ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نسخہ – نور نومبر ۲۰۲۰

’’ چوہدری صاحب آپ نے لائبہ بیٹی کے بارے میں کیا سوچا ہے ۔‘‘ بیگم رابعہ نے چوہدری نثار کو مخاطب کر کے فکر مندی سے پوچھا۔ چوہدری صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔
’’کیوں ؟ کیا ہوا ہے میری بیٹی کو جو میں اس کے بارے میں سوچوں؟‘‘ بیگم رابعہ نے سر جھکا کر کہا :
’’ اس مرتبہ بھی وہ پانچویںجماعت میں فیل ہو گئی ہے ۔ اگر اس کی عمر کا حساب کریں تو خیر سے اسے آٹھویں جماعت میں ہونا چاہیے تھا مگر وہ ابھی تک پرائمری جماعت کی جان ہی نہیں چھوڑ رہی ۔‘‘چوہدری صاحب نے ہنس کر کہا :
’’ وہ جان نہیں چھوڑ رہی تو جماعت بھی تو اس کی جان نہیں چھوڑ رہی ۔‘‘ بیگم رابعہ نے برا مان کر کہا :
’’آپ اس بات کو مذاق میں نہ ٹالیں اسے میں اپنی طرح بد قسمت نہیں بننے دوں گی ۔‘‘ چوہدری صاحب کو غصہ آگیا:
’’ تم کیسے اپنے آپ کو بد قسمت کہتی ہو؟ حویلی میں رہتی ہو ،گائوں کی چوہدرائن کہلاتی ہو، ہر کام کے لیے دو دو تین تین ملازم ہیں۔تمھاری بہن کی ڈاکٹرانی ہو کر بھی شہر میں اتنی عزت نہیں جتنی گائوں میں تمھاری عزت ہے۔ باقی اپنی بیٹی لائبہ پڑھائی میں کمزور ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ دماغی کمزوری کا ہر دیسی اور ولایتی علاج کر کے دیکھ لیا ہے ۔ اب اس پر کسی کا اثر نہیں ہوا تو رب کی مرضی ،اس کی مرضی میں دخل دینے والے ہم کون؟ اب یہ نہ کہنا اس پر آسیب یا جادو کا اثر ہے کیوں کہ ان باتوں کو میںنہیں مانتا ۔ شکر کرو وہ گونگی بہری یا لنگڑی نہیں۔ فائزہ کو خدا کا تحفہ سمجھو اور بار بار فائزہ کے سامنے لائبہ کی کمزوری کا ذکر مت کرو، ورنہ مجھے ڈر ہے کہ لائبہ تنگ آکر کوئی غلط حرکت نہ کر دے ۔‘‘
بیگم نے کہا :’’ مجھے لوگوں کی باتوں سے ڈر لگتا ہے ۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا :’’ اللہ کی بندی ! لوگوں کی بجائے اللہ سے ڈرا کر ۔‘‘
رابعہ بیگم نے بات بدلتے ہوئے کہا :’’ چوہدری صاحب !میں آپ کو بتانا بھول ہی کہ ڈاکٹر عمارہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ گائوں نہیں آ سکتی اس لیے اس دفعہ لائبہ او رفائزہ کو شہر بھیج دیا جائے۔‘‘چوہدری نثار نے مسکرا کر کہا :
’’ اچھی بات ہے ۔ بچیاں ہی نہیں تم بھی چلی جائو ۔ دل بہل جائے گا ۔ ہر وقت پڑھائی پڑھائی کی گردان سن کر مجھے خواب بھی اسی کے نظر آنے لگے ہیں ۔‘‘
لائبہ اور فائزہ نے شہر جانے کا سنا تو خوش ہو گئیں۔

٭…٭…٭

رابعہ اور عمارہ دو بہنیں تھیں ۔ رابعہ کو پڑھائی کا شوق نہیں تھا اس لیے اس نے میٹرک کے بعد تعلیم کوخیر باد کہہ دیا، جبکہ اس کی چھوٹی بہن ڈاکٹر بن گئی ۔ رابعہ کی شادی چوہدری نثار سے او ر ڈاکٹر عمارہ کی شادی ڈاکٹر عثمان خالد سے ہو گئی ۔ رابعہ کی دو بیٹیاں لائبہ اور فائزہ تھیں لائبہ ذہنی طور پر کمزور تھی۔جو بھی یاد کرتی وہ اگلے دن بھول جاتی ۔ جبکہ چھوٹی بہن فائزہ قدرتی طور پر ذہین تھی۔ ڈاکٹر عمارہ کی دو بیٹیاں ہما اور حنا بھی چھوٹی ہونے کے باوجود ذہین و فطین تھیں ۔ لائبہ کو خود بھی اپنی یاد داشت کی کمزوری کا احساس تھا ،مگر اس کو بہتر کرنا اس کے اختیار میں نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر کسی سے الجھ جاتی تھی۔

٭…٭…٭

جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں ، سب نے ہنسی خوشی شہر جانے کی تیاری کی اور اگلے ہی دن عمارہ خالہ کے گھر پہنچ گئے ۔ شہر میں گرمی ہونے کے باوجود بچیاں خوش تھیں کیوں کہ امی انھیں پڑھنے کے لیے نہیں کہہ رہی تھیں ۔ خالہ کو جب بھی موقع ملتا ، انھیں سیر کروانے لے جاتیں ۔ ایک دن عمارہ نے رابعہ سے کہا :
’’ آج ہمارے علاقے میں ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور بچیوں کے لیے ًطبی کیمپ لگنا ہے ۔ کیوں نہ لائبہ کو بھی دکھا لیں ۔‘‘
رابعہ نے کہا :’’ یہ بھی کوئی اجازت لینے والی بات ہے ۔ضرور چلیں گے ۔‘‘
چناں چہ صبح 9بجے دونوں بہنیں لائبہ کو لے کر کیمپ پہنچ گئیں ۔وہاں ڈاکٹر نسرین نے بڑی توجہ سے لائبہ کا معائنہ کیا ۔ اس کی سارے دن کی مصروفیات کے متعلق پوچھا ۔ پھر نسخہ لکھا ۔
رابعہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وٹا من کے کیپسولز کے ساتھ لکھا تھا:
’’ ایک ماہ روزانہ صبح کی سیر کریں اور پابندی سے پانچ وقت کی نماز ادا کریں ۔ لمبے رکوع اور سجدوں کے ساتھ ۔ ایک ماہ بعد دوبارہ معائنہ کرائیں ۔‘‘
چناں چہ عمارہ نے اپنی نگرانی میں لائبہ کو صبح کی سیر اور نماز پڑھوانی شروع کردی ۔ شروع میں تو لائبہ کو لمبا رکوع اور سجدہ کرنا بہت مشکل لگتا تھا کیوں کہ اسے نماز کی عادت نہیں تھی مگر آہستہ آہستہ وہ شوق سے لمبے رکوع اور سجدے کر نے لگی۔اب اس نے محسوس کیا کہ اسے رات کا سبق صبح بھی یاد رہنے لگا ہے ۔ ایک ماہ بعد جب وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو بہت پر اعتماد تھی ڈاکٹر نے یہی نسخہ دہرانے کو کہا ۔
رابعہ حیران تھی کہ اتنے سادہ علاج سے لائبہ میں بہتری کیسے آئی۔ڈاکٹر نسرین نے کہا :
’’ بعض اوقات پیدائش کے دوران بچے کے دماغ میں خون کی کمی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کمزور ہو جاتا ہے ۔لائبہ کے دماغ میں بھی خون کی کمی تھی اس لیے اسے سبق یاد نہیں ہوتا تھا ۔ جب اس نے لمبے رکوع اور سجدے کرنے شروع کیے تو خون کی گردش آہستہ آہستہ دماغ تک پہنچ کر اس کمی کو دور کرنے کا سبب بنی ۔‘‘
لائبہ خوش تھی کہ نماز کی برکت نے اسے تندرست ہی نہیں کیا بلکہ اللہ کے قریب بھی کر دیا۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x