ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سائے کی تلاش- بتول مئی ۲۰۲۱

اس روز جس کو بھی اطلاع ملی وہ فوراً ہی پہنچ گیا تھا۔
بس نوید نہ آسکاامریکہ سے۔ یہ جمعہ کی بات ہے، اسے امریکی پاسپورٹ پر بھلا پیر سے پہلے ویزا کیسے ملتا ۔ اس وقت تک تدفین تو ہو ہی چکی تھی ۔ محض جذباتی تسکین کے لیے دو روز آنے میں لگتے ، دو جانے میں ۔ محض ایک یا دو دن ہی وہ رک پاتا ۔ یہ میرے نہیں اسی کے الفاظ تھے ۔ ورنہ وہ تو بہت آنا چاہ رہا تھا ۔ جلدی میں خریدے گئے ٹکٹ کی قیمت بھلا ڈیڑھ ہزار ڈالر سے کیا کم ہوتی ۔ یہ بات بہر حال اس نے نہیں کہی تھی لیکن یہ ویزے کا مسئلہ واقعی ٹیڑھاہے ۔ اس کی پیدائش اس شہرکی ہے لیکن اب اوقات کے ساتھ اس کی شہریت بھی بدل گئی ہے ۔ ویسے وہ اب بھی اسی کھال میں سانس لیتا ہے جس میں پیدا ہؤا تھا ۔ باپ کا نام ، ماں کا نام ، جائے پیدائش بھی نہ بدلا جا سکا لیکن اب اسے اس جگہ آنے کے لیے ویزا درکار ہے ۔ بعض اوقات ہم اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ پھر واپسی کے لیے ویزا درکار ہوتا ہے۔
اور نوید ہی کیا ، جاوید بھی کہاں پہنچ سکا تھا ۔ شاید پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ یہ جمعہ کا دن تھا ۔ جاوید کا پاسپورٹ اس کے کفیل کے پاس تھا ۔اسے اپنے پاسپورٹ پر ویزا لگانے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن پاسپورٹ تو بہرحال درکار تھا ۔ محض یہ کہہ دینا تو کافی نہیں ہوتا کہ میں یہیں ، اسی شہر کے سیون ڈے ہسپتال میں پیدا ہؤا تھا ۔ نہ ہی اس کا سکول ، کالج، باپ کا نام ، پڑوسی کی لڑکی ، وہ نیم کا درخت ، اس کی آبائی رہائش گاہ ، کرکٹ کا میدان یا چھلے ہوئے گھٹنے ، یہ سب گواہیاں کمزور پڑ جاتی ہیں ۔ تو خیر ، اس کے کفیل نے اس کا پاسپور ٹ رکھ کر اسے اقامہ دے دیا تھا ، وہ بھی اس لیے کہ بالکل ہی بے نام و نشاں نہ ہو جائے اور کہیں مقامی ہونے کا دعویٰ نہ کر بیٹھے ۔ خارجی سے مقامی کاامتیاز بہت ضروری تھا ۔ کفیل گویا اس کا مقامی وارث تھا ۔ تو دمام میں بھی جمہ ، ہفتہ کی تعطیل تھی ۔ اب اتوار کو پاسپورٹ واپس ملتا پھر اس پر اپنے ہی وطن واپس جانے کے لیے خروج کی مہر لگتی ، تب کہیں بات بنتی ۔ یہاں ملازم آتا بھی کفیل کی مرضی سے ہے اور جاتا بھی اس کی رضا سے ہے ۔ یہ مہریں بہت اہم ہوتی ہیں ،خاص طور پر پاسپورٹ لگی ہوئی ۔ بعض مہریں تو پاسپورٹ کے راستے قسمت پر لگ جاتی ہیں ۔ جنت کا دروازہ کھول سکتی ہیں اور بند بھی کر سکتی ہیں ۔ تو جاوید بھی تدفین تو کیا سوئم میں بھی نہیں شریک ہو سکا ۔ ویسے فون پر بہت رویا تھا ۔ کہہ رہا تھا چہلم پر ضرور آئوں گا لیکن وہ آنکھیں جو اس کے انتظار میں آخر تک در سے جڑی رہیں ، وہ تو چہلم تک مٹی ہو چکی ہوں گی ۔ خیر!
چاروں بیٹیاں فوراً آگئی تھیں ۔ دو تو یہیں کراچی میں ہی رہتی ہیں ۔ وہ تو ہسپتال ہی پہنچ گئی تھیں ۔ ایک انگلستان سے آئی اور ایک ساہیوال سے ۔ اس کے اپنے بھائی بہن اور میرے اعزا ء سب ہی پہنچ گئے تھے لیکن بہت کم لوگوں کو اس کا منہ دیکھنے کی اجازت تھی ۔ خود میری لندن والی بیٹی کالے پالک بیٹا جو اسے نانی ، نانی کہتے نہ تھکتا تھا ، وہ بھی کیسے اس پر جان چھڑکتی تھی، کیسے بلک بلک کر رو رہا تھا ۔ سب دیکھ سکتے ہیں تو میں نانی کو کیوں نہیں دیکھ سکتا ۔ آپ تو واقف ہی ہیں ابھی کمسن ہے ،اسے ان نزاکتوں کا کیا پتہ ۔ نا محرم کو منہ دکھا دیا تو اوپر جا کر منہ چھپانا پڑے ۔
شروع میں تو مجھے بالکل رونا نہیں آیا ۔ لوگ کہتے رہے کہ سکتے میں ہے ۔ مجھے یہ خوف کہ نہ رویا تو لوگ کیا کہیں گے ۔ کہیں انہیں ہمارے جھگڑوں کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے ۔ بیٹھے بیٹھے میں نے سر جھکا کر بازو پر رکھ لیا ۔ خیر شکر ہے کچھ دیر بعد ایسا رونا آیا کہ رو کے نہ رکتا تھا ۔ وہ نیک بخت بہت خیال رکھتی تھی ۔ ابھی کوئی ایک ماہ قبل ہی کیسا شدید جھگڑا ہؤا تھا ۔اپنے زیورات پر پرچیاں لگا کر لاکر میں رکھ رہی تھی ۔ میرے

بعد نام بنام، یہ بندہ فلاں کو دے دینا اور یہ گہنا اس کا حصہ ہے ۔ سب بیٹیوں ، بہوئوں کے نام تھے ۔ ایک سیٹ پر اپنی بھانجی کا نام لکھ دیا ، وہ اسے بہت پیاری تھی ۔ اب بھلا بھانجی کو وصیت میں شریک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے بس یہی تو کہا تھا کہ جب اپنی بھانجی کو دے رہی ہو تو میری بھانجی کو بھی دو ۔ اس پر بات بڑھ گئی ۔ آپ ہی فیصلہ کیجیے میں نے کچھ غلط کہا تھا کیا ؟ مانا کہ زیور اسی کا تھا لیکن بات تو انصاف کی تھی۔
خوب رونا دھونا ہؤا۔ اس کے بعد وہ ٹی وی کے سامنے جم کر بیٹھ گئی ۔ میں نے عبد اللہ حسین کا ناول نکال لیا ۔ ذرا دیر کے بعد میرے سینے میں ایسا درد اٹھا کہ آپ سے کیا بیان کروں ۔ پہلے جا کر ذرا سا دودھ پیا کہ شاید تیزابیت ہے مگر اس سے افاقہ نہ ہؤا پھر دوائوں کی الماری میں بآواز دوا ڈھونڈ تا رہا ۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ کن اکھیوں سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔ جب میں دو ا تلاش نہ کر سکا تو بالآخر اٹھی اور شیشی نکال کر میرے سامنے پٹخ دی ۔’’ سامنے ہی رکھی ہے آنکھوں کے‘‘ واقعی سامنے ہی تھی ، یہ تو مجھے بھی معلوم تھا ۔ میں نے ایک گولی پھانک لی ، پھر ناول چھوڑ کر وہیں صوفے پر دراز ہوگیا۔
کچھ افاقہ ہؤا!
کچھ دیر بعد اس سے برداشت نہ ہؤا ۔ چہرے پر تشویش صاف ظاہر تھی ۔ میں نے بے بسی سے نفی میں سر ہلایا ۔ پاس آکر سینہ سہلانے لگی ۔ کہتی تھی میں جان بوجھ کر ایسا کرتا ہوں ۔ بھلا بتائیے ، لاحول ولا قوۃ … لیکن صاحب ! اس کی شرافت دیکھیے ، یہ معلوم ہونے کے باوجود بھی ہر بار دھو کہ کھاتی رہی ۔
ساہیوال والی چالیسویں پر پھر آئے گی ۔ خیر اب دس دن ہونے کو آ رہے ہیں ، لندن والی واپس جا چکی ہے، کراچی والیاں ابھی کل ہی اپنے گھروں کو گئی ہیں ۔ مصر تھیں کہ میں ساتھ چلوں ۔ ابھی نہیں ۔ جب تک میں خو د چل پھر رہا ہوں کیا ضرورت ہے کہ بیٹیوں پر بھار بنوں ۔ میں نے بہت سمجھا بجھا کر انہیں واپس بھیجا۔ ایک بینک میں ملازم ہے ، ایک سکول میں ٹیچر ہے ۔ یہی کہتی رہیں کہ ہم خود کماتے ہیں ۔ ہمارا آپ پر حق ہے ۔ خیر کب تک نوکریوں سے غیر حاضر رہتیں ۔ دونوںآپس میں باریاں لگا رہی تھیں ۔ پیر ، بدھ، جمعہ ، ہفتہ میں آئوں گی ۔ منگل ، جمعرات اور اتوار کو تم آنا۔ دونوں روز فون کر کے خیریت پوچھنے کا وعدہ کر گئی ہیں۔
چہلم کے بعد میں مرحومہ کا زیور نکال کر بچوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ وہ سیٹ اس کی بھانجی کو دینے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ ان بچوں کو تو تفصیل معلوم نہیں ، مرحومہ بھی اب ان مسائل سے آزاد ہے ۔ بلا وجہ کسی جذباتی لمحہ میںاتنا قیمتی سیٹ بھانجی کے نام لکھ گئی ۔ خود تو جا چکی ہے اب میرے خیال میں مجھے اتنا اختیار ہونا چاہیے کہ کسے دوں ۔
’’ پرچیاں کیوں لکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔’’ آپ بھول جائیں گے ، اس واسطے‘‘بھولتا تو خیر میں کیا اور خاص طور پر یہ کہ کسے نہیں دینا ہے ، یہ تو بالکل نہیں بھولتا۔ وہ بھی روا داری میں کہہ رہی تھی ورنہ اسے مجھ پربھروسہ نہیں تھا ۔ اب ایک معمولی سے سیٹ کے لیے شوہر سے ایسی کیا بے اعتباری۔
میں نے اپنے لیے چائے بنالی۔ چائے کی پیاسی لے کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گیا۔ ایک کے بعد دوسری ، پھر تیسری پیالی بھی پی گیا ۔ میں اٹھ کر کھڑ کی کے پاس چلا آیا اور باہر سے گزرتی گاڑیاں دیکھنے لگا ، کون سی مقامی ہیں اور کون سی باہر سے برآمد ہوئی ہیں ۔ پھر دروازہ کھول کر باہر بالکونی میں نکل آیا ۔ وہاں دو آرام کرسیاں پڑی تھیں لیکن ایک آج خالی تھی ۔ وہ اس کرسی پر بیٹھ کے پائوں ریلنگ پر رکھ لیتی اور گھنٹوں سڑک پر گزرنے والی گاڑیاں کو بے مقصد دیکھا کرتی ۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی بس سٹاپ ہے ۔ روزانہ کتنی ہی بار بس آکر رکتی ہے ، مسافر اترتے ہیں ، کچھ نئے سوار ہوتے ہیں ۔ یہ سب ایسا معمول کا عمل ہے کہ ہم خالی الذہنی سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ شاید ذہن کے کسی گوشتے میں عکس ابھرتا ہو، لیکن نقش نہیں چھوڑتا ۔ جب کوئی روز کا مسافر اچانک نظر آنا بند ہو جائے تو چند دن ضرور تشویش رہتی ہے ، پھر تماشائی بھول جاتے ہیں ، کسی نئے ناٹک میں منہمک ہو جاتے ہیں ۔
باغ میں کوئی گلہری پھدکتی نظر آتی تو ہم دونوں اسے تکتے رہتے ۔ جانے ہمیں کس چیز کی تلاش تھی ۔ آپ دونوں ایک دوسرے سے بہت ملنے لگے ، میری بیٹی کہتی ۔ بہن بھائی لگتے ہیں ۔ اس بات پر مرحومہ نے

اسے کتنا ڈانٹا تھا ۔’’ آپ کچھ کہتے کیوںنہیں ، جو منہ میں آئے کہہ دیتی ہے ، نکاح ٹوٹ سکتا ہے بیٹی ‘‘۔اس نے سمجھایا تو بیٹی ہنس دی تھی ۔ میرے خیال میں تو ہماری عمر کے سب ہی جوڑے آپس میں بہن بھائی لگتے ہیں ۔ ایک جیسی بو ، ویزلین کی یا جوشاندے کی ۔ ایک جیسے مسائل تنہائی اور بیکاری کے شاید کھانسی بھی ایک ہی رنگ کی ہو جاتی ہے ، تو بیٹی نے ایسا کیا غلط کہا تھا ۔ عمر کے اس حصے میں سورج سر پر کچھ ایسے کھڑا ہو جاتا ہے کہ سایہ اصل سے الگ ہو نے سے انکار کر دیتا ہے ۔
بالکونی سے میں جلدی ہی اکتا گیا تو پھر واپس اندر آگیا ۔ چائے کی پیالی صاف کرنے سنک تک لے گیا تووہاں کل کے جھوٹے برتن پڑے تھے ۔ چند پلیٹیں اورایک پیالی ، وقت ہی کتنا لگتا ہے ۔ پیالی میں نے ایسے ہی کھنگال کر رکھ دی ۔ بھئی مجھے ہی تو پھر پینی ہے ۔ مرحومہ ہوتی تو مجھے یہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
میں پیالی پھر چائے سے بھر کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا ۔ یہاں سب کل کی باسی خبریں تھیں ۔ خبریں دیکھنے کا فائدہ بھی کیا ہے۔ یہ تو وہ معاملات ہیں جو ظہور پذیر ہو چکے ہیں ۔ فلا ں جگہ زلزلہ آچکا ہے ۔ فلاںمقام پر ڈاکہ پڑ گیا تھا ۔ ڈاکو اگر آپ کا مال و متاع چھین کر لے جائے تو بعد میں اس خبر کو سننے یا پڑھنے سے سوائے احساس زیاں کے دہرائے جانے کے اور کیا فائدہ ہے ؟ اتنی ترقی کے بعد بھی کسی چینل پر اگلے دن ہونے والے حادثوں کی خبر نہیں ہوتی ۔شاید ماضی کے احوال سے مستقبل کی منصوبہ بندی میں آسانی ہو جاتی ہے ۔
کچھ دیر میں ٹی وی سے جی بھر گیا ۔ سوچا ناشتہ کر لوں یا کپڑے دھونے والی مشین میں کپڑے ڈال دوں ۔ میں صبح اٹھتے ہی جلد ناشتہ کر لیتا ہوں لیکن آج ابھی تک بھوک نہیں لگی تھی ۔ چلوناشتہ کر لیتے ہیں ، اس سے بھی کچھ وقت بیت جائے گا ۔ وہ ہمیشہ گرم فرائی پان فوراً دھونے سے منع کرتی کہ اس سے فرائی پان کی چکنائی ختم ہو جاتی ہے اور چیزیں چپکنے لگتی ہیں ۔ اب کون روکے گا ۔ یہ سوچ کر میں نے فرائی پان چولہے سے اٹھایا اور پانی کا نلکا کھولا مگر جانے دل میں کیا بات آئی کہ نلکا بند کر کے فرائی پان ٹھنڈ ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔
اس نے کتنی ضد کر کے باورچی خانے کا کائونٹر پر پالش کروائی تھی ۔ ’’ آپ کو کیا معلوم اس میں کتنی سہولت ہے ۔ ایک ذرا سا ہاتھ پھیرو اور سارے داغ دھبے صاف ہو جاتے ہیں ۔ کیا کھایا پیا تھا ، سب نشان مٹ جاتے ہیں ‘‘۔ مجھے لگا جیسے ہمارا چکنا کائونٹر بھی صاف ہو گیا ہو ۔ زندگی بھر جو کھایا پیا تھا اس کے داغ دھبے ایک ہی رگڑ میں صاف ہو گئے تھے ۔ کیا خبر اوپر والے نے بھی کائونٹر پالش کروا رکھا ہو ، ہاتھ رکھتے ہی نشانات ابھر آئیں گے ۔ کیسی مشکل پڑ جائے گی ۔ لیکن کیسی بھی پالش ہو یادیں تو صاف نہیں ہوتیں۔ جی نہ چاہا تو میں نے انڈا پلیٹ سے ڈھانپ کر ایک سمت سر کا دیا ۔ ابھی کچھ دیر میں کھالوں گا ، میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔
شادی کے فوراً بعد ہی مسائل شروع ہو گئے تھے ۔ اسے یہ زعم تھا کہ اپنا گھر چھوڑ کر آپ کے گھر آئی ہوں ۔مجھے یہ شکوہ کہ سب ہی ایسا کرتے ہیں ۔ اب اس ہجرت کا استحقاق کیسا ۔ جو مشکل سب اٹھانے لگیں وہ پھر مشکل کہاں رہ جاتی ہے ۔ اسے اس کی ماں سجھاتی ، مجھے میرا باپ۔ ہم ان کے سامنے نہیں لڑتے تھے ،پھر بھی نہ جانے کیسے انہیں خبر ہو جاتی تھی ۔ وہاں یہ سبق تھا کہ بیٹی حوصلہ رکھ بچے ہوں گے تو حالات بہتر ہو جائیں گے ، یہاں یہ فرمان کہ بیٹا مرد کا سینہ بہت وسیع ہونا چاہیے ۔ شادی کے بعد بھرے پرے گھر میں رہنا ایک بھری ہوئی بندو ق تھی ، فائدے بہت مگر نقصان کا بھی احتما ل۔ برتنے والے کی سوجھ بوجھ پر منحصر ہے کہ حالات سے کس طرح استفادہ کرتا ہے ۔ پھر واقعی حالات درست ہو گئے تھے لیکن چالیس برس کی رفاقت کے بعد ہم پھر بچہ بن گئے تھے ۔ اب نہ اس کی ماں سمجھانے کے لیے باقی تھی نہ ہی میرا باپ ۔ تم ہی بتائو ، بھلا بھانجی کو زیور کا سیٹ وصیت کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
میں جا کر پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا ۔ بہت سارے چینل مہیا ہونے سے اتنا ضرور ہؤا کہ ہر چینل پر ایک دو منٹ ہی ٹھہروں ، تب بھی خاصہ وقت کٹ جاتا ہے ۔ تین منٹ میں تیس چینل بدل ڈالے ، جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا ۔ جو ڈھونڈ رہا تھا وہ تو ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھا تھا ۔
’’ میں یہ پروگرام دیکھ رہی تھی ‘‘ میں اکتا کر چینل بدلتا تو وہ شکوہ کرتی ۔’’ اچھا میں اوپر جا کر کمرے میں دیکھ لیتا ہوں ‘‘ میں حل تجویز کرتا

’’ نہیں بدل لیں ، یہیں بیٹھیں ‘‘ اسے بھی شاید میری عادت سی پڑ گئی تھی۔
’’ چلو رہنے دو ،تم ہی اپنا پروگرام دیکھ لو ‘‘۔ میں وہیں کتاب لے کے بیٹھے جاتا مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد پھر چینل بدلنے کی کوشش کرتا ۔
’’ کیا دیکھنا ہے آپ کو ؟‘‘ وہ پوچھتی ۔
’’ کچھ بھی ہو ، اس سے تو بہتر ہوگا ‘‘ وہ ریمورٹ میرے ہاتھ سے چھین لیتی۔
میں نے اٹھ کر پھر چائے کا پانی گرم ہونے کے لیے رکھ دیا ۔ ’’ ابھی تو چائے پی تھی آپ نے ؟‘‘ وہ حیرت سے پوچھتی ۔ عادتاً میں نے دو پیالیاں سیدھی کر کے ان میںپتی ڈال لی۔ وہ تو جب کھولتا پانی پتی پر ڈالنے لگا تب یاد آیا ۔ شاید آنکھ میں کچھ پڑ گیا تھا تو نمی سے آنکھیں بھیگ گئیں ۔ آنکھ میں باہر سے کچھ پڑ جائے تو نمی اسے دھو دیتی ہے ، لیکن یہ کھردرا پن تو اندر کا کچرا تھا ، نمی اس کا کیا بگاڑتی ۔ میں نے اپنی چائے میں دودھ ڈالا ، دوسری پیالی وہیں رہنے دی اور پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا ۔
آدمی کا کتا مر جائے تو دوسرا پال لے ۔ دس برس کا کتا مرے تو دس برس کی عمر کا کتا پال لے ۔ ورنہ چاہے تو نو مولود لے کر اسے بڑا کر لے لیکن جب سایہ چھین جائے تو کیا کرے ۔ دوسرا سایہ تو میں نے کہیںملتے نہیںدیکھا ۔ دوسری بیوی مل سکتی ہے لیکن سائے کی بات اور وہے ۔ ہر وقت کا شریک راز ، روز کی بنتی مٹتی کہانیوں کا شریک۔ اب انہیں کون کھرچ کر پھینک سکتا ہے آج گھڑی کی سوئیاں بہت سست رفتار سے آگے بڑھ رہی تھیں ۔ وہ حرکت کرنا بھول گئی تھیں ۔ وقت تو ہماری مرضی کے تابع ہے ، ہم چاہیں تو یہ تیزی سے گزر جائے لیکن اگراس سے الجھ جائیں تو یہ خون رلا دے۔ میرا وقت سے الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، لیکن اس کی سست روی سے یقینا الجھ رہا تھا ۔
باہر درختوں میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ جیسے خزاں رسیدہ درخت بروکیڈ کے دو شالے اوڑھے کھڑے ہوں ۔ مجھے تو خزاں کا موسم بہت مرغوب تھا ۔ اسی موسم کے بعد تو سردی کا موسم شروع ہوتا ہے ۔ یہ سردی کے موسم میں بھلا درخت اپنے پتے کیوں جھاڑ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ کمزور درخت پہلے پتے جھاڑتے ہیں ۔ خزاں کے اس موسم میں ہم کیوں پتے جھاڑ کر ہلکے نہیں ہو جاتے ۔ فطر ت نے یہ مظاہرہ ہمیں جینے کے ڈھنگ سکھانے کے لیے رچایا ہے ۔ اگر ہم اپنے اطراف سے سبق سیکھ لیں تو سرما کا بہتر مقابلہ کر سکیں اور آنے والی بہاروں سے لطف اندوز ہو سکیں ۔
فون کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا :
’’ ابا آپ ٹھیک ہیں ؟ ‘‘ ساہیوال سے ایک محبت بھری آواز ابھری۔
’’ ہاںبیٹی، میں بالکل ٹھیک ہوں ‘‘۔ کچھ دیر اسے یقین دلا کر میں نے فون رکھ دیا۔ تھکے تھکے قدموں سے صوفے کی جانب بڑ ھ گیا۔ سورج نکل آیا تھا ، کھڑکی سے دھوپ کے مستطیل ٹکڑے کمرے کو روشن کر رہے تھے۔ کھانے کی میز اور کرسی کے سائے لمبے ہو کر صوفے تک پھیل رہے تھے ۔ میں نے مڑ کر دیکھا لیکن اپنا سایہ نہ دیکھ سکا ۔
(فنون 141)٭

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x