ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

صحرا سے بار بار وطن کو ن جائے گا (حصہ اول) – مارچ ۲۰۲۱

صحرا کانام سنتے ہی ذہن میں تاحد نگاہ ریت آتی ہے اور صحرائے تھر کا نام سنتے ہی بھوک، پیاس اور سوکھے کی بیماری تصور میں آتی ہے۔ یوں تو شاعر نے کہا تھا۔
ـدیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے میری آنکھیں لے جا
ہم ہرگز اپنی آنکھیں ادھار نہیں دے رہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آئیے آج ہماری آنکھوں سے صحرا کو دیکھیے ۔ لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹی سی بات ، ہم کوئی منجھےہوئے سفر نامہ نگار تو ہیں نہیں ، اس لیے سقم کی گنجائش کے طلبگار ہیں ، بس جیسے جیسے جو کچھ دیکھا اگر اسی ترتیب سے یاد آتا گیا تو لکھتے جائیں گے ورنہ جو بات جب یاد آ گئی کہہ دیں گے ، تو کچھ ٹیڑھ میڑھ برداشت کیجیے گا، درگزر فرمائیے گا۔
تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے صاحب ( یعنی منے کے ابا) چند برس سے کچھ ایسی ذمہ داریوں پہ فائز ہیں کہ بھاگ بھاگ کر ایسے تھر جاتے ہیں جیسے کوئی بہو سسرال سے جان چھڑا چھڑا کر میکے کو جاتی ہو، ماشاءاللہ اس سفر کے اتنے عادی ہیں کہ جاکے آ بھی جاتے ہیں اور فوری طور پہ کاموں میں مصروف بھی ہو جاتے ہیں ، اس لیے ہم نے خود ہی یہ تصور کر لیا کہ تھر کا سفر تو بائیں ہاتھ کے کھیل جیسا ہے ۔ اسی تصور کے زیرِ اثر ہم فرمائش بھی کر بیٹھے کہ سردیوں کی ان چھٹیوں میں ہمیں بھی صحرائے تھر دکھا لائیے ۔ صاحب کا اپنا بھی کوئی آفیشل وزٹ بنتا تھا تو ہم بھی مع بال بچوں کے ان کے ساتھ ہو لیے ( ظاہر ہے بھئی ذاتی خرچے پہ!)
یہ نئے سال یعنی دو ہزار اکیس کی پہلی صبح تھی ، خوب صورت تھی یا نہیں یہ تو ہم نے دیکھا نہیں البتہ مصروفیت سے بھرپور ضرور تھی۔ تھر میں ان دنوں موسم سرد ہے اس لیے سب کے گرم کپڑے ساتھ رکھنے ضروری تھے ، خصوصاً اسمٰعیل کے کپڑے زیادہ رکھے گئے تھے کہ ضرورت پڑنے پہ پریشانی نہ ہو (لیکن اسی صبح اسریٰ غوری کی جانب سے موصول ہونے والی ارطرل کی پوشاک ہی اسمٰعیل میاں جوڑے کے اوپر زیب تین کیے رہے )۔
سواری کے طور پہ ایک کار بک کروائی گئی تھی جو ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ہم چھ افراد کو لے کر تھر کی جانب روانہ ہوئی ۔ بس کی علیحدہ علیحدہ نشستوں کے بجائے کار ہمارے پرزور اصرار پہ منتخب کی گئی تھی کیونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ یہ بچوں کے ساتھ اچھا اور یادگار وقت گزارنے کا بہترین موقع ہے۔ یوں گاڑی کی اگلی نشست پہ صاحب اور اسمعٰیل ڈرائیور کے ساتھ تشریف فرما ہو گئے جب کہ پچھلی تین نشستوں پہ ہم مع ایک صاحبزادی اور دو صاحبزادوں کے کسی نہ کسی طرح بیٹھ ہی گئے اور کراچی کی سڑکوں کے چند ہی جھٹکوں نے ہمیں اپنی اپنی جگہ پہ اچھے طریقے سے جما دیا ۔
کراچی سے تھر تک کا فاصلہ تقریباً 463 کلو میٹر ہے ، یعنی اگر آپ بذریعہ کار جائیں تو پانچ سے چھ گھنٹوں میں پہنچ جائیں گے۔ ہماری تجویز کارگر ثابت ہوئی اور ہم سب خوب مزے سے باتیں کرتے ،کھاتے پیتے راستہ طے کرتے رہے۔ البتہ تختہ ہوتی کمر کو سیدھا کرنے کی خواہش کو دل میں دباتے ہوئے ہم نے صاحبزادے دانیال کے کان میں سرگوشی کی ، ہمت ہے تمہارے بابا کی جو اتنا طویل سفر آئے دن کرتے ہیں! اسمٰعیل میاں ارطرل کی پوشاک میں ملبوس اپنے ابا کی گود میں کچھ انداز سے بیٹھے تھے جیسے گھوڑے کی سواری کر رہے ہوں ، نادیدہ لگامیں تھامے نادیدہ گھوڑے کو دوڑاتے دوڑاتے جب تھک گئے تو مزے سے ابا کے سینے میں سر چھپا کر سو گئے ۔
کراچی سے تھر تک راستہ صاف ستھرا تھا بہت عرصے بعد ایسا سفر نصیب ہوا جس میں اٹھا پٹخ نہیں تھی۔ طویل سیدھی سڑک پہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے گاڑیوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی ،مخالف سمت سے البتہ کچھ کچھ دیر بعد ایک نقطہ سا نمودار ہوتا اور آہستہ آہستہ ایک بڑے سے ٹرک میں تبدیل ہوجاتا ، کچھ دیر پہلے جو نقطہ نظر انداز کر دیا گیا تھا اب اعصاب پہ سوار ہوتا دکھائی دینے لگتا۔ اس منظر کو بار بار دیکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں جانے کیا کیا فلسفے جنم لینے لگے لیکن منطقی انجام تک نہ پہنچ پائے کیونکہ اس گاڑی میں ہمارے علاوہ ہم سے متعلق پانچ دیگر نفوس بھی ٹھنسے بیٹھے تھے ، ادھر ہم سنجیدگی کو خود پہ طاری کیے راز حیات کی کسی پرت سے پردہ اٹھانے کوتیار ہوتے ادھر کسی کا چٹکلہ گاڑی کو گل وگلزار کردیتا اور کچھ نہیں تو کھانے پینے کی اشیا کے پیکٹ کھلنے کی آوازیں ہی اپنی جانب متوجہ کر لیتیں۔تو قریب تھا کہ ہم صحرا کے سفر سے ایک عظیم فلسفی کے طور پہ واپس ہوتے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ مختلف گوٹھوں سے گزرتے ہوئے ہماری آنکھیں صحرا کے دیدار کو شدت سے بے تاب تھیں، دیکھ اے صحرائے تھر ، کیا کبھی ایسی بھی آنکھیں ہوں گی جو صحرا دیکھنے کو ترستی ہوں گی ؟بالآخر ارد گرد کا علاقہ اپنے صحرا ہونے کی گواہی دینے لگا ، لیکن رکیے ، ایسا نہیں تھا کہ ہر طرف صرف ریت ہو ، سڑک کے اطراف بے ترتیبی سے صحرا کے خاص پودے بڑی تعداد میں اپنی بہار دکھلا رہے تھے۔
یوں تو کافی دیر سے ارد گرد صحرا ہی صحرا تھا لیکن تقریباً پانچ بجے ہم صحرائے تھر میں باضابطہ داخل ہوئے ۔ تھر کی فضاؤں میں ہمارا استقبال سب سے پہلے مٹھی شہر میں چلتے ٹھنڈے خوشگوار ہوا کے جھونکوں نے کیا ۔
مٹھی ، ضلع تھرپارکر کا صدر مقام ہے ایک ایسا شہر جہاں ہندو اکثریت اور مسلمان اقلیت ہیں ، صحرا کے اس حصے کے ذرے ذرے میں جگمگاتی بھائی چارگی سورج کو بھی شرماتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہرکا نام ایک خاتون مائی مٹھاں کے نام پہ پڑا ہے جو لوگوں کو اپنے کنویں سے پانی پلانے کی وجہ سے مشہور تھی۔ ہمارے ارد گرد ایک چھوٹا سا بازار تھا، چہل پہل تھی ، زندگی تھی گاڑیاں اور موٹر سائیکل رکشے رواں دواں تھے ، ہم بغور ہر منظر کو اپنی آنکھوں میں جذب کرنے میں مصروف تھے کہ رنگ و روغن کی ایک دکان پہ لگے بورڈ نے بے ساختہ مسکرانے اور تصویر اتارنے پہ مجبور کر دیاجہاں لکھاتھا’’کرونا پینٹس‘‘۔تو کیا کرونا نے زندگیوں میں اس طرح جگہ بنا لی ہے ؟ ایک خیال ذہن میں کلبلایا جس سے فوری طور پہ پیچھا چھڑانا پڑا کیونکہ ہم بن قاسم گیسٹ ہاوس کے دروازے پہ پہنچ چکے تھے ۔
گاڑی سے اترتے ہی خنکی محسوس ہوئی لیکن اتنی ہی جتنی کراچی میں تھی ، کم از کم ہمیں تو ایسا ہی لگا ۔ گیسٹ ہاؤس میں کمرہ نمبر ایک کے صاف ستھرے ،نرم گرم بستر ہمارے منتظر تھے ۔ اور اس سے بھی بڑی نعمت گرما گرم مزے دار چائے۔ صاحب چائے کی پیالی ختم کرتے ہی اپنے کام پہ روانہ ہوئے اور جاتے جاتے یہ خبر دے گئے کہ رات کے کھانے پہ ایک دوست کے ہاں دعوت ہے ۔ کہہ کے تو ہمیں یہ گئے تھے کہ رات آٹھ بجے یہ لوگ کھانا کھا لیتے ہیں لیکن خود ایسے مصروف ہوئے کہ نو بجے کی خبر لی ۔ ہم سب ایک آرام دہ ، کشادہ گاڑی میں سوار ہوئے اور چند ہی منٹوں میں وہاں پہنچ گئے جہاں دو منزلہ مکان میں بسنے والے نفوس آدابِ میزبانی نبھانے میں اپنی مثال آپ تھے۔ زیریں منزل پہ مہمان خانے میں صاحب اور تینوں بیٹوں کو بھیج دیا گیا اور ہماری رہنمائی زینے کی جانب کی گئی ۔
سیڑھیاں چڑھتے ہی ایک ہنستی مسکراتی پُر اعتماد دوشیزہ نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا ، اس کے پیچھے مختلف عمر وں کی بچیاں بھی خوب کھل کے مسکرا رہی تھیں ۔ ہم ان کی معیت میں ایک کشادہ کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو دیواروں کے ساتھ زرد چادر والے پلنگ تھے اور تیسری دیوار پہ ایک لمبی میز تھی جو شاید خاص آج کھانا لگانے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ ہم نے اپنی میزبان سے تعارف لیا ، یہ سادہ سی تھری لڑکی سندھ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہی ہے ، ہم حیران کم ہوئے اور رعب میں زیادہ آگئے ، تم نے انگریزی ادب کا انتخاب کیوں کیا؟ ہم نے سوال کیا ، دراصل میری خواہش ڈاکٹر بننے کی تھی ، لیکن میرا داخلہ نہیں ہؤا تو میں نے سوچا کہ وقت ضائع نہ کروں اور فوراً سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی میں اس لیے لیا کہ میری انگریزی اچھی تھی ، اچھی انگریزی کی وجہ یہ تھی کہ یہاں تھر میں ہمارے کالج میں ہمارے انگریزی کے استاد بہت اچھے تھے اور ان سے پڑھنے کی وجہ سے ہمارے انگریزی اچھی ہو گئی تھی ۔ واقعی اچھے استاد کا ملنا زندگی کا رخ متعین کر دینے کے لیے کتنا اہم ہے، ہم نے سوچا اور اپنے کندھوں پہ ذمہ داری میں جیسے ایک دم اضافہ محسوس ہؤا۔
اس نے بتایا کہ اس کے خاندان کے کافی بچے حیدر آباد میں رہ کر مختلف اد اروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، اس مقصد کے لیے وہیں ایک مکان بھی کرائے پہ لے لیا گیا ہے جس میں اس کی ایک چاچی ان سب بچوں کے ساتھ وہیں حیدر آباد میں رہتی ہیں ۔ وہیں موجود اس کی چچا زاد اور پھوپھی زاد بہنیں بھی سب کی سب تعلیم حاصل کر رہی ہیں ۔ تھر کے کالج میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ نے بتایا کہ اسے ان شاء اللہ نسٹ میں داخلہ لینا ہے ۔ اب تو ہم حیران ہو ہو کے بھی تھک چکے تھے اس لیے باقاعدہ انٹرویو ہی شروع کر دیا۔ہمارے مختلف سوالوں کے جواب میں اس نے بتایا کہ اس کے خاندان کو گاؤں سے مٹھی منتقل ہوئے تقریباً اٹھارہ انیس سال ہوئے تھے لیکن خاندان کے افراد کی بڑی تعداد ابھی بھی گاؤں میں ہی مقیم ہے ۔ ان کے خاندان کے پڑھے لکھے لوگ باقاعدہ سرکاری طور پہ اپنے ہی گاؤں میں استاد بھی تعینات ہو گئے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں ۔
تمہارے خاندان میں کوئی تو ہو گا جس نے یہ بڑا قدم اٹھا کے بچوں کو تعلیم دلوائی ہو گی ؟ یہ سوال میرے ذہن میں مستقل گردش کر رہا تھا ۔
جی میرے دادا نے اپنے سب بیٹوں کو تعلیم دلوائی ، میرے سب چچا ، تایا نے حیدر آباد اور میر پور خاص جا کر بہت محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر ان لوگوں نے ہی بیٹیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، گاؤں والوں نے اعتراض بھی کیا لیکن ہمیں ہمارے گھر کے مردوں کا پورا تعاون حاصل ہے، بلکہ اب تو وہ لوگ ہماری لڑکیوں کو سرکاری نوکریوں پہ دیکھ کے کہتے بھی ہیں کہ کاش ہم نے بھی پڑھایا ہوتا بیٹیوں کو ۔ گاؤں میں تعلیم کا رجحان ابھی بھی اتنا نہیں ہے ، والدین کو تعلیم کی اہمیت سمجھانا بہت مشکل ہے ۔البتہ ہمارے خاندان کی جہاں رہائش ہے وہاں بچوں پہ اساتذہ مکمل نظر رکھتے ہیں اور باقاعدہ پڑھاتے ہیں ، ہم سب بھی جب گاؤں جائیں اسکول میں ضرور پڑھاتے ہیں کیونکہ ایک ایک اسکول میں ایک ہی ٹیچر سرکاری طور پہ تعینات ہے ۔
میں اسے بغور سنتی رہی اور ایک شعر میری زبان پہ آنے کو بے قرار ہؤا۔
اک ایسا وقت بھی صحرا میں آنے والا ہے
کہ راستا یہاں دریا بنانے والا ہے
گفتگو کے دوران وقتاً فوقتاً تین خواتین سے بھی ملاقات ہوئی جن میں سے ایک اس کی والدہ ، ایک بوا یعنی پھوپھی اور تیسری اس کی چچی تھیں ، تینوں ہی خواتین اردو بالکل نہیں بول پاتیں البتہ کچھ حد تک سمجھ ضرور لیتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ تعلیم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ بچیاں اپنے بڑوں کا کس قدر ادب کررہی تھیں ، کتنے احترام سے ہماری باتیں ان تک پہنچا رہی تھیں ، انہیں اپنے پڑھے لکھے ہونے کا زعم نہیں تھا ، علم نے ان کی اقدار کو چمکا دیا تھا گہنایا نہیں تھا، اور وہ پُر خلوص خواتین جن کے خلوص اور محبت کو ان کے چہرے اور آنکھیں اس طرح عیاں کر ہی تھیں کہ الفاظ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پلاؤ ، مرغی کا سالن ، مخصوص سوندھی مہک والی تلی ہوئی مچھلی اور سلاد کے ساتھ ساتھ وہاں میکرونی بھی موجود تھی ، ہمیں لگا تھا کہ یہ سب کچھ گھر کی بڑی خواتین نے بنایا ہو گا لیکن جان کر حیرت ہوئی کہ یہ سب ان لڑکیوں نے ہی پکایا تھا۔
تم لوگوں کی دعوتوں میں روایتی کھانے کیا ہوتے ہیں ؟ میں نے تلی ہوئی مچھلی اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے اس سے سوال کیا۔
بس یہی کچھ…. اورہاں اس کے علاوہ بگھار والی دال بھی ہوتی ہےلیکن زیادہ نہیں کھائی جاتی ۔
یہاں کے لوگ ٹی وی ڈرامے دیکھتے ہیں ؟ آجکل میڈیا مانیٹرنگ سے وابستہ سرگرمیوں کی وجہ سے یہ سوال بھی زبان پہ آ ہی گیا ۔
اس نے بتایا کہ بجلی کی سہولت آنے بعد بھی یہاں کی عورتوں کو ٹی وی اور ڈراموں میں خاص دلچسپی نہیں ہے ، انہیں اپنے روایتی کام جیسے سلائی کڑھائی اور رلی بنانے میں ہی مزہ آتا ہے ۔ البتہ جو لڑکیاں ٹی وی دیکھتی ہیں وہ ہندوستانی ڈرامے دیکھتی ہیں ۔ مجھے یاد آیا کہ گیسٹ ہاؤس میں بھی جب ہم نے ٹی وی کھولا تو سارے ہندوستانی چینل بالکل صاف آ رہے تھے ۔
ہندوؤں کے ساتھ رہنا سہنا تم لوگوں کو کیسا لگتا ہے؟ نکلتے نکلتے بھی ہم نے پوچھ ہی لیا ۔
آپ کو سچ بتاؤں ہمیں ان ہی کے ساتھ رہنے کی عادت ہے ، ہم ان کے ہی درمیان بڑے ہوئے ہیں بلکہ جب ہم یونیورسٹی میں گئے اور مسلمانوں کی اکثریت دیکھی تو کافی وقت تک عجیب لگتا رہا ۔
پھر کچھ سوال ہم نے تاریخی مقامات اورتاریخی کردار ماروی کے حوالے سے کیے،فون نمبر کا تبادلہ کیا اور اس پیاری سی نئی دوست سے اجازت چاہی ۔ دانیال کو لفظ دوستی پہ اعتراض ہوا، بھلا کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے میں دوستی کیسے کر سکتا ہے اماں ؟ اف یہ نئی نسل کا ’’پریکٹیکل ‘‘ ہونا ۔تم جو بھی کہو ہمیں تو وہ اپنی دوست ہی لگی ، ہم نے بھی اپنے بیان پر ڈٹے رہنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موضوعِ گفتگو بدل گیا۔
گاڑی میں بیٹھنے سے قبل یہی خیال تھا کہ اب گیسٹ ہاؤس جائیں گے ، لیکن صاحب نے خبر دی اب ہم گڈی بھٹ جا رہے ہیں ۔ یاد آیا کہ بچپن میں سندھی کی کتاب میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے سبق میں پڑھا تھا کہ بھٹ ٹیلے کو کہتے ہیں ۔ دراصل مٹھی شہر کے ارد گرد چھوٹے بڑے ٹیلے ہی ٹیلے ہیں جن میں سب سے اونچا ٹیلہ گڈی ہے جہاں سے سارے شہر کا نظارہ بےحد خوبصورت لگتا ہے ۔ یہاں ایک مینار بھی بنا دیا گیا ہے جس میں اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہیں ۔
دس بج گئے تھے ، راستے سنسان تھے ، تھر کے باسی سو رہے تھے اور ہمارے میزبان دوسری گاڑی میں ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس سناٹے میں امن و سکون تھا ، کوئی خوف تھا نہ ہی دہشت کی رمق ، ہم گاڑی سے براہِ راست ٹیلے پہ ہی اترے جسے چبوترے کی شکل دے دی گئی ہے۔ آسمان پہ خوبصورت چمکتا چاند مٹھی شہر کی سنہری بتیوں کو دیکھ دیکھ کر دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا۔ ٹھنڈ تھوڑی بڑھ گئی تھی لیکن اتنا سکون تھا کہ واپس آنے کو جی نہ چاہتا تھا ۔ واپسی میں ہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھ لینے کی سعی ناکام کرتے ہوئے گیسٹ ہاؤس لوٹ آئے ۔ ایک بھرپور دن کا خوشگوار اختتام ہو چکا تھا ۔ فون میں کچھ تصاویر ، فون بک میں ایک نئے رابطے اور ذہن کے دریچوں میں بہت سی خو بصو ر ت یادیں سما چکی تھیں ۔ اگلے دن کہیں جانا تھا یہ تو معلوم تھا لیکن کہاں ؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں تھا، صاحب جانتے ہیں کہ ہمیں اچانک ملنے والی خوشیاں اچھی لگتی ہیں ۔
اگلی صبح ٹھنڈ پہلےسےذرا بڑھ کےتھی،نماز کے بعد جاگنے کا مکمل ارادہ تھا جو گزشتہ دن کی تھکن کے باعث پورا نہ ہو سکا اور آنکھ اس وقت کھلی جب گیسٹ ہاؤس کے دروازے پہ گاڑی آنے ہی والی تھی۔ صبح کی خوب صورتی میں اضافہ اس وقت ہو گیا جب خوب صورت سفید چائے کی پیالیاں سلیقے سے ٹرے میں رکھ کر ہمارے کمرے کے دروازے پہ پہنچا دی گئیں ۔بچے بستر چھوڑنے کو تیار ہی نہ تھے اور صاحب پوری کوشش کر رہے تھے کہ ڈانٹ ڈپٹ کے بنا ہی سب کو جگا دیا جائے۔ہم اس لیے خاموش تھے کہ ناشتہ آنے والا تھا اور ہمیں پتہ تھا کہ جیسے ہی پراٹھوں کی خوشبو کمرے میں پھیلے گی چاروں اٹھ کے بیٹھ جائیں گے ۔ آملیٹ اور پراٹھوں کا ناشتہ کرنے کے بعد ایک مزید کپ چائے کا پیا اور باہر نکل آئے جہاں گاڑی مع ڈرائیور موجود تھی۔ یہ گاڑی کراچی والی گاڑی کے مقابلے میں ذرا کشادہ تھی ، ہماری اور فاطمہ کی توجہ گاڑی سے باہر کے نظاروں پہ تھی جب کہ دونوں لڑکے نیند پوری کرنے میں مصروف تھے ، اسمٰعیل میاں البتہ ہر شے کو ارطرل بے کی نظروں سے دیکھنے کی کوشش میں تھے ۔

(جاری ہے)

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x