ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اللہ بہترین وکیل ہے- بتول مئی ۲۰۲۱

مومن کا وکیل اللہ ہے جو ہر مشکل گھڑی میں اسے سنبھالتا ہے ، بچاتا ہے اورشر سے اس کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جس طرح ایک وکیل اپنے Clint کومخالفوں کے ہاتھوں رسوا ہونے سے بچا کر با عزت زندگی گزارنے کا اہل بناتا ہے اور اس سے بڑھ کر جو عمل اور نیتوں کے حساب سے کھرے کھوٹے کو الگ چھانٹ کر رکھ دیتا ہے ۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ۔ ہوایوں کہ ایک دن میری بہو بچوں کے ساتھ شاپنگ کے لیے جا رہی تھی ، میں بھی ساتھ ہو لی ۔ جب گاڑی پارک کی تو وہ کہنے لگی ( میں اس کی خالہ ساس ہوں ) ’’ خالہ جان بہت اچھا ہؤا آپ ساتھ آگئیں ۔ آج ہم دونوں لائبریری بھی جائیں گی اور وہاں سے آپ بھی اپنی من پسند کتاب لے لینا۔ میں نے بچوں کے لائبریری ٹکٹ بنوانے ہیں ‘‘۔
’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے … اچھی کتاب تو میری کمزوری ہے‘‘۔
میری بہو جانتی ہے میرا فارغ وقت مطالعے میں گزرتا ہے ۔ طے یہ پایا کہ پہلے شاپنگ کی جائے اور شاپنگ سے فارغ ہو کر آخر میں لائبریری کا وزٹ کیا جائے ۔ میری بہو عظمیٰ پوسٹ آفس جانے لگی تو میں ساتھ والی بیکری سے بریڈ اور بیکری آئیٹم خریدنے لگی ۔ عظمیٰ فارغ ہو کر آگئی اور کہنے لگی ۔
’’ اچھاہؤا آج پوسٹ آفس میں اتنا رش نہیں تھا میرا چار ہفتوں کا فیملی الائونس کیش ہونے والا تھا وہ میں نے کروا لیا ہے ‘‘۔
اب ہم نے لائبریری کا رخ کیا ۔ لائبریری کے سامنے ہم گاڑی لے گئے ۔ جب بچوں کے لیے لائبریری ٹکٹ بنوانے لگے تو اچانک انہوں نے بچوں کی پیدائش کے سر ٹیفکیٹ مانگ لیے ۔
میں نے عظمیٰ سے کہا ’’ تم بچوں کی الائونس بک دکھا دو … اس میں تاریخ پیدائش درج ہوتی ہے ‘‘۔
عظمیٰ بولی’’ خالہ جانی ۔ الائونس بک میرے بیگ میں ہے اور بیگ کار کی پچھلی سیٹ پر رکھا ہے ۔ آپ چابی لیں اور الائونس بک نکال لائیں ۔ میں اس وقت تک فارم فل کرتی ہوں‘‘۔
میں نے چابی لی ، بیگ سے الائونس بک نکالی، وہ لا کر عظمیٰ کو پکڑائی ۔ کائونٹر پر وہی بک دکھا کر بچوںکے کارڈ بنوا لیے ۔
گھر پہنچے۔ میں لائبریری سے لائی ہوئی نئی کتابوں کے مطالعے میں مصروف تھی جب اچانک بہو نے مجھے اطلاع دی ۔
’’ خالہ جانی میں نے آج ہی پینتالیس پونڈ کی رقم جو بینک سے نکلوائی تھی وہ اسی الائونس بک میں غلطی سے رکھ دی تھی… اب وہ مجھے کہیں بھی نہیں مل رہی … میں تو ساری کار بھی چھان آئی ہوں ‘‘۔
میری حالت ایسے تھی جیسے کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ میں ہی اکیلے کار تک گئی تھی ۔ پھر میں نے ہی الائونس بک نکالی تھی ۔ اب وہ کیا سوچ رہی ہو گی ؟ کہیں وہ مجھ پر رقم اڑانے کا شک تو نہیں کر رہی ؟ جس کا نقصان ہوتا ہے وہ شک تو ضرور کرتا ہے … اب وہ مروتاً مجھے مورد الزام نہیں ٹھہرا رہی لیکن وہ اندر سے مجھے ہی مجرم سمجھ رہی ہوگی… اوہ خدایا … یہ کیا ہوگیا ؟
میں نے اٹھ کر اپنی الماری اور پرس بھی چھان مارے۔ میری حساس طبیعت نے مجھے اتنا بے چین بے قرار کردیا کہ میری نیند اور بھوک بالکل اڑ گئی۔
اوہ اللہ پاک جی … وہ بہو کی حیثیت سے بھلے منہ سے کچھ نہیں کہے گی… لیکن دل ؟ دل کس نے دیکھا ہے … ایک لمحے میں ’’چور‘‘

کہلوائے جانے کی صف میں خود کو کھڑا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا ۔ ظاہر ہے بیٹا بھی سوچے گا … ماں ہی پرس سے کتاب لے کر گئی … پھر وہ رقم کہاں چلی گئی …؟ میں اپنی صفائی میں کیا کہوں … اپنی بے گناہی کا ثبوت کہاں سے لائوں … شک کا کانٹا … تو چبھ گیا … پتا نہیں کتنی دیر تک تکلیف دیتا رہے گا ۔
میں نے گاڑی نکالی اور ڈرائیو کرتی ہوئی دوبارہ لائبریری پہنچی ۔ یہ معلوم کرنے کہ شاید کسی نے گم شدہ رقم ان کے حوالے کردی ہو مگر ان لوگوں نے لا علمی کا اظہار کیا ۔ میں مایوس چہرہ اور تھکا ہؤا بدن لیے واپس لوٹ آئی ۔ ایک شخص کا مقام کتنا آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور ٹوٹنے میں ایک لمحہ لگتا ہے ۔ میں دکھ سے اندر ٹوٹتی جا رہی تھی ۔بہو نے میری بے چینی دیکھی تو بولی۔
’’ کوئی بات نہیں خالہ جان… کہیں گر گئے ہوں گے … چلیں صدقہ نکل گیا ‘‘۔
وہ شاید اس واقعے کو معمولی سی غلطی کہہ کر بھولناچاہ رہی تھی لیکن میں بے قرار تھی ۔ میرا اترا ہؤا چہرہ دیکھ میرے بیٹے نے مجھے تسلی دی ۔
’’ امی کوئی بات نہیں … آپ یونہی پریشان ہو رہی ہیں ۔ پیسے تھے گر گئے ہوں گے ‘‘۔
لیکن میں خود کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی بے گناہ ثابت نہیں کر پا رہی تھی۔ پیسے گر گئے ہوں گے … لیکن میری شخصیت پہ یقینا شک کی گرد پڑ چکی تھی ۔ بیٹے کو میری بے گناہی پر کامل یقین ہو گا ۔ لیکن بہو؟
میں نے اسی لمحے وضو کیا ۔ نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی … اے میرے پروردگار … اے دلوں کے راز دان ! اے سب بھیدوں کے جاننے والے تو جانتا ہے رقم کیسے اور کہاں گم ہوئی… میری بے گناہی کو بھی جانتا ہے … مجھے عزت سے نواز… میری بے گناہی کا ثبوت عطا فرما دے آمین۔
گھر میں دوبارہ اس واقعے کا ذکر نہیں ہؤا لیکن میرا دل غم سے بوجھل ہی رہا ۔
اگلے دن وہی کتابیں جو لائبریری سے لائے تھے میں ان کا مطالعہ کر رہی تھی کہ اچانک دس پونڈ کا ایک نوٹ کاغذات میں سے گر کر میری گود میں آ رہا میںوہ دس پونڈ کا نوٹ لیے ہوئے دوبارہ لائبریری پہنچی اور انچارج کو نوٹ ملنے کی اطلاع دی ۔ اس سے پوچھا کہ مجھ سے پہلے یہ کتاب جس کے نام ایشو تھی اس کا نام اور پتا درکار ہے تاکہ میں ان سے مل کر ان کی امانت انہیں لوٹا سکوں ۔
انچارج نے کہا ’’یہ ایڈریس میں دے رہا ہوں ، وہاں جا کر خود پتا کرنا اور امانت واپس کر نا آپ کی ہی ذمہ داری ہو گی ہماری نہیں ‘‘۔
’’okآپ قطعی فکر نہ کریں ‘‘۔ میں نے کہا۔
میں نے اگلے روز ہمت کر کے گاڑی نکالی اور دیے ہوئے پتے پر پہنچ گئی ۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک مسلمان خاتون ہی گھر سے نکلیں ۔ مجھ اجنبی عورت کو اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر حیران ہوئیں ۔ میں نے مسکرا کر السلام علیکم کہا توجواباً وہ بھی مسکرائیں اور وعلیکم السلام کہتے ہوئے مجھے اندر آنے کی اجازت دی۔ میں نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تو کہنے لگیں ۔
’’ ہاں بالکل۔ وہ میرے ہی پیسے ہیں ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے اور جیسا کہ رواج ہے سب بچے کو پہلی بار دیکھتے ہیں توکچھ نہ کچھ ضروردیتے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں اس وقت یہ کتاب پڑھ رہی تھی جب ایک بہن بچے کی مبارکباد دینے آئیں ۔ انہوں نے جو نوٹ مجھے دیا وہ میں نے کتاب میں ہی رکھ دیا لیکن بعد میں وہ نوٹ نکالنا بھول گئی … آپ کا شکریہ … آپ نے امانت لوٹانے کی زحمت کی‘‘۔
میرا دل امانت لوٹاتے ہوئے باغ باغ ہو رہا تھا ۔ پتا نہیں وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کا مال غصب کر کے بھی سکون و چین سے بیٹھ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو نیک ہدایت دے اور جہنم کا ایندھن بننے سے بچائے ۔ ہاں تو میں اس روز کا ذکرکر رہی تھی جب میں نے امانت صحیح مالک کو پہنچائی ۔ پتا نہیں میرے دل میں خواہ مخواہ یقین سا کیوں آ رہا تھا کہ جیسے میں نے کسی کے ساتھ نیکی کی ہے اس طرح ہو سکتا ہے کوئی دوسرا بھی میرے ساتھ نیکی کرنے چلا آئے ۔

میں نے گاڑی پولیس اسٹیشن موڑ لی تاکہ معلوم کروں کہ کسی کو وہ رقم یہاں آس پاس ملی ہو اور وہ لوٹانے کے لیے پولیس اسٹیشن دے گیا ہو۔ پولیس آفیسر نے تحمل سے ساری بات سنی ۔ پھر رجسٹر کھولا اور جس تاریخ کا ذکر کر رہی تھی اس تاریخ کے اندر اجات چیک کرنے لگا ۔
’’ میڈم! ایک شخص رپورٹ لکھوا کر گیا ہے اسے لائبریری کی سیڑھیوں کے پاس کچھ پیسے ملے ہیں اور اس نے تاکید کی ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو ہم اسے اس شخص کا ایڈریس بتا دیں تاکہ دعویٰ اور ثبوت کے ساتھ وہ دیکھ کر رقم واپس کر دے‘‘۔اس نے بتایا۔
چنانچہ میں نے ان صاحب کا ایڈریس لیا ۔ واپس گھر آئی ۔ الائونس بک ساتھ لی اور بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئی ۔ میں نے اپنا تعارف اورآنے کا مقصد بیان کیا ۔ اس بوڑھے انگریز نے کچھ سوالات کے جوابات مانگے مثلاً کس دن ؟ کب ؟ کہاں؟ اور جب اسے اطمینان ہؤا کہ کوئی فراڈ اس کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ ایک عورت واقعی اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس لینے آئی ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے پیسے میرے حوالے کر دیے۔ آپ اس خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے جواس لمحے مجھے ہو رہی تھی۔ میں خود اپنی نظروں میں نا کردہ جرم کی ملزم بن گئی تھی ۔ ایک مسلسل خلش تھی جو مجھے بے چین کیے ہوئے تھی۔ بے شک جس کا وکیل اللہ ہواسے با عزت ہر الزام سے بری ہونے سے کون روک سکتا ہے ۔ میرا عقیدہ میرا اعتماد … میرا یقین اللہ پر ہے ۔ بے شک وہی کار ساز ہے اور ہر انسان کا وکیل ہونے کے لیے وہی کافی ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x