ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

فطرت کیا ہے – بتول نومبر ۲۰۲۲

فطرت سے مراد ساخت ہے،مگر جب ہم انسانی فطرت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ ساخت،صفات ہیں جو انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوں اور جو زمانے کے سردو گرم،ماحول کی ناسازگاری کے باوجود انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہوں۔
آئیے ذرا فقہا کے اقوال اور احادیث کے تناظر میں فطرت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
حدیثِ قدسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیاطین نے انہیں بہکا دیا‘‘۔(مسلم)
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد ملتِ اسلام ہے۔ (اغاثة اللھفان)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔(تفسیر القرآن العظیم)
امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی فطرت سے مراد اسلام ہے۔ (فتح القدیر)
فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے صاحب مصباح اللغات کے نزدیک فطرت کا معنیٰ طبیعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفت کہ ہر موجود اپنی پیدائش کے وقت جس پر ہو ہے۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فطرت نہیں بدلتی اور عمومی طور پر اس کے لیے بچھو کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔بجا ہے کہ بچھو کے ساتھ کیسی بھی نیکی کیوں نہ کر لی جائے،احسان عظیم ہی کیوں نہ کر دیا جائے،اس کی زندگی کو خطرے سے نکال کر اسے جتایا بھی نہ جائے مگر پھر بھی وہ اپنی خصلت سے باز نہیں آتا،اپنے محسن کی قدر نہیں کرتا،اپنے اندر کا زہر محسن کے اندر انڈیل دینے سے بھی باز نہیں آتا۔شیر درندہ ہے ،چیرنا پھاڑنا اس کی صفت ہے تو احسان شناسی اس کی فطرت ہے،لہٰذا وہ اپنے محسن پر حملہ آور نہیں ہوتا خواہ اس کے محسن کو باندھ کر اس کے آگے پھینک دیا جائے۔
اس سے پہلے کہ ہم فطرت کے بارے میں مزید بات کریں، ہمیں سمجھنا ہو گا انسان اور جانور کی فطرت میں تفاوت کو۔بے شک جانور بے اختیار مخلوق ہیں اور انہیں اپنی ساخت اور جبلت کے برخلاف بہکایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی بدی پر چلنے کے لیے ان کی ساخت میں کوئی شعور رکھا گیا ہے،لہٰذا وہ ایک طے شدہ ساخت اور جبلت کے تحت چلتے رہتے ہیں۔لہٰذا آزاد پنچھیوں مثلاً طوطے کو قید کر لیا جائے اور عرصہ دراز تک اس کے نخرے اٹھائے جائیں، اسے خود سے مانوس کر لیا جائے مگر موقع پاتے ہی وہ آزاد فضاؤں میں اڑتے ہوئے آپ کی عرصہ دراز کی ریاضتوں پر پانی پھیر جاتا ہے اب آپ اسے لاکھ احسان فراموش اور دغا باز کے القاب سے نوازیں وہ دو فٹ کے اس پنجرے میں اعلیٰ خوراک کے لیے بھی آنے کی غلطی نہیں کرتا کیونکہ آزادی ہی اس کی فطرت ہے ۔
جبکہ انسان کا معاملہ ان سے مختلف واقع ہوا ہے،یہ تو طے ہے کہ فطرت اسلام پر ہی انسان کو پیدا کیا گیا ہے،لہٰذااس کی جبلت بدی کی راہوں پر چلتے ہوئے بھی اسے اپنی جانب راغب کرتی رہتی ہےکیونکہ وہ جانور کی مانند اپنے طے شدہ راستے پر چلنے پر مجبور نہیں ہے،اسے ارادہ و اختیار،عقل و شعور سے نوازا گیا ہے اور نیکی اور بدی کی راہیں اس کے سامنے کھول دی گئی ہیں۔ اب،کبھی تو وہ فطرت کے دائرے میں رہتا ہے اور کبھی

جبکہ انسان کا معاملہ ان سے مختلف واقع ہوا ہے،یہ تو طے ہے کہ فطرت اسلام پر ہی انسان کو پیدا کیا گیا ہے،لہٰذااس کی جبلت بدی کی راہوں پر چلتے ہوئے بھی اسے اپنی جانب راغب کرتی رہتی ہےکیونکہ وہ جانور کی مانند اپنے طے شدہ راستے پر چلنے پر مجبور نہیں ہے،اسے ارادہ و اختیار،عقل و شعور سے نوازا گیا ہے اور نیکی اور بدی کی راہیں اس کے سامنے کھول دی گئی ہیں۔ اب،کبھی تو وہ فطرت کے دائرے میں رہتا ہے اور کبھی فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے بدی کا راستہ چن کر عازم سفر ہو جاتا ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جس طرح ایک چوپایہ مکمل اور صحیح سلامت بچہ جنتا ہے کیا اس میں کوئی کمی محسوس کرتے ہو؟پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:اللہ کی فطرت پر (قائم رہو) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا،اللہ کی پیدا کردہ (فطرت) میں کوئی تبدیلی نہ کرو، یہی سیدھا (حق) دین ہے۔(بخاری)
یہاں فطرت سے مراد اسلام ہے،یعنی ہر بچہ مسلمان یعنی اللہ کی ماننے والا ہوتا ہے اللہ کے طریقے پر چلنے والا ہوتا ہے اس کی جبلت میں اچھائی کی رغبت اور برائی سے نفرت رکھ دی گئی ہے،اس کی ساخت دین پر عمل کی متقاضی ہے۔اسی لیے اس کے اعضاء و جوارح نیکی پر عمل میں استعمال کیے جائیں تو اچھائی کے گواہ بنتے ہیں اور اگر انہیں،ان کی ساخت کے خلاف برائی کے فعل،جرم،گناہ کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ساخت کے خلاف کام لینے پر سراپائے احتجاج ہو جاتے ہیں اور بے شک،یہ روز حشر انسان کے خلاف گواہی دینے والے ہوں گے۔اگر ہم فطرت کے معانی عادت اور طریقہ کے بھی لیں تو بھی اسلام ہی انسان کی عادت اور طریقے میں رچا بسا ہے اگر وہ اسلام کے برخلاف عمل کرتا ہے تو دراصل اس عادت اور طریقے کی خلاف ورزی کرتا ہے جو فی الاصل اس کا خاصہ ہے۔حدیث کے اپنے الفاظ فطرت کے معانی اسلام بیان کر رہے ہیں،اگر فطرت سے مراد اسلام نہ ہوتا تو یہودیت،عیسائیت اور مجوسیت کے ساتھ اسلام کا بھی ذکر ہوتا۔ لہٰذا اللہ کی بنائی گئی ساخت،جبلت، عادت اور فطرت اچھائی ہے،برائی اور بری خصلت دراصل اس فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے جیسا کہ اقوام کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔
فطرت کو تقویت دینے کے ذرائع
زندگی کے ہر معاملے میں باطن سے فطرت انسان کی رہنما ہے اور خارج سے اس فطرت کو ابھارنے اور تقویت دینے کے لیے انبیاء رسول اور کتابیں بھیجی گئیں اس خارجی رہنمائی کی آخری صورت قرآن اور سنت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام نظام عالم فطرت کا پابند ہے۔ سورہ يٰس میں آتا ہے:
’’نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے،اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں‘‘۔
زمین،پہاڑ،نظام شمسی سب ایک طے شدہ قانون کے تحت چل رہا ہے اور یہ طے شدہ قانون ہی دراصل فطرت ہے،مگر انسان کو ارادہ و اختیار،عقل و شعور،تدبیر کے آپشن دے کر اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا،اور خلیفہ نائب ہوتا ہے اور نائب،اصل حکمران،اتھارٹی کے قوانین لاگو کروانے کے لیے ہوتا ہے،تمام نظام کائنات حضرت انسان کے تابع ہے،وہ ان سے جیسے چاہے مستفید ہو،تاہم نگاہ غوروفکر سے دیکھے تو فطرت سے باغی نہ ہو،اور نہیں تو اقوام عالم کی تاریخ پر نگاہ عبرت ، فطرت کی جانب موڑ دینے پر قدرت رکھتی ہے۔یاد رہے فطرت،بدی کی جانب رہنمائی نہیں کیا کرتی۔لہٰذا،فطرت کی آواز پر بلا جھجک لبیک کہہ دیا کیجئے۔ بھولیے نہیں کہ پانی فطرت کے تابع ہے،یہ خلیفہ ہے جو فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتتا ہے،نیابت کی ذمہ داری پر نا اہل اور باغی لوگ مقرر کر دیے جاتے ہیں،کھلم کھلا فطرت سے بغاوت کی جاتی ہے تو پانی،اس بغاوت کی تاب نہ لا کر سیلاب بن جایا کرتا ہے،اللہ کا غضب بن جایا کرتا ہے۔لہٰذاانسان کو چاہیے کہ فطرت سے لڑنا چھوڑ دے۔
فطرت عین اسلام ہے
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب آپ اپنے سونے کی جگہ (بستر) پر آئیں تو نماز کا سا وضو کر لیں، پھر دائیں کروٹ پر لیٹیں اور یوں دعا کریں:
’’اللہ! آپ کے ثواب کی امید میں اور آپ کے عذاب کے ڈر سے میں نے اپنے آپ کو آپ کے سپرد کیا اور اپنا کام آپ کو سونپ دیا اور اپنی پشت کو آپ کے حوالے کر دیا،آپ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانا نہیں مگر آپ کے ہی پاس۔یا اللہ! میں آپ کی کتاب (قرآن) پر ایمان لایا جسے آپ نے اتارا اور آپ کے نبیﷺ پر جسے آپ نے بھیجا‘‘۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر آپ اسی رات فوت ہو جائیں تو فطرت (اسلام) پر ہوں گے جبکہ یہ دعا آپ کا (سوتے وقت) آخری کلام ہو‘‘۔(بخاری)
یہاں فطرت سے مراد طریق کار،راستہ اور سنت ہے،تاہم یہ سنت بھی اسلام ہی ہے۔
مسلمانوں کو یہ دعا سکھا کر گویا ہر رات فطرت کی یاددہانی کروائی گئی اور یہی وہ اعتراف ہے جو فرعون نے موت کو سامنے دیکھ کر بے اختیار کیا مگر نبی کی بار بار یاد دہانی،نبی کو جھٹلانے اور سمندر میں دو مواقع دینے کے بعد اس اعتراف کو بے معنی اور موت کی دہشت سمجھا گیا اور اسے غرق کر دیا گیا۔ استغفراللہ۔یہی وہ اعتراف ہے جو مختلف سوالوں کی شکل میں کافروں سے کیا گیا اور انہیں فطرت پر چلنے پر ابھارا گیا۔
یہی اعتراف منکر حق میدان حشر میں کریں گے،کہ ہم ہی مجرم تھے،التجائیں کریں گے کہ ایک بار پھر ہمیں دنیا میں بھیج دے،اب کے ہم راستی پر چلیں گے مگر اب امتحان کا وقت ختم ہو چکا ہو گا اور اگر ان کے دماغ سے حشر کی کیفیت محو کر دی جائے گی تو وہ پھر پہلی راہ پر چلیں گے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اسراء کی رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو پیالے شراب اور دودھ کے لائے گئے تو آپ نے دودھ لے لیا،اس پر جبریل علیہ السلام نے کہا:
’’اس اللہ کی سب تعریف ہے جس نے آپ کو فطرت کی طرف راہنمائی کی،اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی‘‘۔ (بخاری)
یہ فطرت کو عین اسلام ثابت کرنے کے لیے ایک مضبوط دلیل ہے، نہ صرف نبی آخری الزماں صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بلکہ تمام انبیاء نے فطرت کی طرف رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا،اللہ تعالیٰ حجت تمام کیے بغیر انسانوں کو سزا دینا چاہتا ہے نہ ہی جزا بلکہ انسانوں کو اپنی پسند اور دلچسپی کی راہ پر چلنے کے مواقع فراہم کرتا ہے مگر فطرت کا نصاب انسان کے تحت الشعور میں منتقل کر دینے کے بعد حقیقی دنیا کے وسوسوں،بہکاووں اور کھائیوں سے بچانے کے لیے انبیاء کو بھی بھیجا گیا یعنی جسم کے ساتھ روح کی غذا کا بھی اہتمام کیا گیا،گویا،باطن میں بھی اچھائی کی کشش رکھ دی گئی اور خارج سے اس فطری راہ پر چلنے میں معاون ذرائع و وسائل کا بھی بخوبی اہتمام کیا گیا۔
فطرت برائی کی اسیر نہیں ہے،فطرتاًانسان نیکی پر ہی پیدا کیا گیا ہے۔موسی علیہ السلام کا امتحان لینے کے لیے فرعون نے کوئلے اور دینار دو طشتریوں میں رکھ دیے۔موسیٰ علیہ السلام نے کوئلہ پکڑا۔گویا مال و دولت کی حرص بھی فطرت میں گندھی ہوئی نہیں ہوتی،بلکہ اسے انسان خود اپنے اندر پرورش کرتا ہے۔احادیث کے مفہوم سے پتہ چلتا ہے کہ ابن آدم کا منہ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے کیونکہ وہ مزید کی خواہش کرتا چلا جاتا ہے اور یہ کہ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس کی خواہشیں جوان رہتی ہیں۔ لیکن یہ فطرت نہیں بلکہ دنیا کی لذت اور اسیری ہے جو انسان کو فطرت سے ہٹا لے جا کر اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے۔
بچے مٹی میں کھیلتے ہیں،یہ بھی فطرت ہے۔خود آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بھی بچوں کا یہ عمل بہت پسند تھا۔بے شک یہ کھیل انسان کو عاجزی سکھاتا ہے اور فانی دنیا میں رغبت کم کر کے آخرت کی یاد دلاتا ہے۔
فطرت نہیں بدلتی کا مطلب
المیہ یہ ہے کہ عمومی طور پر بولا جانے والا فقرہ ’’فطرت نہیں بدلتی‘‘ عموما ًغلط طور پر مستعمل ہے۔ہم یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی ہمیں زچ کر دے،احسان فراموشی کا مظاہرہ کرے،نچلے طبقے(اگر چہ طبقاتی نظام بجائے خود فطری نہیں)کا کوئی فرد گھٹیا بات یا فعل انجام دے۔بعض اوقات ہم کسی شخص کی بری خصلت کے سبب یہ فقرہ کستے ہیں۔بعض دفعہ کمزور طبقے کا فرد مالدار ہونے کے بعد چھچھوری حرکت میں ملوث پایا جاتا ہے تو بھی یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔یا ہم کہتے ہیں یہ بچہ شروع سے ہی بڑا غصیلا ہے۔قابل اصلاح نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ فطرت واقعی نہیں بدلتی،کیونکہ فطرت عین اسلام ہے،البتہ غلط ماحول، اکساہٹیں،غلط جذبات،برائی کی کشش،گناہ کی لذت….انسان کو فطرت سے ہٹا لے جا کر بری خصلت میں مبتلا ضرور کر دیتی ہے۔ یہ بری خصلتیں انسان کے اندر رچ جاتی ہیں جب وہ ان کو اپنانا چاہتا ہے۔لہٰذاجب ہم کہہ رہے ہوتے ہیں

کہ ’’فطرت نہیں بدلتی‘‘ اس وقت دراصل ہم آدمی کے ان برے خصائل کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں جو ان برے خصائل سے سچی توبہ نہ کرنے کے باعث،صحیح راہ پر چلتے چلتے بھی ان کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ ہمیں فطرت اور خصلت میں فرق کرنا ہو گا۔فطرت عطا کی گئی ہے جبکہ خصلت اپنائی جاتی ہے،فطرت سے فرار ممکن نہیں لیکن خصلت کو چھوڑا جا سکتا ہے۔لہٰذا یہ کہنا کہ بچہ شروع سے ہی غصیلا ہے،غلط فقرہ ہے۔ دراصل اس نے اپنے ماحول سے یہ سیکھا ہے۔
انسان فطرت پر پیدا کیا گیا ہے
جب ہم کہتے ہیں کہ انسان فطرت پر پیدا کیا گیا ہے تو لا محالہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ انسان کی فطرت اسلام پر ہے۔لہٰذا،ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ کسی کا بھی (مسلمان،عیسائی،یہودی، مشرک ) ہو۔معصوم ہوتا ہے،بے ساختہ ادائیں اور معصوم باتیں سب کا دل لبھاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بچے ہمیشہ پیارے ہی لگتے ہیں،خواہ کسی کے بھی ہوں۔البتہ،نام نہاد مذہبی لبادہ اوڑھ کر، متعصب ذہنیت کے ساتھ دیکھا جائے تو معاملہ الگ ہے۔
ماہر نفسیات سے لے کر عام آدمی بھی اس پر متفق ہے کہ بچے کا ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے،جو اس پر لکھ دیا جائے وہی اس کے دماغ میں نقش ہو جاتا ہے۔گویا،ہر انسان خواہ مسلمان ہے یا غیر مسلم،بجائے خود اس حقیقت کا معترف ہے(جانے یا انجانے میں) کہ بچے کی فطرت عین اسلام ہے۔پھر جس قسم کے ماحول میں وہ رہتا ہے اور جس قسم کی باتیں،خیالات،اعمال اور فکر دیکھتا ہے،اسی قسم کی ذہنیت اس میں راسخ ہو جاتی ہے۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ فطرت اسلام نے اسے اپنی جانب کھینچا نہ ہو۔فطرت کا معنی ساخت،عادت،جبلت ، طریقہ، مزاج….کچھ بھی لے لیا جائے،اسلام ہی اس کی اصل ہے۔فطری طور پہ بچیاں گڑیوں سے کھیلنا اور گھر،گھر کھیلنا پسند کرتی ہیں اور بچے باہر کی دنیا میں دلچسپی رکھتے اور بھاگنے دوڑنے کو پسند کرتے ہیں نیز جنگ و جدل کی باتوں میں دلچسپی رکھتے اور آلات حرب سے کھیلنا پسند کرتے ہیں۔اسلام اس فطرت کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے اور انسان کو سہولت دیتا ہے۔خدا کو ماننا بھی انسان کی فطرت ہے، انسان اللہ کو ہی بالآخر پکارتا ہے خواہ کتنا ہی متشدد دہریہ کیوں نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ضد،عناد اور تکبر میں مبتلاابو جہل کا بیٹا عکرمہ جب سمندر کی سرکش موجوں کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتا ہے اور موت سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو اللہ کو ہی پکارتا ہے اور پھر یہی سوچ اسے دائرہ اسلام میں داخل کر دیتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی لیے تو انکار کیا تھا کہ وہ اللہ کی مطلق العنانیت کا قائل تھا اور اسی کی طرف دعوت دیتا تھا۔
فطرت کے خلاف چلنے کے نتائج
فطرت وہی شے ہے جو انسانوں کو صاف رہنے اور صفائی رکھنے پر آمادہ کرتی ہے خواہ یہ گھروں کی صفائی ہو یا دل و نگاہ کی اور فکر کی۔
فطرت انسان کو اچھائی کی طرف ہی مائل کرتی ہے جبھی،پہلے انسانوں کو جب شیطان نے بہکا کر راہ راست سے بھٹکا دیا اور ان کے ستر کھل گئے تو وہ اپنے آپ کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے کیونکہ حیا فطرت میں سے ہے۔پھر جب انہیں اپنی جائے قرار یعنی دنیا میں بھجا گیا یا زمین پر اتارا گیا تو مذہب اسلام کے علمبردار تھے۔یعنی،کفر فطرت کے متصادم ہے،فطرت کا انکار ہے،بغاوت ہے جو بنی نوع انسان نے ہر دور میں کی۔
ایک حدیث میں آتا ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع پورا نہیں کرتا تو آپؐ نے اس سے فرمایا کہ ’’تو نے نماز ہی نہیں پڑھی،اگر تو (اسی حالت میں) مر گیا تو فطرت پر نہیں مرے گا‘‘۔
اسی طرح فطری امور میں سے ہے مسواک کرنا،زیر ناف بال صاف کرنا،مونچھیں کتروانا ،داڑھی بڑھانا،خلال کرنا۔جیسے کہ حدیث میں آتا ہے:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پانچ چیزیں فطرت ہیں یا پانچ باتیں فطرت میں سے ہیں:ختنہ کرانا،ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا،ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑنا،مونچھوں کے بال تراشنا“۔ (بخاری)

لیکن گندے مندے رہ کر اور جسمانی صفائی کا خیال نہ رکھ کر ہم فطرت سے بغاوت کرتے ہیں۔اگر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں اور عورتیں مردانہ پن،یا عمل لوط یعنی ہم جنس پرستی کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں اور ٹرانس جینڈر میں شامل ہونے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ فطرت سے کھلم کھلا اور بدترین بغاوت ہے۔ خواہ یہ بغاوت شوق سے کی جائے یا مجبوری کا راگ الاپ کر، آزادی کا نعرہ لگا کر کی جائے یا قوانین بنا کر ۔ یاد رکھیے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حدود سے نکل کر سرکش ہو جانا عذاب کو واجب کر دیا کرتا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حدود سے نکل کر خود ساختہ حدود قائم کرنا بھی گناہ ہے اور بے لگام آزادی بھی درست راستے سے بغاوت ہے۔خود ساختہ حدود بنانا(خواہ ان پر بھی پابندی اختیار کی جائے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے) بھی فطرت کے خلاف ہے اور بے لگام آزادی کی تمنا بھی غیر فطری رویہ ہے جسے نفس آسان بنا کر پیش کرتا ہے اور سحر انگیز بہانے انسان کو اس غیر فطری راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔لہٰذا،فطرت کی راہ اختیار کیجئے کہ یہ پر لطف بھی ہے اور پر سکون بھی۔
اللہ ہمیں فطرت کی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دے آمین
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
4 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x