ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اقبال بارگاہِ الٰہی میں – بتول نومبر ۲۰۲۱

شہید حریت سید علی شاہ گیلانی کی زندگی اقبال کے پیغام خود ی کا جیتا جاگتا مظہر تھی ۔ زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’اقبال روح دین کا شناسا‘‘ ؎۱ کے ایک باب میں سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں انہوں نے اقبال کے شہرہِ آفاق فارسی کلام ’’ جاویدنامہ‘‘ کے چند اشعار پر گفتگو کی ہے (ص۔۱)

از ملوکیت جہانِ تُو خراب
تیرہ شب در آستین آفتاب
دانش افرنگیاں غارت گری
دیرہا خیبر شُد از بے حیدری
آنکہ گوید لا الٰہ بے چارہ ایست
فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست
چار مرگ اندر پئے ایں دیر میر
سود خوار و والی و ملاّ و پیر
اقبال بارگاہ ایزدی میں فریاد کناں ہیں کہ تیری یہ دنیا ، انسانوں کی حاکمیت کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو گئی ہے ۔ ملوکیت ، چاہے بادشاہو ں کی ہو یا نام نہاد جمہوریت کے نام پر کسی قوم کی اکثریت کا راج ہو ، دنیا امن وآشتی اورخوشحالی و فراغت سے محروم ، ظلم و استبداد کا شکار ہے ۔ یہ تاریکی میں ڈوب چکی ہے حالانکہ اس کے پاس ہدایت اور رہنمائی موجود ہے ، لیکن وہ اس کو استعمال میں لانے سے کسی نہ کسی بہانے اور عذر سے انحرف کر رہی ہے ۔
مغربی دنیا کی دانش وردی ، علم وسائنس اور ٹیکنالوجی ، عالمی سطح پر غارت گری ، تباہی ، بربادی ،خونِ انساں کی ارزانی ، قوموں اور ملکوں کے لیے جنگ و جدال کی وجہ بنی ہوئی ہے ۔ آج کی دنیا میں معرکہ خیبر میں دادِ شجاعت دینے والا کوئی حیدر کرار نہیں ہے ۔ اس لیے تمام بت خانے قلعہ خیبر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ اُن کو توڑنے اور فتح کرنے والا کوئی دیکھنے میں نہیں آ رہا ۔ اب جس لا الٰہ کہنے والے پر نظر تھی وہ لا چار اور بے بس بن چکا ہے ۔ دنیا کو سدھارنے اور رُشد و ہدایت کا مرکز بنانے کی ذمہ داری اسی پرعائد ہوتی تھی:
’’ تم بہترین امت ہو تم کو لوگوں میں سے چن لیا گیا ہے ۔ تم نیکیوں کا حکم دینے اور بدیوں سے روکنے والے ہو اور تم اللہ پر ایمان لانے والے ہو‘‘(آل عمران)۔اس مسلمان اور خیر امت کو کیا ہو گیا ہے؟
آنکہ گوید لا الٰہ بے چارہ ایست
فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست
یہ اس کے تمام امراض کی جڑ اور بنیاد ہے ۔ اس کے لیے مرکز اور مصدر مقرر کر دیا گیا تھا مگر یہ اپنے مرکز سے ہٹ گیا ہے ، اور اس نے دنیا میں جنم لینے والے نظریاتی بتوںکی پرستش شروع کردی ہے ۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ :
’’ اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ الگ الگ راستے اختیار مت کرو‘‘۔(آل عمران) رسول اللہ ؐ نے اس لا الہٰ کہنے والے کو دو ٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں کہہ دیا تھا :
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ اگر ان دونوں چیزوں کو تم مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے : اللہ کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی سنت‘‘۔
آج پوری دنیا میں لا الٰہ کا اقرارکرنے والا ان دونوں فکری بنیادوں سے کٹ کر رہ گیا ہے ۔ وطنیت ، قومیت ، نسل ، رنگ ، زبان ، روٹی کپڑا اور مکان ، اشتراکیت ، قوم پرستی ، نسل پرستی ، خانقاہیت ،عبادات کی حد تک مذہب کا محدود تصور ،مسلکی اختلافات ، مادیت ، اباحیت ، تشدد کا سہارا ، اس فکری آوارگی کے نتیجے میں مسلمان میں تعمیری سوچ کے بجائے

تخریبی سوچ غالب ہو رہی ہے ۔ آج کی دنیا میں وہ صرف ایک دہشت گرد کی حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا ہے ۔ وہ طاقتیں ،قومیں ، حکومتیں جو کمزوروں کو دبانے اور زیر کرنے میں بے محابا فوجی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں ، وہ مسلمان پر الٹا الزام دھر کر اپنی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈال رہی ہیں ۔ یہ سب کچھ مسلمان کے فکری انتشار اور اپنے مرکز سے دور ہو جانے کے شاخسانے ہیں ۔
اس کے بعد اقبال فرماتے ہیں کہ اس سخت جان ’ دیر میر‘ کے تعاقب میں ایک عزرائیل ( روح قبض کرنے والے فرشتے ) کے بجائے چار عزرائیل ہیں : سود خور، والی ، ملّااور پیر ۔
پہلا عزرائیل
اقبال کو اللہ جل شانہ ، اپنی رحمت کے سایے میں جگہ دے ! اس نباض نے ملت کے امراض کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کی ہے ۔ اس کی دینی اور ملی روح کو قبض کرنے والا پہلا عزرائیل اس ملت کا سرمایہ دار اور وہ سود خور ہے ، جو ہوس زر کا شکار ہو کر حلال و حرام کی تمیز سے بالا تر ہو کر ھل من مزید کا حال و قال سے مطالبہ کرتا رہتا ہے ۔ عیش و عشرت کی فراوانی ، اسباب و جائیداد کی کثرت اس انداز سے اس پر غالب ہو چکی ہے کہ قرآن پاک کی یہ آیت اس پر چسپاں ہوتی ہے:
’’ تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے ۔ یہاں تک کہ اسی فکر میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو ( التکاثر)۔
یہ کثرت کی تمنا صرف مال و جائیداد تک ہی محدود نہیں ہے ۔ اس میں دنیا کے تمام فوائد و منافع ، سامان عیش ، اسباب لذت اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی وجہد کرنا،ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پرفخر جتانا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتا ہے ۔
مسلم معاشرے میں اس طبقے سے وابستہ افراد اور گروہ ، اپنی ذات، خاندان اور برادری کے دائرے سے باہر نہیں سوچتے ہیں ۔ گردو پیش میں انسانی اور دینی رشتے کے افراد کس حال میں ہیں ، ان کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں ؟ اس بارے میں یہ لوگ بہت کم فکر مند رہتے ہیں ۔ ملی اور دینی تقاضے کیا ہیں ؟ انسانی برادری اور خاص طور ملت کس صورت حال سے دو چار ہے اورایسے حالات میں ہم پرکیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟ اس طبقے کی غفلت اور لا پروائی، ملت کے انتشار اور شکستہ حال کیفیت میں بہت زیادہ اضافہ کر رہی ہے ۔ یہ طبقہ دینی اقدار کو فروغ دینے کے بجائے اخلاقی قدروں کی پامالی کا سامان فراہم کرنے سے بھی نہیں چوکتا ہے ۔ شراب خانوں کے لائسنس حاصل کرنا ،اخلاق باختگی کے وسائل کا کاروبار کرنا ، لا دین نظریات اور سیاست کا ساتھ دینا ، وقت کے ظالم اور غاصب حکمرانوں کا ساتھ دینا ، تاکہ دنیوی مفادات کے حصول کی راہ آسان ہوجائے ، ان کی کوششوں اور تگ و دو کا ہدف ہوتا ہے ۔
سرمایہ دار ، سود خور ، جاگیر دار طبقہ مسلم معاشرے کا کمزور اور نان شبینہ کا محتاج طبقہ ان کی استحصالی سوچ اور فکر کا خاص طور پر نشانہ بنتا ہے ۔ وہ ان کی قوت کا ر کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں ، لیکن ان کی ضروریاتِ زندگی ، تعلیم ، صحت اور ان کے بہترمستقبل کی فکر سے بالکل عاری ہوتے ہیں ۔ فحاشی ، عریانی ، خوشی اور غمی کے مواقع پر اسراف ، انسانی اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں یہ طبقہ تاریخ کے ہردور میں ، ایک دوسرے کے مقابلے میں سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے ۔ انہی اسباب و وجوہ کی بنیاد پر قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ بستیوں پرعذاب اور قہر نازل ہونے میں اس طبقے کی روش اور کردار فطری سبب بن جاتا ہے:
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نا فرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر نازل ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔( بنی اسرائیل ۱۷،۱۶)
اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے ، یعنی قدرتی طورپر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہو جاتے ہیں ۔ ہلاک کرنے کے ارادے

کامطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر سکتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کاظہور اس طریقے سے ہوتا ہے ۔
در اصل جس حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخری جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے ، خوشحال لوگوںاور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے ۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں ۔ ظلم و ستم اور بد کاریاںاور شرارتیں کرنے لگتے ہیں اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے ۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہواسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاق لوگوں کے ہاتھوں میںنہ جانے پائیں ۔
معاشرے کا یہ طبقہ ، انسانی فلاح و بہبود اور خاص طور پر ملت کی سطح پر دین اور اخلاقی اقدار کی حفاظت اور پاس داری کے لیے جس جذبہ انفاق اور مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، اس سے مجرمانہ غفلت برتتا ہے ۔ یہ لوگ بہ چشم سردیکھتے ہیں کہ عام لوگ دینی تعلیم سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اسلام کے مخالف لوگ اور قوتیں ، اپنی تہذیب اور اپنا کلچر جگہ جگہ تعلیمی ادارے کھول کرمسلط کرنے کوششوں میں دن رات مصروف ہیں ۔ وسیع ذرائع اور سرمایہ پانی کی طرح بہا کے اپنے استحصال اور اپنی مشرکانہ اور جاہلیت کی تہذیب کو ہماری نئی نسل پر غالب کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے ملت کو جس مالی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے، معاشرے کا یہ خوش حال اور صاحب ثروت طبقہ اس ضرورت کو پورا نہیں کر رہا ہے ۔ اس طرح تہذیبی، دینی ، اخلاقی ، زوال و انحطاط اور ہلاکت کی صورت حال کی طرف پوری ملت دھکیلی جا رہی ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اہل ایمان کو متنبہ کیا ہے :
’’اللہ کی را ہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے ‘‘۔( البقرہ)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی وجہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے تو یہ تمھارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی ۔ دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اورآخرت میں تم سے سخت باز پر س ہو گی ۔ (تفہیم القرآن،ج۱،ص۱۵۳)
اس صورت حال کو پوری مسلم دنیا کی سطح پر ہم بچشم سر دیکھ رہے ہیں ۔ ان نا قابل تردید حقائق کی روشنی میں اقبال کایہ فرمانا کہ ’’ دیر میر ‘‘ مسلمان کی موت اور زوال کا پہلا سبب اور عامل سرمایہ دار، جاگیر دار اور سود خور ہے ، حقیقت حال کی ترجمانی ہے ۔
دوسرا عزرائیل
دوسرا عزرائیل،والی اور حکمران طبقہ ہے ۔ حضرت شاہ ہمدان کی طرف سے باج اور خراج کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں والی اور حکمران کے لیے شرط کا تذکرہ آچکا ہے کہ اس کی قبولیت کا معیار ’’ منکم‘‘ ہوناچاہیے۔ اس معیار اور کسوٹی پر جب ہم آج کے دور کے حکمرانوں کو پرکھتے اور تولتے ہیں ، تو شاذو نادر کوئی اس معیار پر اترتا ہے مسلمانوں کے حکمران یا تو خاندانی راج کے تواتر اور تسلسل میں ملت پر سوار ہیں یا نام نہاد جمہوریت کے نام پر مسلط ہوچکے ہیں ، یا فوج کی طاقت کا سہارا لے کر مغربی اور استعماری طاقتوںکے ایجنٹ اور آلہ کار بن کر مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہو چکے ہیں ۔ جو بھی صورت ہو یہ طبقہ مسلمانوں کو اپنے ماضی سے کاٹ کر ، لا دین سیاست اور جدید جاہلیت کے شکنجے میں کسنے کے لیے خود مسلمانوں کے ذرائع اور وسائل کو استعمال کر کے ، اپنا اقتدار اوراپنی کرسیاں بچانے کے لیے نت نئے حربے اور مکرو فن کے جال بنتا رہتا ہے ۔ اس نے پوری ملت کو ڈیڑھ ارب سے زائد تعداد میں ہوتے ہوئے بھی بے وزن اور بے وقار بنا دیا ہے ۔
امت مسلمہ کو بر تری اور سرداری کا معیار بتا دیا گیا تھا کہ :

’’ اللہ کے نزدیک تم میں سے عزت اور بڑائی والے وہ لوگ ہیں جو تم میں سے سب سے زیادہ متفی اور پرہیز گار ہو ں۔( الحجرات)
مسلمان پر یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ تم کو زمین کے کسی حصے پر تمکن اور اقتدار عطا کرے گا تو تمہارا کام کیا ہونا چاہیے:
’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، معروف کا حکم دیںگے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھوں میں ہے ‘‘۔( الحج)
یعنی اللہ کے مدد گار اوراس کی تابع داری کرنے والے اور نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت ، فرما نروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبرو غرور کے بجائے اقامت صلوٰۃ ہو ، ان کی دولت عیاشیوں اور نفس پر ستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے ، اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے دبانے میں استعمال ہو ، اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کار فرمائوں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے ۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتاہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے ۔(تفہیم القرآن ج۳،ص۲۳۴)
اس معیار اور پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کے نقشے پر ۵۷ مسلم ممالک کا حال دیکھا جائے اوران کی حکومتوں کی کار کردگی ، ان کے کارکنوں کی سیرت و کردار اور ان کے اہداف پر نظر ڈالی جائے تو حسرت و یاس او ردست تاسف ملنے کے سوا کچھ اورنہیں کیا جاسکتا ۔
استعماری قوتوں سے بظاہر نجات حاصل کرنے کے بعد ،وہ ان کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر ان کے آلہ کاروں اور ایجنٹوں کی حیثیت سے اپنے ملک ، اپنی قوم ، اپنی تہذیب ، اپنے کلچر ، حتیٰ کہ اپنے دین اورایمان کو بھی گروی رکھے ہوئے ہیں ۔ صرف اس شرط پر کہ اُن کا اقتدار اور اُن کی کرسیاں محفوظ رہیں ۔اُن کا بلند معیار زندگی برقرار رہے ۔ اُن کو عیش و عشرت اور جاہ وحشمت کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع نصیب ہوں۔اُن کو سامراجی اور استبدادی قوتوں سے تحفظ اور حمایت کی ضمانت ملے ، چاہے ان کی اپنی قوت اور عالمی سطح پراجزائے ملت ان کے وجود کو ایک نا خوشگوار بوجھ ہی محسوس کریں ۔ لیکن وہ اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کے لیے استعماری قوتوں کے محلوں اور عشرت کدوں کا طواف کر کے ، ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے در پے رہتے ہیں ۔
آزاد مسلم ممالک کے حکمرانوں پرنہ صرف اپنی قوم ، اپنے ملک، اپنی تہذیبی اور دینی اقدار کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری عائد تھی ،بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی تھی کہ وہ دنیا کی کمزوراور غلام قوموں کو بھی استبدادی اور جابر و ظالم قوتوں کے پنجہ استبداد سے نجات حاصل کرنے میں مدد کریں :
’’ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبائے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کردے ‘‘۔( النساء)
اشارہ ہے ان مظلوم ، بچوں ، عورتوں اور مردوں کی طرف جو مکہ میں اور عرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کر چکے تھے ، مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے تھے ۔ یہ غریب طرح طرح سے تختہ مشق ستم بنائے جارہے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں ظلم سے بچائے ‘‘۔( تفہیم القرآن:ج۱،ص۳۷۲۔۳۷۳)
آج دنیا میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہے ۔ فلسطینی ، لبنانی ، عراقی ، چیچنیا، افغانستان، جمو ں و کشمیر اور بھارت کی اقلیتیں بالعموم اور مسلمان خاص طور پر ۔۵۷ مسلم ممالک کے پاس ذرائع اور وسائل کی کمی نہیں ۔ آج کی دنیا میں ان کو لڑنے کی بھی ضرورت نہیں ، او رہتھیار ، بم اور میزائل استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہیں ، وہ سفارتی سطح پران ملکوں پر دبائو ڈال سکتے تھے ، جن کے پنجہ استبداد میں مسلمان کسے جا چکے ہیں اور بد ترین قسم کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ۔ مسلم ممالک کے سربراہان نہ صرف یہ کہ مظلوموں کی مدد

نہیں کرتے ، بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ ظالموں کے مدد گار بن چکے ہیںاور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خود بھی ظالموں اور قاتلوں کا روپ دھار چکے ہیں ۔
تیسرا عزرائیل
سود خور اور والی کے بعد تیسرا عزرائیل اورمرگ جو ’’ دیرمیر‘‘ مسلمان کے تعاقب میں ہے ،وہ ملاّ ہے ۔ جہاں تک ملا ّکے لغوی معنی کا تعلق ہے ، یہ مبالغے کا صیغہ ہے ، یعنی بہت بھرا ہؤا ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو علم سے بھرا ہوا اور پر ہو، یعنی بہت پڑھا ہوا ، بڑا عالمگیر مگر آج کے دور میں اس لفظ کو تضحیک ، استہزا اور تحقیر کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک علامہ اقبال نے بھی اس لفظ کو اسی معنی میں جگہ جگہ استعمال کیا ہے :
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملاّ ہو غازی
(بال جبریل)
ملاّ کوجو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
(ضرب کلیم)
زمن برصوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند ما را
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرائیل و مصطفیؐ را
(ارمغان حجاز)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ علمائے دین کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے طرز عمل میں کیا کمی اور کوتاہی ہے کہ ہم کو حقیر اور نکما سمجھتے ہوئے ملا کہا جاتا ہے ۔
علما کے عام طور پر دو طبقے اور گروہ ہیں : ایک علمائے ربانی اور دوسرا علمائے سو۔ علمائے ربانی نے ہمیشہ دین کے مزاج اورتقاضوں کو سمجھ کر اس کو صحیح رنگ اور صحیح انداز میںتحریر اور تقریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا ، اور دین کے تقاضوں کے مطابق لادین نظریات کے مقابلے میں اس کے غلبے اور احیا کے لیے بھی کام کیا ہے ، مگر علمائے سُو نے ہمیشہ دینی تقاضوں کونظر انداز کر کے رائج الوقت استحصالی نظام کی تائید و حمایت کر کے مادی مفادات کے حصول کی زندگی کا مقصد بنایا ۔ انہوں نے لوگوں تک دین صحیح اور حقیقی شکل میں پہنچانے کا فریضہ انجام نہیں دیا ۔ دین کی انقلابی روح سے انہوں نے لوگوں کو ہمیشہ بے خبر رکھا اور دین کی وہی تعبیر کی ، جو حکومت اور بر سر اقتدارطبقے کی خوشنودی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی تھی۔
سب سے بڑا نقصان جو اِن شکم پرست ملائوںکے ہاتھوں دین اسلام کو پہنچا وہ یہ ہے کہ انہوں نے تفریق دین و سیاست کا لا دین نظریہ خود بھی قبول کیا اور لوگوں کو بھی اسی کا درس دیا ۔ اس کا واحد مقصد ان کے سامنے یہ تھا کہ حکمران طبقہ چونکہ دین کے کامل اورجامع ہونے کا نظریہ قبول نہیں کرتا ہے ، اس لیے ہمارے ذریعے بھی یہی فلسفہ لوگوںکے ذہنوں میں اتار ا جانا چاہیے۔ چنانچہ ایک طرف وہ دین کے مبلغ اور داعی کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا چاہتے تھے ، اور دوسری طرف وقت کے حکمرانوں کے حاشیہ نشین بن کرسرکاری ایوانوں میں بھی پذیرائی چاہتے تھے ۔ یہاں تک کہ لا دین سیاست کے علم برداروںکے ہاتھوں دین کی بیخ کنی کے اقدامات پر بھی یہ طبقہ یا تو خاموش رہتا تھا یا توجیہہ کر کے ان کا جواز پیش کرتا تھا ۔
دوسرا بڑا نقصان جو ان کے ہاتھوں پہنچا وہ یہ کہ انہوں نے دین کی بنیادوں کی طرف دعوت دینے کے بجائے ، اپنے اپنے فقہی مسلکوں کی طرف دعوت دینا شروع کر دی ۔ اس طرح ملت کو قرآن و سنت کی تعلیمات پر جمع کرنے کے بجائے حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، جعفری ، اہل حدیث جیسے فقہی مسالک کو انہوں نے تبلیغ اور ترسیل دین کی بنیاد بنایا ، حالانکہ تمام مسالک اورمذاہب کی بنیاد قرآن و سنت ہے ‘‘۔حضرات کو اصل مرکز اور منبع کی طرف دعوت دینا چاہیے تھی ، تاکہ ملت قرآن اور اسوہ حسنہ کے سر چشمہ ہدایت کی طرف رجوع کرتی اورسب مسالک کو اصل کی

فرع تصور کر کے اختلافات کا شکار نہ ہو جاتی ۔
تیسرا بڑا نقصان یہ کہ مساجد اورمنبروں پر اگرچہ قرآن و سنت کی باتیں ہی ہو رہی ہیں لیکن زندگی کے مسائل کا حل جوقرآن اور سنت میں موجود ہے ، اس کی طرف لوگوں کو متوجہ نہیں کیا گیا۔لوگ محض ثواب کی خاطر ان باتوںکو سنتے ہیں، مگر زندگی کے مسائل کے بارے میں اس سسٹم اور نظام کی طرف رجوع کرتے ہیںجودین کے خلاف اور دین سے دور کر رہا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ لوگ دین سے بد ظن ہوتے گئے اور یہ سمجھنے لگے کہ دور حاضر میں دین ہمارے مسائل کو حل کرنے کی استطاعت اور استعداد نہیںرکھتا ہے ، حالانکہ دین مکمل ہے اور زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا کامیاب اور قابل عمل حل پیش کرتا ہے :
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ‘‘۔( المائدہ)
گویا دور حاضر میں دین تمہارے سارے مسائل حل کر سکتا ہے ۔ تمہارے لیے دین میںکوئی تنگی نہیں ہے ۔’’ اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ‘‘۔( الحج)
ان حیات بخش ہدایات کو ہمارے علما نے مکمل طو رپر نظر انداز کر دیا اور جو کچھ لا دین سیاست کے علم برداروں کے ہاتھوں سامنے آگیا،اس کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اورکراہت کے منظور اور تسلیم کرلیا ۔ علما کی زندگیوں کا یہ تضاد ان کے مقام ، مرتبے اور وقار کو گرانے میںکلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔ لوگ سوچتے ہیں خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ ، جو خود بھی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کاجذبہ رکھتا ہے ، وہ علما کی اس فکری اور عملی دورنگی سے سخت بدظن اور بد گمان ہے ۔
ہمارے علما احساس کمتری کے شکار ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں کہ آج لوگ پڑھے لکھے ہیں ، ڈاکٹر ہیں ، انجینئر ہیں ، پروفیسر ہیں ، سائنس دان ہیں ، سیاسی میدان کے کھلاڑی ہیں ، جب کہ ہم دینی تعلیم سے واقف ہیں ، اس جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے ہم کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ ہمارے علما کو اس احساس کمتری سے ذہناً اور عملاً بالا تر ہو جانا چاہیے۔ وہ اگر قرآن پاک کی تعلیمات پر تدبر اور تفکر کریں گے تو وہ اس بات کو بغیر کسی شک وریب کے تسلیم کریں گے کہ قرآن انسانی زندگی کے تمام مسائل کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے قرآن کا انقلابی پیغام خود اپنایا اور اس کی پیروی میں اپنے نظام اور معاشرے میں انقلاب لانے کی جدوجہد کی تو ایک صالح معاشرہ اور ایک خوش گوار انقلاب کی نیو اور طرح استوار ہو گئی ۔ قرآن پاک میں ایک جگہ ان الفاظ میں رہنمائی کی گئی ہے :
’’ اور یہ قرآن ہدایت ورحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے ۔‘‘ ( النمل)
اس آیت کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن لکھتے ہیں :
یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس قرآن کی دعوت اور وہ بات مان لیں جسے یہ پیش کر رہا ہے ایسے لوگ ان گمراہیوں سے بچ جائیں گے جن میں ان کی قوم مبتلا ہے ۔ان کو اس قرآن کی بدولت زندگی کا سیدھا راستہ مل جائے گا اور ان پر خدا کی وہ مہر بانیاں ہوں گی جن کا تصور بھی کفار قریش آج نہیں کر سکتے ۔ اس رحمت کی بارش کو بھی چند ہی سال بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ وہی لوگ جو ریگ زار عرب کے ایک گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور کفر کی حالت میں زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب چھاپہ مار بن سکتے تھے، اس قرآن پر ایمان لانے کے بعد یکا یک وہ دنیا کے پیشوا ، قوموں کے امام ، تہذیب انسانی کے استاد اور روئے زمین کے ایک بڑے حصے پر فرماں رواں ہو گئے (تفہیم القرآن :ج۳،ص۶۰۳)
ہمارے ملا جن کو علامہ محمد اقبال نے امت مسلمہ اور ’’ دیر میر ‘‘ مسلمان کے لیے مرگ قرار دیا ہے ، فی الواقع فکری اور عملی انتشار کی وجہ سے جسد ملت سے روح دین ختم کرنے میں اہم حصہ ادا کر رہے ہیں ۔ ان کو قرآن نے ، جس کے نام پر یہ طبقہ ملت کی گردنوں پر سوار ، ایمان باللہ

سے پہلے کفر بالطاغوت کا حکم دیا تھا:
’’ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لائے ۔اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹونے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے ‘‘۔(البقرہ)
یہاں ’دین‘ سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیۃ الکرسی میں بیان ہوا ہے اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اسلام ‘‘ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پرزبردستی نہیں ٹھونسا جا سکتا ۔ یہ ایسی پسند ہی نہیں جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے ۔
’طاغوت ‘ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو ۔ قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندی کرائے ۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں ۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرما برداری کو حق مانے ، مگر عملاً اُس کے احکام کی خلاف ورزی کرے ۔ اس کا نام فسق ہے ۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی سے اصولاًمنحرف ہو کر یا تو خودمختار بن جائے یااس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔ یہ کفر ہے ۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خوداپنا حکم چلانے لگے ۔ اس آخری مرتبے پر جوبندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو ( تفہیم القرآن ج، ۱، ص۱۹۵۔۱۹۶)
ہمارے ملا،قرآن کے دیے ہوئے اس آئینے میں اپنے عمل، کردار اور رویے کودیکھیں تو وہ پائیں گے ، کہ طاغوت کی کھلے عام بندگی ہوتی ہے ۔ لا دین سیاست کے نام پر جو لوگ ملت پر سوار ہو چکے ہیں ہمارے ملا ان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں ۔ ان کی دستار بندیاں کرتے اور انہیں امام ضامن باندھتے ہیں ۔ ان کا استقبال کرتے اور ان کوووٹ دیتے ہیں ۔ اُن کی مدد کرتے اور ان سے مفادات اورمراعات حاصل کرتے ہیں ۔ مساجد ، معابد،مکاتب، جلسے ، جلوس اور دوسری نوعیت کی محافل میں بیٹھ کر ان کی زینت بنتے ہیں اور پھر منبروں پرکھڑے ہو کر قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ یہ ہمالیہ جتنا تضاد اور نفاق پوری ملت کے دین و ایمان کے لیے سم قاتل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ اسی صورت حال سے متاثر ہو کر اقبال نے دُکھ بھرے دل کے ساتھ فرمایا :
چنیں دور آسماں کم دیدہ باشد
کہ جبریلِ امیں را دل خراشد
چہ خوش دَیرے بنا کردند آنجا
پرستد مومن و کافر تراشد
(پس چہ باید کرد)
یعنی آج کے اس پُر فتن دور میں جس سے ہم گزر رہے ہیں ، چشم فلک نے بہت کم ایسے ادوار دیکھے ہوں گے ۔ اس ایمان سوز اور اخلاق باختہ دور کو دیکھ کر جبرئیل امین کا دل بھی زخمی ہوا جا رہا ہے ۔ آج کے اس دور میں وقت کے آذر نے ایسا پر کشش بُت خانہ تعمیر کیا ہے ، جس کی نرالی اور حیران کن امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ کافر بُت تراش رہا ہے اور مومن اس کی پرستش اور پوجا کر رہا ہے ۔
جتنا ہم ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس پر غور کریں گے ، خاص طور پر ہمارے علمائے دین ، مفتیانِ کرام ، واعظین و خطبائے عظام ، محراب و منبروں کی زینت بنے حضرات تسلیم کریں گے کہ وطنیت،رنگ نسل ، مادیت ، ابا حیت ، قوم پرستی ، رنگ اور زبان پرستی اور سب سے بڑھ کر تفریق دین و سیاست اور میکاولی فلسفہ سیاست ، سب کفر و شرک کے علم برداروںکے تراشیدہ بت ہیں ، اور آج کا مسلمان ان کی پر ستش میں محو ومگن ہو کر فخر محسوس کرتا ہے ، اپنے آپ کو روشن خیال، اورترقی پسند کہتا ہے

اور کہلواتا ہے :
چوتھا عزرائیل
چوتھا مرگ اور عزرائیل’’ پیر‘‘ ہے ۔ پیر کا مطلب سب جانتے ہیں کہ عمر رسیدہ اور بزرگ کو کہتے ہیں ۔ پیر ، رہبراور رہنما کو بھی کہتے ہیں ۔ پیر متقی ، پرہیز گار اور نیک سیرت مسلمان کو بھی کہتے ہیں ۔ اقبال نے پیر رومی کو اپنا پیر اور رہنما تسلیم کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں اقبال نے ’ پیر‘ کو لا الہ کہنے والے کے لیے مرگ ، موت اور روح قبض کرنے والے زمرے میں کیوں شمار کیا ہے ؟ اس کی معقول توجیہہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان نے پیر مریدی رشتے کو اپنے اصل معیار اورمقصد سے بہت دور کر کے بگاڑ اور دین سے دوری کا سبب اورذریعہ بنا دیا ہے ۔ پیر مریدی کا رشتہ اور سلسلہ تبلیغ و ترسیل خیر اور اشعات دین کا ایک فطری، سہل الحصول اور نہایت محترم ذریعہ تھا ۔ لیکن دونوں جانب سے اس کی روح اس طرح پامال کردی گئی کہ یہ معاشی استحصال اور مرکز رُشد و ہدایت سے دوری کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے نیکو کار بندے جن کو ہم اولیا ئے کرام کے ناموں سے پکارتے ہیں اُن کا اصل تعارف قرآن پاک ان الفاظ میں کرواتا ہے :
’’ جو اللہ کے دوست ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے ۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اے نبی ؐ جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں۔ عزت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔(یونس)
اولیائے کرام ، پیرمریدی کے رشتے کی بنیادہے اور اولیائے کرام کے بارے میں اللہ کا فرمان بالکل واضح اور ناطق ہے کہ اللہ کے دوست ، بندے ایمان اور تقویٰ کی صفاتِ حسنہ کے متصف ہوتے ہیں اور اپنے اپنے دور میں یہی صفات انہوں نے اپنے محبین ، متوسلین اور حلقہ ارادت میں پیداکرنے کی کوششیں کی ہیں۔
جموں و کشمیر کے خطہ ارض کے بارے میں جب ہم بات کریں گے تو یہاں حضرت میر سید علی ہمدانی کی تشریف آوری سے اسلام کی اشاعت ہوئی ۔ لوگ جوق در جوق اسلام کی آغوش میں آگئے ۔ ایران سے جب وہ تشریف لائے تو ان کے ساتھ سادات کی ایک بڑی تعداد تشریف لائی۔ جہاں جہاں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ، وہاں وہاں آپ نے ان خلفا کو متعین کر دیا کہ آپ ان لوگوں تک دین کی باتیں پہنچائیں ۔ اسلام کے دورِ اول میں ہی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو ہدایت فرمائی تھی کہ سب لوگ تو گھروں سے نکل کر دین سیکھنے کے مراکز تک نہیں جا سکتے ۔ بستیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور نکلنے چاہئیں جو دین سیکھ کر ، اپنی اپنی بستیوں کے لوگوںتک پہنچانے کا فریضہ انجام دیں۔
ان حضرات کا کام یہ تھا کہ ان لوگوں تک ، جو بزرگوں کی نسبت سے ان کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ کرتے ۔ اُن کا ذہن اورکردار اسلام کے سانچے میں ڈھالتے، ان کے گھروں میں جا کر ان کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام میں بھی ان کو دین کی پیروی پر ابھارتے اور تربیت کرتے ۔ وہ اُن کو اسلام سمجھانے کے ساتھ ساتھ غیر اسلام سے بھی واقف کرتے ، تاکہ وہ اُن کاموں اورحرکتوں سے اجتناب کریں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں ۔ بزرگان کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں لٹریچر اور کتابیں بھی تیار کیں ، تاکہ پڑھے لکھے طبقے تک کتابوں کے ذریعے بھی دین پہنچ جائے ۔ آپ دیکھ لیجیے کہ حضرت شاہ علی ہمدانی نے ذخیرۃ الملوک کے علاوہ اورادِفتحیہ لکھ کر کتنا بڑا احسان کیا ہے ۔ اس میں آپ نے توحید اور اسلام کی بنیادوں کا اس خوبی کے ساتھ تعارف کرایا ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔
ہمارا آج کا مسلم معاشرہ صدیوں سے غلامی کی لعنت کا شکار اور ذلت و خواری کی دلدل میں گھٹنوں پھنس چکا ہے ، بلکہ عالمی سطح پر جو ۵۷ مسلم اکثریتی ممالک ہیں ، وہاں بھی یہی حال ہے کہ مسلمان کے ہاتھ میں قوت و اختیار ہے ، مگر اسلام کے لیے ان ممالک میں بھی غربت ، مظلومیت ، اجنبیت اوربے بسی اور بے اختیاری کی درد ناک صورت حال پائی جاتی ہے ۔ معاشرے کی اس صورت حال میں اپنے آپ کو ’پیر‘ کے لقب سے پکارے جانے والے اس ذمہ داری کے مکلف بنائے گئے تھے کہ آپ عام لوگوں سے رابطہ قائم کر کے جو آپ کے رشتہ عقیدت اور مریدیت میں

منسلک ہیں ،ان تک صحیح رنگ میں دین پہنچانے کا فریضہ انجام دیں۔ قرآن پاک میں اس بارے میں واضح ہدایت اور رہنمائی موجود تھی۔
چنانچہ ارشاد ِربانی ہے :
’’تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ‘‘۔( آل عمران)
مگر ہمارے پیر حضرات کی بڑی تعداد ، قرآن و سنت کی رہنمائی سے بے نیاز ہو کر اپنے متوسلین اور معتقدین سے ارادات، عقیدت ، محبت ، احترام اور مالی منفعت تو حاصل کرتی ہے ، لیکن ان تک قرآن و سنت کے تعلیمات پہنچانے میں مجرمانہ غفلت کا شکار رہتی ہے ۔ مسلم معاشرے کی بگاڑ کا یہی طبقہ زیادہ ذمہ دار ہے ۔ یہ لوگ اپنے نسلی تفاخر میں مبتلا ہو کر گروہ بندیوں کے شکار ہیں ، بلکہ بنی اسرائیل کی طرح جب خاتم النبین فداہ‘ ابی واُمی جسمی وروحی ، اسلام کا پیغام لے کر تشریف لائے تو پیغمبروں کو ماننے والے ، تورات پر ایمان کا دعویٰ کرنے والے ، حضرت موسیؑ کی رسالت کو ماننے والے ، انکار اور مخالفت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہو گئے ۔ اسی لیے قرآن میں ان سے کہا گیا تھا :
’’تم انکار کرنے میں سبقت لینے والے مت بن جائو ‘‘۔( البقرۃ)
آج کے مسلم معاشرے میں ہر جگہ یہ صورت حال دیکھنے میں آ رہی ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں قرآن و سنت کی طرف ، احیائے اسلام کی طرف ، غلبہ اسلام کی جدوجہد کی طرف کوئی آواز اٹھتی ہے ، کوئی منظم جماعت سامنے آتی ہے تو ہمارے پیر حضرات اُس کی مخالفت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگوں کی بے خبری اور بے علمی کا استحصال کرتے ہوئے ،یہی لوگ لا دین نظام ، لا دین سیاست، دین بے زار تعلیم ، آخرت فراموش نظام اور الحادی طرزِ زندگی کا ساتھ دیتے ہیں اور غلبہ دین اور طاغوتی قوتوں کی مخالف آوازوں کو دبانے میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں ۔
اولیائے کرام کے مزاروں اورآرام گاہوں پر عام لوگ ، یعنی دین سے بے خبر لوگ ، جس شرک میں مبتلا ہو چکے ہیں پیر حضرات ان سے نذرو نیاز حاصل کر کے شرک کے پھیلائو میں مدد گار بنتے ہیں ۔ان زیارت گاہوں پر عرس منائے جاتے ہیں ۔ ان میں ایک طرف اختلاطِ مردوزن ہوتا ہے ، دوسری طرف کھلے عام ان مقامات پر لا دین سیاست کے علم بردار ظالم اور غاصب قوتوں کے حامی ، حاشیہ بردار اور زرخریدایجنٹ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی لا دین سیاست کا جال بچھاتے ہیں ۔ عام لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ، جھوٹے وعدے کر کے ،باطل اور جابر قوتوں کی غلامی پر رضا مند رہنے اور قانع بننے پر ذہنی اور عملی طور پر تیار کرتے ہیں ۔ ان زیارت گاہوں کے مجاور اور سر پرست عام طور پر ’’ پیر حضرات ‘‘ ہی ہوتے ہیں اور سب کچھ انہی کی سر پرستی ، نگرانی اور اہتمام کے تحت ہوتا ہے ۔جولوگ ان حرکتوں پر قرآن و سنت کی روشنی میں ٹوکتے اور نشان دہی کرتے ہیں اور عامۃ المسلمین کے ساتھ جذبہ خیرخواہی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور آخرت کی شدید باز پرس سے بچانے کی کوششیں کرتے ہیں ، ان کو ’پیر حضرات‘ ہی بد اعتقاد اور اولیا مخالف ہونے کا گھنائونا الزام دے کر لوگوں کو بھڑکاتے ہیں ، اور اسلام دشمن طاقتوں کو ’خوش اعتقادی‘ کے نام پر باطل نظریات کو غالب کرنے میں مدد گار بنتے ہیں ۔ اسی لیے اسلام کی زبو ں حالی کی اقبال نے ترجمانی کی ہے :
من از بے گانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن آنچہ کرد آں آشنا کرد
یہ آشنا لوگ ہی اسلام پر یہ ظلم و ستم ڈھاتے ہیں ۔اسلام کو روز بروز کمزور اور مظلوم بنانے میں مدد گار بنتے ہیں ۔ شرک اور بدعات کا ساتھ دیتے ہیں ۔ عریانی ، فحاشی ، اختلاط مردوزن اور بدعات کو فروغ دینے اور قرآن و سنت کے سر چشمہ ہدایت سے دورکرنے میںممدومعاون بنتے ہیں ۔
چوکفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
ان نا قابل تردید حقائق کو دہرانے کا ہرگز مقصد اورمدعا یہ نہیں ہے کہ میں سماج اور معاشرے کے اس سر برآواردہ طبقے کی توہین ،تضحیک اور سبکی کروں۔ حاشا وکلا! میں تو خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میں نے سنِ شعور تک پہنچتے پہنچتے مخلص مریدوں کے گھروں میں ہی کھایا پیا

ہے اور وہیں پلا بڑھا ہوں۔مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ مریدوں کو اپنے پیروں کے ساتھ کتنی محبت، عقیدت اورمخلصانہ تعلق اور وابستگی ہوتی ہے ، اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر پیر حضرات مریدوں کی صحیح رہنمائی کریں ، اُن کو اسلامی تعلیمات بلا کم وکاست آگاہی بخشیں ، ان کو سر چشمہ ہدایت قرآن اور اسو ہ حسنہ و کاملہ کی طرف رہنمائی کریں تو باطل ، طاغوت اور لا دین طبقے کی ساری ریشہ دوانیاں اور مکرو فن کے شیطانی اور ابلیسی حربے ناکام و بے اثر ہو جائیں گے ۔ مجھے اس میں رتی برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے ۔
کاش! ہمارے پیر حضرات وقت کی نزاکت ، اسلام کے خلاف عالمی سطح کی سازشیں ، اسلام کو دہشت گردی کا بے بنیاد الزام دینے والے دہشت گرد ممالک اورحکومتوں اوران کی منظم اسلام دشمن منصوبہ بندی اور پانی کی طرح سرمایہ بہا کر عام مسلمانوں کو ذہنی اورعلمی ارتداد کا شکار بنانے کی کھلے عام کوششوں کا ادراک کر کے ، اپنے رویے اور طرز عمل میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیلی لاتے تو حالات بدلنے میںکچھ دیر نہ لگتی۔
ساری دنیا کے انسان آدم کی اولاد ہیںاور مسلمان بھی آدم کی اولاد ہیں ۔ اسلام میں فضیلت اور برتری کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ ہے ۔ یہ جو ہم نے گروہ بندیاں بنائی ہیں ، گیلانی ، سروری ، قادری ، حسینی ، مخدومی ، فاروقی ، صدیقی، عثمانی ، نقشبندی، مجددی وغیرہ وغیرہ اوربہت سی ’چھوٹی یائے والے ‘یہ سب محض پہچان کے لیے ہیں ، اعزاز کی دھونس جمانے کے لیے نہیں ہیں ۔
پیر حضرات کی خاص طورپہ نئی نسل سے جو میری توقعات ہیں وہ یہ کہ اگر یہ گروہ مجموعی طور پر ذہناً اورعملاً اسلام کا ہو جائے ، یعنی اسلام کے غلبے اور احیا کے لیے کام کرے ، باطل اور غیر اسلامی نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ نظام کے قیام کے لیے کام کرے تو بہت ہی موثر اور فعال کردارادا کر سکتا ہے ۔ ناموں کی نسبت سے تو ہم سب مسلمان ہیں، مگر کام قریب قریب سب کے مختلف ہیں ، اور ملا طاہر غنی کشمیری کا یہ شعر ہمارے جوانوں کے فکر و عمل کی صورت حال پر صادق آتا ہے : ؎
غنی روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
اقبال کے اشعار میں اتنا عمق اور گہرائی ہے کہ ان کے ایک ایک مصرے پرایک ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ اس لیے قارئین حضرات کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ مرحوم اقبال کے ایک شعر : ؎
چار مرگ اندرپئے ایں دیر میر
سود خور و والی و ملا و پیر
پر بات اتنی لمبی ہوگئی کیوں ؟ اس موضوع پر ابھی اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، کیونکہ اس ایک شعر میں حکیم الامت اقبال نے اُمت مسلمہ کے زوال اور ادبار کے اسباب و وجوہ اور موجودہ صورت حال کے پیدا کرنے کی ذمہ داری جن چار عناصر پر ڈال دی ہے ، اگر یہ چاروں عناصر بدل جائیں اوراسلام ،امت مرحومہ اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ، دنیوی اور اُخروی کامیابی اورکامرانی کے لیے مطلوبہ کردار ادا کریں تو زہے قسمت! دلِ درد مند کی اپیل:
صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر
جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
ہے مگر فرصتِ کردار نفس یا دونفس
عوضِ یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز
(بال جبریل)
گردو پیش میں دنیا کے حالات ، فرنگیوں کی فتنہ سامانیاں ، لا الہٰ کا اقرارکرنے والے کی بے بسی اور درماندگی ، اس کے تعاقب میں چار مرگ یا چار ملک الموت کا تعاقب ، یہ سب روداد گزارش کرنے کے بعد اقبال نے رب کائنات کی خدمت میں فریاد کی ہے : ؎
ایں چنیں عالم کجا شایانِ تست
آب و گل داغے کہ بردامانِ تست
تیری تخلیق کردہ دنیا کے یہ حالات کہاں تیری شانِ عظمت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں ؟ یہ انسان جوخاک و آب کا مرکب ہے ،یہ تیرے دامنِ عظمت پر ایک داغ ہے۔
٭…٭…٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x