ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عیادت – بتول مئی ۲۰۲۱

چلتی پھرتی ،بھاگ دوڑ کر کام نمٹاتی نورین کے لیے ایک ٹک چارپائی پر رہنا مشکل ترین اور صبر آزما کام تھا۔اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے زبردستی سزا کے طور پر بستر کے ساتھ باندھ دیا ہو۔بستر پر لیٹے رہنا اس کے لیے اندھیری کوٹھڑی میں قید سے بھی بدتر تھا۔اسے ٹانگ کے فریکچر سے زیادہ محتاجی کا درد محسوس ہوتا تھا ۔
اب اسے بڑی بوڑھی خواتین کی رب کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تڑپ کے ساتھ مانگی جانے والی یہ دعا کہ یا اللہ محتاجی کی زندگی سے بچانا اور چلتے پھرتے اس دنیا سے لے جانا،کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آچکا تھا۔وہ جان چکی تھی کہ یہ محتاجی جہاں اردگرد والوں کے لیے مصیبت ہوتی ہے، وہاں یہ بندے کے اپنے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کیا جائے اس چیز کے بارے میں جہاں انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں صرف اللہ کا اختیار ہے وہاں تو صرف صبر کا حکم ہے ۔ نورین بھی پلستر لگی ٹانگ کے ساتھ اللّہ تعالیٰ کے اسی حکم کی فرماںبرداری میں دن گزار رہی تھی۔لیکن اس کے لیے صبر آزما لمحات تب آتے جب اس کے ارد گرد بکھیڑا پڑا ہوتا۔ بچے ایک دوسرے سے الجھ رہے ہوتے۔کام والی ماسیاں اپنی من مرضیاں کرتیں۔ چھٹیوں پر چھٹیاں کرتیں۔آتیں بھی تو گندا منداآدھا کام کرتیں۔ وجہ یہ تھی کہ ایک تو سر پر کھڑا ہو کر ان سے کوئی کام کروانے والا نہیں تھا۔دوسرا سختی کی صورت میں لاچار باجی کے لیے کام چھوڑ کر جانے کی دھمکی ہوتی۔ اور نئی آنے والیاں یہ لاچاری دیکھ کر ڈبل ریٹ مانگتیں ساتھ کئی طرح کی شرائط بھی رکھتیں۔
بچوں میں سب سے بڑی بیٹی امینہ میٹرک کی طالبہ تھی لیکن جب ماں نے اپنی چو کسی کے نزدیک بیٹی کو پھٹکنے ہی نہ دیا ہو اور بیٹی نے بھی صرف پڑھائی کا فریضہ ہی انجام دیا ہو،باورچی خانے سے یکسر نابلد و ناآشنا ہو تو یکدم پڑنے والی آفت میں وہ کیسے گھریلو امور سنبھال سکتی ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ بچے ماں کے ہاتھ کے بنے کھانوں کے اتنا عادی تھے کہ کسی کام والی کا پکایا کھانا کھانے سے انکار کر دیتے۔جس گھر میں کھانوں کے مسالے تو کیا سموسہ پٹی اور رول پٹی تک گھر میں ہی تیار ہوتی ہو وہاں بازاری کھانے کھانا ایک دشوار عمل تھا۔
فیصل کا حال بھی بیٹی سے مختلف نہیں تھا۔ جس شخص نے پینے کے لیے پانی کبھی خود نہ لیا ہو، نہانے کے بعداس کے گندے کپڑے بے ترتیبی سے فرش پرہی بکھرے پڑے ہوں ،جہاں دل چاہے جوتے اور جرابیں اتار کر پھینک دی جائیں کیونکہ اگلے چند لمحوں میں نورین فٹافٹ یہ بکھیڑا سمیٹ لیتی ،اب جبکہ عادات سب کی وہ ہی تھیں لیکن سمیٹنے والی لاچار۔عجیب طرح کی بے سکونی اور الجھن سب کو دامن گیر تھی لیکن حل کی سمجھ کسی کو نہ آ رہی تھی۔
نورین کی جٹھانی عیادت کے لیے آئی ،کھانا بازار سے منگوایا گیا، دو چار گھنٹے رکی، گپ شپ لگائی اور یہ کہہ کر چلتی بنی کہ مجھے تو اپنے گھر کے علاوہ کہیں نیند ہی نہیں آتی۔نند، سسرال میں پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ایک جی جان سے زیادہ پیار کرنے والی بہن کو اس کے اکھڑ مزاج شوہر نے آنے کی اجازت ہی نہ دی لیکن دوسرے بہنوئی نے اپنی بیوی کو خوشی خوشی بھیج دیا۔ آنے والی بہن کے اپنے بھی چھوٹے چھوٹے تین بچے تھے۔ دو دن بعد ہی بچے اپنے ابو سے شدید اداس ہو گئے۔ ایک ہفتہ رکنے کے بعد وہ بہن بھی اپنے گھر کو سدھار گئی۔ ادھرنورین کی معذوری توہفتوں کی بجائے مہینوں پر مشتمل تھی۔اردگرد جھانکا،کوئی بھی رشتہ دار خاتون آکر رہنے والی نہ تھی۔نہ ہی کسی مستقل ملازمہ کا انتظام ہو رہا تھا۔کاش ! باپ بچوں نے بھی گھر کو تھوڑا بہت سنبھالنا سیکھا ہوتا۔وہ اس کاش پر اپنے دل ہی دل میں افسوس کرکے رہ جاتی۔

’’امی چچی حرا نے فون کیا ہے کہ وہ دس منٹ تک ہمارے گھر پہنچ رہی ہیں‘‘۔امینہ نے مہمان نوازی کرنے کی پریشانی میں موبائل ہاتھ میں پکڑے ماں کوچچی کے آنے کی اطلاع دی۔
’’انہیں کیا کھلائیں گے؟اس وقت تو تمہارے ابو بھی گھر میں نہیں ہیں جو بازار سے کچھ منگوا لوں۔اچھا! چلو جو ان کے نصیب میں ہوگا‘‘۔
نورین کو بھی ان کے آنے کی خوشی کی بجائے کھلانے پلانے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ٹھیک گیارہ منٹ بعد حرا کا ہاتھ بیرونی دروازے کی گھنٹی پر تھا۔دروازہ کھلا تو اس نے کریم کی گاڑی سے تین بڑے بڑے تھیلے برآمد کیے اور کرایہ ادا کر کے گاڑی کو رخصت کیا۔بچوں نے آگے بڑھ کر چچی کے ہاتھ سے تھیلے پکڑے۔ دعا سلام کے بعد حرا تأسفانہ انداز میں کہنے لگی۔
’’بھابی سب سے پہلے تو میں اتنی تاخیر سے عیادت کے لیےآنے کی معذرت چاہتی ہوں۔آپ تو جانتی ہیں کہ میں تین ہفتے بعد پرسوں ہی اسلام آباد سے واپس آئی ہوں۔آج آپ کے بھائی کو چھٹی تھی۔ انہیں بچوں کے پاس چھوڑا ہے۔اب میں شام تک آپ ہی کے پاس ہوں‘‘۔
حرا نے مسکراتے ہوئے آخری جملہ ادا کیا اور پھر تھیلوں سے ایک کے بعد ایک ڈبہ نکالنے لگی۔
’’بھابھی یہ تین ڈبے رول، سموسیاں اور شامی کباب کے ہیں ۔ یہ میں نے آپ لوگوں کے لیے کل بیٹھ کر بنائے تھے۔امینہ بیٹی! یہ پکڑو اور انہیں فریزر میں رکھ دو۔ یہ تو تم بھی آسانی سے فرائی کرکے عیادت کے لیے آئے مہمانوں کو چائے کے ساتھ دے سکتی ہو‘‘۔
پھر کچھ اور ڈبے نکالے۔
’’اور یہ ہلیم ہے۔ امینہ اسے بھی فریزر میں رکھ دو۔ جب کھانے کو دل چاہے گانکال کر گرم کر لینا۔یہ سبزی کا سالن ہے یہ فریج میں رکھ دو۔ اور یہ دو ڈبے بریانی کے ہیں یہ آج کے کھانے کے لیے ہیں۔امینہ! پہلے سب بہن بھائیوں کو بٹھا کر کھانا کھلاؤ اور پھر میرے ساتھ کام میں مدد کرنا‘‘۔
نورین خوشی اور حیرانی کی ملی جلی کیفیات میں ہونق بنی، زلفت کو دیکھ رہی تھی۔اس سے پہلے ایسی عیادت کسی نے کب کی تھی اس کی کی؟پہلے جو بچے ماں کے بار بار اصرار پر نخرے دکھا دکھا کر نوالہ لیتے تھے اب وہ ایک آواز پر ہی بریانی کھانے کے شوق میں دسترخوان پر بیٹھے تھےکیونکہ وہ بچارے بھی ایک عرصے سے گھر کے بنے کھانے کے لیے ترسے ہوئے تھے اور بازار کے سخت مصالحہ دار چاول کھا کھا کر تنگ آ چکے تھے۔
حرا نے جلدی سے باورچی خانے کا رخ کیا۔ڈبے سے کالے چنے نکال کر گرم پانی میں بھگوئے۔ دھونے والے برتن سمیٹ کر سنک میں دھونے کے لیے رکھے اور کچن صاف کرنے کی ہدایت کے ساتھ ماسی کے سپرد کیے ۔پھر سٹور روم کی طرف گئی جہاں دھلنے والے کپڑوں کا ڈھیر لگا پڑا تھا۔ واشنگ مشین میں پانی ڈال کر مشین چلائی۔امینہ نے بھی چچی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ حرا کام کرنے کے ساتھ ساتھ امینہ کو بھی سکھا رہی تھی اور وہ بھی چچی کے بتائے پر عمل پیرا تھی۔ دونوں چچی بھتیجی نے ڈیڑھ دو گھنٹے میں کچن اور کپڑے نمٹا لیے۔کپڑے خشک ہونے پر بھائی بھابی کے کپڑے خود استری کرنے کے لیے علیحدہ کیے اور بچوں کے کپڑے استری کے لیے امینہ کو دیے۔ خود الماریوں کی جھاڑ پونچھ کرنی شروع کر دی۔
حرا ایک کے بعد ایک کام نمٹا رہی تھی اور شام تک بہت سے کاموں سے فارغ ہو چکی تھی۔تقریباً پانچ چھ دن کے لیے سالن بھی تیار تھے۔امینہ سے سادہ براؤن چاول پاس کھڑے ہو کر پکوائے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ خود بھی پکا سکے۔ جھاڑو پونچھے کے لیے عورت آتی تھی۔ ہفتہ بھرکےلیے اور کوئی بڑا کام نظر نہیں آرہا تھا۔بچوں کو سکول سے چھٹیاں تھیں اس لیے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بچوں کو سمجھا دیا گیا۔ حرا نے واپسی کے لیے گاڑی کی بکنگ کروائی اور نورین سے کہا۔
’’بھابھی آپ پریشان نہ ہونا۔اتوار کے دن معاذ صاحب گھر میں ہوتے ہیں۔ جب تک آپ بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتیں میں بچے ان کے پاس چھوڑ کر ایسے ہی سارا دن آپ کے ساتھ گزارا کروں گی‘‘۔
نورین کی آنکھیں تشکر سے نم ہوگئیں۔وہ سوچ رہی تھی زندگی میں ارد گرد رشتے تو بہت ہوتے ہیں مگر ایسے بے لوث اور احساس سے گندھے ہوئے لوگ کم ہی ملتے ہیں!٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x