ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آخرت- بتول ستمبر ۲۰۲۱

عقیدہء آخرت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بعد عقیدۂ آخرت ہی انسان کی زندگی کو درست رنگ اور سمت عطا کرتا ہے۔انسان کی زندگی کے دو مراحل ہیں، ایک محدود اور دوسرا لا محدود۔دنیا کی زندگی محض ایک ساعت یا دن کا کچھ حصّہ ہے اور آخرت کی زندگی حیاتِ جاوداں ہے۔ دنیا کی زندگی اس کرۂ ارضی پر ہے اور آخرت کی مکانی وسعت میں کامیاب لوگوں کا مقام جنت ہے جو ’’کعرض السماء والارض‘‘ (زمین و آسمان کی وسعت جیسی )ہے، اور ناکام لوگوں کا مقام جہنم ہے، اور وہ بھی اتنی وسیع ہے کہ اس میں اول وآخر کے تمام فاجرین پورے آجائیں گے اور وہ پھر بھی نہ بھرے گی۔
قرآن کریم میں دنیا و آخرت دونوں کے الفاظ (۱۱۱) مرتبہ وارد ہوئے ہیں۔آخرت اپنے الفاظ اور معنی دونوں میں دنیا کے برعکس ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی، دنیا لھو و لعب اور کھیل تماشا ہے تو آخرت اصلی حقیقی اور پائیدار زندگی! دنیا دھوکے اور فریب کا گھر ہے تو آخرت سچائی اور حقیقت کا مقام۔دنیا اور اس کی ہر شے فنا ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی کو خلود حاصل ہے۔
آخرت کا تعلق علم الغیب سے ہے، اور اس کے بارے میں ہمیں اسی قدر علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور انبیاء علیھم السلام کے ذریعے دیاہے۔ آخرت کی زندگی کی ابتدا موت سے ہوتی ہے اور اس کی انتہاء دار الآخرۃ (جنت یا جہنم) پر ہوتی ہے۔عالم ِ موت اور دار الجزا اور اس کے متعلقات سب علم الغیب ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔دنیا کا موازنہ آخرت کی زندگی سے کیا جائے تو وہ مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔
آخرت کا مفہوم
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ِ ہدایت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس بات کو ضروری قرار دیا کہ بندہ ’’آخرت‘‘ پر یقین رکھتا ہو۔عقیدۂ آخرت میں درج ذیل عقائد شامل ہیں:
۱۔ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔
۲۔ یہ دنیا اور اس کا نظام فانی ہے، اور ایک وقت یہ سب فنا ہو جائے گا۔
۳۔ اس عالم کے خاتمے کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آئے گا، اور وہاں تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت دوبارہ زندہ کیا جائے گا، اور ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
۴۔ اسی فیصلے کی بنا پر لوگ جنت اور جہنم میں جائیں گے۔
۵۔ آخرت میں کامیاب وہی ہے جو اللہ کے فیصلے کے مطابق کامران ٹھہرے۔
پس دنیا کی زندگی بہت اہم ہے، کہ یہ ’’مزرعۃ الآخرۃ‘‘ (آخرت کی کھیتی ) ہے۔ اس میں انسان جیسی فصل بوئے گا ویسا ہی ثمر آخرت میں پائے گا۔
تصوّر ِ آخرت کی درستی
انسانی زندگی اور اس کےمال کے بارے میں لوگوں کے مختلف اور متضاد عقیدے ہیں، جو علم پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ قیاس آرائی پر مبنی ہیں، اسی لیے وہ باہم مختلف ہیں۔ کسی نے سمجھا کہ زندگی بعد موت نہیں ہو گی۔ کسی نے اس کو تناسخ کی صورت میں مانا۔ اور کسی نے آخرت کی زندگی کو تو تسلیم کیا مگرجزائے اعمال سے بچنے کے لیے طرح طرح کے سہارے تجویز کر لیے۔حالاں کہ اتنے بڑے اور اہم ترین بنیادی معاملے پر انسان کی رائے کا غلط ہو جانااس کی پوری زندگی کو غلط کر دیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا مستقبل برباد کر دیتا ہے۔اور اس سے بڑی تباہ کن

حقیقت حماقت نہیں ہے۔
اصل زندگی آخرت کی ہے
ارشادِ الٰہی ہے:
’’اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے‘‘۔ (العنکبوت، ۶۴)
دنیا کی زندگی عمومی لحاظ سے تو ایک کھیل تماشا ہی ہے، اور آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، وہ زندگی کا نہایت اعلیٰ معیار ہو گا، ایک بھرپور زندگی جس میں حقیقی نشاط اور حیات ہو گی۔ دنیا کی زندگی بہت قیمتی ہے اگر اس میں آخرت کی کامیابی کے لیے کوشش کی جائے، اور دنیا کی قدرو قیمت معلوم ہو۔ایک باشعور مومن دنیا کے کھیل تماشے میں مختصر وقت کے لیے مشغول بھی ہو جائے تو اس کی سعی و جہد کا محور آخرت ہی رہتی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں اتنی ہی ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی لگ جاتا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۲۸۵۸)
یہی بات عقل میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ ابدی و سرمدی زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، وہی دار القرار ہے۔
آخرت کا وقوع
قیامت کے برپا ہوتے ہی دوسری زندگی (آخرت) شروع ہو جائے گی، اور قیامت اچانک آئے گی، ارشاد ہے:
’’اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے‘‘۔ (النحل، ۷۷)
یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مدت میں واقع نہ ہو گی، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دو رسے اسے آتے دیکھو کہ سنبھل جاؤ، اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو۔ وہ تو کسی روز اچانک چشم زدن میں بلکہ اس سے بھی کم مدت میں آجائے گی۔لہٰذا جس کو غور کرنا ہو وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہوجلدی کر لے۔ کسی کو اس بھروسہ پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کر لیں گے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۵۹)
آخرت ایمان والوں کے لیے ہے
قرآن کریم کی آیات میں واضح کیا گیا ہے کہ آخرت ایمان والوں کے لیے ہے، وہ لوگ جو تقویٰ ، سچائی اور خیر کو اختیار کرنے والے ہیں، ارشاد ہے:
’’دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشا ہے، حقیقت میں آخرت کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟‘‘۔ (الانعام، ۳۲)
اللہ کے پیمانے کے مطابق حیاتِ دنیا اور حیاتِ اخروی کا یہ وزن ہے اور یہ حقیقی وزن ہے۔ اور عالم ِ آخرت کے مقابلے میں عالم ِ دنیا کی زندگی کو لہو و لعب ہی کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ وہ ابدی اور دوامی ہے اور جنت بہت ہی کشادہ ہے۔
یہ تو ہے اس دنیا کی قدر و قیمت بمقابلہ آخرت! لیکن اسلامی تصور ِ حیات نے اس مختصر دنیا کو بھی مہمل نہیں چھوڑا اور نہ ہی اس کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیا ہے اور نہ ہی ترک ِ دنیا کی تعلیم دی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی زندگی سے متعلق کوئی دنیا سے بیزاری کا رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے نفوس کے اندر پائے جانے والے شیطانی نفس (نفسِ امارہ) پر قابو پایا، اور کرہ ء ارض پر غالب نظامِ جاہلیت کو مغلوب کیا۔صحابہ کرامؓ نے اپنی عملی زندگی میں آخرت کے لیے کام کیااور اس دنیا کے حوالے سے بھی مثبت رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے معاملات ِ دنیا میں سرگرمی سے حصّہ لیا اور جوش و خروش کے ساتھ معاملات ِ دنیا طے کئے اور دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر کام کیا۔اس سب کے باوجود ووہ دنیا کے بندے نہ بن گئے بلکہ ان کی ترجیح دار الاآخرت ہی رہا۔ وہ دنیا پر سوار تھے دنیا ان پر سوار نہ تھی۔ انہوں نے دنیا کو غلام بنا کر اسے ذلیل کیا اور خود دنیا کے غلام بن کر اس کی ماتحتی قبول نہ کی۔ وہ اس دنیا پر اللہ کے نائب اور خلیفہ رہے، انہوں نے حقِّ خلافت خوب ادا کیا اور اس دنیا کی خوب تعمیر کی، انہوں نے اس دنیا کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا اور اس کی خوب اصلاح کی۔ اور یہ سب کچھ انہوں نے

رضائے الٰہی اور اجرِ اخروی کی بنیاد پر کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ دنیا کے میدان میں بھی اہلِ دنیا سے آگے بڑھ گئے اور آخرت کے میدان میں تو وہ تھے ہی آگے۔ (دیکھیے، فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
تصور ِ آخرت کے اثرات
انسان کی زندگی اور اس کی سعی و جہد اس بات سے عبارت ہے کہ وہ آخرت کے بارے کیا تصور رکھتا ہے۔ بلال بن سعدؒ کہتے ہیں: ’’عباد الرحمٰن، جب آپ میں سے کسی سے پوچھا جاتا ہے، کیا تم مرنا پسند کرتے ہو؟ تو وہ کہتا ہے : نہیں۔ جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں؟ تو وہ کہتا ہے: تاکہ میں (نیک) عمل کروں، مگر نہ وہ عمل کی جانب بڑھتا ہے نہ موت کو پسند کرتا ہے۔اسے تو یہی پسند ہے کہ اللہ کے لیے کام کو ٹالتا رہے۔اور دنیا کو آگے بڑھ کر حاصل کرتا رہے۔ وہ کہتے ہیں: اے خلود اور بقا کو پانے والو، تم فنا ہونے اور مٹ جانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے، تم تو دائمی زندگی اور ہمیشہ رہنے والے گھروں کو پانے کے لیے پیدا ہوئے ہو، تم ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو رہے ہو، جیسے تم (اپنی ابتدا میں) صلب سے رحم میں منتقل ہوئے، اور رحم سے دنیا میں آئے، اوردنیا سے قبر میں پہنچے اور قبر سے اٹھ کھڑے ہو گے، اور وہاں ایک دائمی زندگی تمہاری منتظر ہو گی، وہ آگ ہو یا جنت! آخرت کی یہ تصویر ہر انسان کے شعور میں موجود ہے، انسان کی فطرت خود ایک ایسے مقام کا تقاضا کرتی ہے جہاں عدل ہو، جہاں نیکیوں کی جزا ملے، جہاں ظالموں کو ان کے کیے کی سزا ملے، جس جگہ ہر جھگڑے میں حق پر قائم ہونے والوں اور باطل کا ساتھ دینے والوں اور معاملات میں باہم اختلاف کرنے والوں کو حق معلوم ہوجائے۔
بلال بن سعدؒ کہتے ہیں: ابھی تو تم باتیں بناتے ہو، عنقریب وہ دن آئے گا جب تم خاموش ہو جاؤ گے اور اللہ بولے گا، اس و قت تمہارے اعمال پر دھواں چھا جائے گا اور تمہارے چہرے کلونس زدہ ہو جائیں گے، ’’اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہو گا‘‘۔ (البقرۃ، ۲۸۱)
یہی وہ تصور ہے جو ہر لمحہ مومن کو بہتر اور باقی رہنے والی آخرت کی تیاری کے لیے مستعد بنا دیتا ہے۔ مومن کے ضمیر کی گہرائیوں میں قیامت کا نقشہ اور اس کی ہولناکی موجود ہوتی ہے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ہی اتنا لرزا دینے والا ہے کہ اس سے انسان کا پورا وجود کانپ اٹھتا ہے۔ یہ فضا ہی لینے اور دینے کی فضا ہے۔ کسب اور جزا کی فضا ہے۔ اس فضا میں انسان کی پوری زندگی کا تصفیہ ہو رہا ہے۔ یہ انسان کی پوری زندگی کے فیصلے کی فضا ہے۔ اس فضا سے دلِ مومن خائف رہتا ہے اور اپنے آپ کو اس کی ہولناکیوں سے بچاتا ہے۔یہ ہے اسلام کا مضبوط اور قوی نظام! یہ ایک سنجیدہ اور زندگی سے بھرپور نظام ہے، جو عملاً کرۂ ارض پر چلنے کے قابل ہے۔ انسانیت کے لیے یہ اللہ کی رحمت اور رافت ہے۔ آخرت کے ظہور میں آنے سے قبل نہ صرف اس کے آنے اور وقوع پذیر ہونے کی اطلاع، بلکہ ایسا مکمل نظام جو اس دنیا کی عارضی اور آخرت کی باقی زندگی کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ (دیکھیے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
آخرت کی تیاری
اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنی راہ پر پلٹ آنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ بندے آخرت میں ناکام ثابت نہ ہوں:
’’پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اس کے، قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی کر لو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو‘‘۔ (الزمر، ۵۴۔۵۵)
انابت ، اسلام اور تسلیم و رضا کے راستے پر لوٹ آنا ایک ہی مفہوم رکھتا ہے۔ اللہ کی اطاعت کے دائرے میں داخل ہونا گو ایسا رسمی کام نہیں ہے جس میں کسی کی سفارش یا واسطے کی ضرورت ہو۔ جو چاہے، جس وقت چاہے وہ اسلام کے سادہ سے نظام میں داخل ہو جائے۔ اسلام بندے اور رب کے درمیان بلا واسطہ دین ہے، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان بلا واسطہ تعلق ہے، گناہ گاروں میں سے جو چاہے لوٹ آئے، گمراہوں میں سے جو پلٹنا چاہے، پلٹ آئے، جو لوگ بھی جس قدر نافرمانی کرتے رہے

ہیں وہ سرِ تسلیم خم کر دیں، دروازہ کھلا ہے اور سایہ دار پناہ گاہ موجود ہے۔ اور یہ سب چیزیں ایسے دروازے کے اندر ہیں جس کے لیے کوئی دربان نہیں ہے اور اس دروازے سے داخل ہونے کے لیے کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ لوٹ آؤ ۔ لوٹ آؤ قبل اس کے آواز آجائے کہ ’’فلاں مر گیا‘‘۔ زندگی کی مہلت تو کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ (فی ظلال القرآن)
’’کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے ’’ہائے افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا ، بلکہ میں تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا‘‘۔ یا کہے ’’کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا‘‘۔ یا عذاب دیکھ کر کہے ’’کاش مجھے ایک اور موقع مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں‘‘۔ (الزمر، ۵۶۔۵۸)
وقت گزرنے کے بعد ان میں سے کوئی حسرت بھی کسی کام کی نہیں، موت کی دہلیز پار کرنے کے بعد نہ واپسی کی کوئی صورت ہے نہ رجوع کی۔ اگر کچھ کرنا ہے تو آج ہی کر لیجیے جب کہ آپ دار العمل میں ہیں۔ کل جزا کے گھر میں ہوں گے، جہاں عمل کا دروازہ نہ کھل سکے گا۔قیامت کے دن وہ عذابِ آخرت کو دیکھ کر گھبرا کر پوچھیں گے: ’’اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟‘‘۔ (الشوریٰ، ۴۴) تو انہیں مطلع کیا جائے گا کہ اس ذلت، رسوائی اور عذاب سے بچنے کی اب کوئی سبیل نہیں ہے۔اور یہ معذرت کا دن نہیں ہے ’’یوم الدین‘‘ (جزا اور بدلے کا دن ہے)۔
آخرت کا دن
ارشادِ الٰہی ہے: ’’وہ دن جب کہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ (اس روز پکار کر پوچھا جائے گا) آج بادشاہی کس کی ہے؟ (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحد قہار کی۔ (کہا جائے گا) آج ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا، جو اس نے کی تھی۔ آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے‘‘۔ (غافر، ۱۶۔۱۷)
قیامت کا دن یوں تو سب ہی کے لیے شدید ہو گا لیکن کافروں کے لیے یہ انتہائی کٹھن دن ہو گا جس میں کوئی بھی آسانی نہ ہو گی۔ یہ ایسا دن ہو گا جس میں تمام صلبی اور رحم کے رشتے کٹ جائیں گے، اور دنیا کی مصلحتیں کسی کو جتھہ بننے پر مجبور نہ کریں گی، اس روز تمام انسانوں کو احساس ہو جائے گا کہ وہ کس قدر کمزور ہیں، اور اللہ کے مقابلے میں بالکل بے بس ہیں۔ اس روز اللہ وحدہ‘ لا شریک کی باشاہی ہو گی، اور دنیا کے باطل اور جھوٹے خداؤں کی خدائی ان کی رعایا کے سامنے باطل ثابت ہو جائے گی۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ زمین کو پکڑے گا، اور آسمان لپٹے ہوئے اس کے بائیں ہاتھ میں ہوں گے، پھر وہ فرمائے گا: ’’میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ (رواہ البخاری) اور مسلم میں اضافہ ہے: ’’وہ آسمانوں کو لپیٹ کر دائیں ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، دنیا کے جبار کہاں ہیں؟ دنیا کے متکبر کہاں ہیں؟ پھر وہ دونوں زمینوں کو بائیں ہاتھ میں رکھے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں جبار اور کہاں ہیں متکبر؟ ۔
آخرت کا دن ہی وہ دن ہے جب تمام انسان اپنے ’’کسب‘‘ (کمائی) کے بدلے اپنی منزل پائیں گے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’ہرگز نہیں جب زمین پے در پے کوٹ کوٹ کر ریگ زار بنا دی جائے گی، اور تمہارا رب جلوہ فرما ہو گا اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے، اور جہنم اس روز قریب لے آئی جائے گی اور اس روز انسان کو سمجھ آئے گی اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟‘‘ (الفجر، ۲۱۔۲۳)
ان آیات میں قیامت کی ایسی منظر کشی کی گئی ہے جس سے دل کانپ اٹھتے ہیں، آنکھیں سہم کر جھک جاتی ہیں۔ اس دن بات انسان کی سمجھ میں آجائے گی، امیری اور غریبی کا فرق اس کے سامنے آجائے گا، وہ جو میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتا تھا، اور یتیموں اور عورتوں کے حقوق مار لیتا تھا، اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار تھا۔ نہ یتیم کا اکرام کرتا تھا نہ مساکین کی معیشت کا کوئی بندوبست کرتا تھا۔ جو سرکش تھا اور اسی سرکشی کی بنا پر اس نے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا، اب اسے دنیا اور اس کی بے وقعتی کی حقیقت سمجھ آ جائے گی، آخرت کا بہترمال ہونا بھی سمجھ آئے گا، مگر

اب سمجھنے کا کیا فائدہ! اس کا وقت تو گزر گیا۔
ایک اور منظر کشی کچھ یوں کی گئی ہے:
’’پھر جب وہ ہنگامۂ عظیم برپا ہو گا، جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا، اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوخ کھول کر رکھ دی جائے گی، تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گی، اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے روک کر رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہو گی‘‘۔ (النازعات، ۳۴۔۴۱)
ہر وہ شخص جو دنیا پرست ہے اور راہِ ہدایت سے ادھر ادھر متجاوز ہوتا ہے۔ وہ باغی اور طاغی ہے جس کی بڑی صفت یہ ہے کہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے، اور آخرت کی جوابدہی کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کی فکر ہی انسان کے ضمیر اور اور اس کے عمل میں توازن پیدا کرتی ہے۔ اگر کوئی آخرت کو بھلا دے یا آخرت پر دنیا کو ترجیح دے تو اس کی قدروں اور پیمانوں کے درمیان خلل پڑ جاتا ہے اور اس کے تمام پیمانے اور قدریں بدل جاتی ہیں۔ اس کا شعور اور طرزِ زندگی بدل جاتا ہے، چناچہ وہ باغی طاغی اور حدود سے تجاوز کرنے والا بن جاتا ہے، اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ : ’’دوزخ اس کا ٹھکانا ہوتی ہے‘‘۔
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے وہ کبھی بھی کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا۔ اگر بشری کمزوری سے اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو یہ خوف اسے ندامت اور استغفار پر مجبور کر دیتا ہے، اور وہ توبہ کرتا ہے اور جلد ہی دوبارہ اطاعت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
نفس کو خواہش سے باز رکھنے کے معنی یہ ہیں انسان اطاعت کے دائرے میں رہے، کیوں کہ آزمائش اور شر کا راستہ خواہشاتِ نفسانیہ ہیں، شیطان انسان پر عموماً اسی راستے سے حملہ آوار ہوتا ہے، اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔خواہشاتِ نفسانیہ کے دباؤ کا مقابلہ صرف خشیتِ الٰہی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلف نہیں بنایا کہ اس میں کوئی خواہش ہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ وہ خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھے، اور خواہشات کو ذرا دبا کر رکھے، اور یہ یاد رکھے کہ اسے ایک روز اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اگر وہ خواہشات کو کنٹرول میں رکھے گا تو اس کے عوض اسے جنت ملے گی، اور یہ بہترین ٹھکانا ہے۔ (فی ظلال القرآن)
اللہ سے ڈرنے والوں کا مقام
آخرت میں حقیقی کامیابی اور مسرت اللہ سے ڈرنے والوں کے حصّہ میں آئے گی، ارشادِ الٰہی ہے:
’’اور ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو، دو باغ ہیں‘‘۔ (الرحمٰن، ۴۶)
یعنی جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہو، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشاتِ نفس کی بندگی سے بچے گا۔ اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا۔ حق و باطل، ظلم و انصاف، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا، اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا، یہی اس جزا کی علت ہے جو جنت میں اسے ملے گی۔ (تفہیم القرآن، ج۵،ص۲۶۶)
جنت پانے والے
٭۔ ’’البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (لقمن، ۸۔۹)
٭۔’’ اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ریشم کا لباس ہو گا، اور وہ کہیں گے شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا‘‘۔ (فاطر، ۳۳۔۳۴)
٭۔ ’’مگر اللہ کے چیدہ بندے (انجامِ بد سے) محفوظ ہوں گے۔ ان کے لیے جانا بوجھا رزق ہے، ہر طرح کی لذیز چیزیں۔ اور نعمت بھری جنتیں، جن میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے

درمیان پھرائے جائیں گے۔ چمکتی ہوئی شراب، جو پینے والوں کے لیے لذت ہو گی۔ نہ ان کے جسم کو ان سے کوئی ضرر ہو گا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہو گی۔ اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی، ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلّی‘‘۔ (الصافّات،۴۰۔۴۹)
٭۔ ’’(اب سنو کہ) متقی لوگوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے، ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، اور ان کے پاس شرمیلی کم سن بیویاں ہوں گی‘‘۔ (ص، ۴۹۔۵۲)
٭۔ ’’البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں، منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘‘۔ (الزمر، ۲۰)
٭۔ ’’اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ جب وہاں پہنچیں گے ، اور اس کے دروازےپہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ ’’سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے‘‘۔ (الزمر، ۷۳)
٭۔ ’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا، اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہو گی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔ (حم السجدہ، ۳۱۔۳۲)
٭۔ ’’جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ چند روزہ زندگی کا سامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہترر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصّہ آجائے تو درگزر کر جاتے ہیں، جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جب ان سے زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘۔ (الشوریٰ، ۳۶۔۳۹)
٭۔ ’’خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے، باغوں اور چشموں میں، حریرو دیبا کے لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔یہ ہو گی ان کی شان۔ اور ہم گوری گروی آہو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے۔ وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے۔ بس دنیا میں جو موت آچکی سو آچکی۔ اور اللہ اپنے فضل سے انہیں جنہم کے عذاب سے بچا دے گا، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (الدخان، ۵۱۔۵۷)
٭۔ یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے ، پھر اس پر جم گئے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ایسے سب لوگ جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اپنے ان اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں‘‘۔ (الاحقاف، ۱۳۔۱۴)
پس اللہ کی جنت صحیح عقیدے اور درست طرزِ زندگی اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ایمان بلا عمل میزان کو بھاری نہ کر سکے گا، اور نیک اعمال ایمان کے ساتھ ہی مقبول ہوں گے۔ محض عقیدت اور محبت کام نہ آئے گی بلکہ اللہ کی محبت کا حصول بھی اتباع ِ رسول ؐ کے ساتھ مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب اخلاص کے ساتھ فرائض کی بروقت اور درست ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے، اور نوافل اس کو بڑھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اعمال اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی بھی درجہ بندی ہے، سب سے بڑا گناہ شرک ہے جسے وہ کبھی معاف نہ کرے گا۔ اللہ کی حدود کو توڑنے والے کی دنیوی سزا اور توبہ اس کو اخروی سزا سے بچا لے گی۔
اللہ تعالیٰ کی جنت کے طالب کو غفلت اور تساہل زندگی چھوڑ دینی چاہیے اور اس الہامی ندا پر کان دھرنا چاہیے:
’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس کی جنت کی طرف جاتی ہے، جس کی وسعت آسمانوں زمین جیسی ہے ، اور وہ متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔ (آل عمران، ۱۳۳)
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x