ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بھن بھن مکھی – نور اپریل ۲۰۲۱

وہ ایک خوبصورت باغ تھا ۔ جہاں طرح طرح کے پھول کھلتے تھے ۔ جن میں بھینی بھینی خوشبو تھی ۔ اس باغ میں ایک بڑا سا نیم کا گھنا درخت تھا ۔ اس درخت کی ایک شاخ پر شہد کا بڑا سا چھتا تھا جس میںڈھیروں مکھیاں صبح سے شام تک شہد جمع کرتی تھیں ۔ رانی مکھی چھتے میں بیٹھی حکم چلاتی تھی یوں تو ساری مکھیاں مل جل کر رہتی تھیں ۔ لیکن وہ دو مکھیاں جو ٹینی اور مینی کہلاتی تھیں۔آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں ۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا ۔ بھن بھن بھن کرتی ٹینی کو بھوک لگی تھی وہ بہت دیر سے کسی رس دار پھول کی تلاش میں تھی ۔ آخر اسے ایک بڑا سا سرخ گلاب دکھائی دیا ۔ وہ خوش ہو گئی ۔
’’ اس گلاب کا رس پیتے ہی میرا پیٹ بھر جائے گا اور اس کارس رانی مکھی کو بھی پسند آئے گا۔‘‘اس نے پھول کے ارد گرد بھن بھن کر کے ایک دو چکر لگاتے ہوئے سوچا اور پھر اپنے پائوں پیچھے کر کے پر سمیٹے ۔ لو پھول پر پہلے سے بیٹھی مینی کی چیخ نکل گئی ۔’’ ہائے میں مر گئی ، موٹی ٹینی ! اندھی ہو گئی ہو کچھ نظر نہیں آتا ۔ مجھ پر بیٹھ گئی ہو ۔‘‘مینی نے ایک لات ٹینی کو ماری ۔ ٹینی نے بھی غصے میں مینی کا منہ نوچا ۔
’’ ہٹو پیچھے بس پی چکی رس ۔ مجھے بھی پیٹ بھرنے دو ۔‘‘
’’ کیا بد تمیزی ہے میں پہلے آئی تھی ‘‘۔ مینی بولی ۔
’’ کب تک بیٹھو گی ۔ کیا سارا پھول کھا جائو گی ۔‘‘ بس ٹینی کا یہ کہنا تھا کہ مینی کو تائو آیا اس نے پر پھیلائے اور غصے میں بھن بھن بھن کر کے اڑنے لگی ۔ ٹینی نے شکر ادا کیا ۔’’چلو جان چھوٹی وہ جیسے ہی پھول کا رس چوسنے لگی ، مینی نے اسے زور سے دھکا دیا ۔ ٹینی بد حواس ہو کر زمین پر گری۔ اچانک حملے نے اسے پریشان کر دیا ۔ پھر اس نے بھی پر پھیلائے اور بھن بھن بھن کر کے اوڑتے ہوئے ٹینی سے لڑنے لگی دوسری مکھیوںنے جو یہ دیکھا تو رانی مکھی کو جا کر بتایا کہ ٹینی مینی ایک بار پھر گتھم گتھا ہیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا کوئی نقصان کریں ، رانی مکھی ان کی صلاح کروا دیں ۔‘‘
رانی مکھی اپنی فوج کے ساتھ جب باغ میں پہنچی تو ٹینی کا ڈنگ اور مینی کا پنکھ ٹوٹ چکا تھا اور دونوں زخمی حالت میں پڑی بلک بلک کر رو رہی تھیں ۔ رانی مکھی کو ان کی حالت دیکھ بہت افسوس ہوا ۔ اس نے ان دونوں کو یہ کہہ کر اپنی فوج سے بے دخل کر دیا کہ
’’ یہ دونوں بہت لڑتی ہیں معذور ہو چکی ہیں اب ہمارے کسی کام کی نہیں ۔ لہٰذا ہمارے ساتھ نہیںرہیں گی۔‘‘ وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیںرانی مکھی سے معافی مانگنے لگیںلیکن رانی مکھی پر پھیلا کر جا چکی تھی رات ہونے والی تھی دونوں کو بھوک لگ رہی تھی ۔ آخر کب تک پڑی رہتیں ٹینی نے اڑنے کے لیے جیسے ہی پنکھ پھیلائے ، اس کا ایک پر پھیلا ، دوسرا پنکھ تو ٹوٹ چکا تھا۔ وہ اڑنہ سکی ۔ اُدھر مینی اڑ کر پھول پر تو جا بیٹھی مگر جب اس نے اس کارس چوسنا چہا تو ایک انیٹنا کی کمی محسوس ہوئی۔
’’ اف میں کیسے رس چوسوں گی ؟‘‘ دونوں سوچ میں پڑ گئیں پھر ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ٹینی کو مینی اڑنے میں مدد دیتی تھی اور مینی کو ٹینی پھولوں کارس اپنے انٹنے سے پلاتی تھی اس طرح دونوں کاپیٹ بھر جاتا تھا دونوں کو ساتھ ساتھ اڑتا دیکھ کر اس اور مکھیاں ڈر جاتی تھیں۔
’’ نہ جانے باغ میں کیا موٹی چیز ہے جو اڑتی پھرتی ہے ؟‘‘ مکھیوں نے کہنا شروع کردیا ۔
’’ یہ ہماری جیسی مکھی نہیں کوئی اور مخلوق ہے ہم رانی مکھی کو بتاتے ہیں ۔‘‘ رانی مکھی اپنی فوج کے ہمراہ آئی اس وقت ٹینی اور مینی دونوں مکھیاں ایک پتھر پر بیٹھی تھیں ۔
’’ ارے ! ٹینی اور مینی ؟‘‘ سب مکھیاں حیران تھیں ۔
’’ ٹینی اور مینی اس طرح ایک ساتھ رہتی ہو ۔‘‘ رانی مکھی کو بھی حیرت ہوئی ۔
’’ ہاں رانی مکھی ہمیں اب سبق مل گیا ہے مل جل کر رہنے میں ہی بھلائی ہے ۔ لڑنے جھگڑنے کا انجام برا ہوتا ہے ۔ ‘‘ رانی مکھی خوش ہو گئی مکھیوں نے ان کی دوستی پر تالیاں بجائیں ۔ کچھ ہی دن بعد ٹینی کا نیا پر اور مینی کا ڈنگ نکل آیا دونوں مکھیاں اب پکی سہیلیاں بن گئی ہیں ۔٭

٭…٭…

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x