ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خیال و خواب کے جھروکوں سے – مارچ ۲۰۲۱

کہتے ہیں کہ انسانی دماغ کا موازنہ اگر کمپیوٹر کے ساتھ کیا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہوگی کہ ایک انسانی دماغ میں زندگی کے ہر لمحے کو محفوظ رکھنے کی جتنی صلاحیت ہوتی ہے اگر اتنی ہی صلاحتیوں والا کوئی کمپیوٹر ایجاد کر لیا جائے تو اس کی ’’ہارڈ ڈسک‘‘ دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت جیسی درجنوں عمارتوں کے برابر ہوگی اور کسی گزری بات کو ’’ری کال‘‘ کرنے کے لیے جو تیز رفتار پروسیسر درکار ہوگا اس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سمندر کا پانی بھی کم پڑ جائے گا۔ عام استعمال کے جتنے بھی کمپیوٹرز ہیں ان کی ہارڈ ڈسک میں فلموں کی بمشکل چند کاپیاں ہی پیسٹ کی جا سکتی ہیں جبکہ ایک انسانی دماغ میں پوری زندگی محفوظ ہوتی ہے۔ یہی نہیں ،کسی بھی کمپیوٹر میں محفوظ کسی بھی یاد کو تازہ کرنے کی غرض سے جس وقت بھی “ری کال” کیا جاتا ہے تو اس میں نہ صرف وقت درکار ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسا کرنے میں کافی مشکلات بھی سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی فائل کو کئی کئی انداز میں سرچ کرنا پڑ جاتا ہے لیکن بڑھاپے کی آخری عمر میں بھی اگر انتہائی بچپن کی کوئی بات یا واقعہ ری کال کرنا ہو تو وہ بنا کسی توقف یاد کیا جاسکتا ہے۔
انسانی ہارڈ ڈسک کی وسعت اور اس کے پروسیسر کی برق رفتاری کا کوئی مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا اس کے باوجود بھی موجودہ کمپیوٹر کو اس دور کی ایجادات میں نہ صرف ایک حیرت انگیز ایجاد کہا جا سکتا ہے بلکہ ایک ایسی نعمت قرار دیا جس کی وجہ سے انسان کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مسلسل مدد مل رہی ہے۔
ایک انسان کی زندگی ہر قسم کی خوشی اور غمی کے امتزاج سے مزین ہے۔ دکھ اور سکھ کی ایسی دھوپ چھاؤں ہے جس میں زندگی کا ہر نشیب نہایت گہرا اور ہر فراز اوجِ ثریا لیے ہوئے ہوتا ہے۔ یہی دکھ، سکھ، غم، خوشیاں اور نشیب و فراز ہائے زندگی اس کی یادیں بن جاتی ہیں اور سچ پوچھو تو انسان کی یہی ساری یادیں اس کی زندگی کا کل اثاثہ ہؤا کرتی ہیں۔ مال و دولت اور عیش و آرام تو ہاتھ کا میل ثابت ہوتا ہے اور ان کی قدر اس سے پہلے ہؤا ہی نہیں کرتی جب تک قدرت اسے چھین نہ لے لیکن یادوں کا ذخیرہ اس کی ساری زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے خزانے میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔
ہر انسان کی طرح میری ساری زندگی بھی یادوں کی ایک کہکشاں بنتی جا رہی ہے۔ میرا کل سرمایہ اب یادیں ہی ہیں جن کو میں جب اور جہاں سے چاہے ’’ری کال‘‘ کرلیا کرتا ہوں اور اپنے آپ کو اسی دکھ سکھ کے ماحول میں لے جاکر کبھی خوشیوں کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہوں اور کبھی کسی کے دکھ میں شریک ہو کر اس کی دل جوئی کر رہا ہوتا ہوں۔ دکھ، سکھ، غم، خوشی اور زندگی کے یہی سب نشیب و فراز کس کی زندگی میں نہیں آیا کرتے لیکن میرے رب کا مجھ پر بڑا کرم ہے کہ مجھ پر کوئی ایسا دکھ کبھی نہیں آیا جس کے لگائے گئے زخم کبھی بھر ہی نہ سکے ہوں اور کوئی خوشی ایسی کبھی نہیں ملی جو میری گردن میں سریے ڈال سکی ہو۔ یہ بھی نہیں کہ میں نے کبھی انتہائی عسرت نہ دیکھی ہو اور یہ بھی نہیں کہ مجھے میری توقع سے کم آسائشیں ملی ہوں۔
ماضی کی بہت ساری اچھی بری یادوں اور خوابوں میں سے کچھ یادیں اور خواب ایسے ہیں جو شاید دوسروں کے حصے میں کم ہی آئے ہوں۔ میں ان یادوں اور خوابوں میں سے کچھ یادیں اور خواب اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ یہ سب خیال و خواب افسانے یا تراشیدہ کہانیاں نہیں بلکہ جیتی جاگتی حقیقتیں ہیں اس لئے اس میں کسی غلو کے امکانات کو دل و دماغ میں جگہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی کے ساتھ بھی اس سے ملتے جلتے یا اس سے بھی کہیں حیران کن واقعات پیش آئے ہوں تو اسے نہ صرف ضبط تحریر کرے بلکہ اپنے قارئین کو بھی لازماً اس کا شریک بنائے۔
ممکن ہے کہ کچھ قارئین ایسے بھی ہوں جو اکثر خوابوں میں یا تو مر جاتے ہوں یا مرجانے کے قریب ہو جاتے ہوں لیکن عین موقع پر ان کی آنکھیں کھل جاتی ہوں یا وہ خواب سے بیدار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہوں۔ میرے ساتھ بھی متعدد بار ایسا ہؤا ہے کہ بہت ہی پْر خطر حالات میں ،میں خواب کے اس ماحول سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہوں لیکن ایک مرتبہ میں خواب میں مکمل انتقال بھی کر چکا ہوں۔
یہ ایک ایسا خواب تھا جس میں نہ صرف میں مرجانے کی مکمل ترین کیفیت سے گزرا بلکہ بیدار ہو جانے کے بعد بھی اس شک میں مبتلا رہا کہ میں واقعی مر چکا ہوں اور اب میری آنکھیں اپنے چاروں جانب جو تاریکی دیکھ رہی ہیں وہ قبر کی تاریکی ہے اور کچھ ہی دیر بعد منکر نکیر مجھ سے سوال و جواب کرنے پہنچ جائیں گے۔ سونے کے دوران مجھے لگا کہ جیسے کسی نے میری روح کو کھینچنا شروع کر دیا ہے جس کا آغاز پیروں کے انگوٹھوں سے ہؤا ہے۔ جس انداز میں تکیے کے کسی غلاف کو اوپر سے پکڑ کر کھینچا جاتا ہے اور وہ آخر تک کھنچتا چلا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے میری روح کوئی میرے اندر سے نہایت سبک انداز میں کھینچ رہا ہے۔ روح کا پیر کے انگوٹھے سے کھنچتے جانا تو ضرور محسوس ہو رہا تھا لیکن کسی بھی قسم کی معمولی سی بھی کوئی اذیت مجھے محسوس نہیں ہو رہی تھی اور یہی بات مجھے ہر قسم کے خوف سے آزاد رکھے ہوئے تھی۔ روح پیر کے انگوٹھے سے آہستہ آہستہ کھینچتے ہوئے پنڈلیوں، گھٹنوں، آدھے دھڑ، پیٹ، سینے اور گردن سے گزارتے ہوئے سر تک لائی گئی اور اس کے بعد سنسناتی ہوئی آنکھوں کے راستے جسم سے باہر نکال لی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک گہری خاموشی اور تاریکی میرے چاروں جانب چھا گئی۔ اس آخری کیفیت سے پہلے مجھے کلمہ پڑھنا اور اپنی روح کے پرواز کر جانے کا مکمل احساس تھا۔
جب میں خواب سے بیدار ہؤا تو اس یقین کے ساتھ ہؤا کہ یہ بیداری دنیا میں نہیں، قبر ہی میں ہوئی ہے۔ ایک بات جو مجھے نہایت مطمئن کئے ہوئے تھی وہ یہ کہ میرے دل و دماغ کسی بھی تفکر کا شکار نہیں تھے اور میں ہر قسم کے جوابات دینے کے لیے تیار تھا۔ جب ذہن کچھ اور زیادہ بیدار ہؤا تو مجھے شک گزرا کہ شاید یہ قبر نہیں، میرا اپنا کمرہ ہے۔بے یقینی کے عالم میں میں نے پہلے اپنے آپ کو ٹٹولا، احساس ہؤا کہ میں نے شلوار سوٹ ہی پہنا ہؤا ہے۔ آس پاس کو مزید ٹٹولا تو سر کے نیچے تکیہ اور کمرکے نیچے گدا تھا۔ اس سب کے باوجود مجھے اپنے زندہ ہونے کا مکمل یقین نہیں آیا تو میں اٹھ بیٹھا۔
قریب ہی سوئچ بورڈ تھا۔ میں نے سوئچ آن کیا تو ذرہ برابر روشنی نہ ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب مجھ پر ہلکی سی گھبراہٹ سوار ہوئی۔ میں نے ماحول کا جائزہ لیا تو کہیں سے بھی کوئی ہلکی سی روشنی جھلکتی ہوئی محسوس نہ ہوئی۔ مجھے نہ جانے کیوں یہ گمان گزرا کہ اگر واقعی میں زندہ سلامت ہوں، جہاں ہوں یہ میرا ہی کمرہ ہے، چھونے سے محسوس ہونے والا لباس، تکیہ اور بچھونا میرا ہی ہے اور میرا سب کچھ مجھے واپس عطا کر دیا گیا ہے تو کیا خدا نخواستہ میری بینائی مجھے نہیں لوٹائی گئی۔ یہ سوچ کر میں حقیقتاً پریشان ہو گیا کہاں ایک جانب روح کو بدن سے نکلتا دیکھنے اور محسوس ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کی بے کیفیت کا شکار نہ ہونا اور کہاں خود کو زندہ پاکر صرف بینائی کے کھوجانے کے احساس سے تڑپ جانا۔ پریشانی کے عالم میں نپے تلے قدم بڑھاتے ہوئے میں نے کھڑکی کے پٹ کھولے تو بہت دور کہیں ایک روشن بلب دیکھ کر مجھے علم ہؤا کہ آس پاس کا سارا علاقہ گہری تاریکی میں ڈوبا ہؤا ہے۔ بجلی چلی جانے کی وجہ سے دبیز تاریکی نے میرے کمرے کو ایسا ظلمت کدہ بنا کر رکھ دیا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی کسی گھر میں ہی بجلی کے قمقمے روشن ہؤا کرتے تھے۔ شہر کی اکثر آبادی اپنے گھر لالٹین سے ہی روشن کیا کرتی تھی اس لیے رات کے اوقات میں اتنی گھمبیر تاریکی کا راج کوئی انہونی نہیں تھا۔ دل کو ڈھارس بندھی تو میں بستر پر دوبارہ دراز ہوگیا۔ سردیوں کی راتیں ویسے بھی بہت لمبی اور سیاہ ہؤا کرتی ہیں اس لئے میں دوبارہ لیٹ گیا۔ کچھ دیر تو خواب اور خواب سے بیداری والے خیالات نیند کی راہ میں آڑے آتے رہے لیکن نیند تو سولی پر بھی آ جایا کرتی ہے۔
صبح حسب معمول بیدار ہؤا تو رات کا خواب مجھ پر بہت بری طرح سوار تھا۔ گھر والے بھی حسب معمول نہ صرف بیدار تھے بلکہ نماز و دیگر ضروریات سے فارغ ہو کر اپنے اپنے معمول کے کاموں میں مصروف نظر آئے۔ میں سب کا نہایت غور سے جائزہ لیتا رہا کہ آیا رات والا خواب تھا یا اب جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، وہ خواب ہے۔ قارئین مشکل ہی سے اس بات کا یقین کریں گے کہ مجھے اْس وقت تو اْس وقت، اب بھی کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شاید میں ایک خواب سے نکل کر ایک دوسرے خواب میں داخل ہو چکا ہوں لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس نہ تو کوئی مضبوط دلیل تھی اور نہ اب کوئی منطق جس سے میں دیکھے جانے والے خواب کو خواب کی بجائے حقیقت قرار دے سکوں۔
شاید ہی کوئی خواب کسی پر اپنے بہت گہرے اثرات چھوڑتا ہو۔ ایک عرصے تک مجھے یوں محسوس ہوتا رہا کہ شاید میں اب کچھ اور بہن بھائیوں کے درمیان ہوں۔ یہ تاثر مجھ میں کئی اوٹ پٹانگ کہانیاں پڑھنے کی وجہ سے جنم لینے لگا تھا۔ جیسا کہ بہت ساری کہانیوں میں پڑھا کہ کوئی شخص اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے اور جس کے گھر ہے ان سب کو ہی اپنا سمجھے ہوئے ہے۔ جو اس کے اپنے ہیں وہ بہت کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان کو پہچان لے لیکن وہ باوجود بہت کچھ یاد دلانے کے انھیں اپنی شناخت نہیں کرا پا رہے۔ یہ اوٹ پٹانگ خیال کئی ماہ تک مجھے پریشان کرتا رہا لیکن ظاہر ہے کہ یہ صرف جھوٹی کہانیوں قصوں کا نتیجہ تھا اس لیے صرف میرے ذہن کو ہی پراگندہ کر سکتا تھا۔
ایک اور واقعہ میری زندگی میں ایسا پیش آیا جس کو میں کسی صورت فراموش نہیں کر سکتا۔ آج سے تقریبا ساٹھ سال قبل کا قصہ ہے۔ یہ زمانہ بہت ہی سادہ اور مخلص لوگوں کا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا کلینک تھا۔ اس کلینک میں ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر یوسف جاوید کے نام سے بیٹھا کرتے تھے جو ایک عرصہ ہؤا مالک حقیقی کے پاس جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے (آمین)۔ میرے سارے گھر والے ان ہی کی پاس علاج معالجے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفا دے رکھی تھی۔ ہمارے زمانے میں کسی بھی ڈاکٹر کو ’’ٹیسٹوں‘‘ کا مرض نہیں ہؤا کرتا تھا۔ بخار دیکھا، احوال معلوم کیے یا بہت ہؤا تو آنکھیں، زبان اور گلا چیک کر لیا اور دوا تجویز کردی۔ عام طور پر کلینک کی دوائیں ہی تیر بہدف ثابت ہؤا کرتی تھیں۔ بہت کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ میڈیکل اسٹورز سے دوا خریدنا پڑتی ہو۔ اُس زمانے میں انجکشنوں کے استعمال کا بڑا رواج ہؤا کرتا تھا۔ پنسلین اور ٹیٹراسائیکلین نے ایک طویل عرصے طب کی دنیا میں حکومت قائم رکھی، جب مضر اثرات کی وجہ سے ان کا تاج شاہی ان سے چھنا تو “نوو ل جین” نے تخت و تاج سنبھال لیا۔ عجب جادو اثر انجکشن ہؤا کرتا تھا۔ نہایت تیز بخار کو بھی یوں اتار دیا کرتا تھا جیسے بخار نہیں مذاق ہو۔ ادھر دوا انجیکٹ ہوتی ادھر جسم کے سارے مساموں سے پسینہ پھوٹنا شروع ہوجاتا اور دیکھتے دیکھتے بخار کا خاتمہ ہو جایا کرتا تھا۔ پھر ہؤا یوں کہ کچھ مریضوں کی اموات واقع ہونا شروع ہو گئیں۔ اکثر سرینج کی سوئی جسم سے باہر بھی نہیں آ پاتی کہ مریض کی موت واقع ہو جایا کرتی تھی۔ لہٰذا نوول جین انجکشن پر پوری دنیا نے فوری طور پر پابندیاں عائد کردیں۔
ان ہی دنوں کی بات ہے کہ مجھے بہت ہی تیز بخار ہو گیا۔ میں ان ہی مہربان ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ وہ اپنا کلینک بند کرکے جا نے ہی والے تھے۔ مجھے اس کیفیت میں دیکھ کر رک گئے۔ نوول جین کے انجکشن مجھے پہلے بھی لگتے رہے تھے اس لیے انھوں نے مجھے اسی وقت میڈیکل بیڈ پر لٹایا، سرینج میں دوا بھری اور رگ ابھار کر سوئی اتاردی۔ آہستہ آہستہ اسے انجیکٹ کرتے جاتے اور مجھ سے پوچھتے جاتے کہ کیا فلاں کیفیت محسوس ہو رہی ہے، جواب میں میں کہتا نہیں تو پھر کچھ دوا اور انجیکٹ کرتے۔ مجھے اتنا علم ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ان کو گھبراتے دیکھا اور اس کے ساتھ ہی تیزی کے ساتھ انھیں سرینج باہر نکالتے دیکھا۔ اس کے بعد مجھے اتنا یاد ہے کہ جب دوبارہ آنکھ کھلی تو کلینک کا شٹر تقریباً پورا ہی بند تھا اور ڈاکٹر صاحب کا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ میں اپنے آپ کو بہت ہی تر و تازہ محسوس کر رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا چہرہ بھی مجھے اٹھتے دیکھ کر جیسے کھلنے لگا تھا لیکن میں اس سب ماحول کا تجزیہ کرنے میں بالکل ناکام تھا۔ مجھے تو بس یہی لگا کہ جس طرح اس سے قبل میں انجکشن لگ جانے کے بعد بخار سے نجات پا لیا کرتا تھا، اب بھی ایسا ہی ہؤا ہے۔ شٹر بند ہوجانے کو بھی اس لیے کوئی خاص نام نہ دے سکا کہ میں جب آیا تھا تو ڈاکٹر صاحب جانے والے تھے۔ باہر کا ماحول کسی حد تک ضرور بدلا ہؤا سا محسوس ہؤا تھا لیکن اس وقت اس تبدیلی کو میں کوئی نام نہ دے سکا۔ گھر میں والدہ کو البتہ متفکر ضرور پایا۔ ان کے یہ الفاظ کہ آج تم نے ڈاکٹر صاحب کے پاس کافی وقت لگادیا، کیا مریض زیادہ تھے، ان کے اس تفکرآمیز جملوں کو بھی میں کوئی معنی فوری طور پر نہیں دے سکا۔
ایک دو دن بعد جب یا تو ذہن زیادہ صاف ہؤا یا میری طبعیت صحیح معنوں میں بحال ہوئی تو پھر بہت ساری باتیں ایک ایک کر کے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتی چلی گئیں۔ میں نے فرصت کا وقت پاکر ڈاکٹر صاحب کے سامنے اپنا مدعا رکھا تو انھوں نے سچ سچ سب بتا دیا۔ کہنے لگے صاحب زادے تم اور میں، دونوں بہت خوش نصیب ہیں اور ان کے ساتھ تمہارے بھائی بند، والدین اور میرے بیوی بچے بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے چاہئیں۔ میرا انجکشن ری ایکٹ کر چکا تھا، تم بیہوش تو نہیں، گہری نیند میں پہنچ چکے تھے۔ میں بھی اپنے اندر سے ہل چکا تھا۔ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کروں تو کیا کروں۔ فوری طور پر میں نے کلینک کا شٹر گرادیا تھا لیکن تم کو اس حال میں چھوڑ کر جانے کا دل و دماغ میں کوئی خیال تک نہ آیا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں تمہارا معائنہ کیا۔ ہر چیر معمول کے مطابق کام کر رہی تھی۔ یہی کیفیت میرے دل کی ڈھارس بندھائے ہوئے تھی۔ کوئی گھنٹے بعد تم نے اپنے زور پر کروٹ لی تو میرا دل کچھ ٹھہر سا گیا۔ پھر اس کے بعد میں خود بھی حیران رہ گیا کہ تم ایک نارمل اور صحت مند انسان کی طرح اٹھ کر بیٹھ بھی گئے ہو۔ کہنے لگے کہ مجھے یہ سب ایک بھیانک خواب کی طرح لگا۔ میں نے اپنی زبان بند رکھنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا کیونکہ مجھے یہ گمان گزرا تھا کہ شاید یہ سب عرصہ تمہاری یادداشت میں محفوظ نہیں رہا ہوگا۔ آج تم نے پوچھا ہے تو میں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جو کچھ بھی سچ تھا بتادیا۔
میرے زمانے میں نہ تو لینڈ لائن ٹیلیفون عام تھے اور نہ ہی اس وقت موبائل فون کا کوئی تصور موجود تھا۔ ہنگامی طور پر اگر کوئی تیز ترین اطلاع کسی کو ارسال کرنا ہوتی تو اس کے لیے واحد ذریعہ ’’تار‘‘ ہؤا کرتا تھا۔ عام طور پر ’’تار‘‘ دن کے دن، یعنی جس دن روانہ کیا جاتا تھا، اسی دن پہنچ جایا کرتا تھا لیکن یہ بھی اسی وقت ممکن ہؤا کرتا تھا جب بستیوں یا شہروں کے قریب ہی کوئی’’تار‘‘ گھر ہوتا۔ ترسیل کے سارے ذرائع کیونکہ انسانی ہؤا کرتے تھے اس لئے دور دراز کے مقام پر یہ تیز رفتار ذریعہ بھی اکثر ایک یا دو دن لے لیا کرتا تھا۔
میری پہلی باقاعدہ ملازمت کا آغاز فیلڈ ڈیوٹی سے ہؤا۔ کراچی کے رہائشی کی پوسٹنگ ضلع اٹک کے ایک دور دراز مقام پر ایک آئل فیلڈ میں ہوئی ۔ 80 کی دہائی کی بات ہے۔ میری معمول کی چھٹیاں منظور ہو چکی تھیں اور مجھے صبح ہی صبح کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ راولپنڈی اسٹیشن تک کا سفر سرکاری گاڑی سے ہی ہؤا کرتا تھا۔ چھٹی کی خوشی میں رات کافی تاخیر سے نیند آئی تھی مگر نیند کا یہ وقفہ بھی کوئی خوشگواری لیے ہوئے نہیں تھا۔ اس پورے عرصے میں میں نے اپنے آپ کو کافی پریشان پایا۔ میں چند پیچیدہ گلیوں میں جیسے بھٹک سا گیا تھا۔ ہر جانب ہو کا عالم تھا۔ اسی دوران میں نے ایک فائر کی آواز سنی اور جب میں آواز کے مقام کو تلاش کرتا ہؤا عمارت میں داخل ہؤا تو والد صاحب کو خون میں لت پت پایا۔ اپنے سارے سفر کے دوران میری آنکھوں میں وہی خواب چکراتا رہا۔
ٹرین کا ایک پورادن اور ایک رات اسی ادھیڑبن میں گزری۔ اس وقت نہ تو کراچی کے حالات غیر یقینی ہؤا کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں کسی بھی جانب سے کوئی ایسا خطرہ تھا جس کی وجہ سے، اللہ نہ کرے، نوبت خواب جیسی آنے کا امکان ہو۔ والد صاحب میرے بڑے بھائی کے گھر ہؤا کرتے تھے جو میرے گھر سے پانچ سات میل دور تھا۔ سفر ختم ہؤا تو میں گھر پہنچا لیکن گھر کے دروازے میں لگے تالے نے میرے دل کو میری کنپٹی میں دھڑکنے پر مجبور کردیا۔ مجھے زمین میرے پاؤں کے نیچے سے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ قریب میں رشتے کے ماموں رہا کرتے تھے اور گھر میں تالا لگا نے کی صورت میں گھر کی چابیاں ایک دوسرے کے حوالے کر دیا کرتے تھے۔ وہاں پہنچا تو میں نے خلاف معمول کوئی بات محسوس نہ کر کے کچھ اطمینان محسوس کیا۔ چابی لی، گھر کا دورازہ کھولا، جلدی جلدی غسل کرکے اپنا حلیہ درست کیا۔ ابھی میں فارغ ہی ہؤا تھا کہ باہر موٹر سائیکل رکنے کی آواز سن کر دروازہ کھولا تو ماموں کو موجود پایا۔ انھوں نے اطلاع دی کہ بھائی صاحب (میرے والد) کو برین ہیمبرج ہو گیا ہے، اپنے بڑے بھائی کے گھر پہنچو، سب وہیں جمع ہیں۔ ایسے عالم میں خود پر قابو کیسے پایا جا سکتا تھا۔ میں بھاگم بھاگ بھائی کے گھر پہنچا تو معلوم ہؤا کہ والد صاحب کو تو لوگ قبرستان لے جا چکے ہیں۔ یہ سن کر دل و دماغ نے کام کرنا جیسے چھوڑ دیا۔ فوراً قبرستان کی جانب جانے کا قصد کیا تو دیکھا کہ تمام لوگ واپس آ رہے ہیں۔
یہ صورت حال دیکھ کر میں نے اپنے بھائیوں سے گلے ملتے ہوئے نہایت دکھ کے ساتھ گلہ کیا کہ آپ سب لوگوں نے مجھے بر وقت اطلاع کیوں نہیں دی کہ میں اپنے والد کا آخری دیدار ہی کر لیتا۔ جواب ملا کہ ہم نے پرسوں ہی تمہاری جانب ایک ’’تار‘‘ روانہ کیا تھا کیا وہ تمہیں نہیں ملا۔ زندگی میں یہ تیسرا موقع تھا جب میں واقعی مر چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسی ملازمت کا کیا فائدہ جس میں والدین تک کا آخری دیدار نصیب نہ ہو سکے۔
ان تمام جانکاہ واقعات کے باوجود بھی میں اپنے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنی جیتی جاگتی زندگی میں آخری بار اس وقت مر گیا تھا جب آج سے 50 سال قبل میرے کانوں میں سقوطِ ڈھاکہ کی خبر پڑی۔ یہ خبر کیا تھی، ایک دو دھاری تلوار تھی جو میرا دل و جگر چیرتی ہوئی مجھے دولخت کر گئی۔ اس دن سے آج تک میں مرغ ِبسمل یا ماہی بے آب بن کر رہ گیا ہوں۔ میں اپنے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ سقوط ِڈھاکہ کے بعد مجھے صدمہ پہنچانے والی بری سے بری خبر بھی میری آنکھیں نم نہیں کر سکی اور اب اس وقت سے تا دمِ تحریر بقولِ شاعر باقر مہدی، یہ عالم ہے کہ:

چراغِ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں
ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں
نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ
غم حیات میں سب کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں
جنوں کی حد ہے کہ ہوش و خرد کی منزل ہے
خبر نہیں ہے کہاں آج آ کے بیٹھے ہیں
کبھی جو دل نے کہا اب چلو یہاں سے کہیں
تو اٹھ کے عالمِ وحشت میں جا کے بیٹھے ہیں
یہ کس جگہ پہ قدم رک گئے ہیں کیا کہیے
کہ منزلوں کے نشاں تک مٹا کے بیٹھے ہیں

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x