ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

گھنگھرو کی جھنکار – بتول نومبر ۲۰۲۲

حویلی کا آہنی گیٹ دھڑا دھڑ بج رہا تھا ، ڈھول کی تھاپ، گھنگھرئوں کی جھنکار اور تالیوں کی زور دار آوازیں سماعت سے ٹکرا رہی تھیں ۔
جتنا شور باہر تھا اُس سے زیادہ حویلی کے اندر ٹائیگر نے مچا رکھا تھا۔ اُس نے تو پوری حویلی سر پر اٹھا رکھی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گیٹ توڑ کر باہر نکلے اور دخل در معقولات کرنے والی مخلوق کی تکہ بوٹی کر دے ۔
ملازم چوہدری کے اشارہ ٔ ابرو کا منتظر تھا ۔ چھ سالہ گڈو حیران کھڑی سب کے چہروںکا بغور جائزہ لے رہی تھی ۔ میٹھی میٹھی مسکان سب چہروں سے عیاں تھی ۔ ابا حُقّہ کا کش لگانے میں مصروف تھے۔
’’ اوئے غلامُو! چُپ کرا اسے ‘‘ انہوں نے حقہ ایک طرف کر کے ملازم کو اشارہ کیا ۔
اِذن پاتے ہی ملازم کی ٹائیگر کی طرف دوڑ لگ گئی۔ جیسے ہی اُس نے ٹائیگر کی گردن پر پیار سے پیر رکھا اُس کی آواز تو بند ہو گئی اور دُم اُتنی ہی تیزی سے حرکت کرنے لگ گئی ، یہ اُس کی طرف سے اطاعت امر کا ثبوت تھا ۔
خاموشی چھاتے ہی باہر کا شور زور پکڑ گیا ۔
’’چوہدری ! تیرے بچے جیون ، خیراں ای خیراں ، ستّے ای خیراں ‘‘۔
ساتھ ہی تالیوں کے پٹاختے ، گھنگھرئوں کی جھنکار کے ساتھ ڈھول کی تھاپ تیز ہو گئی ۔ ملازم اگلے حکم کا منتظر ٹائیگر کی گردن دبائے کھڑا تھا ۔
’’ اوئے ، چل اِدھر ‘‘ ابا نے ٹائیگر کو پچکارا تو ابا کے پالتو کتے نے آکر ابا کے قدموں میں بیٹھ کر دم لیا اور اُن کے تلوے چاٹنے لگا ۔ دُم اور بھی تیزی سے حرکت کرنے لگی ۔
ابّا کا اشارہ پاتے ہی ملازم نے جھٹ سے گیٹ کھول دیا ۔ رنگ برنگی مخلوق حویلی کے صحن میں داخل ہو گئی ۔ گڈو کی زندگی میں یہ پہلا حیرت انگیز منظر تھا ۔ حویلی کی تمام عورتیں ایک طرف کھڑی مسکرا رہی تھیں ۔ آگے آگے سفید کپڑوں میں ملبوس بڑا سارا سفید دوپٹہ اوڑھے بڑی بی تھیں ۔ گڈو کو اُس وقت زبردست جھٹکا لگا جب وہ بڑی بی ابا کے پاس بچھی کھاٹ پر بیٹھ کر حقہ کے کش لگانے لگی۔
’’ اماں!‘‘ گڈو نے ماں کی طرف دیکھ کر بولنا چاہا تو انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ دے دیا۔
اب وہ محض خاموش تماشائی تھی ۔ سوال جو ذہن میں کلبلا رہے تھے وہ گڈو نے بعد کے لیے اٹھا کر رکھ دیے ۔ بغور محوِ نظارہ ہو گئی ۔ اُس کے ہوش و گوش نے کام شروع کردیا ۔ بڑی بی سے نظریں اٹھا کر اُس نے دوسرے لوگوں کو دیکھا تو ٹھٹھک گئی۔
وہ نہ مرد لگ رہے تھے اور نہ عورتیں، عجب حُلیے تھے اُن کے ، قدبت مردوں کی طرح تھے حال حلیہ عورتوں جیسا بنایا ہؤا تھا ۔ نقلی بالوں کی لمبی چٹیاں لٹک رہی تھیں ۔ بہت گہرا میک اپ، شوخ رنگین کپڑے ، بالوں کو جھٹکا دیکر دائیں بائیں کرتے ساتھ ہی زور دار تالی کی گونج سنائی دیتی اور ٹھمکا لگا کر گھنگھرئوں کوہلاتے تھے ، ساتھ ساتھ گانے گا رہے تھے اور بے تحاشا دعائیں بھی دے رہے تھے ۔
’’چوہدری! شالا وَسدا رہوے تیرا دوارا … بچے جیون ، ست پشتاں ویکھیں … بی بی چوہدرائن تیرے دھوترے پوترے دی خیر ہووے… ودھائی دیدے ودھائی … دودھ پُت دی خیر ہووے… اماں بی بی ویل دے ویل ‘‘انہوں نے اماں کی طرف دیکھ کر آوازیں لگانا شروع کردیں۔
گُڈو دوبارہ بڑی بی کو دیکھنے لگ گئی جوابا سے محو گفتگو تھی۔

’’برکت ! تم نے ناچنا گانا چھوڑ دیا ؟‘‘ ابا نے بڑی بی سے سوال کیا۔
گڈو نام سن کر پھر اُلجھ گئی۔
’’ ہاں ! چوہدری جی ! میں جب سے حج کر کے آئی ہوں کام چھوڑ دیا ہے ، یہ میری لڑکیاں تھوڑا بہت ناچ گانا کر لیتی ہیں یا سال چھ مہینے بعد آپ جیسے بڑے لوگوں کے ہاں چکر لگ جاتا ہے تو گزارا ہو جاتا ہے ‘‘۔
گڈو کولمبی چوڑی گفتگو میں صرف ’’ لڑکیاں‘‘ یاد رہ گئیں ۔ وہ اُلجھ گئی اور پلٹ کر اُن مردوں کو دیکھنے لگ گئی جن کو بڑ ی بی نے لڑکیاں کہا تھا ۔ مردوں جیسی پاٹ دار آواز اور تالی کی گونج میں انہوں نے ٹھمکے لگاتے ہوئے حویلی کے صحن میں گھومنا شروع کردیا ۔ ڈھول کی تھاپ بھی تیز ہو گئی ، پوری حویلی ، جھنکار ، گونج ، تھاپ ، ٹھمکے اور گانوں سے گونج اٹھی۔
’’ بیٹھ جائو ، بس کرو ، شور نہ مچائو‘‘۔
ابا کی رعب دار آواز سنتے ہی وہ سب یکدم فرش پر ڈھیر ہوگئے ۔ چاروں طرف خاموشی چھا گئی ۔ ابا کے اشارہ پر اماں خادمہ کو لے کر پچھلی کوٹھڑی میں چلی گئیں اور لدی پھندی ملازمہ نے چیزوں کا ڈھیر اُن کے سامنے لگا دیا ۔ گڑ ، شکر ، گندم ، آٹا ، چاول ، کپڑوں کے اَن سلے جوڑے ، کھیس اورنجانے کیا کیا ، گڈو کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں ۔ اتنا سامان تو غریب کی بیٹی کو جہیز میں بھی نہ ملا ہوگا۔
’’ برکت ! ٹھیک ہے ؟‘‘ ابا نے پاس بیٹھی برکت سے پوچھا ، وہ دعائیں دینے لگ گئی اور باقیوں نے مل کر گیت شروع کر دیے ۔ لمحہ بھر کے لیے پھر رونق لگ گئی۔
’’ برکت اب ان کو کہیں اور لے جا کر نچوائو گی ؟‘‘
’’ ناں چوہدری جی !ناں … ہم لالچ نہیں کرتے ، بس بہت مل گیا اللہ کا فضل ہے ، تھوڑا بہت تو کرنا پڑتا ہے کھانے کے لیے … میں لڑکیوں کو بھی زیادہ خوار نہیں کرتی ، آخر ہمارے بھی تو کچھ اصول ہیں چوہدری جی، شرم و حیا تو نہیں بیچنی ہم نے ‘‘۔
اُس نے حقہ کا آخری لمبا کش لیا اور کھڑی ہو گئی ۔
’’ چلو نی کڑیو! سلام کرو سب کو ‘‘۔
کڑیوںنے حکم کی تعمیل کی اور جھک جھک کر سلام کرنا شروع کردیا لیکن ٹھمکا لگا کر تاتی بجانا وہ نہیں بھولی تھیں ، بے شمار دعائیں دیتے ہوئے انہوں نے چیزیں سمیٹیں اور رخصت ہو گئیں۔
ٹائیگر کے کان پھر کھڑے ہو گئے مگر اب وہ ابا کے پیروں کی مضبوط گرفت سے نکل نہیں سکتا تھا ۔ ساکت ہوا بیٹھا تھا مگر دُم تیزی سے حرکت کر رہی تھی ۔ گڈو تو تیار بیٹھی تھی گیٹ بند ہؤا اور اُس کے سوالوں کی پٹاری کھل گئی ۔
’’ اماں ! یہ … کون لوگ تھے ؟ مرد تھے یا عورتیں ؟نقلی بال کیوں لگائے ہوئے تھے ، اماں مجھے تو مرد لگتے تھے ، پھر انہوں نے اتنا زیادہ سرخی پائوڈر کیوں لگایا ہؤا تھا لڑکیاں تھیں تو اُن کو اس طرح پھرتے ناچتے گاتے شرم نہیں آتی؟ اماں وہ بوڑھی عورت ابا کے پاس بیٹھ کر حقہ کیوں پی رہی تھی عورتیں اس طرح تونہیں کرتیں ۔ اماں ! اماں ! اماں !‘‘
اماں کوجواب تو دینا ہی تھے وہ گڈو ہی کیا جو بغیر جواب لیے جان چھوڑ دے ۔
’’اماں بتائو نا !‘‘
اماں نے بھی اُس کے چھوٹے سے ذہن کے مطابق اُسے مطمئن کر دیا ۔
’’ گڈو ! بس اللہ نے ان کو ایسا ہی بنایا ہے ۔ یہ نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورتیں ‘‘۔
’’ کیا اللہ نے ان کو کہا ہے کہ سرخی پائوڈر لگا کر ناچتے گاتے پھر و یہ آرام سے اپنے گھروں میں کیوں نہیں رہتے ؟ ان کی ماں ان کو لے کر اس طرح کیوں پھرتی رہتی ہے ؟‘‘
’’گڈو! استغفر اللہ … اللہ کیوں کہے گا ان کو یوں پھرنے کا ؟ وہ تو مرد تھے انہوں نے سرخی پائوڈ ر لگا لیا ، اور وہ بڑی بی اُن کی ماں تو نہیں ہے نا، ان کا کوئی گھر بھی نہیں ہے ‘‘۔اماں نے اُسے سمجھانا چاہا۔
’’ ہائے ماں بھی نہیں اورگھر بھی نہیں ، پھر یہ آئے کہاں سے ؟ ہمارا تو گھر بھی ہے اور اماں ابا بھی ہیں ‘‘۔ اُس نے فخر سے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا اور ماں کے گلے لگ گئی ۔

’’ میری پیاری گڈو! ان کے بھی ماں باپ ہوتے ہیں بہن بھائی اور گھر بھی لیکن ان کے حلیے کی وجہ سے خاندان والے مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں پھر بڑی بی جیسے لوگ ان کو لے جاتے ہیں ‘‘۔
’’ ہائے میں مرجائوں…بے چارے !‘‘
گڈو کو اب اُن پر ترس آ رہا تھا ۔مگر اب جیسے اُس کو ساری بات کی سمجھ آگئی ہو ۔ اماں نے شکر کا کلمہ پڑھا کہ فی الحال تو اُس کے سوالوں سے جان چھوٹ گئی ۔
’’ اماں ! ان کا نام کیا ہے ؟‘‘
لو! پھر میری جان کو آگئی ہے ! ان کا کوئی نام نہیں ہوتا ان کو ہیجڑا یا خواجہ سرا کہتے ہیں ‘‘۔
’’ سب کا ایک ہی نام ؟’’ ہاں ہاں سب کا ایک ہی نام ‘‘۔
’’ مگر اماں ! وہ بڑی بی تو کسی کو نیلی اور کسی کو ببلی کہہ رہی تھی ‘‘۔
’’ وہ تو انہوں نے ویسے ہی پہچان کے لیے رکھے ہوتے ہیں … گڈو! بس کرو ! جائو باہر کھیلو جا کر ، میرا سر کھانا چھوڑ دو ‘‘۔
چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ اماں کی دُور پرے کی رشتہ کی بہن اپنی بیٹی کے ساتھ ملنے آئیں ۔ خواجہ سرائوں کا تازہ تازہ واقعہ گزرا تھا ۔ گڈو ماسی کی بیٹی کو دیکھتے ہی ٹھٹھک گئی دماغ میں کھلبلی مچ گئی۔ اماں کے پہلو سے لگ کرکھڑی اُسی کو تکتی گئی ۔ اماں بھانپ گئیں فوراً حکم صادر کر دیا۔
’’ چلو ! بڑی بہن بلا رہی ہے ‘‘ اور گڈو بادل نخواستہ حکم کی تعمیل میں پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتی ہوئی کمرہ سے نکل گئی ۔
’’ یہ بھی مجھے خواجہ سرا لگتی ہیں ، قد تو بڑے بھیا جتنا ہے کپڑے عورتوں والے پہن کر آگئی ہیں ، چلی جائیں تو اماں سے پوچھوں گی اچھی طرح … مجھے پتہ ہے اماں نے مجھے اسی لیے باہر بھیج دیا ہے بہانہ بنا کر ، اونہہ‘‘۔
اُن کے جانے کی دیر تھی گڈو اماں کے سر ہو گئی۔
’’ اماں ! ماسی کی بیٹی بھی ہیجڑا ہے ؟ ماسی اس کی سگی ماں ہے یا اس کو کسی اور کے گھر سے پکڑ کر لائی ہیں ؟ اس نے تو گھنگھرو نہیں پہنے ہوئے تھے ؟ اماں ! بتائو ناں‘‘۔
’’ بیٹا ! ماسی اس کی سگی ماں ہے انہوں نے اس کو اپنے پاس ہی رکھا ہے سب ماں باپ تو ایسا نہیں کرتے ناں ، اس کو پڑھا یا لکھایا ہے ، کسی نے اگر شکایت لگائی بھی تو انہوں نے اپنی اولاد کو کسی اور کے حوالے نہیں کیا اب یہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرتی ہے اور ان کے ساتھ رہتی ہے ‘‘۔
’’ ہے تو یہ بھی خواجہ سرا ہی ‘‘۔
گڈو کو یہ بات اچھی لگی ’’ اماں ! اس نے تو ابا کے پاس بیٹھ کر حقہ بھی نہیں پیا ، سرخی پائوڈر بھی نہیں تھوپا … یہ تو اور طرح کی ہے اماں ہے نا‘‘۔
’’ہاںمیری بیٹی ! ان میں بھی خود دار لوگ ہوتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے ‘‘۔
بات کچھ کچھ گڈو کی ناقص عقل میں سما رہی تھی ۔ یوں ہی وہ عمر کی منزلیں طے کرتی گئی ، بچپن کی باتیں ذہن میں محفوظ ہوتی گئیں ، ابا اور بڑے بھائی مسلم لیگ کے کارکن تھے پاکستان آکر ’’ نوائے وقت‘‘ اخبار لگوایا ۔ پڑھ کر رکھتے تو گڈو کے ہتھے چڑھ جاتا ۔ کسی کو خبر ہی نہ تھی کہ وہ کیسے لکھنا پڑھنا سیکھ گئی ہے ۔ خبریں خود بھی پڑھتی اماں کو بھی سناتی ۔
’’ اماں ! سنو کیسی عجیب خبر ہے منٹگمری کے ایک گائوں میں ایک لڑکی کا آپریشن ہؤا اور وہ لڑکا بن گئی بھلا یہ ہو سکتا ہے ؟ کیسے ؟‘‘وہ پھر اماں کے در پے تھی ’’ اُس نے اپنا نام عظمیٰ سے عظیم رکھ لیا ‘‘ وہ خبر پڑھتے ہی اماں کی طرف دوڑ لگا دیتی۔
’’ گڈو! کیا ہو گیا تمہیں ؟ کبھی تو کوئی ڈھنگ کی بات کیا کرو‘‘۔
اور وہ فر فر خبر سنانے لگ جاتی ، اماں ہک دک اُس کا منہ تکتی رہ جاتیں ۔
’’ نجانے اس کو عقل کب آئے گی ؟ ایسی خبریں نجانے کیسے اس کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جو اب دینا مشکل ہو جاتا ہے ‘‘۔
اماں بڑ بڑاتے ہوئے کاموںمیں مصروف ہوجاتیں اور گڈو کسی اور سنسنی خیز خبر کی تلاش میں نکل جاتی، اور وہ اُس کو مل بھی جاتی ۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ گزرتے کہ وہ پھر اماں کے سرہانے کھڑی دھماکہ خیز اطلاع دے رہی ہوتی ۔

’’ میرایقین نہیں کر ہی تھیں نا ، اخبار کی خبر کو جھوٹ سمجھ رہی تھیں ۔ لو اب سن لو تمہاری اپنی بیٹی کے گھر کی ملازمہ کا بھی ایسا ہی آپریشن ہؤا ہے ، ڈاکٹروں نے اُس کو اچھی والی لڑکی بنا دیا ہے … اب بتائو ناں کیسے بنایا؟‘‘
’’ میں تمہیںکیا بتائوں گڈو، تمہاری ننھی سی کھوپڑی میں اتنی عقل نہیں ہے کہ تمہیں ان ساری باتوں کی سمجھ آئے ، بڑی ہونے پر پتہ چل جائے گا جب پڑھو لکھوگی تو ‘‘ اماں نے اُس کو چپ کرانے کے لیے دلیل دی ۔
’’ اماں ! میں کب بڑی ہوں گی ؟‘‘ سوال پہ سوال ، اماں تنگ آچکی تھی۔
’’ گڈو ! یہ تو اللہ ہی جانتا ہے خیر مانگا کرو، لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ دو میری پیاری بیٹی !‘‘
اور پھر گڈو پڑھائی میں جت گئی 56ء سے 66ء آگیا گڈونے علم کے کئی زینے طے کر لیے اس دشت کی صحرائی میں نئے نئے تجربات و مشاہدات نے دل و دما غ میں وسعت پیدا کردی اب وہ پہلے والی گڈو نہ تھی سوال کرنے والی نہیں جواب دینے والی گڈو بن چکی تھی ۔66ء کا دور آیا اُس نے نویں کلاس میں دوسرے شہر میں داخلہ لیا ۔ اُس کی ہم جماعت ایک لڑکی نے خودکو بالکل وحید مراد کے روپ میں رنگا ہوا تھا ۔ وہی چال ڈھال ،انداز ، بالوں کا جھٹکنا ، گانے گانا اور ہنستے مسکراتے ہوئے اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنا ابس کا مشغلہ تھا ۔ گڈو کو اماں یاد آتیں ۔ یہ اُس کی زندگی میں آنے والا چوتھا کردار تھا جواُسے عام لوگوں سے مختلف لگا ۔
میٹرک کے بعد گڈوکی شادی ہوگئی،علم کی تشنگی بجھانے کو ایلیمنٹری کالج جا پہنچی وہاں جس کردار سے سابقہ پیش آیا وہ گوجرانوالہ مدرستہ البنات سے آنے والی دو عالمہ تھیں ، ٹوپی والے سفید برقعے میں وہ کالج آکر فکر آخرت پر گفتگو بھی کرتیں اورسرائیکی میں موت کی نظمیں بھی پڑھتیں ۔ اس خصوصیت کے علاوہ جو خاص بات گڈو کو اُن میں نظر آئی وہ اُن کا مردانہ ہئیت والا چہرہ تھا جس پر داڑھی کی طرح کافی بال تھے ، آواز بھی مردانہ تھی۔
اب تو گڈو نے باقاعدہ ان لوگوں کے بارے میں جاننا شروع کیا اُس کے اپنے محلے میں بھی ایک کردار ایسا تھا کہ وہ صحت مند لڑکا ہونے کے باوجود لڑکیوں جیسی حرکتیں کرتا تھا لیکن کبھی کسی نے نہ مذاق اڑایا نہ حقیر جانا بلکہ مل جل کر اُس کی تربیت کی کوشش کرتے جس سے کافی فرق پڑا اور وہ نارمل ہو گیا۔
یہ70ء کی دہائی کی باتیں ہیں ۔ 80ء کی دہائی میں اُس کی ایک سہیلی بنی اُس کی امی نے بتایا کہ اس کے کچھ ایسے اندرونی نسوانی نقائص ہیں کہ جو علاج سے بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے ۔ شادی ہو تو سکتی ہے لیکن اولاد نہیں ہو سکتی ۔ بہت خوبصورت صحت مند خاتون تھیں ۔ پھر ایک رنڈوے مرد سے اُس کی شادی ہو گئی ، چار پلے پلائے بچے بھی مل گئے شوہر اور گھر بھی ۔ چار دہائیوں تک گڈو نے دیکھا کہ اس طرح کے کردار معاشرہ کا معمول کا حصہ تھے اگر خواجہ سرائوں کے گروہ میں شامل ہو جاتے تو وہاں بھی اُن کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے تھے ۔ دعائیں دیتے آتے اور دعائیں دیتے ہی رخصت ہوتے تھے ، نسلوں تک کو دعائوں میں یاد رکھتے تھے ۔ ایک دوسرے کا ادب لحاظ تھا ان میں بھی ، بھائی چارہ اور محبتیں تھیں ، پیسے کا لالچ نہ تھا ، روپ بہروپ اختیار کرنے والے بھی عزت سے اپنے کرتب دکھاتے تھے ۔ میڈیاکا دور نہ تھا ۔ جو خواجہ سراوالدین کے ساتھ گھروں میں رہتے ان کو تحفظ دیا جاتا خاندانوں میں اُن کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا جیسے کہ ماسی کی بیٹی ، اُن کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جاتا ۔ اگر کسی کا آپریشن کے ذریعہ جنس کا تعین ممکن ہوتا تو صاحب ِ حیثیت لوگ یہ بھی کرواتے جیسے کہ آپا کی ملازمہ ۔
گڈو زندگی کے پانچویں دہائی تک پہنچی تو ماحول خاصا بدلنے لگا تھا۔ پہلے جو باتیں معیوب سمجھی جاتی تھیں اب ان پر فخر کا اظہار ہونے لگا ۔ معاشرتی اقدار بدلیں تو گڈو نے دیکھا کہ خواجہ سرا طقے میں بھی تبدیلی آئی گلیوں سڑکوں اور بازاروں میں نمائش کرتے نظر آنے لگ گئے اس کو

انہوں نے پیشہ بنا لیا نہ جانے وہ اصل خواجہ سرا تھے یا نقلی بنے ہوتے تھے۔ وہ فقیروں کی طرح چاروں طرف بھیک مانگتے نظر آنے لگے ، کوئی خیرات دیتا تو دس اور جھپٹنے کوآجاتے نہ دیتا تو بے تحاشا بد دعائیں دینے لگتے ، اگلوں پچھلوں کو نہ چھوڑتے ، ایسی ایسی بد دعائیں سننے میں آتیں کہ خوف سے دل دہل جاتے انہوںنے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور جاگزیں کر دیا کہ ہم خواجہ سرا ہیں اور ہماری بد دعا تو فوراً قبول ہو جاتی ہے ۔
گڈو نے اب زندگی کی سترویں دہائی میں قدم رکھ دیا تھا ۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جن بے چاروں کو کبھی مجبوری کے باعث ناچ گا کر اپنا پیٹ بھرنا پڑتا تھا ، اب نئے نئے گمراہ کن فلسفوں نے ان کے طریقے کو فیشن میں ڈھال دیا ہے ۔ اب جوان جیسے نہیں ہیں ، وہ بھی ان کی طرح بننے کو اپنا حق سمجھ رہے ہیں ۔ یا للعجب! گڈو حیران تھی کہ دادا کی حویلی میں دیکھا ہؤا وہ بچپن کا دھندلا سا منظر اس کے ساتھ ساتھ چلتا کہاں تک آگیا ہے اور جتنی زندگی باقی ہے اس کے اور کتنے رنگ ابھی ظاہر ہوں گے !
اسے لگا جیسے وہ آج بھی اماں کا پلو کھینچ کھینچ کر ان سے سوال پہ سوال کیے جا رہی ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x