ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بینگو میاں – نور اپریل ۲۰۲۱

بی گوبھی کے گھر کافی چہل پہل تھی کیوں کہ اُن کے دوست جاپان سے آ رہے تھے۔ بی گوبھی نے تمام سبزیوں کو اپنے گھر دعوت دے رکھی تھی تاکہ اُن کے نئے دوست کو خوش آمدید کہا جا سکے۔ تمام سبزیاں نہا دھو کر گوبھی بی کے گھر آ چکی تھیں اور ایک دوسرے کا حال چال پوچھ رہی تھیں۔
’’بھنڈی بی! کیا راز ہے تمھاری سمارٹ نیس کا؟‘‘
بینگن کے چھوٹے بیٹے بینگو میاں نے بھنڈی کو ایک کرسی پر براجمان جوس پیتے دیکھا تو اس کے قریب چلے آئے۔
’’اللہ کا شکر ہے کہ میں ہمیشہ سے ایسی ہی ہوں۔‘‘بھنڈی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر بھی۔‘‘بینگو میاں نےکریدا۔
’’بینگو میاں! میں گرمیوں کی پیداوار ہوں اس لیے روز نہانا میری عادت ہے، ہو سکتا ہے یہی میری صحت کا راز ہو۔‘‘
بھنڈی نے ایک ادا سے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس میز پر رکھا اور خوشی سے اپنی سبز ٹوپی سر پر جما ئی۔
’’یہ تو بالکل ٹھیک کہا آپ نے، نہانا واقعی صحت کےلیے بہت اچھا ہے۔‘‘بینگو میاں نے اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
’’بھئی! کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ مجھے بھی پتہ چلے۔‘‘ کدو میاں خراماں خراماں چلتے ہوئے اپنا چشمہ درست کرتے وہاں آ پہنچے۔
’’کچھ خاص نہیں۔‘‘بھنڈی بی نے دوبارہ اپنا گلاس اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کدو میاں! کیا ایسی کوئی دوا نہیں جس سے میں بھی خوب صورت اور سمارٹ ہو سکوں؟‘‘
بینگو میاں نے ایک کُرسی سنبھالی اور دوسری کرُسی کدو میاں کےلیے سیدھی کرتے ہوئے سوال کیا۔
’’دوا تو موجود ہوگی بینگو میاں! لیکن کیسے پتہ کیا جائے؟۔‘‘
کدو میاں نے چشمے کے اوپر سے دیکھتے ہوئے کہا تو بینگو میاں اداس ہو گئے۔
٭ ٭ ٭
تمام سبزیاں باتوں میں مصروف تھیں کہ ایک شور اٹھا۔ پتا چلا گوبھیبی کے نئے دوست جاپانی پھل تشریف لا چکے ہیں۔ سب سکون سے بیٹھ گئے اور توجہ سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں سر پر چھوٹی سی سبز ٹوپی جمائے سُرخ جاپانی پھل نظر آئے۔ اُن کے ساتھ ہی نہائے دھوئے ہوئے امرود میاںتھے جنھوں نے لال انگریزی ٹوپیپہنرکھی تھی۔
’’یہ جاپانی دوست تو ہماری شکل کے ہیں۔‘‘ٹماٹر میاں نے توجہ سےانھیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی بالکل! آپ جیسے ہی لگ رہے ہیں۔‘‘
سبز مرچ نے جلدی سے جواب دیا اور ایک دم تمام سبزیوں کے قہقے بلند ہوئے۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ ٹماٹر میاں توجہ سے جاپانی پھل کو دیکھتے ہوئے اپنی کُرسی سے پھسلے تو لُڑھک کر سیدھے امرود میاں کے قدموں میں جا گِرے تھے۔
’’کسی کی تکلیف پر ہنسنا نہیں چاہیے دوستو!۔‘‘امرود میاں نے جلدی سے ٹماٹر میاں کو اٹھنے میں مدددیتے ہوئے سب کو تنبیہہ کی۔
’’خوش آمدید پیارے دوستو!‘‘گوبھی بی نے دونوں نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا تو تمام سبزیوں نے بھی انھیں خوش آمدید کہا۔
’’یہ میرے دوست جاپانی پھل ہیں اور انھیں تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘گوبھی بی نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’جی! یہ امرود میاں ہیں۔‘‘ٹماٹر نے چہک کر بتایا۔
’’امرود میاں بھی جاپان گئے تھے اور وہاں سے ڈاکٹر بن کر آئے ہیں۔‘‘
گوبھی بی نے گویا بم پھوڑا تھا۔ سب متاثر ہو کر اُن کو دیکھنے لگے تو امرود میاں شرما کر مسکرا دیے۔
جاپانی پھل اور امرود میاں کو سجی ہوئی خاص کرسیاں پیش کی گئیں ۔ دونوں شان سے وہاں بیٹھ گئے۔ سب لوگ دعوت کے مزے اُڑا رہے تھے لیکن بینگو میاں کی نظر امرود میاں پر تھی۔
’’شاید میرا علاج امرود میاں کے پاس موجود ہو۔‘‘بینگو میاں سوچ میں گم امرود میاں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔
امرود میاں نے دیکھا کہ بینگو میاں اُن کو بہت دیر سے دیکھ رہے ہیں تواپنی کرسی چھوڑ کر اُن کے پاس آگئے۔
’’کیا بات ہے؟ آپ مجھ سے کچھ کہناچاہتے ہیں؟‘‘
امرود میاں نے سوال کیا تو بینگو میاں گڑبڑا گئے۔
’’ن….نہیں….وہ….‘‘وہ ہکلانے لگے۔
’’ارے بھائی! جو بھی بات ہے بےفکر ہو کر کیجیے۔‘‘
امرود میاں نے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔
‘‘اصل میں مجھے علاج کرانا تھا۔‘‘بینگو میاں نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔
’’علاج؟ کیسا علاج؟‘‘امرود میاں نے حیرت سے سوال کیا۔
’’میں چاہتا ہوں میں خوب صورت ہو جاؤں اور میرا موٹاپا بھی ختم ہو جائے۔‘‘بینگو میاں نےشرماتے ہوئے کہا۔
’’آپ اللہ پاک کی بہترین تخلیق ہیں ماشاءاللہ،کیوں خود کو بدلنا چاہتے ہیں؟‘‘
امرود میاں نے کھوجتی ہوئی نظروں سےانھیں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں، مجھے اپنا موٹاپا پسند نہیں ہے سب مجھ پر ہنستے ہیں۔‘‘
بینگو میاں نے جلدی سے جواب دیا۔
’’ہوووں…. قد لمبا ہو جائے گا اور موٹاپا بھی ختم ہوگا لیکن اس کا ایک سائیڈ ایفیکٹ بھی ہے یعنی نقصان…. ‘‘امرود میاں نےکہا۔
’’نقصان چھوڑو میاں! مجھے وہ دوا دے دو جس سے میں اپنے اِس موٹاپے سے نجات پا لوں۔‘‘بینگو میاں نےجلد بازی دکھائی۔
’’ہووووں…. ٹھیک ہے۔‘‘
امرود میاں نے اثبات میں سر ہلایا تو بینگو میاں خوش ہو گئے۔
٭ ٭ ٭
دعوت کے ایک ہفتے بعد بھنڈی بی نے تمام سبزیوں کا ہجوم دیکھا تو حیرت سےخود بھی اُس طرف چل دی۔
’’ماشاءاللہ! تمھارا موٹاپا کچھ ہی دن میں ختم ہو گیا۔‘‘
بی مولی کی آواز آئی تو بھنڈی نے دیکھا۔
’’ارےےے…. بینگو میاں! اتنے لمبے اور سمارٹ۔‘‘بھنڈی بی انھیں دیکھتے ہی خوشی سے چِلائی۔
’’جی بالکل بھنڈی بی! یہ سب امرود میاں کا کمال ہے۔‘‘
بینگو نے خوش ہوتے ہوئے بتایا تو سب امرود میاں کی تعریف کرنے لگے۔
٭ ٭ ٭
’’غضب ہو گیا۔۔۔ ہئےےےے لوگو! غضب ہو گیا۔‘‘
کچھ دن ہی گزرے تھے کہ بینگو میاں کی آہ و فغاں سنائی دی۔
’’کیا ہوگیا ہے؟ کیوں شور کر رہے ہو؟‘‘گاجر بی جو اپنے گھر میں آرام کر رہی تھی بینگن میاں کی آواز سن کر دوڑی ہوئی وہاں آئی۔ شور سن کر باقی سب بھی وہاں آ گئے۔
’’ہوا کیا ہے؟ جلدی بتاؤ، پریشانی سے میرا دل ڈوبنے لگا ہے۔‘‘بی مولی نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’ہوا یہ ہے کہ میرا ذائقہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘بینگو میاں نے روہانسی آواز میں کہا۔
’’یہ اُس دوا کی وجہ سے ہوا ہوگا جس سے آپ لمبے ہوئے۔‘‘بھنڈی بی نے یاد دلایا۔
’’اب واویلا کرنے کا کیا فائدہ؟ آپ کاقدرتی رنگ و روپ بھی تواب وہ نہیں رہا بینگو میاں!‘‘ٹماٹر میاں نےچوٹ کی۔
’’اپنے حال پر ناشکری کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔‘‘گاجر بی نے بھی زخموں پر نمک چھڑکا۔
’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں جس طرح بنایا ہے، ہمیں اس پر شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ پچھتانے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔‘‘کدو میاں نے سمجھداری کی بات کہی۔
تمام سبزیوں نے اثبات میں سر ہلایا اور ہر حال میں خوش رہنے کا پختہ عہد کیا۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x