ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آرزو بدل جائے- بتول مئی ۲۰۲۱

گرمیوں کی لمبی دوپہریں،اور چھوٹی چھوٹی راتیں کیسے پلک جھپکتے میں گزر جاتیں اسے کچھ خبر نہ ہوتی۔دن بھر گھر کے کام نبٹاتے،سوتے جاگتے وقت کا پتہ ہی نہ چلتا اور پھر رات کو اس دشمنِ جاں کا فون آ جاتا اور صوفے پہ پھسکڑا مارے دنیا جہان کی باتیں کرتے جب روزن سے پو پھٹنے کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا تو وہ حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جیسے چلا اٹھتی۔
’’احمر صبح ہو گئی‘‘۔
اور وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوتا ’’ہاں تو!‘‘
وہ ان دنوں جیسے ہواؤں میں تھی۔جی چاہتا تھا چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتا دے کہ اسے وہ مل گیا ہے جیسی اس کی چاہ تھی۔
بھاری سی آواز،خوبصورت آنکھیں،گھنے چمکتے بالوں کا چھتہ سر پہ لیے جب وہ بھرے بھرے ہونٹوں سے مسکراتا تو مانو اس کا دل مٹھی میں آ جاتا۔
ٹھہریے،رکیے یہ سب افسانوی باتیں نہیں ہیں حرف حرف حقیقت ہے۔وہ ایسا ہی ساحر تھا۔اسے یاد ہے پہلی بار اس کی آواز سن کر وہ دیر تک حیرت زدہ سی رہی تھی۔
’’تمہاری شکل تو معصوم سی لگتی ہے اور آواز ایسی بھاری جیسے کوئی بڑی عمر کا مرد ہو‘‘۔
یہ اس کا پہلا تبصرہ تھا۔وہ کھل کر ہنسا تھا اور وہ جھینپ سی گئی۔جانے کیوں!
پھر پتہ نہیں کب اور کیسے وہ قریب ہوتے گئے۔افففف یہ آنسو بھی ناں…..بے وقت،جب جی چاہے آ جاتے ہیں۔ہاں تو میں ان کی کہانی سنا رہی تھی!
وہ قریب ہوتے گئے،اس کی باتیں،اس کی بھرپور توجہ،اس کا قرب،سادہ سے چھوٹے چھوٹے شرارتی جملے!
جب وہ ان سب کی اسیر ہو گئی تو وہ پیچھے ہٹنے لگا۔وہ تو مانو پاگل ہو گئی تھی ان دنوں۔ویران آنکھیں،بنجر دل اور اندر باہر سناٹے کی زد میں لپٹی پہلی نظر میں وہ کوئی ستم رسیدہ،ناتواں خشک بیل کی مانند دکھنے لگی۔
پہروں فون کی سکرین دیکھتی رہتی۔پھر بڑبڑاتی وہ آن لائن ہے۔تو وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا؟
شکوہ کرتی تو بری طرح جھڑک دیتا۔خاموشی سے سہتی تو دیکھنے والے اس کی حالت دیکھ دیکھ دہلتے۔
لیکن وہ اس دل کا کیا کرتی جو اَب اس کے سوا کسی کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتا تھا۔
عجیب مصیبت سی مصیبت تھی جس میں وہ بری طرح پھنس چکی تھی۔اور وہ تو یوں تھا گویا اسے جانتا ہی نہ ہو۔ایسے کیسے کوئی محبت میں یک لخت بدل سکتا ہے؟وہ موسموں کی سختی سے بے نیاز سخت سردی میں بھانبھڑ کی مانند جلتے دل کو لیے چکر لگاتی رہتی،کبھی گرمی میں پسینے میں شرابور ہوئی جانے خلاؤں میں کیا کھوجتی رہتی۔
اس کی سرگوشیاں جو تب سرور اور شرماہٹ کا باعث بنتی تھیں، اب کانوں میں گونجتیں تو جیسے کلیجہ چیر دیتیں۔وہ کہہ کر سب بھول چکا تھا۔وہ سن کر ایک لفظ بھی نہ بھول پائی تھی۔لہجے کی گھمبیرتا اس کے کانوں میں گونجتی تو مشکل سے روکے گئے آنسو جیسے باڑ توڑ کر نکل آتے۔
کیا خوشی اتنی کم عمر ہوتی ہے؟وہ سوچتی۔میں نے محبت میں کہاں کمی چھوڑی؟وہ دلکش اور جاذب نظر ہےتو میں بھی کم نہیں ہوں …..ہم عمر ، ہم ذوق ہوں، پھر؟

وہ گتھی سلجھانے کی کوشش میں مزید الجھ جاتی۔میں اسے اچھی نہیں لگی تھی تو وہ کسی مہربان بادل کی طرح میرے پیاسے دل پہ کیوں برسا تھا؟وہ تڑپ کر سوچتی ۔ آئنہ دیکھنے کو جی نہ چاہتاکہ کبھی اس کی ستائش اور اب اس کی بے رخی…..دونوں یاد آکر ستاتیں۔اسے خود سے چڑ ہونے لگی،بلکہ خود سے جڑے ہر رشتے سے چڑ ہونے لگی۔جب وہ نہیں تو پھر کوئی اور بھی کیوں ہو۔
یونہی روزوشب کا ادل بدل جاری تھا۔زندگی کی ہر مہربانی اس ایک کے نہ ہونے کی وجہ سے پھیکی پڑ گئی تھی۔ناشکری تو نہیں کر رہی میں….. وہ گھبرا جاتی۔لیکن دل اس کے بس میں تھا ہی کب؟وہ روہانسی ہو کر دعا کو ہاتھ اٹھا دیتی اور پھر رب سے رازونیاز کرتے ہوئے خوب ہی روتی۔وہ میرے نصیب میں نہیں تھا تو دل میں کیوں کھب گیا مالک؟وہ بلک بلک جاتی اور یقیناً اس سمے قدرت ترحم سے اسے دیکھتی ہو گی۔
نمازیں لمبی ہونے لگیں،تسبیحات کا دورانیہ بڑھنے لگا۔وہ اس سے مکمل کنارہ کشی اختیار نہ کر سکی۔اگرچہ یہ بات کہ وہ نامحرم ہے ،اسے شدید مضطرب رکھتی۔لیکن جیسے جینے کو ایک ڈور چاہیے ہو وہ ویسی ہی ڈور تھا جو اسے تھامے ہوئے تھا۔اس کی آواز،اس کی ذرا سی توجہ پہ وہ جیسے جی اٹھتی تھی۔وہ کسی کٹھ پتلی کی طرح اس کی باتیں ماننے لگی کہ بس وہ دور نہ جائے۔لیکن چکور کو چاند نہ ملا۔
رفتہ رفتہ وہ اپنے خول میں بند ہونے لگی۔اس نے اپنی ہر حد تک اس کی مان کر دیکھا تھا،اسےپھر بھی پروانہیں تھی۔پھر اس نے سب چھوڑ دیا۔لیکن اب ایک عجیب بات ہوئی اسے ہر جا ہر سُو وہی نظر آنے لگا۔
کوئی اگر آنکھوں کے طبیب کی بات کرتا تو جھٹ اسے اس کی چشمہ لگی آنکھیں یاد آ جاتیں۔’’اسےبتا دوں کسی طرح اس آئی سپیشلسٹ کا….. ممکن ہے اس کی نظر کا مسئلہ ٹھیک ہو جائے‘‘۔
کہیں ہنستا مسکراتا جوڑا نظر آتا تو دل پہ جیسے گرہ سی پڑتی محسوس ہوتی جو اندر تک بے بسی کی پھنکار پیدا کر کے اس کی آنکھیں لہو رنگ کر دیتی۔اس کا کوئی ہم نام دیکھتی تو مقناطیسی انداز میں اسے دیکھے جاتی۔یہاں تک تو سب ٹھیک تھا جیسے تیسے برداشت ہو ہی جاتا۔لیکن رات کے سناٹے میں بستر پہ جیسے ببول کے کانٹے اگ آتے تھے۔وہ بار بار اٹھ کر پانی پیتی،اور پھر جانے کتنے ہی پہر اس کا تکیہ خاموشی سے بھیگتا رہتا۔سانس جیسے رک رک کر آتی۔وہ کہیں نہ ہو کر بھی اس کے ہر پل،ہر لمحے میں موجود تھا۔
ہم سب جو اس کی حالت پہ کڑھتے تھےاسے سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے۔بس اب مکمل خاموش ہو گئے تھے۔اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا تھاکہ ایک دن اس کے اور بی بی جان کے بیچ ہونے والے مکالمے نے دل میں نئی امید جگا دی۔
’’اب اگر اس نے تم سے بدتمیزی کی تو تم ہرگز لحاظ نہ کرو گی۔اسے مناسب جواب دو گی‘‘۔
’’نہیں نہیں وہ پہلے ہی بلا وجہ روٹھا رہتا ہے۔اسے جواب دینے کا میں سوچ بھی نہیں سکتی‘‘۔
’’تو اتنی جی حضوری کے بعد اس کی نظر میں کیا وقعت ہے تمہاری؟‘‘
بے بسی سے ہونٹ کاٹتی وہ رو ہی تو پڑی تھی۔
’’بی بی جان وہ مجھے جو بھی سمجھے میں کبھی اسے کچھ نہیں کہوں گی۔مجھ میں ہمت ہی نہیں اسے خفا کرنے کی۔اور اور…..‘‘رندھی ہوئی آواز میں بات پوری کرنا دوبھر ہونے لگا تو وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بری طرح سسک اٹھی۔
بی بی جان نے اس کا سر طمانیت سے اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ہوئے سکون کا سانس لیا تھا۔کم سے کم اب وہ اس کے حوالے سے کچھ سننے پہ تو آمادہ ہوئی تھی۔یہی غنیمت تھا۔
پھر رفتہ رفتہ اس کی اور بی بی جان کی باتیں احمر کے موضوع پر طویل ہونے لگیں۔
’’تمہیں پتہ ہے تم بہت معصوم ہو۔وہ اب صرف تمہیں کاغذی رومال سمجھتا ہے۔جذباتی ضرورت پہ استعمال کیا اور پھر کوڑے دان میں ڈال دیا۔ تم پر دل آیا تو محبت کا کھیل رچا لیا ، دل بھر گیا تو توجہ ختم۔ میری جان اس کے نزدیک اس سے زیادہ اہمیت نہیں ہے تمہاری‘‘۔

وہ ان کے اس بیان پہ تڑپ تڑپ جاتی۔
’’نہیں ایسے مت کہیں…..‘‘اس سے زیادہ وہ بول ہی نہ پاتی۔بس روئے چلے جاتی۔
بی بی جان بے بسی سے اسے دیکھتیں لیکن وہ جانتی تھیں ناسور کو کاٹنے کے لیے نشتر کا استعمال ضروری ہے۔سو وہ گاہے گاہے اسے بتاتی رہتیں کہ دیکھو اگر اس کے دل میں تمہاری قدر ہوتی تو اس کا رویہ اتنا تضحیک آمیز نہ ہوتا۔تم دیوانی ہواور اپنا آپ محبت کے نام پہ اس کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔وہ قدموں میں ہی روند رہا ہے تمہارے کومل جذبے۔محبت ایسی سطحی چیز نہیں ہوتی۔
شروع شروع کی مزاحمت اب ہلکی ہونے لگی تھی۔رفتہ رفتہ اس کا بلاوجہ نظر انداز کرنا،معمولی سی بات پہ فساد برپا کر دینا،اس کے سامنے دوسروں کو اہمیت دینا…..یہ سب وہ باتیں تھیں جو اب بی بی جان سے بات چیت کے نتیجے میں اسے نظر آنے لگی تھیں۔
پھر ان آنکھوں نے دیکھا کہ پہلی بار جب وہ اس کے غصے کے سامنے اعتماد سےکھڑی ہوئی تو در حقیقت تھر تھر کانپتے وجود کو بی بی جان نے سنبھال رکھا تھا۔
وہ جو بادشاہ سلامت بنا بیٹھا تھااور اسے کنیز سمجھ رکھا تھا ،سانپ کی طرح بل کھانے لگا۔
وہ جل بھن کر میسج کرتا اور یہ سراسیمگی سے بی بی جان کو دیکھتے ہوئے کہتی۔
’’وہ مجھ سے دور چلا جائے گا‘‘۔
’’کچھ نہیں ہوگا۔ ابھی جواب نہ دینا ہر گز‘‘ بی بی جان کی فہمائش پر وہ ان کے گلے لگ کر خوب تڑپتی۔
’’دیکھو تم نے تن من دھن سب وار کے دیکھا،پھر کیا ملا؟تو اب بس خود کو مضبوط کرو۔میں ہوں تمہارے ساتھ۔میں کبھی بھی تمہیں ضائع نہیں ہونے دوں گی۔وقار سے جینا سیکھو چندا!وہ تمہارا قدردان ہے تو کہیں نہیں جائے گا۔ نہیں ہے تو اس کے جانے سے تمہیں فرق نہیں پڑنا چاہیے‘‘۔
وہ ہر خفگی کے بعد اس امید پہ اس کے پاس بھاگی چلی جاتی کہ اب اسے احساس ہو گیا ہو گا۔لیکن وہاں ڈھاک کے وہی تین پات رہے۔
اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ بی بی جان کی مسلسل محنت،محبت اور دعاؤں نے اس کو کھرے کھوٹے کی پہچان سکھا دی۔وہ دل سے تو نہ نکلا کہ دل لگی ہوتی تو بی بی جان کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟لیکن ہاں اتنا ضرور ہؤا کہ اب اس نے اپنے آپ سے پیار کرنا سیکھ لیا۔
’’اللہ تعالیٰ وحدہ ‘لاشریک ہیں ،جانتی ہو ناں؟کبھی سوچا کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی بے بہا نعمتوں کے بدلے وفاداری اپنے نفس سے اور شیطان سے کرتے ہیں تو کتنا گھاٹے کا سودا کرتے ہیں؟جیسے اب وہ تمہارا پرخلوص دل توڑ کر،روند کر گیا ہے تو گھاٹا اس نے کھایا یا تم نے؟‘‘
’’اس نے‘‘ وہ بے ساختہ بولی تھی۔
’’تو سیدھی سی بات ہے۔اللہ تعالیٰ سے وفادار ہو جاؤ باقی سب کچھ خود ہی مل جائے گا‘‘بے نیازی سے کہتے ہوئے انہوں نے کنکھیوں سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیا تھا۔
’’جی ٹھیک ہے بی بی جان میں سب مانوں گی۔بس وہ دور نہ جائے۔کبھی بھی دور نہ ہو‘‘۔
’’نہیں جائے گا۔تم خود کو سنوارو بس۔اور دعا کا دامن کبھی نہ چھوڑو۔وہ نہ بھی ملا تو اس کے بدلے اتنا کچھ ملے گا جو تم تھام نہیں سکو گی‘‘۔
ان ساری باتوں نے اسے سنبھالا دیا تھا۔لیکن ’’وہ نہ بھی ملا‘‘ پہ وہ خود کو کبھی بھی آمادہ نہ کر سکی تھی۔بس اس نکتے پہ یکدم اجنبی سی ہو جاتی ۔بی بی جان نہ ہوتیں تو وہ لازماً یا مر جاتی یا پاگل ہو جاتی۔اور یہ صرف ہماری سوچ نہیں تھی۔حقیقت تھی جو ہم سب محسوس کر رہے تھے۔
بی بی جان کی مسلسل کوشش سے،ہمت دلانے سےاس نے خود کو پڑھنے لکھنے میں گم کر لیا۔خود پہ توجہ دینی شروع کی تو ارد گرد والوں سے ملنے والے توصیفی کلمات اسے مزید روشن کرنے لگے۔اس کی صلاحیتیں نکھرنے لگیں۔اس کی ذات میں دھیرے دھیرے سکون اترنے لگا۔
’’تمہیں پتہ ہے اللہ نے تمہارے اندر بے تحاشہ محبت بھری

ہوئی ہے۔بس اس کی سمت درست کرنی تھی…..جو تمہارے قابل نہیں اسے تم سے دور رکھنا تھا…..تمہیں انسانوں کی پہچان دینی تھی…..اس لیے اللہ نے اسی کے رویے کو وسیلہ بنا دیا ان ساری باتوں کا…..تمہیں تم سے ملا دیا ‘‘۔
بی بی جان مسکرائیں اور نرمی سےاس کا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے بولیں۔
’’بولو کیا گھاٹے کا سودا ہؤا؟‘‘
وہ کیسے کہہ دیتی کہ ہؤا۔ بس خاموش رہی۔بی بی جان نے محبت سے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور وہ ان کے گلے لگ گئی۔
آنسوؤں سے بھیگے صفحات میں اب اتنے عرصے بعد اکڑاؤ پیدا ہو چکا تھا۔لفظ مٹنے لگے تھے۔ کہانی ختم ہو چکی تھی۔میں نے بیہ کی ڈائری بند کی تو محسوس ہؤا میرے چہرے پہ بھی نمی تھی۔باہر بہار کا موسم جوبن پہ تھا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x