ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

روشنی کا سفر – نور مارچ ۲۰۲۱

دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے، ایک دن عجیب بات ہوئی۔ پادری نے محمد سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ مسجد میں جانا چاہتا ہے اور مسلمانوں کی عبادت کا طریقہ دیکھنا چاہتا ہے۔چنانچہ محمد المصری اسے اپنے ساتھ مسجد لے گیا۔
جب وہ دونوں واپس آئے تو اسکپ نے سرسری انداز میں پادری سے مسجد کے متعلق پوچھا؛ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ مسلمان مسجد میں جانور ذبح کرتے ہیں، بم بناتے ہیں، شور شرابا ، نعرہ بازی وغیرہ کرتے ہیں، جب پادری نے کہا:
’’مسلمان وہاں کچھ بھی نہیں کرتے، وہ مسجد میں جاتے ہیں،نماز کے لیے صفیں بنا لیتے ہیں اور الله اکبر کہہ کر خاموش کھڑے رہتے ہیں، پھر رکوع کرتے ہیں، دو سجدے کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرتے، اسی طرح نماز پڑھتے ہیں اور آخر میں سلام پھیر کر نمازمکمل کرتے اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
اسکپ نے حیران ہو کر کہا: ’’چلے جاتے ہیں؟ تقریر کرنے اور گانے بجانے کے بغیر؟ ‘‘
پادری نے کہا’’: ہاں! ‘‘
اسکپ اپنے چرچ کا میوزک ماسٹر تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عبادت گانے بجانے کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔
اسلام اور اس کی تعلیمات میںا سکپ کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ہر موقع پر محمد سے سوال کرنے لگا، کبھی جاننے کے لیے اور کبھی تنقید کے لیے۔ یہ کیسے، وہ کیسے، اسلام کیا کہتا ہے؟ عیسائیت میں کیا ہے؟
محمد المصری اس کے سوالات سن کر مسکراتا اور نرم لہجے میں اسے اسلام کے متعلق بہت سی باتیں بتاتا رہتا۔
محمد المصری نہ سگریٹ پیتا تھا، نہ شراب ، نہ جھوٹ بولتا ، نہ کسی معاملے میں بے ایمانی کرتا ، یہاں تک کہ جب وہ کسی عورت کو دیکھتا تو فورا اپنی نظریں جھکا لیتا۔ اسکپ اسے دیکھ کر کبھی کبھی سوچتا اگر آج عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تویہ شخص ان کا سب سے بڑا پیرو کار ہوتا۔
ایک دن کاروبار کے سلسلے میں وہ دونوں دوسرے قصبے میں گئے۔ واپسی پر رات گہری ہوچکی تھی، بیچ سڑک کے اچانک گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ اسکپ نے پریشانی کے عالم میں گاڑی ایک طرف روک لی۔ اس نے دیکھا محمد مطمئن اور پرسکون تھا اور کہہ رہا تھا ’’الحمد لله،قدر الله، ما شاء الله‘‘اسکپ ان الفاظ کے معنی نہیں جانتا تھا لیکن اسے محمد کے اس انداز پر رشک آیا۔ بارہا اس نے مشاہدہ کیا کہ کسی بھی مصیبت یا تکلیف سے گھبرا کر وہ شدید پریشان ہو جاتاہے مگر محمد مشکل سے مشکل حالات میں بھی کچھ کلمات پڑھتا رہتا ہے، اور پُرسکون رہتا ہے۔ اسکپ اسے دیکھ کر سوچتا کاش میں بھی ایسا ہی ہو جاؤں۔
اسلام کے متعلق ا سکپ کے سوالات بڑھتے گئے۔ اس کے اکثر سوالات عیسائیت اور عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہوتے اورجن کے جواب سن کر وہ مطمئن ہو جاتا۔ اب وہ کھلم کھلم محمد سے کہتا کہ تم عیسائیت قبول کر لو، محمد مسکرا کر بات بدل دیتا۔
آخر ایک دن اس نے کہا:’’اگر تم چاہتے ہو کہ میں عیسائیت قبول کر لوں تو تمہیں ثبوت دینا پڑے گا کہ تمہارا دین میرے دین سے بہتر ہے۔‘‘
اسکپ نے خوش ہوتے ہوئے کہا:”عیسائیت بہت آسان ہے۔ نہ تمہیں نماز پڑھنی پڑے گی نہ روزہ رکھنا ہوگا، نہ کچھ کھاتے وقت سوچنا ہوگا نہ پیتے وقت، بس تمہیں ایک اچھا انسان بننا ہوگا۔‘‘
محمد نرمی سے بولا: ’’اسکپ تم میرا مطلب نہیں سمجھے، مجھے ثبوت چاہیے۔‘‘
’’ ثبوت! دین تو ماننے کا نام ہے اس میں کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔‘‘ اسکپ نے جھنجلا کر جواب دیا:
محمد نے تحمل سے کہا: اسلام میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں، ہم مانتے ہیں مگر ثبوت کے ساتھ ۔اسلام میں ہر لفظ جو کہا جاتا ہے ، ہر کلمہ جو بولا جاتا ہے، ہر کام جو کیا جاتا ہے اس کا ثبوت موجود ہے، قال الله تعالی و قال الرسولؐ، یہی اسلام کی سچائی ہے۔ قرآن مجید میں الله نے فرمایا، ’بے شک ہم ہی نے اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘( الحجر) اور فرمایا ’’ اے پیغمبرؐ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا اسے لوگوںتک پہنچا دو ‘‘( المائدہ)۔
محمد ؐنے رُ ک کر ایک گہرا سانس لیا ، پھر بولا :’’ خواہ ہم ان احکامات کی وجہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ۔ ان پر عمل کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں ، یہ الگ بات ہے، لیکن ہمارے پاس ان تمام احکامات کا ثبوت قرآن اور احادیث مبارکہ کی صورت میں موجود ہے جو آج تک محفوظ چلا آ رہا ہے اور یہ ثابت شدہ حقیقت ہے ۔‘‘
محمد خاموش ہو گیا ۔اسکپ بھی خاموش تھا ۔ یقیناً وہ بائبل کے متعلق یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ۔
’’ پھرکیا محمد کا دین ہی بہتر ہے ؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا ۔

(جاری ہے)

نزہت وسیم

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x