ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مصلحت – نور اپریل ۲۰۲۱

’’ ارے بیٹا!اب بس بھی کرو ۔ کب سے چکر لگا رہے ہو ۔‘‘ حماد کی امی نے اسے ٹہلتے ہوئے کہا۔حماد جوبہت دیر سے کمر میں ادھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا بولا:
’’ میری پیاری امی آج ٹیوشن پر میری بہت اہم کلاس ہے میں مس نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘ اس نے مسلسل چکر لگاتے ہوئے فکر مندی سے کہا ۔
’’بیٹا ! تمہارا دوست آنے والا ہی ہوگا اس کو کوئی کام آن پڑا ہوگا ۔‘‘ امی پیار سے سمجھاتے ہوئے بولیں ۔ آج فزکس کی بہت اہم کلاس تھی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھا ۔ اس کی نگاہیں اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر مرکوز تھیں ۔ہر گزرتا لمحہ اس کی بے چینی میں اضافہ کر رہا تھا ۔ اسے مزید انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔
‘‘ میں جا رہا ہوں … مجھے دیر ہو رہی ہے … سیف آئے تو آپ اسے بتا دیجیے گا ۔‘‘ حماد یہ کہہ کر ٹیوشن کے لیے روانہ ہو گیا ۔ حماد اور سیف اللہ بچپن کے گہرے دوست تھے ۔ دونوں نویں کلاس کے طالب علم تھے ۔ وہ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے ٹیوشن بھی ایک ساتھ جاتے تھے ۔ سیف اللہ کا گھر اس کے گھر سے دو گلی دور تھا ۔لیکن آج سیف اللہ نے آنے میں بہت دیر کردی تھی جس کی وجہ سے حماد کو اکیلے ہی ٹیوشن جانا پڑا تھا ۔ ابھی حماد کو گئے ہوئے پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ دروازے پر گھنٹی بجی ۔ امی کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔ گھنٹی کی آواز سن کر دروازے پر آئیں ۔
’’ کون ہے ؟‘‘ انھوں نے سوال کیا ۔
’’آنٹی! میں وہں سیف اللہ‘‘
’’ ارے بیٹا ! حماد تو تمھارے انتظار کر کے ٹیوشن کے لیے چلا گیا ہے‘‘ امی نے بتایا ۔
’’ بس آنٹی ! آج آنے میں دیر ہو گئی ۔ در اصل آج مدرسے میں ہمارے استاد محترم درس دینے لگے تو دیر سے چھٹی ہوئی ۔ اچھا آنٹی ! میں اب چلتا ہوں ۔‘‘اللہ حافظ کہہ کر وہ جلدی سے ٹیوشن کے لیے روانہ ہو گیا ۔
حماد ٹیوشن کی جلدی میں اپنے دھیان میں مگن اطراف سے بے خبر چلا جا رہا تھا سامنے سے سامان سے بھرے دو ٹرک آگے پیچھے آ رہے تھے ۔ وہ ان دونوں کے درمیان پھنستا چلا گیا اس کی بائیک ٹرک سے ٹکرا ئی۔وہ تین فیٹ اونچا اچھلا اور ہوا میں اڑتا وہا دور جا گرا ،بائیک کا آگے کاحصہ ٹرک کی ٹکر سے ٹوٹ چکا تھا لیکن وہ حیران رہ گیا ۔ اسے کہیں بھی چوٹ نہیں آئی تھی ۔ وہ سوچنے لگا کہ میرے اللہ نے اپنی غیبی مدد سے مجھے کس طرح بچا لیا ۔ لوگوں کا رش لگ گیا سبھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اللہ نے اسے معجزاتی طور پر بچا لیا تھا ۔ وہ کپڑے ہاتھ سے جھاڑ اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنی خستہ بائیک کوگھسیٹتا ہوا واپس سیف اللہ ہاتھ میں کتابیں اٹھائے تیز تیز قدم اٹھاتا آتا چلا ۔سامنے حماد کوواپس آتے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا اس کی حالت نے اسے پریشان کر دیا ۔
’’ حماد ! اللہ خیر … کیا ہوا ؟‘‘ سیف اللہ نے مضطرب ہوکر پوچھابولا۔حماد ! اگرہمارے کسی کام میںدیر ہو رہی ہے تو اس میں اللہ کی حکمت اورمصلحتہوتی ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہجو دیر ہماری نظر میں نقصان دہ ہے وہ در حقیقت ہمارے لیے فائدہ مند ہوتی ہے اورجوجلدی ہمارے لیے فائدہ مند نظر آ رہی ہوتی ہے وہ در اصل ہمارے لیے نقصان دہ ہے ۔ اسی لیے انسان کوجلد بازکہا جاتا ہے ۔ آج ہمارے استاد محترم نے اسی حوالے سے بیان فرمایا تھا کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے ۔ آسان کو صبر سے کام لینا چاہیے ۔ آج مدرسہ کی چھٹی دیر سے ہوئی ۔ اس لیے مجھے آنے میں دیر ہو گئی تھی ۔‘‘ اگر میں تمہارا انتظار کر رہا ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا ۔’’ حماد نے اپنی بائیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ندامت سے کہا ۔‘‘٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x