘۔(ھود 83-82:11)
اس عذاب رسیدہ بستی کا نام و نشان دنیا سے مٹ گیا اور آج وہاں بحیرہ مردار یا بحیرہ لوط ہے جو سطح سمندر سے 1425 فٹ نیچے ہے اور اس میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ وہاں زندگی کے آثار معدوم ہیں۔ اس کے اردگرد گندھک، تارکول اور قدرتی گیس کے ذخائر بجلی گرنے اور زلزلے کا لاوہ پھٹ پڑنے کے آثار دکھاتے ہیں۔ تورات اور بائیبل میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم، جس کا صدر مقام سدوم (sodom)تھا اور عمورہ (Gomarrah)،پر عذاب کا بھی بیان ہے اور قوم لوط علیہ السلام کے عمل کو قابل سزا جرم بھی قرار دیا گیا ہے۔
مغرب کی جدید تاریخ کو دیکھا جائے تو قرون وسطیٰ (Dark ages/Middle ages)نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اور روشن خیالی (Enlightenment era)کے تمام ادوار میں ہم جنس پرستی سے متعلق یہودیت اور عیسائیت کے تحت ان قوانین کا طلاق ہوتا تھا اور حضرت لوط علیہ السلام کی عذاب زدہ بستی سدوم کے نام کی مناسبت سے Sodomy Lawsکے تحت ہم جنس تعلق پر سزائے موت تھی۔ 18ویں اور19ویں صدی میں ہم جنس پرستی پر مبنی رویےّ حتیٰ کہ مردوں اور عورتوں کا لباس و دیگر امور میں مشابہت اختیار کرنا بھی قابل سزا اور معاشرتی طور پر ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ انقلاب فرانس کے بعد کیتھولک ممالک میں سدومیت (ہم جنس پرستی) کے خلاف قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ 1791میں فرانس وہ پہلی ریاست تھی جس نے ان قوانین کا خاتمہ کیا۔ بعد ازاں رفتہ رفتہ دیگر یورپی ممالک میں ان قوانین کا خاتمہ ہونے لگا۔ اگرچہ یہ عمل تقریباً ڈیڑھ صدی پر مشتمل تھا کیونکہ انگلینڈ ، جرمنی اور دیگر کئی ممالک میں19ویں صدی کے اختتام تک ہم جنس پرستی پر سزائے موت، قید اور دیگر سزائیں موجود رہیں۔ 20ویں صدی کے وسط میں gaysکی اجتماعی انجمن سازی ، مزاحمتی تحریکوں اور قوانین کی منسوخی کے مطالبات کے نتیجے میں امریکہ اور مختلف یورپی ممالک میں Gay Rights کے نام سے قانونی اور معاشرتی تحفظ کی جدوجہد شروع ہوگئی۔
مغرب کے مخصوص پس منظر میں 20ویں صدی کے وسط میں جب آزادی اور مساوات کی تحریک نے زور پکڑا تو 1960سے1970کی دہائی میں پہلے امریکہ میں جنسی انقلاب وقوع پذیر ہؤا جو جلد ہی دیگر’’ترقی یافتہ‘‘ اقوام میںپھیل گیا۔ اس تحریک و انقلاب نے مرد اور عورت کے درمیان شادی ، ازواج کے درمیان جنسی تعلق ، خاندانی ڈھانچے اور اس سے متعلق رویّوں کے حوالے سے قائم شدہ روایتی تصورات کو چیلنج کیا۔ نتیجتاً ’’محض شادی کے اندر جنسی تعلقات‘‘اور ’’یک زوجیت کارشتہ‘‘ غیر مطلوب رویے قرار دیے گئے۔ اور شادی سے پہلے اور بعد آزادانہ تعلقات’’(free Sex)ہم جنسیت (homosexuality)، فحش نگاری‘‘ (pornography)، مانع حمل ذرائع (contraceptives) اور اسقاط حمل(abortion)کو فلسفیانہ، سائنسی اور قانونی بنیادیں فراہم کی

گئیں۔
نئی اصطلاحات کیسے اور کیوں وضع کی گئیں
20ویں صدی کی آخری دہائی میں ہم جنس پرستی کو جبلت اور طبیعت کا میلان قرار دیتے ہوئے ایک عمل کے بجائے ایک رویہّ قرار دیا گیا اور اس کے لیے جنسی رجحان ((Sexual Orientation کی اصطلاح وضع کی گئی۔ نفسیاتی ماہرین نے جنسی رجحان کی تعریف اس طرح کی کہ’’یہ ایک پائیدار جذباتی ، رومانوی یا جنسی کشش کا نام ہے جوعورتوں کے مابین، مردوں کے مابین، مردوں اور عورتوں کی طرف یا اپنی جنس مخالف کی طرف ہو سکتی ہے‘‘۔بعد ازاں کسی بھی طرف ایسا میلان نہ ہونا(asexual)بھی جنسی رجحان کی ایک جہت قرار پائی ،اس کے علاوہ جانوروں اور دیگر اشیاکی طرف بھی ایسے رجحان کی نشاندہی کی گئی ۔
ہم جنس پرست افراد جو پہلے صرف ہوموسیکشوئل کہلاتے تھے، ان کی وسیع نمائندگی کے لیے پہلے LGB، پھر LGBT، LGBTI،LGBTIQ کی اصطلاحات استعمال کی جانے لگیں۔ LGBT کی بنیادی اصطلاح Lesbian(عورت اور عورت کے تعلق)، Gays(مرد اور مرد کے تعلق)،Bi-Sexual (دونوں جنس سے تعلق رکھنے والے ) اور Transgender(اپنے شخصی میلان کی بناپر مرد یا عورت کی جنس کواختیار کرنے والا فرد جو اپنی پیدائشی طور پر اعلان کردہ جنس سے غیر مطمئن ہو) کا مخفف ہے۔اس میں Intersex( جنسی ابہام یعنی جنسی طور پر غیر متعین صفات کے ساتھ پیدا ہونے والا فرد) کا اضافہ بعد میں کیا گیا اور پھرQکا اضافہ Queerیا Questioning کے لیے کیا گیا۔ یعنی اس میں مزید وسعت کی بھی گنجائش ہے اور یہ کہ کوئی فرد ابھی اپنی جنس کے بارےمیں مطمئن نہیں ہے اور ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہے۔ خواتین کے حقوق کے پس منظر میں جنس(sex)اور صنف(gender)میں تفریق کے مباحث میں جنس کو کسی فرد کی پیدائش کے وقت حیاتیاتی (Biological) قرار دیا گیا اور صنف کو ایک کیفیت یا رویّے کا نام دیا گیا جو ایک فرد خود اپنے بارےمیں محسوس کرتا ہے یا معاشرہ اس سے کسی خاص کردار کی توقع رکھتا ہے۔
اس تفریق کو جنسی رویّوں کے ساتھ ملا کر جنسی رجحان (Sexual Orientation)کے ساتھ صنفی شناخت(Gender Identity)اور صنفی اظہار (Gender Expression)کی اصطلاحات بھی سامنے آئیں جس کا مجموعہ SOGIE ہے (Sexual Orientation, and Gender Identity and Expression)اور اس تصور نےٹرانس جینڈرافراد کو نہ صرف سماجی طور پر اور قانوناً تسلیم کرنے بلکہ سائنسی اور میڈیکل بنیادوں پر ان کی خود ساختہ صنفی شناخت کے مطابق مرد سے عورت اور عورت سے مرد بننےکے لیے تمام سہولیات فراہم کر دیں۔
بین الاقوامی قوانین برائے انسانی حقوق میں شمولیت:
اقوام متحدہ نے 1945ء میں اپنے قیام کے بعد1946ء میں اپنا چارٹر اور پھر1948ء میں عالمی منشور حقوق انسانی(The Universal Declaration of Human Rights – UDHR)پیش کیا,،جس کی 30 شقوں کے ذریعے فرد کے بنیادی حق زندگی ، عدل و انصاف اور مساوات کے ساتھ معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یو این چارٹر اور حقوق انسانی کے عالمی منشور میں تمام حقوق کو عالمگیر اور ناقابل تنسیخ قرار دیا گیا اور یہ دنیا میں تمام مرد و خواتین کے لیے لازمی قرار دیےگئے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے بھی انہیں اپنے آئین اور قوانین کا حصہ بنایا۔ آئین پاکستان1973،میں بھی ان تمام بنیادی حقوق کی ضمانت اور آزادیوں کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی منشور کے بعداقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق سے متعلق مختلف معاہدات اور کنونشن بنتے رہے اور ممبر ممالک ان کی تائید اور نفاذ کرتے رہے،لیکن ان معاہدات میں کسی بھی سطح پر ہم جنسیت کو انسانی حقوق کا درجہ حاصل نہیں ہؤا۔
خواتین میں ہم جنسیت کے حق کی جدوجہد کی موثر کوششوں کے نتیجے میں اس تحریک نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق کی عالمی تحریک میں نفوذ حاصل کیا اور خواتین کے لیے بنیادی حقوق برائے تعلیم، صحت ، ملازمت کے مواقع، تشدد کا خاتمہ اور دیگر کے ساتھ خواتین کی چوتھی عالمی کانفرنس بیجنگ میں منعقدہ 1995ءمیں’’جنسی

رجحان‘‘ کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے ہم جنس پرستی اور دیگر جنسی حقوق کو تسلیم کر لیا گیا۔
بعد ازاں اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور انسانی حقوق کی کونسل کے تحت مختلف فورمز پر2011 ء سے2016ءتک’’جنسی رجحان‘‘ ، ’’صنفی شناخت‘‘ اور LGBTحقوق کی تائید میں قرار دادیں، اعلامیے اور بیانات پیش اور منظور ہوتے رہے۔ اور اس تمام پیش رفت کے دوران 2011ء میں انسانی حقوق کی کونسل میں ان حقوق کو بطور انسانی حقوق تسلیم کرنے کی قرار داد منظور کر لی گئی، جو کہ اس سلسلے میں ان افراد کےحقوق کے تحفظ اور ہم جنس شادیوں کا راستہ ہموار کرنے میں اہم ترین فیصلہ تھا۔ اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کے متعدد بین الاقوامی اداروں نے ان افر اد کے خلاف امتیاز اور تشدد ختم کرنے کے لیےمشترکہ قرارداد منظور کی جس پر ممبر ممالک سے عمل درآمد کے مطالبے کے نتیجے میں 96ممبر ممالک نے اس کی تائید کی۔
ان اقدامات کو آگے بڑھاتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں ان افراد کے حقوق کی خلاف ورزی، ان کے خلاف ہونے والے امتیازات، مبنی بر نفرت جرائم اور ہم جنس پرستوںکے لیے قانونی سزاوں کا جائزہ لیا گیا۔ اور ممبر ممالک سے ان کے حقوق کی حفاظت و ضمانت کے لیے قوانین تشکیل کرنے پر زور دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سےان کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کئے جانے کے نتائج میں عالمی اداروں کی حمایت کے ساتھ اب ہم جنسیت کو ممنوع یا ناروا رویےّ کے بجائے سماجی قبولیت کا درجہ حاصل ہونا، ہم جنسیت کے خلاف قوانین کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان کی تنسیخ کا مطالبہ، اپنے خود ساختہ احساسات کی بنیاد پر جنسی رجحان طے کرنا اور اس کی ترویج کے لیے تبدیلی جنس کے لیے طبی سہولیات کا میسر کرنا، ہم جنس زدگان کی علانیہ فخریہ پریڈز اور ہم جنس شادیوں کو قانونی تحفظ دینا شامل ہے۔
قانونی راستے کی ہمواری:
ہم جنس شادیوں کا قانونی راستہ ہموار کرنے کے لیے مختلف طریقے اور لائحہ عمل اختیار کیے گئے۔
٭انسانی حق کو بنیاد بنایا گیا۔ یعنی کوئی بھی انسان اپنی آزادانہ رائے سے، اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے۔ اور یوں مختلف ممالک کے آئین و قوانین کے تحت’’شادی کاحق‘‘، ’’خاندان بنانے کا حق‘‘،’’نجی زندگی میں خلوت یا رازداری (Privacy)کا حق‘‘وغیرہ کو دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قوانین کی تشریح کی گئی۔
٭بین الاقوامی معاہدات ، ملکی آئین اور قوانین میں موجود اصطلاحات کی مختلف تشریحات کی گئیں۔ جس میں مساوات (Equality)، مساوی حقوق(Equal rights)برابر کی شادیاں (Equal marriages) شادی میں مساوات (Marriage equality)کو بنیاد بتاتے ہوئے قوانین میں ترامیم کی گئی۔
٭1969ءمیں نیو یارک میں ہونے والے سٹون وال فسادات کی یادگار کے طور پر جون کے مہینے کو Gay Pride Paradeکے نام سے منانے کا فیصلہ کیا گیا یعنی معاشرہ اور قانون ’’گیز‘‘کو عزت نہ بھی دیں لیکن وہ اپنے اوپرفخر کرتے ہیں۔پھر1987ء میں واشنگٹن میں ہم جنس پرستوں کی دوسری مارچ میں پہلی دفعہ ہم جنس شادی کو قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کی یاد میں اکتوبر کو ان افرادکے لیے جشن کا مہینہ قراردیا گیا۔ اب یہ دونوں مہینے دنیا بھر میں اس گروہ کی بھر پور شرکت سے منائے جاتے ہیں۔
٭عوامی آراکے حصول کے ذریعے بھی ان قوانین میں تبدیلیوں اور پالیسیوں پر عمل درآمد کو ممکن بنایا گیا۔ کیونکہ مغربی جمہوریتوں کے تحت افراد کی رائے قانون سازی میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے مسلسل پبلک پولز اور ریفرنڈم بھی کروائے جاتے ہیں۔
٭طبی اور سماجی علوم کےماہرین کے ذریعے بھی معاشرے میں ان افراد کی قانوناً شادیوںکے لیے فکری، تحقیقی اور طبی بنیادیں فراہم کی گئیں۔ ایسے افراد کو قانونی طور پر جوڑے تسلیم نہ کیے جانے کی بنیاد میڈیکل سہولیات کی عدم دستیابی ، ہیلتھ پالیسیزمیں عدم شرکت اور نتیجتاً صحت اور مالی مسائل کو قرار دیا گیا۔ سماجی ماہرین نے تحقیقی مقالہ جات کے ذریعےان افراد کو معاشرے میں عدم تحفظ اور اقلیت ہونے کے

حوالے سےان کو درپیش ذہنی و نفسیاتی مسائل کو اجاگر کیا اور ایسی تحقیقات کے حوالے دیے جن کے ذریعے ہم جنس شادی شدہ جوڑے، مخالف جنس جوڑوں کی مانند خوشحالی گھرانوں کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ طب کے مختلف شعبوں میں ہونے والی ترقی کے ذریعے جنس میں تبدیلی کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ان کوششوں کو تیز تر کیا اور مختلف ملکوں میں ہم جنس شادی پر موجود پابندی کو ختم کرنے کے مطالبات کیےگئے۔
٭ عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے قوانین میں تبدیلی: اعلی عدالتوں کے کئی اہم فیصلوں کے ذریعے کئی ممالک میں ہم جنس تعلقات یا ہم جنس شادی کو قانونی درجہ حاصل ہؤا۔ چند اہم فیصلوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
2015ءمیں امریکہ کی سپریم کورٹ نے ڈیفنس آف میرج ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا ۔(اس میرج ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت ہم جنس شادی کو قانونی تصور نہیں کرتی تھی)۔ اس ایک فیصلے کے نتیجے میں امریکہ کی 50ریاستوں میں ہم جنس شادی پر پابندی ختم ہوگئی۔
2019ءمیں آسٹریا کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کو سول یونین کے تحت رہنے کے قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہم جنس شادی کو قانونی درجہ دے دیا تاکہ ایسے جوڑوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے امتیاز کو ختم کیا جائے۔
2018ءمیں انڈیا کی سپریم کورٹ نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377کو منسوخ کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے نکال کر ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلہ دیا ،جسے 10اکتوبر2018ءکو انسانی حقوق کے عالمی منشور کی 70ویں سالگرہ پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے سراہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمیں ان کےحقوق کے حوالے سے غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن ہمیں اپنی جدوجہد مزید تیز کرنا ہوگی یہاں تک کہ ہر فرد اپنی آزاد مرضی سے اپنی زندگی گزار سکے۔
٭ تنظیموں کے ذریعے: ان حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں عالمی ،علاقائی اور ملکی سطح پر بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جوکہ ایک پہلو سے ان کمیونٹیز کے تحفظ و فروغ اور سماجی، قانونی ، طبی ، معاشی اور سیاسی حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں اور دوسرے پہلو سے مختلف اقوام اور اقوام متحدہ کے درمیان رابطوں اور اقوام کی نگرانی کا کام بھی کر رہی ہیں۔
عالمی سطح پر ایک بہت بڑی تنظیم ILGA worldان افراد ہی کے نام پر قائم ہے۔1978ءمیں قائم ہونے والی یہ تنظیم اقوام متحدہ کی اکنامک اور سوشل کونسل (ECOSOC)میں رجسٹر ہے، جو دنیا کے 160 ممالک اور علاقوں سے تعلق رکھنے والی 1800تنظیموں کی فیڈریشن ہے۔ اس تنظیم کا ایشیائی مرکز بنکاک ، تھائی لینڈ میں ہے ، جوایشیاکے بیشتر ممالک کی تنظیموں کے ساتھ ان افراد کے حقوق کے تحفظ اور ترویج میں مشغول ہے۔ ایک اور اہم این جی اوجو اقوام متحدہ میں ECOSOCکی حامل ہے، دنیا کے ماہرین قانون حضرات و خواتین پر مشتمل ہے اور 1952ءسے انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے حصول کے لیے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کا نام International Commission of Jurists(ICJ) ہے۔یہ بھی مختلف ممالک میں LGBT حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیش قدمیوں، رکاوٹوں و دیگر کے بارے اقوام متحدہ میں رپورٹ پیش کرتی ہیں۔ اسی ادارے نے پاکستان میں 2018ء میں نافذ العمل ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ کو سراہتے ہوئے اسے ایک غیر معمولی اہم پیش رفت قرار دیا ہے ۔اسی طرز پر اقوام متحدہ کے موقف کو آگے بڑھانے اور ان تک رپورٹس پہنچانے کا خصوصی کام ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کا دفتر (OHRHR)کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے متعدد انٹرنیشنل ادارے مثلاًیونیسکو،یونیسیف،WHO، ILO اوردیگر بھی اپنے تمام پروگرامات میں اس کمیونٹی کےحقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔
دنیا میں ہم جنس شادی کی قانونی صورتحال :
دور جدید میں ہم جنس شادی کی تحریک 1980ءسے1990ءکی دہائی میں شروع ہوئی۔ LGB افرادکے لیے ایڈز کا گھمبیر مسئلہ اور

1986ء میں امریکہ کی سپریم کورٹ کا Sodomy lawsکو قائم رکھنے کے فیصلے نے ایک بڑے احتجاج کو جنم دیا اور1987ءمیں واشنگٹن میں اس کمیونٹی کی طرف سے دوسری بڑی مارچ کا انعقاد کیا گیا (پہلی مارچ 1979ء میںLGBکے حقوق کے لیے ہوئی تھی) جس میں دیگر مطالبات کے ساتھ امریکہ میں ہم جنس شادی کے حق میں مطالبہ کیا گیا۔
اس سے قبل ہم جنس شادی کا پہلا سرٹیفکیٹ امریکہ کی ریاست منیسوٹا کی بلو اَرتھ کاؤنٹی1871ءمیںجاری کر چکی تھی۔ مختلف جنس (Heterosexual)اور ہم جنس(homosexual)شادیوںمیں مساوات کے اصول پر پہلا قانون 2000ءمیں نیدر لینڈ میں پاس ہو کر اپریل2021ءمیںنافذ العمل ہؤا۔
ان مطالبات کے نتیجے میںبہت سے ممالک میں’’دائمی رفاقت کے قوانین‘‘ (Partnership acts) منظور کیے گئے اور اجازت دی گئی کہ جس طرح مختلف جنس کے افراد رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک جوڑے کی شکل میں رہتے اور مختلف سماجی ، معاشی اور تمدنی حقوق سے بہرہ مند ہوتے ہیں اسی طرح ہم جنسیت پر عامل افراد بھی زندگی کے ساتھی کی حیثیت سے خود کو رجسٹر کروا کر ملکیت ، وراثت ، امیگریشن ، ٹیکس اور سوشل سیکیورٹی وغیرہ کے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔
چنانچہ 2001ء میں نیدر لینڈ سے شروع ہونے والی قانونی ہم جنس شادی 2022ءمیں 33ممالک میں قانوناً نافذ العمل ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ، ویلز، امریکہ ، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، مالٹا، کینیڈا، سپین، ڈنمارک، برازیل،ساؤتھ افریقہ، بلجیئم، ناروے، سویڈن ، میکسیکو، ارجنٹینا، آسٹریا، سوئٹز لینڈ و دیگر شامل ہیں۔ اس حوالے سے اعداد و شمار کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ہم جنس شادی کو قانوناً تسلیم کیے جانے کے ساتھ خاندانی زندگی سے جڑے کچھ اہم مسائل کا بھی سامنا تھا جس میں سب سے اہم ایسے خاندان یا گھرانے میں بچوں کی موجودگی کو ممکن بنانا تھا۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی ہم جنس شادی شدہ جوڑوںکے لیے بچوں کو گود لینے (Adoption) کے قوانین کی منظوری کی جدوجہد شروع ہوئی اور شادی کے قانونی جواز کے ساتھ گود لینےکی اجازت کو ملا کر ہی مکمل کامیابی تسلیم کیا گیا۔
بعد ازاں InvitroFertilization(IVF)(لیبارٹری میں نر اور مادہ خلیوںکا ملاپ) اور Surrogacy(کرائے پر رحم مادر کے حصول ) کے ذریعےتولیدی عمل کو بھی اولاد کے حصول کا ذریعے بنایا جا رہا ہے۔ مغرب میں چونکہ ان طریقوں میں قانونی جواز کو اصل سمجھا جاتا ہے اور ان کے جائز یا ناجائز ہونے، نسب کی فکر اور رحم کے رشتوں کی حرمت جیسے اصول و تصورات ناپید ہیں اس لیے وہ انسانی فطری نظام زوجیت اور تولیدی طریقوں میں مداخلت کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے اس پر نازاں ہیں اور تمام دنیا میں پھیلانے پر بضد ہیں۔
مسلم ممالک میں صورتحال
مذکورہ حقائق کے تناظر میں مسلم ممالک اور چند اہم مغربی و دیگر ممالک میں LGBTحقوق اور خصوصاً ہم جنس شادی کے حوالے سے ایک اجمالی سا خاکہ پیش کیا جارہاہے۔
مسلم ممالک میں مجموعی طور پر ہم جنسیت اور ہم جنس شادی غیر قانونی ہے ان ممالک میں الجیریا، مصر ، لیبیا، مراکش، سوڈان، تیونس، موریطانیہ ، لبنان، عمان، فلسطین، اردن ، شام، یمن، قطر، سعودی عرب، کویت ، متحدہ عرب امارات، بحرین ، ایران ، عراق، برونائی، انڈونیشیا ، ملائیشیا، بنگلہ دیش ، افغانستان، ترکی اور پاکستان نمایاں ہیں۔ البتہ انڈونیشیا اور ترکی میں ان افراد کےحقوق کو محدود طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن ہم جنس شادی غیر قانونی ہے۔ ان تمام ممالک کے فوجداری قوانین کے تحت ہم جنس تعلقات قابل سزا جرم ہے۔ یہ سزائیں عموماً 1سال سے 10 سال یا عمر قید تک بھی ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ مالی جرمانہ یا کوڑوں کی سزا بھی کچھ ممالک میں موجود ہے اور موت کی سزا بھی موجود ہے البتہ انڈونیشیا میں ہم جنس پرستی پر کوئی سزا موجود نہیں ہے۔
جن ممالک میں ہم جنسیت کی قانونی سزا ’’سزائے موت‘‘ہے ان میں ایران، سوڈان، سعودی عرب، یمن ، شام، عراق اور صومالیہ اور نائیجریا کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اگرچہ موریطانیہ، افغانستان ، پاکستان ، قطر اور متحدہ امارات میں بھی شریعہ لاءکے تحت سزائے موت دی جا سکتی

ہے، لیکن اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہؤا ہے۔ جنوبی سوڈان وہ واحد ملک ہے جہاں آئین میں ہم جنس شادی پر پابند ی ہے۔
اردن، ترکی ، انڈونیشیا، شام اور ایران میں ٹرانسجینڈر زکو قانونی یا طبی طور پر تبدیلی جنس کی اجازت دی گئی ہے ۔ البتہ انڈونیشیا اور ترکی میں یہ اجازتreassignment surgeryکے ساتھ مشروط ہے۔ ایران میں اس صورتحال کو صنفی شناخت کی بیماری تسلیم کرتے ہوئے نفسیاتی، طبی علاج کے مراحل سے گزارتے ہوئے ، اگر ضرورت ہو تو reassignment surgery کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر اسے قانونی شناخت حاصل ہوتی ہے۔ دیگر مسلم ممالک میں ٹرانسجینڈرز کو کسی قسم کی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
دیگر ممالک میں صورتحال
انڈیا میں 2018ءمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ہم جنس جوڑوں اورٹرانسجینڈر کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا البتہ ہم جنس قانونی شادی کے لیے کوشش جاری ہے ۔
اسرائیل میں ہم جنس شادی غیر قانونی ہے البتہ 2006ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے کینیڈا میں شادی کرنے والے اسرائیلی جوڑے کو اسرائیل میں رجسڑیشن کی اجازت دے دی ۔ جاپان کے آئین کے مطابق شادی ایک مرد اور ایک عورت کی باہم رضا مندی ، باہمی تعاون اور مساوی حقوق کی بنیادپر ہے ، ہم جنس شادی غیر قانونی ہے۔البتہ 2009ء میں وزارت انصاف نے ایسے غیر ملکی شہریوں کو جن کے ملک میں ہم جنس شادی قانونی حیثیت رکھتی ہو ، تسلیم کر لیا ہے۔ نیز جاپانی شہری ملک سے باہر جاکر ایسی شادی کرسکتے ہیں۔ چین میں شادی کے قانون میں وضاحت ہے کہ’’ ایک مرد اور ایک عورت‘‘ بنیادی اصول ہو گا ، مجموعی طور پر مختلف جنس شادی کو تحفظ حاصل ہے۔ ہم جنس شادی کے حق میں کانگریس پارٹی نے 2003ءمیں ترمیمی بل پیش کیا تھا لیکن 3000میں سے 30 ووٹ بھی حاصل نہ ہو سکے ۔ البتہ بیرون ملک سے ہم جنس جوڑے کو spousal ویزا دیا جاتا ہے لیکن ملازمت صرف ایک شخص کر سکتا ہے۔
آسڑیلیا میں1997ءسے ہی پورے ملک میں ان افراد کو تسلیم کرلیا گیاہےاور 2017ء تک مکمل طور پر ہم جنس شادی قانوناً رائج ہے۔ جنس کی تبدیلی رجسٹرکروانےکے لیے reassignment surgery کروانا ضروری ہے۔
کینیڈا میں چند صوبوں میں 2003ءاورپورے ملک میں 2005ء سے ہم جنس شادی قانونی ہے۔ ایک شخص اپنی جنس اور نام بغیر کسی طبی مداخلت کے تبدیل کر سکتاہے۔ روس میں 2020ء سے ہم جنس شادی پر آئین میں پابندی عائد کی گئی ہے۔
افریقہ اور ایشیاکے بہت سے غیر مسلم ممالک میں بھی ہم جنس شادی غیر قانونی ہے۔LGBT حقوق کی جدوجہد ، ان کا حصول اور ہم جنس شادی کے قانونی نفاذ کے پھیلاؤ سے دنیا کے طول و عرض میں افراد اورممالک اس کی زد میںآتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں 2018ء میں منظور اور نافذ ہونے والے ایکٹ کے ذریعے سے ابہامات پیدا کر کے اس ایجنڈے کو پاکستان کے مسلم معاشرے میں آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم جنسیت کے حوالے سے اسلام کاموقف بہت واضح ہے یعنی سختی سے مذمّت ، احتیاطی تدابیر کا اختیار کیا جانا اور ارتکاب پرسزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ دیگر تمام مذاہب بھی اصولی طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیںاور اسے انسانیت کے خلاف ایک جرم سمجھتے ہیں۔ البتہ یورپی ممالک میں اس کی شدت او ر قانونی مضبوط سہاروں کے باعث یہودی اور عیسائیوں کے مختلف فرقوں کی آرامیں نرمی سامنے آئی ہے۔ مذہبی طبقات کے ساتھ مغرب اور دیگر علاقوں میں خاندان کے تحفظ اور بہبود کے لیے کام کرنے والی فعال تنظیمیں بھی اس بات کی قائل ہیں کہ ان حقوق کا تسلیم کیا جانا کسی بھی خاندان اور سوسائٹی کاشیرازہ منتشر کرنے کا ذریعہ ہے ۔ چنانچہ ان حقوق کی ترویج اور قانونی طور پر تسلیم کرنے کی کوششوں کو روکنا بحیثیت مسلمان ، پاکستانی اور انسانی برادری کے فرد ہماری ذمہ داری ہے۔
٭٭٭

؎۱ ایم ایس ہیومن رائٹس لاء۔ڈائریکٹر ریسرچ، ویمن ایڈ ٹرسٹ پاکستان

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x