ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

چک چکیسر – نور اپریل ۲۰۲۱

پیارے بچو! بہت عرصہ گزرا ایک گائوں میں تین چوہیاں رہتی تھیں ۔ ایک کا نام ’’ چک چکیسر‘‘ دوسری کا ’’ راہ رہیسر‘‘ اور تیری کا’’ دھان دھنیسر‘‘تھا۔ وہ تینوں آپس میں سگی بہنیں تھیں ۔ ان کی آپس میں بہت محبت تھی ۔ چک چکیسر چوہیاں کسان کے گھر میں اُن کی ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی میں رہتی تھی ۔ راہ رہیسر کا گھر سڑک کنارے پڑے ہوئے سوکھے کپاس کے پودوں میںاور دھان دھنیسر کسان کے دھان ( چاول) کے کھیتوںمیں مزے سے رہتی تھی ۔ ہر روز صبح سویرے کسان اپنے گھر سے کھیتوں میں چلا جاتا۔ اُس کی بیوی بچے گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتے۔ چک چیکسر مزے سے چکی میں سے آٹا ، دانہ اور دالیں کھاتی رہتی ۔ کسان کی بیوی جوچیز بھی پیستی ،چوہیا اس میں سے کچھ حصہ کھا لیتی ۔ راہ رہیسر کے لیے تو باہر بہت کچھ کھانے کو تھا ۔ دھان دھنیسر کھیتوں سے کچے چاول کھاتی رہتی ۔ یوں وہ تینوں بہنیں مزہ سے زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ بچو! کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن کسان صبح سویرے منہ اندھیرے اپنی بیل گاڑی جوڑ کر گھر سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ سڑک ک درمیان ایک چوہیا مری پڑی ہے۔ وہ جب اپنے کھیتوں میں پہنچا تو اس کا بیٹا پہلے ہی وہاں موجود تھا پوچھنے لگا۔
’’ ابا ! آج تمھیں آنے میں دیر کیوں ہو گئی ؟‘‘ کسان نے کہا ’’ بیٹا ! جب میں گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ راستے میں ایک چوہیا مری پڑی ہے ۔ میں اس کو دیکھنے لگ گیا اس لیے مجھے دیر ہو گئی ۔‘‘
کسان نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی ،دھان دھنیسر روتی پیٹتی ، چیختی چلاتی دھان کے کھیت میں سے نکلی اور اونچی اونچی آواز میں کسان سے کہنے لگی :
’’وے پائی دھان وڈیندیا( اے بھائی چاول کاٹنے والے)سجے مُٹھ رکھیندیا( بہت نرمی سے مٹھی میں پودے پکڑنے والے آکھیں چک چکیسر نوں ( چکی میں رہنے والی کو بتا دینا) ۔ دھان دھنیسر آندی اے راہ رہیسر موئی پئی( راہ میں رہنے والی مر گئی ہے ) ‘‘
کسان اور بیٹا خوفزدہ ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگ گئے۔ ان کو کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا اور آواز مسلسل آ رہی تھی ۔ وہ سمجھے کوئی بلا آگئی ہے ہمیں یہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچانی چاہیے۔ انھوں نے اپنی درانتیاں اور بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور گائوں کی طرف دوڑ لگادی ۔ آواز ابھی تک ان کا پیچھا کر رہی تھی ۔
وہ ہانپتے کانپتے اپنے گھر پہنچے ۔ کسان کی بیوی نے ان کواس حال میں دیکھا تو بہت پریشان ہو گئی اور بولی:
’’ تمہیں کیا ہوگیا ؟ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو ؟ بیل گاڑی کوکہاں چھوڑ آئے ۔ جانوروں کے لیے چارہ بھی نہیں لائے ۔‘‘
’’ بتاتا ہوں ۔ بتاتا ہوں ‘‘ کسان نے کانتپے ہوئے کہا ’’ میں جب چارہ کاٹنے لگا تو بیٹے نے میرے سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی ۔ میںنے اسے بتایا کہ ہمارے گھر کے باہر سڑک کے درمیان ایک چوہیا مری ہوئی پڑ ہے ‘‘ جیسے ہی میں نے اپنی بات مکمل کی، کوئی بلا کھیتوں میں بولنے لگ گئی ۔‘‘
’’ ہیں ! اچھا کیا کہہ رہی تھی وہ ؟‘‘ کسان کی بیوی نے پوچھا ۔ کسان کہنے لگا ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔وے پائی دھان وڈ یندیا ، سجے مٹھ رکھیندیاآکھیں چک چکیسر نوں دھان دھنیسر آندی اے راہ رہیسرموئی پئی۔‘‘
کسان کی بیوی کی سمجھ میں تو بات نہ آئی البتہ تمام گھر والوں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ ایک بلا چکی کے ’’ منڈ (پاٹ) میں سے نکلی جو سر سے پیر تک آٹے سے بھری ہوئی تھی۔ وہ اپنے سر پر دوہتڑیں (تھپڑ) مارتی اور روتی ہوئی کسان کی طرف بھاگی آ رہی تھی اور اونچی اونچی آواز میں بول رہی تھی۔
’’ وے پائی! اج موئی کہ کل ۔ وے پائی! اج موئی کہ کل ( اے بھائی !وہ آج مری یا کل )‘‘
کسان اور اس کی بیوی نے جب چک چکیسر کودیکھا تو وہ سمجھے کہ کوئی بلا ہے جو ہمارے گھر میں آگئی ہے ۔ وہ سب اتنے خوفزدہ ہوئے کہ اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اتنے میں دھان دھنیسر بھی چک چیکسر کے پاس آگئی۔ دونوں بہنیں راہ رہیسر کے غم میں گلے لگ کر خوب روئیں پھردونوں کسان کے گھرمیں مزہ سے رہنے لگ گئیں۔٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x