ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عافيت- بتول مئی ۲۰۲۱

’’آپ کو ہوأ کیا ہے پپا؟ مجھے کیوں نہیں دیں گے پیسے آپ؟ کیا میں آپ کا کچھ نہیں لگتا یا سوتیلا ہوںیا آپ نے مجھے ایدھی کے جھولے سے اٹھایا تھا؟‘‘سدید کا غصے سے تنفس تیز ہو رہا تھا ۔بات ختم نہیں ہوئی تھی، ہو بھی کیسے سکتی تھی ۔ اس کے کلاس فیلوز کالج ٹرپ پر شمالی علاقہ جات میں جارہے تھے ۔تیس بتیس ہزار روپے معمولی رقم تو نہیں ہوتی جو نوشاد علی نے بیٹے کو چپ چاپ پکڑادی ۔پتہ تھا چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔بھائی کہاں اڑیل گھوڑا،جو بدکنے کو تیار ہی رہتا ۔تیس بتیس ہزار روپے گننے میں کون سا ماہ و سال خرچ ہونا تھے ۔یوں چٹکی بجاتے گن لیے اور گننے کے بعد اس پر ايسی کوئی جنونی کیفیت طاری ہوجاتی۔آنکھوں سے شعلے نکلتے تو سب کو نظر آ ہی رہے تھے ۔
نوشاد علی نے تحمل سے کام لیتے ہوئے بلکہ ضبط کرتے ہوئے بس اتنا کہا۔
’’بیٹا اتنی رقم تو غریب چوکیدار ،ریڑھی والے ٹھیکے والے چار ماہ دن رات کی محنت سے کماتے ہیں ،تمہاری بہنوں کی ذمہ داری باقی ہے۔پیسے کوئی پتے تو نہیں ہوتے جو’’درختوں سے توڑ لیے جائیں‘‘۔تنفر سے پپا کی بات کاٹ کر سدید نے فقرہ مکمل کیا ۔
’’کان پک گئے ہیں یہ سب سن سن کر ۔ میرے سارے دوست آئی فون اور مہنگے مہنگے کیمرے لے کے جا رہے ہیں اور میں وہی دس سال پرانا موبائل!‘‘
’’مجھے کم از کم پچیس ہزار اور چاہئیں ،جہاں سے مرضی دیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ۔آپ سے نہیں مانگوں گا تو کیا آپ کے ہونے والے داماد سے مانگوں؟‘‘ سفاکی سے اس نے باجی کو اندر آتا دیکھ کے کہا۔اک لمبی اور سرد آہ بھرنے کے بعد پپا کو اس کی مطلوبہ رقم اس کے حوالے کرنی ہی پڑی۔تینوں بیٹیاں خاموشی سے اس کی یہ حرکت دیکھ اور برداشت کر رہی تھیں بلکہ کرتی چلی آرہی تھیں۔ان کے ٹیوشنز سے ملنے والے پیسے اسی کی جیب میں جاتے ۔بس اک فرحانہ بیگم تھیں جنہیں نہ اس کی حرکتیں بری لگتیں،نہ وہ اسے ٹوکتی تھیں۔انہی کے لاڈ پیار سے تو وہ خوب بگڑا اور اپنی جائز ناجائز ہر طرح کی فرمائشیں پوری کروالیتا تھا۔ اگر تینوں بیٹیوں میں سے ایک بھی سمجھانے کی کوشش کرتی تو ان کا مخصوص رٹا رٹایا جواب سننے کو ملتا۔
’’تو کیا ہؤا۔بچہ ہے سر پر پڑے گی تو خود ہی سمجھ جائے گا‘‘۔
سر پر پڑنے سے پہلے ہی تینوں بہنوں کی شادی ہوگئی اور اٹھارہ انیس سال کا ہونے کے باوجود وہ بس جدید برانڈز کے کپڑوں،ہیئر سٹائل ،تک ہی مگن رہا۔اسے کسی بھی معاملے سے قطعی کوئی غرض نہ تھی۔اس کے لیے یہی ٹینشن کافی تھی اس کے کپڑے سب سے اعلیٰ ہوں مووی میں سب سے حاوی شخصیت اسی کی ہو،فوٹو گرافر بہترین ہونا چاہیے۔
اس کی ہر فرمائش پر پپا کے سینے سے سرد آہیں برآمد ہوتی رہیں۔کمر مزید جھکتی گئی ۔چال مردنی ہوتی گئی ۔دم خم کم ہوتا گیا یہاں تک کہ ان کے سینے پر بوجھ پڑتا گیا اور مرغی کی جان سے بڑھتا بڑھتا ہاتھیوں کے جوڑوں جتنا ہو گیا۔بالآخر ان کے ہونٹ نیلے اور آنکھیں تکلیف کی شدت سے بند تھیں ۔
پپا کو ہسپتال لے کر تو محلے والے گئے تھے مگر سدید کو پتہ ہی بعد میں چلا دوستوں کے ساتھ جو موج میلے میں شریک تھا جب بڑی باجی کی کال آئی۔
’’سدید پپاگئے ‘‘وہ دھاڑیں مار رہی تھیں۔

پب جی کھیلنے میں مصروف سدید نے بے دھیانی میں پوچھا ۔
’’اب کہاں چلے گئے وہ ‘‘
اوئے بد بخت ہارٹ اٹیک ہؤا ہے حالت بہت خراب ہے ان کی۔تمہیں کیا پرواہ ، تمہارا تو غلام تھا مگر ہمارا باپ ہے۔ وہ بے ربط فقرے بولتے بولتے شاید بے ہوش ہوگئیں ۔معاملہ کی سنگینی کا احساس پاس بیٹھے ذوالفقار کو ہؤا ۔ اس کے کان کھڑے ہوئے ۔
’’کیا ہؤا ہے انکل کو ؟‘‘
’’ہارٹ اٹیک ‘‘۔ سدید سنجیدہ ہؤا ۔
’’کمینے ۔تیرا باپ ہسپتال میں داخل ہے اور تو یہاں بیٹھا ہؤا ہے۔ اٹھتا کیوں نہیں ۔باپ کے بغیر جانور سے بھی بدتر زندگی ہوتی ہے ۔ مجھے دیکھ باپ مرگیا،سب عیش مزے ختم ‘‘۔وہ اپنے بہتے آنسو پونچھنے لگا اور اسے ساتھ لے کے بھاگتے ہوئے ہسپتال پہنچا ۔
تینوں بہنوں نے اسے دیکھ کے منہ پھیر لیا ۔تینوں کے چہرے رونے کی وجہ سے سوجے ہوئے تھے ۔تینوں کی نگاہیں زخمی اور لہولہان تھیں ۔بس چند لمحے ۔چند لمحوں کے بعد پپا کو آئی سی یو سے لے آئے وہ ہوش میں تھے مگر نقاہت کی وجہ سے بولنا مشکل تھا۔
ذوالفقار نے اسے کہا۔سدید کے قدم لڑکھڑائے ۔ پپا نے آنکھ آہستگی سےکھولی بیٹے کا لمس آنکھ نہ کھولتے ہوئے بھی پہچان ہی لیتے۔سدید نے ہاتھ کی پشت کو چوما، اپنی آنکھوں سے لگایا اور بچوں کی طرح رونے لگا ۔
یہ تو اس نے سوچا ہی نہ تھا کہ پپا کے بغیر زندگی کیوں کر ممکن ہوگی۔
ذوالفقار دور کھڑا بازو آنکھوں پر رکھے ہچکیاں لے رہا تھا ۔
پھر دو دن کے بعد پپا گھر آگئے سدید کی عقل بھی ٹھکانے پر پہنچ چکی تھی ۔اس نے کالج سے واپس آنے کے بعد پپا کے ساتھ دکان پر بیٹھنا شروع کردیا ۔جب وہ دکان پر آتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ پپا بس اسے گائیڈ کریں آرام سکون سے کرسی پر بیٹھیں بلکہ لیٹے رہیں۔
گاہکوں سے لہجہ بھی درست ہوتا جارہا تھا اور کاروبار کے اسرار و رموز بھی سمجھ میں آرہے تھے گاہے بگاہے پپا سے مشورہ بھی لینا نہ بھولتا۔بیٹے کی بدلی کیفیت اور ذمہ داری نے نوشاد علی کو بھلا چنگا کردیا ، نہ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے باقی رہے نہ کمر خمیدہ ہوئی ۔چہرے پر خون سرخی بن کے دوڑنے لگا۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کا مفہوم دل میں چار پانچ مرتبہ شکرانے کی کیفیت کے ساتھ انگڑائی لیتا ۔ایسے میں وہ بختوں بھرا دن طلوع ہؤا۔تعلیم مکمل ہونے کے بعد ڈگری مل چکی تھی وہ اب ہر لحاظ سے معاشرے کا تعلیم یافتہ اور ذمہ دار شہری تھا ۔ ناشتے کے بعد اس نے ماں کی مٹھی میں ایک ہرا نوٹ دیا،یہ صدقہ کی رقم ہے ۔ آج سے میری پریکٹیکل لائف شروع ہو رہی ہے ۔اچھی طرح تیار ہو کے جب وہ گھر سے جانے لگا تو نوشاد علی نے آواز لگائی ۔
’’بیٹا مجھے نہیں لے کے جاؤ گے اکیلے بھاگے جارہے ہو ‘‘۔
’’نہیں …..پپا آج سے آپ کی چھٹی…..آپ اب آرام کریں گے اور میں کام کروں گا ‘‘۔اس نے باپ کو شانوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا ۔
’’مگر کیوں ؟اب میں فارغ رہ کر کیا کروں گا؟‘‘انہوں نے مسرت پر سوال کو غالب کیا ۔
’’فارغ کہاں پپا۔آپ دوستوں سے ملیں دعوتیں کریں۔کوئی خدمت خلق کی تنظیم جوائن کر لیں ۔مسجد میں بچوں کو قرآن مجید پڑھائیں ‘‘۔ بس اب آپ کام پر نہیں جائیں گے۔’’بہت کام کرليا،اب آرام کریں‘‘،بیٹے کی بات سن کر انہوں نے بھی شکرانے کا ایک نیلا نوٹ بیوی کی مٹھی میں دیا۔
شادی کے بعد بتيس سال میں یہ پہلا دن تھا کہ دونوں میاں بیوی نے جی بھر کے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کیں ۔مسکراتے رہے چائےکے دور چلتے رہے ۔سديد روزانہ مشورہ کرکے ہی دکان کے لیے نکلتا ۔ اخبار اب دکان کی بجائے گھر پر ہی آنے لگا ۔ رروزانہ اخبار کی خبروں پر ڈسکشن ہوتی ۔يونہی ايک روز پپا نے اخبار اٹھایا تو اس کے نیچے سے لفافہ برآمد ہؤا ۔
انہوں نے حیرانی سے کھولا تو کافی بڑی رقم تھی ۔ وہ ساری کہانی

سمجھ چکے تھے ۔ وہ دن بس حالت انتظار میں ہی گزرا شام میں سدید کے آتے ہی انہوں نے موقع ديکھ کربات شروع کی ۔
’’گھر کا ہر خرچہ تو تم نے اپنے ذمہ لیا ہؤا پھر اس رقم کی کيا ضرورت ہے‘‘۔
’’پپا جیتی جان کو سو ضرورتیں ہوتی ہیں ‘‘۔سدید نے ٹالتے ہوئےکہا ۔
’’ایسے ہی رکھ لوں ۔بھلا کیوں رکھوں ؟ ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘
’’رکھ لیں ……آپ کا حق ہے اس پر‘‘سدید نے کہا ۔
’’بیٹے میں نہیں رکھوں گا مجھے شرم آتی ہے پہلے میرا کام چھڑوا دیا۔میں کیا کروں گا اس رقم کا‘‘۔ان کی آواز میں کپکپاہٹ تھی ۔
’’تمہاری مہربانی اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے دنیا دین کی ہر نعمت تمہارا مقدر بنے اللہ تمہاری جیسی سعادت مند اولاد ہر کسی کو دے ‘‘۔ نہ ختم ہونے والی دعائیں جاری تھيں ۔آنسوؤں کا نہ تھمنے والا ريلہ بھی ساتھ بہہ نکلا مگر نہ اس میں کوئی شکوے تھے نہ ماضی کی کوئی یاد۔نہ انہیں ماضی کا اڑیل سدید یاد تھا اور نہ ہی سدید کو۔ دونوں کو پچھلا کچھ یاد نہیں تھا اس لیے کہ انسان تھے بھلکڑ ۔نسیان ورثے میں لانے والے ۔بس خوش تھے تو کراماً کاتبین کہ اس بھولنے میں بھی نری عافیت ہی عافیت ہے۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x