ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جنگی قیدی کی آپ بیتی (۲) – مارچ ۲۰۲۱

فوجی جوان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہاکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں گاڑی میں بٹھا کر فوجی کیمپ میں موجود ایک فوجی بیرک میں لے جایا گیا جہاں ہمارے لیے رہائش کانتظام تھا۔ دو سال بھارتی قید کے بعد شاید جسم کی چارپائی سے شناسائی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ بس فرش پر بستر نما ایک کمبل کی عادت تھی۔ ٹوٹی ہوئی پرانی اور کائی لگی ہوئی اینٹوں کے فرش پر سونے کی کوشش ہوتی تھی۔ ان اینٹوں کو جوڑنے کے لیے اگر کبھی کوئی سیمنٹ وغیرہ کبھی لگا یاہو تو اب موجود نہ تھااوراینٹوں کے درمیان خالی جگہ ریت اور کیڑوں مکوڑوں کو باہر آنے کی کھلی دعوت دیا کرتی۔
لاہور کی پہلی شام
لاہور میں شام ڈھلنے لگی۔درختوں سے چڑیوں کی چہچہاتی آو ا ز یں یوں لگ رہی تھیں کہ جیسے ہماری قید سے آزادی پر خوشی کااظہار کررہی ہیں۔ مساجد سے اذان کی صدائیں خدا کی کبریائی بیان کررہی تھیں۔ لان میں مغرب کی نماز ادا کی ۔جب کمرے میں واپس گیا تو وہاں ایک سپاہی موجود تھا وہ ہمیں کھانے کے لیے لے گیا۔ کھانا کھا کر واپس کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ تھک کر چور ہو گیا تھا۔ سارے دن کی تھکاوٹ اور پھر قید کی تھکاوٹ میں اس وقت عجیب کیفیت سے دوچار تھا۔ انجانے وسوسوں اور مستقبل کے بارے میں انجانے خوف نے مجھے گھیر لیا۔ یوں محسوس ہؤاکہ جیسے یہ سب پریشان سوچیں میری منتظر تھیں۔
مادر وطن کو بچانے کے لیے نکلے تھے لیکن اسے بچانہ سکنے کا غم اپنے آپ سے سوال کرتا رہاکہ ہم جوارادہ کرکے نکلے تھے اسے پورا کیوں نہ کرسکے۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار کیوں ڈال دیے۔ بظاہر صورت حال ایسی تو نہ تھی کہ ہم وطن کا دفاع نہ کرسکتے۔ جنرل نیازی نے تو کہاتھاکہ ہم آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑیں گے تو پھر آخر وہ اپنی بات پر قائم کیوں نہ رہ سکے۔
16 دسمبر1971ء کے مناظر بھی بار بار آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔ ان (پاکستانی فوج ) میں حوصلہ تھا۔ وطن کے دفاع میں لڑنے کی ایمانی قوت موجود تھی۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار یہ فوجی جوان پکارپکار کر کہہ رہے تھے وطن کے دفاع کی خاطر ہم اپنی جان دے دیں گے ، لڑیں گے ،مریں گے۔ وہ رو رو کر چلا چلا کر یہ بات کررہے تھے۔ آخر ان کی آواز پر کسی نے توجہ کیوں نہ کی ؟ان وطن کے سپوتوں کو آزما کر تو دیکھتے !
اگر پوچھا جاتا تو کوئی فوجی بھی دشمن کی قید میں جانے کو تیار نہ ہوتا اور اپنی جان ملک کی خاطر قربان کردیتا۔ وہ سب دشمن کی قید میں جانے پر شہادت کو ترجیح دیتے۔ میرا ذہن اْن ہزاروں ، لاکھوں محب وطن پاکستانیوں کی طرف چلا گیا جنھوںنے پاکستان کاساتھ دیا تھا اور یہ سوچ مجھے بے چین کررہی تھی کہ ان کے ساتھ مکتی باہنی اور انڈین فوجیوں نے کتنا ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک کیا ہوگا۔ کتنوں کو اذیت دے کر موت کے گھاٹ اتار دیاہوگا۔تاریخ کی کتابوں میں یہ سب محفوظ ہے۔
سونے جیسی مٹی اور مٹی جیسا سونا
میراذہن بالکل ماؤف تھا اور کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔بس نگاہوں کے آگے بار بار آخری چند دنوں کے مناظر گھوم رہے تھے۔ہمیں 15دسمبر 1971 نیول بیس چٹاگانگ میں اکٹھا ہونے کو کہاگیاتھا جہاں سے ہمیں اگلے احکامات جاری کیے جانے تھے۔ وہاں پہنچے تو حالات بہت زیادہ خراب تھے۔ سب کی زبانیں گنگ تھیں۔ فضا بہت مکدر تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں فوجی جوان اور افسر موجود ہونے کے باوجود ایک اجنبیت کی کیفیت طاری تھی۔ کوئی کسی سے بات کرتے ہوئے جھجک رہاتھا۔ سب کی نظریں Log Area Commanderبریگیڈئیر عطا محمد پر تھیں۔ یوں لگتاتھاکہ آج ساری ذمہ داری انہی پر ہے۔
اچانک نظر آیا کہ ان کے حکم پر سارے فوجی قطار بنا کر نیول بیس سے سمندر تک کھڑے ہیں۔ بریگیڈئیر صاحب انہیںکچھ ہدایات دیتے ہیں۔سفید تھیلیوں کے انبار ہیں جنہیں قطار میں کھڑے فوجی آگے سمندر تک پہنچاتے ہیں۔ اتنے میں اْن کی نظر مجھ پر پڑتی ہے۔مجھے مخاطب کرکے کہتے ہیںکہ ہم فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تیاری کررہے ہیں۔پھر سفید تھیلیوں کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ اسی سلسلے میںہم سٹیٹ بنک کے اس سونے کو سمندر برد کرنے لگے ہیں تاکہ دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔ابھی انڈین فوج شہر سے بہت دور ہے، اسے شہر میں داخل ہونے کے لیے ایک دن کم ازکم درکار ہے۔شہر ابھی ہمارے کنٹرول میں ہے تم جتنا سونا لے جاسکتے ہو لے جاؤ، تمہارے گھر والوں کے کام آئے گا۔
میرے لیے یہ سب کچھ حیران کن تھا۔ انہوںنے مجھے سمجھانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں رونے لگ گیا۔ میرے دل و دماغ میں وطن کے لیے جان و مال قربان کرنے کاجذبہ موجزن تھا۔ میں نے کہاکہ مجھے یہ نہیں چاہیے وطن ہے تو سب کچھ ہے۔ میں انہیں بہت کچھ کہنا چاہتاتھا کہ جب سونے جیسی مٹی اپنی نہ رہی تو یہ سونا میرے لیے مٹی جیسا ہے ،مگر کچھ نہ کہہ سکا، صرف آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ مادر وطن کے دفاع میں لڑنے والے ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کے چہرے میرے سامنے تھے۔ سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا کہ بس یہ انجام ہوناتھا؟ ہم وطن کے دفاع میں خون کا نذرانہ پیش نہ کرسکے۔ بے بسی کا یہ عالم تھاکہ یہ جبر و ستم اللہ نہ کرے کہ کسی کی زندگی میں دوبارہ آئے۔ خدا کرے وطن کو کھو دینے کایہ دکھ کسی کے نصیب میں نہ آئے!
میں نہ غریب تھا نہ یتیم تھا۔ میرے پاس سب کچھ تھا مگر اب میں سب کے ہوتے ہوئے غریب الوطن ہوچکاتھا۔میں گزرے ہوئے دنوں کی کربناک یاد سے نکلتا تو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگتا۔ مجھے بھوک اور پیاس نظر آ رہی تھی۔ تنہائی اور محرومی کیا ہوتی ہے اس کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا۔ لیکن جس کی مادر وطن ہی چھن جائے اس سے بڑھ کر مفلس کوئی نہیں ہوتا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں نے سکھ کی تمنا لے کر یہ سفر نہیں کیاتھا۔ میں اپنے دین اور وطن کی حفاظت کی خاطر نکلاتھااور انجام اللہ پر چھوڑ دیاتھا۔
فوجی ملازمت کی پیش کش
رات بہت بے قرار گزری نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح اذان کے ساتھ ہی آنکھ کھلی۔ مجھے انتظامیہ کی طرف سے کہاگیاکہ فوجی زندگی کو جوائن کرنا ہے تو اس سے دوتین سال کی تنخواہ بھی ملے گی اور ایک سہارا بھی مل جائے گا۔ میری زندگی کاایک تعین ہونے جا رہاتھا۔ ایک نئی راہ نکل سکتی تھی۔مگر جب مجھ سے میرا فیصلہ پوچھا گیا تو میںاس آفر کو قبول نہ کر سکا۔ میں اپنی قسمت خود آزمانا چاہتاتھا۔ مجھے خدا کی نصرت پر پورا بھروسہ تھا۔ مجھے شدت سے احساس تھاکہ جنگ کی زندگی اور قید کی زندگی نے میرے اوپر بہت منفی اثرات چھوڑے ہوں گے۔
میں پاگل تونہیں ہؤاتھا لیکن حالات شاید میرے اوپر اثر انداز ہوئے ہوں گے۔ میں اس کی نشاندہی تو نہیں کرسکتامگر اس خوف نے مجھے پریشان کیے رکھا۔اللہ سے بڑی دعائیں کیں۔ اللہ نے میرے حق میں بہتر فیصلہ کیا اور مجھے نئی زندگی میں جانے کا حوصلہ دیا۔میں ایک فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔ میرا دل و دماغ بالکل مطمئن ہوگیاکہ مجھے فوجی زندگی ترک کرکے دوسری زندگی کی طرف جانا چاہیے۔ مگر کیسے ؟ اس کے بارے میں ابھی ذہن واضح نہیں تھا۔
میں نے فوجی حکام سے درخواست کی کہ مجھے شہر میں کہیں بھی چھوڑ دیں۔ انہوںنے مجھے لاکھ سمجھایا کہ تم چھوٹے ہو تمہارا یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے زندگی اتنی آسان نہیں ہے کہاں جاؤ گے کہاں رات گزار وگے۔ مجھے زندگی کی حقیقت سے آگاہ کرتے رہے۔ میں خاموشی سے اْن کی باتیں سنتا رہا۔ لیکن مجھے یقین تھاکہ اللہ قادر مطلق ہے ، غفورالرحیم ہے ،وہ میراسہارا بنے گا۔
بالآخر انتظامیہ نے میری بات مان لی اور ایک کاغذ پر مجھ سے دستخط کروائے کہ میں اپنی مرضی سے سول زندگی میں جانا چاہ رہاہوں۔ وہ لوگ بہت محتاط اور میرے لیے فکر مند تھے۔ اْن کے اندر احساس ذمہ داری تھا اور وہ میرے حالات سے واقف بھی تھے۔ انہوںنے ہمیشہ مجھ سے ایک مسلمان اور بے سہارا بچے کی حیثیت سے بہت مثبت اور محبت بھرا برتاؤ کیا جس کو آج بھی میں یادکرتاہوں۔
نئی منزل کی طرف
آخرایک دن مجھے کہاگیاکہ میں تیاری کروں مجھے شہر لے کر جانا ہے۔ تیاری کیاتھی میری ذہنی کیفیت کانام تھی۔ مجھے گاڑی میں بٹھایا گیا اور ہم شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے کے دونوں طر ف سرسبز وشاداب کھیتی باڑی دیکھ کر میں حیران رہ گیاکیونکہ مجیب الرحمن کہاکرتاتھاکہ پاکستان کی بنجر زمین کو آباد کرانے کے لیے مشرقی پاکستان کی مٹی استعمال ہوتی تھی کیونکہ مشرقی پاکستان کی مٹی سونا اگلتی ہے۔ قومی رہنما اگر قوم سے جھوٹ بولے تو بربادی یقینی ہے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اس کی زندہ مثال ہیں۔
خیر گاڑی مقررہ راستے سے چلتی ہوئی ٹھو کر نیاز بیگ تک پہنچی اور پھر ٹھوکر نیاز بیگ سے کٹار بند روڈ مغرب کی طرف چل پڑی۔ تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پرانی طرز کی مسجد کے سامنے آکر رکی جو کافی پرانی اور خستہ حال تھی اور اس کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا۔ گویا یہ میری منزل اور مستقبل تھا اورمجھے یہاں رہناتھا۔
مسجد اور پرانا کمبل
مسجد میں داخل ہؤا تو وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ ان لوگوں کاتعلق مشرقی پاکستان سے تو تھا مگر یہ جنگی قیدی نہ تھے، اردو سپیکنگ تھے اور مختلف راستوں سے یہاں تک پہنچے تھے۔ مسجد کے عملہ نے مجھے خوش آمدید کہا اور ایک کمبل عنایت کیا۔ سردی کاموسم تھا اور سردی سے بچنے کا یہ ایک واحد راستہ تھا۔ رات کاکھانا مجھے مسجد سے مل گیاتھا۔
نمازعشا ادا کرنے کے بعد سونے کے لیے لیٹا تو ایک اور پریشانی کا سامناہؤا۔ وہ کمبل اتنا بد بو دار تھاکہ اوڑھا نہیں جاسکتا تھا۔ کسی مخیر حضرت نے وہ کمبل کسی مستحق کے لیے رکھ چھوڑاہوگا۔ بہرحال کمبل کواوڑھنے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہا۔ کمبل ایک طرف رکھ دیا۔ مسجد کی چٹائیوں پر نظر پڑی ،ایک چٹائی نیچے بچھائی اور ایک اوپر اوڑھ لی۔ تھکاہواتھا جلد ہی نیند آگئی۔ صبح مؤذن نے نماز کی تیاری کرنے کے لیے ہلکا سا پاؤں مارا۔ میں نے آواز دی تو وہ سمجھ گیاکہ کوئی اندر سو رہاہے۔ پھر اس نے ہاتھ سے چٹائی ہٹائی اور مجھے اٹھایا۔ نماز ادا کرکے مسجد میں ہی بیٹھ گیا۔
بورڈ کے آفس میں
میں تعلیم کے اعتبار سے میٹرک پاس تھا مگر وہ تعلیم مجھے یہاں بولنا نہیں سکھا سکتی تھی۔ بنگلہ جانتاتھا اور تھوڑی بہت انگریزی بول لیتاتھا۔ اشاروں کی زبان بولنا چاہی مگر اس میں بھی نالائق نکلا۔ دراصل میں اپنی تعلیم مکمل کرناچاہتاتھا۔ فوری طورپر انٹر کا امتحان دینا چاہتاتھا۔ مگر کیسے؟ مجھے یہاں کے طریقہ کار کابالکل علم نہ تھا۔اگر ہمت ہی ہارنی تھی تو فوج کی زندگی میرے لیے زیادہ بہتر تھی۔ بہرحال میں نے عزم کیا اور تعلیم حاصل کرنے کی جستجو شروع کردی۔ جب میں فوجی کیمپ سے نکلاتھا تو فوجی بھائیوں نے مجھے دو ہزار روپے دیے تھے کہ کام آئیں گے۔ میرے پاس کل سرمایہ وہی تھا۔ میں پوچھتا پچھاتا ٹھوکر نیاز بیگ سے بس پر بیٹھ کر ریگل چوک تک گیا اور وہاں سے پیدل بورڈ کے آفس پہنچ گیا۔
میں کافی تھکاہؤـاتھا۔ بورڈ کے سیکرٹری کے دفتر تک بالآخر پہنچ چکاتھا۔ میری حالت اس وقت مجنونوں جیسی تھی۔ اردو اور پنجابی سے ناواقفیت تھی۔ چوکیدار کو بس یہ دو زبانیں ہی آتی تھیں۔ اس نے اپنے صاحب کومیرے شر سے محفوظ رکھنے کی گویا قسم کھالی تھی۔ اپنے صاحب سے ملنے سے روکنے کے لیے اس نے ہر حربہ آزمالیا۔ مجھے دھکے دے کر نکالنے کی کوشش کی۔ مارا بھی اور بْرا بھلا بھی کہا کہ لوگ مانگنے کے لیے کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں۔ میں اس کو کچھ سمجھا نہ سکا۔ اس دھکم پیل اور شورشرابہ میں سیکرٹری صاحب خود باہر تشریف لے آئے۔ مجھ سے آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے جواب دیا آپ سے ملنا ہے آپ کے وفادار چوکیدار نے میرا حال یہ کیاہے۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئے۔ وہ بورڈ کے سیکرٹری تھے، اس بلڈنگ میں ان کابہت بڑا آفس تھا۔ وہ مجھے اندر لے گئے اور بیل دے کر پانی لانے کو کہا۔ باہر کھڑے چوکیدار نے ہی مجھے پانی لا کر دیا اور مجھے گھورتا ہؤا باہر نکل گیا۔
ایف اے میں داخلہ
پانی پینے کے بعد میں نے خودکو ہشاش بشاش محسوس کیا۔ سیکرٹری صاحب نے مجھ سے آنے کا مدعاپوچھا۔ میں نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں انہیں اپناتعارف کرایا اور کہاکہ میں ایف اے کا امتحان دینا چاہتاہوں ساتھ ہی بتایاکہ میرے پاس میٹرک کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ فیس نہیں ہے ، یہاں تک کہ کتابیں بھی نہیں ہیں۔ وہ میری بات حیرانی سے سن رہے تھے اور پریشان بھی تھے۔ دل ہی دل میں سوچتے تو ہوں گے کہ پاگل ہے امتحان دینا چاہتاہے اور پلے بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے ،یقیناًمیرا رب انہیں سمجھا رہاتھاکہ اس کاکام کرناہے۔ مجھے ان کی خاموشی اور چہرے کا اتارچڑھائو بھی بتا رہاتھاکہ بالکل ایسے ہی ہؤا ہوگا۔ سیکرٹری صاحب نے دراز سے ایک فارم نکالا اور اس کو فِل کیا۔ میرے اور اپنے دستخط کیے اور کہاکہ جب تک میٹرک کی سند نہیں دو گے رزلٹ نہیں ملے گا۔
انہوںنے میرے فارم پر یہ بات لکھ دی اور ساتھ مہر بھی ثبت کردی۔ ساتھ تاکید کی کہ جتنی جلدی ہوسکے میٹرک کی سند منگوا لو۔ بورڈ کی فیس معاف کی۔ انٹرمیڈیٹ فیس معاف کی اور کتابیں دیں اور تاکید کی کہ وقت پر رول نمبر سلپ لے جانا۔ میں نے اللہ کاشکر ادا کیا ،سیکرٹری صاحب کاشکریہ ادا کیا اور دفتر سے نکل آیا۔ اب میں ایف اے کا طالب علم تھا اور امتحان کی اہلیت حاصل کرچکاتھا۔
میںخوشی خوشی پیدل ریگل چوک پہنچا ۔وہاں سے بس پر بیٹھااور واپس ٹھو کر نیاز بیگ آیا جہاں سے پھر پیدل کلومیٹر یا ڈیڑھ کلومیٹر چلتاہؤا مسجد یعنی اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر سکھ کا سانس لیا۔ وضو کیا ، مغرب کا وقت ہوچکاتھا۔ نماز پڑھ کر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ تھکاوٹ کافی ہوچکی تھی مگر ذہنی سکون تھا بہت جلدی نیند آگئی۔
گھر والوں کی یاد
صبح مؤذن کے آنے سے پہلے ہی آنکھ کھل چکی تھی۔ رات کافی سو لیاتھا۔ فجر کی نماز کے انتظارمیں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ مختلف بے ترتیب سے خیالات میرے ذہن پر دستک دے رہے تھے۔مجھے اس وقت اپنے گھر والے بہت یاد آ ئے کیونکہ ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ رہائی کے بعد انہیں میرے زندہ ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی نہ تھا۔
رہائی سے پہلے البتہ ان کو اطلاع مل گئی تھی کہ میںقید سے چھوٹ کر پاکستان جاؤں گا۔وہ یوں کہ میرے بڑے بھائی پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ پاکستان کی خدمت کرنے کے لیے بڑے شوق سے فوج میں گئے تھے۔ میں جب انڈین جیل میں قید تھا میرے بھائی اس وقت مغربی پاکستان لاہور میںڈیوٹی پر مامور تھے(اس کے بعد جلد ہی وہ ڈھاکہ واپس چلے گئے)۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس سوسائٹی نے خط وکتابت کی ایک سہولت دی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔رہائی سے پہلے بھائی کے ایڈریس پر میں نے انہیں چند سطریں لکھ کر بتایاکہ میںٹھیک ہوں، پاکستان آ رہاہوں، آپ گھر والوں کو بتادیں۔ انہوںنے بھی اسی طرح چند سطروں میں گھر والوں کو(ڈھاکہ) میری خیریت کی اطلاع دی اور مجھے بھی جواب دیا۔
مگر اب میرے پاس رابطے کا کوئی وسیلہ نہ تھا۔ جدائی اور تنہائی دونوں جان لیوا تھیں۔
اللہ کی مدد
میں ان دنوں ایک ایسی ہیجان کی کیفیت میں تھا جس کو لفظوں میں بیان نہیںکرسکتا۔ اب کیا کروں ، وقت نام کی چیز جو گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بس ایک ہی چیز کامنتظر تھا او ر وہ تھی اللہ کی مدد۔ بار بار اس کی مدد مانگتا رہا۔ اتنے میں چند افراد میرے پاس آئے اور آکر بیٹھ گئے۔ ان میں ایک بنگالی بولنے والا بھی تھا۔ مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور یوں لگا کہ میری دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ انہوںنے مجھ سے اپناتعارف کروایا اور بتایاکہ ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف سے آپ کے پاس آئے ہیں اور ہمیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ مسجد میں تین چار جیل کے اور ساتھی بھی تھے۔ چنانچہ ہم سب کو گاڑی میں بٹھا کر اچھرہ مولانا کے پاس لے جایا گیا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ یہ کیسا اللہ کی راہ میںدینا ہے! اللہ جن کو توفیق دے یہ صرف انہیں کے حصے میں آسکتاہے۔
ہم نے تو کسی سے کوئی ذکر نہ کیا تھا، پھر ہمارے بارے میں انہیں کیسے پتہ چلا؟ ہمارے لیے یہ بات معمہ بنی رہی۔ بالآخر شیخ فقیر حسین صاحب نے بتایاکہ مولانامحترم نے اس لاپروائی پر جماعت کے ذمہ داران کو توجہ دلائی تھی اور ناراضگی کااظہار کیاتھاکہ بھارت سے رہائی پا کر وطن واپس آنے والے جنگی قیدیوں کے استقبال کے لیے کیوں نہیں پہنچے ، ہو سکتا ہے کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ۔ پھر لوگوں سے اتہ پتہ کروایا تو ہمارے بارے میں پتہ چلا اور انہوں نے ایک مخیر حضرت سے بات کرکے یہ سب انتظامامات کروائے۔ اللہ ان کو جوار رحمت میں داخل کرے۔
1۔ اے ذیلدار پارک میں
1۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور کو جہاں ہم رہائش پذیر تھے، ایسٹ پاکستان ہائوس کا نام دیاگیاتھا۔ وہاں ہر وقت لوگوں کا تانتا بندھارہتا تھا۔میں نے ایف اے کافارم فل کیا تھا مجھے اس کی بھی فکر تھی ، اس لیے مجھے پڑھنے کے لیے ہاسٹل میں منتقل کردیاگیاتھا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x