ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اپنے ہاتھ سے کمانے والے – بتول جون ۲۰۲۳

محنت کشوں اور خادمین سے متعلق سیرت پاکؐ سے رہنمائی

اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں تمام انسان مساوی ہیں۔ شروع ہی میں یہ واضح کر دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شرف انسانیت میں سب مساوی ہیں،احترام آدمیت پانے میں سب مساوی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے اس نظم کو چلانے کے لیے تمام کے تمام لوگوں کو اعلیٰ مناصب نہیں دیے جا سکتے تھے لہٰذا اسلام نے یہ ذہنیت پیدا کی کہ تمام مناصب ہی قابل تکریم ہیں،محنت کی عظمت واضح کی،انبیاء کی مثال پیش کی گئی جو اپنے ہاتھ کی محنت سے کماتے تھے،داؤد علیہ السلام باوجود حکمران ہونے کے،اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے اور زرہیں بناتے تھے۔
’’آپ ﷺنے فرمایا،اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔صحابہؓ نے عرض کیا اور آپؐ نے بھی چرائیں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں میں چند قیراط اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا‘‘۔(بخاری)
اگر کوئی اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے،اس کو بیچے اور اللہ اس کے ذریعے اس کی آبرو بچائے رکھے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے کہ وہ دیں یا نہ دیں۔ (بخاری)
کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔(مسند احمد)
یہ تو واضح ہو گیا کہ کوئی بھی منصب گھٹیا نہیں اور کوئی بھی فرد کم محترم نہیں کیونکہ تمام انسانوں کو قابل تکریم پیدا کیا گیا ہے۔اللہ کے نزدیک البتہ معیار تقویٰ ہے یعنی جو تقویٰ کے راستے پر چلے گا،لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرے گا،حرام کاموں، کمائی اور غلط سوچوں سے اللہ کے لیے بچ کر رہے گا وہ محترم ہو گا۔انسانوں نے مگر شعبے اور منصب کے لحاظ سے اولاد آدم میں تفریق شروع کر دی۔ہم نے گھریلو ملازمین کو نیچ سمجھنا شروع کر دیا،محنت کرنے والوں کو حقیر ٹھہرا دیا،روز مرہ زندگی اور مسجد کی زندگی میں تفریق پیدا کر دی، ایک صف میں کھڑے ہو نے والے عام زندگی میں اعلی اور گھٹیا کہلائے۔عورت کی سب سے زیادہ تذلیل کی گئی۔اسلام کی تعلیم تو مگر اس ضمن میں یوں تھی:
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔یہ (غلام) تمھارے بھائی ہیں۔اللہ نے ان کو تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو،اور وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔اور اس کو ایسے کام پر مجبور نہ کروجو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اس کے لیے بوجھ ہو۔اور اگر ایسا کام اس سے لو جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو پھر اس کام میں خود بھی اس کی اعانت اور مدد کرو۔(متفق علیہ)
حضرت عبداللہ بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ؐکی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا:یا رسول اللہ ؐمیں کتنی بار اپنےخادم کو معاف کروں؟ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ہر روز سترمرتبہ۔(ترمذی شریف)
’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔(متفق علیہ)
حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن حضوؐر نے مجھ سے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا؟(بخاری)
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے نبی کریمؐ کو دیکھا کہ ان کے پاس دو غلام تھے۔اس میں سے ایک غلام آپؐ نے حضرت علیؓ کو ہدیہ کیا اور ارشاد فرمایا:۔اسے مت مارو، میں نے نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے منع کیا ہے، اور میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری)
اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا کہ نبی کریمؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، نہ کسی جانور کو،نہ اپنی بیویوں کو اور نہ خادم کو،اِلا یہ کہ آپؐ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوں۔(مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں خود تین لوگوں کے خلاف دعویٰ دائر کروں گا۔ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا اور پھر اس سے مُکر گیا۔دوسرا وہ شخص جس نے ایک آزاد مسلمان کو غلام کی حیثیت سے بیچ کر اس کا مال کھالیا۔تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور یا ملازم سے اُجرت پر رکھا اور پورا کام لینے کے بعد اس کی اُجرت عطا نہ کی۔(بخاری)
ابومسعود انصاریؓکہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا۔میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی کہ اے ابومسعود!جان لو کہ اللہ کو تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمھیں اس غلام پر حاصل ہے۔مَیں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسولؐ اللہ تھے۔میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اب یہ خدا کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں جان لینا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں جلا ڈالتی،یا یہ فرمایا:۔جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ۔ (مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ جب خادم سے بازار سے گوشت منگواتے تھے تو گوشت کے ٹکڑوں کو گن لیا کرتے تھے اور جب کھانے کے لیے تشریف رکھتے تو خادم کو حکم دیتے کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالے۔ان سے جب اس معاملے کی علّت پوچھی گئی تو فرمایا:اس طریقے سے دل کی تسلی بھی ہوتی ہے اور وہم و وسوسہ دُور ہوجاتا ہے کہ شاید خادم نے کچھ گوشت چُرا لیا ہوگا۔(بخاری)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرمؐ نے حکم دیا کہ خادم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے اور اگر کسی کو ساتھ کھانا ناگوار گزرتا ہے تو خادم کے لیے کھانا دے دے.(احمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اگر تمھارے پاس کھانے کے وقت خادم آئے اور ساتھ شریک نہ ہوسکے،تو چاہیے کہ اسے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دے۔(متفق علیہ)
گویا ملازمین اور ماتحت بھی اسی طرح انسان ہیں جیسے مالک خود اور قربان جائیے اپنے دین اور اللہ کے جس نے ہر انسان کی عزت نفس اور خودداری کا لحاظ رکھا،یہاں ظالم کا ہاتھ روکا جائے گا خواہ وہ حاکم ہو یا ماتحت،مظلوم کے حق میں سب مل کر آواز اٹھانے کے پابند ہوں گے اگر اس کے حقوق کو کچلا جا رہا ہو گا یا اس پر کسی بھی پیرائے میں زیادتی کی جا رہی ہو گی اور اس ضمن میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ مظلوم طاقتور ہے یا کمزور۔
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یکم مئی کا دن مزدوروں کی جدوجہد،جفاکشی کی یاد کے طور پر مبایا جاتا ہے، شکاگو میں جب مزدور و ں نے سرمایہ دارانہ نظام کی سختیوں سے تنگ آ کر اپنے حقوق کی آواز بلند کی،ہڑتالیں کیں،اگر چہ اس ضمن میں انہیں بے شمار قربانیاں دینا پڑین مگر کچھ مطالبات وہ اپنی سہولت کے لیے منوانے میں کامیاب ہو گئے۔اب چودہ گھنٹے کی ڈیوٹی کی بجائے 8 گھنٹے ڈیوٹی، 8 گھنٹے آرام اور باقی کے 8 گھنٹوں پر مزدور کا حق تسلیم کر لیا گیا۔پہلےانہیں چھٹی کرنے کی اجازت نہ تھی،اب ہفتے میں ایک چھٹی پر ان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ٹریڈ یونین بنانے کا حق ملا۔مزدور خواتین کو ایام حمل میں چھٹیوں کی سہولت میسر آئی۔لیبر کورٹ کا انعقاد عمل میں آیا۔
اگر چہ یہ مطالبات تسلیم کیے گئے مگر مزدور،گھریلو ملازمین اور اجیر کے حالات آج بھی نا گفتہ بہ ہیں۔ اقبالؔ نے کہاتھا؎
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
سرمایہ دارانہ نظام اگر اس حالت کا مرکزی کردار ہے تو اشتراکیت نے بھی اس کا حل پیش نہیں کیا بلکہ مزدور کا خون چوس چوس کر ایک بڑے آمر کو جنم دیا۔اسلام میں مگر بہترین حل موجود ہے،اسلامی نظام معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام کا ملغوبہ یا معجون مرکب بنا کر نافذ کرنے کی بجائے اگر اسلامی نظام معیشت کو آزاد حیثیت سے کام کرنے کا موقع دیا جائے تو دنیا جان سکتی ہے کہ اسلامی نظام معیشت سراسر انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے۔
گھریلو ملازمین کے احترام کے سلسلے میں بھی تربیت کی ازحد ضرورت ہے۔بے شک وہ غریب ہوتے ہیں مگر اجرت پر کام کرتے ہیں، بھیک نہیں مانگتے اور محنت کش کا دوست اللہ ہے۔کیا ہم اللہ کے دوست کو حقیر سمجھ کر نازیبا رویہ اختیار کرنے کے مجاز ہیں؟کیا ہم الکاسب حبیب اللہ کا لقب پانے والوں کے پسینہ خشک ہونے سے قبل اجرت دینے کے مکلف نہیں۔ہم اپنے سے طاقتور سے معاملات کے وقت تو بہت جھک جاتے ہیں اور نرمی سے معاملہ کرتے ہیں مگر ملازمین سے درگزر کر ے کے لیے تیار نہیں ہوتے، ہم ان کی مجبوری،بیماری اور ضرورت کا خیال رکھے بغیر ان کی تنخواہ سے کٹوتی کر کے اپنی طرف سے بڑے منصفانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر آئے روز ان کی نا سازی طبع،مجبوری کا لحاظ رکھے بغیر ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے زیادہ کام لیتے ہیں، بہت دریا دلی کا ثبوت دیں تو ناکارہ اور خراب پھل یا باسی کھانا انہیں دے کر احسان جتلاتے ہیں\۔کیا جب ہمیں ہماری خدمات کے عوض کوئی بھکاری سمجھ کر معاملہ کرے تو ہماری خودداری کو ٹھیس نہیں پہنچے گی ؟مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اس طبقے میں احساس خودداری جنم لیتا بھوک اور نا ختم ہونے والی خواہشات نے ان کی غیرت کو سلا دیا ہے اور یہ خود بھی مانگنے سے نہیں چوکتے۔
ہمیں فخر ہے کہ سید الانبیاء محمد ؐنے سب سے پہلے مزدور کے حق میں آواز بلند کی اور بروقت اجرت دینے کی تلقین کی۔پہلے خلیفہ سیدنا ابو بکر ؓنے برملا کہا کہ ان کی تنخواہ ایک مزدور کے برابر مقرر کی جائے اگر ان کا گزارا نہیں ہو گا تو مزدور کی تنخواہ بڑھا دی جائے گی۔
آجر اور اجیر کے درمیان تمام معاملات میں اسلامی احکام پر چلا جائے تو اجیر کی حق تلفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی آجر کے کام میں خلل پیدا ہوتا ہے.آجر کے عمومی رویے کے برعکس اجیر کے اجرت کے بارے میں بھی آجر کے لیے واضح تعلیم موجود ہے،اجرت کے بارے میں تنازعہ سے بچنے کے لیے بھی اسلامی احکام کا پلو تھامنے میں ہی عافیت ہے.آجر کو تعلیم ہے کہ اجرت پہلے طے کی جائے.کام کا بوجھ زیادہ ہو تو آجر خود معاونت کرے.آجر اگر یہ نہ بھولے کہ آجر ہونے میں اس کا کوئی کمال نہیں اور اجیر ہونا کسی کا اختیار نہیں تو کبھی اجیر کا حق نہ مارے.آجر کو اللہ نے ہی اس مرتبے تک پہنچایا اور اجیر کی روزی کا بندوبست اللہ نے کیا.آجر نہیں جانتا کہ کب اللہ اسے اجیر کے مرتبے تک لے آئے اور اجیر سلام بھی نہیں جانتا کہ کب اسے اللہ رب العزت آجر بنا دے۔لہٰذا آجر کو اپنی حدود کی پاسداری کرنی چاہیئے اور اجیر کو بھی حق حلال کی کمائی سے رغبت رکھنی چاہیے۔
اسلام کمزور کے حقوق کا سب سے بڑا داعی ہے کیونکہ ہمیشہ طاقتور نے کمزور کی حق تلفی کی کوشش کی تا ہم اسلام کی کوئی تعلیم عدل سے خالی نہیں.خود حدیث کا ترجمہ اس کی دلالت کرتا ہے۔مزدور کے پسینہ۔ کے الفاظ گواہ ہیں کہ اجیر،گھریلو ملازم، مزدور ہر اجرت لینے والا محنت کا مکلف ہے،دیانتداری سے ذمہ داری انجام دینے کا مکلف ہے۔اگر وہ آجر،مالک کی نگاہوں سے بچ کر کام میں تساہل برتتا ہے اور اپنی کمزوری کو طاقت بنا کر آجر کا استحصال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آجر کو اس کے خلاف کاروائی کا حق حاصل ہو گا مگر انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے۔
اسلامی تاریخ تو مزدور،ماتحت سے حسن سلوک کی مثالوں سے بھری پڑی ہے:
صحابی رسول حضرت ابوالیسر ؓ، آپ ؐسے اپنی ملاقات کااحوال بیان کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے دیکھا کہ جو چادر اور لباس آپ ؐنے پہنا ہؤ اہے،وہی آپؐ کے غلام نے بھی پہنا ہوا ہے۔ میں نے آپ ؐسے اس بارے میں استفسار کیا تو آپ ؐنے بڑی محبت اور شفقت سے میر ے سر پر ہاتھ پھیر ا اور دعا فرمائی کہ۔اے اللہ اسے برکت عنایت فرما۔پھر ارشاد فرمایا،تم ان غلاموں کو وہیں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور وہیں سے پہنا ؤ جوتم خود پہنتے ہو۔ اگرمیں اس غلام کو متاع دنیا میں سے کوئی چیز دے دوں،یہ میر ے لیے اس امر سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میر ی نیکیاں لے لے۔(صحیح مسلم)
آپ ؐنے ارشاد فرمایا، غلاموں(خادموں ، ملازموں )کے ساتھ خوش خلقی کا برتاؤ کر نا برکت کا موجب ہے اور بد خلقی کا برتاؤ کر نا بے برکتی کا سبب ہے۔(سنن ابوداؤد )
آنحضورؐنے غلاموں کی ذہنی سطح بلند کرنے،بلند خیال بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے.جیسا کہ عمومی مشاہدہ ہے کہ ملازمین یا کم مرتبہ لوگوں میں احساس خودداری تک ختم ہوتی جاتی ہے،وہ اپنے آپ کو نیچ خیال کرتے ہیں اور کنوئیں کے مینڈک بننے میں ہی سہولت محسوس کرتے ہیں۔بچوں کو سکول داخل کروانا بھی پیسے اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور انسانوں کی سیوا کرنے میں ہی نجات سمجھتے ہیں اور اسی حیثیت میں مطمئن رہتے ہیں مگر اسلام کا دامن انصاف ایسے لوگوں کی علمی سطح بلند کرکے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے پر زور دیتا ہے تا کہ بنی نوع آدم کی تکریم کی جائے اور انسان انسانوں کو حقیر نہ جانیں۔خود نبی ؐ نے غلاموں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے تعلیم کا انتظام کیا اور غلام اور آزاد کو مواخات کے رشتے میں پرو دیا۔
آزادعبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (رسول اللہؐکے آزاد کردہ غلام) کے درمیان۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدنا عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ اورسیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور سیدنا سالم الموالی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مابین۔(البلاذری)
اور تو اور آپؐ نے تو غلاموں کی عزت نفس کا اتنا خیال رکھا کہ انہیں عبدی، اَمَتی جیسے الفاظ سے پکارنے سے روکا۔بے شک یہ الفاظ ماتحت کی ذہنی سطح کو پست کرتے ہیں۔فرمایا:
تم میں کوئی بھی اپنے غلام وباندی کو عبدی ، اَمَتی نہ کہے، کیوں کہ تم سب ہی اللہ کے بندے ہو اور تمام عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں، لیکن تم اپنے غلاموں کو غلامی، باندیوں کو فتاتی کہہ سکتے ہو۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ ہمیں ماتحتوں سے حسن سلوک کرنے کی توفیق دے خواہ وہ اجرت پر ہوں یا عائلی زندگی میں ترتیب و حسن پیدا کرنے کے لیے ہمارے ماتحت ہو یا ملکی نظام کی درستگی کے لیے ہمارے ماتحت ہوں۔ آمین
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x