ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نعت/ غزل/ جھیل کنارے – بتول نومبر۲۰۲۰

نعت

جہانِ رنگ و نظر میں چاہے نہ پوری ہو اپنی کوئی خواہش
مگر یہ اک آرزو کہ جس کو بنا لیا حرزِ جاں محمدؐ

میں تکتے تکتے تمہارے در کو کچھ ایسے سوؤں کہ پھر نہ جاگوں
نصیب ہو جائے چشم تر کو کبھی جو وہ آستاں، محمدؐ

چراغِ دل بجھ گیا ہے شاہا بڑے اندھیرے میں گھِر گئے ہیں
بچاؤ گے کیا نہ ظلمتوں سے ہمیں نہ دو گے اماں محمدؐ

یہ بے سوادی یہ کم نگاہی بھلا انہیں کوئی کیا بتائے
بنے ہوئے ہیں چمن کے قیدی تھے جن کے دونوں جہاں ،محمدؐ

تری دہائی ہے تاج والے پکار اس بد نصیب دل کو
یہ کشتہِ بختِ نارسا اب چلا ہے سوئے بتاں محمدؐ

وہی جو سرشارِ بے خودی تھے وہی جو آزادِ رنگ وبو تھے
ستم ظریفی کہ ہائے قسمت ہیں وقفِ کوئے بتاں محمدؐ

تمہاری رحمت کا اک سہارا ہے آہ درماندہ راہرو کو
کوئی ابھی تک پکارتا ہے تمہیں پسِ کارواں محمدؐ

(بنت مجتبیٰ میناؔ)

غزل

جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب
عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب

مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں
دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب

جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر
آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب

تختۂ دار تو منظور تھا، منظور نہ تھا
جو کہا جائے کہوں اپنی زباں سے وہی سب

اس نے جو کچھ بھی کہا مجھ کو لگا یوں ہی، مگر
ڈر رہا ہوں وہ کہیں دل سے نہ کہہ دے وہی سب

ہائے الفاظ کے تیروں سے لگائے گئے زخم
کاش واپس اْنھیں لیکر اِنھیں بھردے وہی سب

شہر کے پیار میں وہ گاؤں سی سچائی کہاں
ورنہ بستے ہیں وہاں بھی مرے تجھ سے وہی سب

لادو بچپن کے وہی کھیل کھلونے مجھے تم
گلی ڈنڈا، کوئی لٹو، مرے کنچے، وہی سب

جو کیا کرتا ہوں میں چھوٹے بڑوں سے حبیبؔ آج
کیا نہ دہرائیں گے کل، سب مرے بچے، وہی سب

(حبیب الرحمن)

غزل

ہوکے واضح جو مختصر ہوگی
گفتگو وہ ہی پُر اثر ہوگی

چشم نم مسکرائے گی اتنا
دل کو تکلیف جس قدر ہوگی

ملے مرہم تو زخم دل بھر لوں
ورنہ یہ ٹیس عمر بھر ہوگی

ہم نے گھبرا کے منہ جو موڑ لیا
زندگی تو بھی دربدر ہوگی

بزم میں میرے لوٹ آنے کی
کوئی تو آنکھ منتظر ہو گی

حدِّ فاصل تو کھینچ دوں لیکن
دل کدھر ہوگا جاں کدھر ہو گی

اپنا کیا کیا نہ لٹ چکا ہوگا
ہم کو خود اپنی جب خبر ہوگی

خواہشِ گفتگو نہ ہوگی جب
تب کہیں بات معتبر ہوگی

ہم کو جنگل کی راہ جانے دو
تم جو آؤ گے رہگزر ہو گی

رات مجھ میں سما چکی ہوگی
شامِ زنداں کی جب سحر ہوگی

(نجمہ یاسمین یوسف)

جھیل کنارے

جھیل کنارےپھیلی خوشبو،کالے بادل ،تیز ہوا
رم جھم رم جھم چاہت اس کی ہنستے ہنستے بھیگی میں

جگ مگ جگ مگ روشن روشن اجلا چہرہ سندر سا
دھنک کے سارے رنگ چرا کر اس کے دل پہ اتری میں

اک دوجے کے پیار میں بھیگے موجِ صبا پہ اڑتے ہم
پھولوں پہ شبنم ہو جیسے، پھول تھا وہ اور میں شبنم

اِک دن بولا! دیکھ چکوری چاند کو کیسے تکتی ہے
پیار سے اس ماہتاب کو چھو کر بولی !جیسے تکتی میں

وہ بھی مجھ کو دیکھ کے جیتا، میں اس کی دیوانی تھی
بن کے پھول مہک اٹھتا وہ ، تتلی جیسی اڑتی میں

بولا! عشق میں پاگل دیکھو آج بھی کچھ مستانے ہیں
میں نے پوچھا کوئی حوالہ؟ہنس کے بولا تو اور میں

طوطا مَینا کی جوڑی تھی اور میں کیا تمثیلیں دوں
کیسے اجڑا گلشن میرا، کیسی میں تاویلیں دوں

اک دن موجِ رنگ میں لپٹی بلبل اتری آنگن میں
گیت سریلے رنگ رسیلےبھرے تھے اس کے دامن میں

ڈالی ڈالی جھومنے والا وعدے سارے بھول گیا
اور پھر ٹوٹ کے بکھری ایسے، کانچ کی جیسے گڑیا میں

(رقیہ اکب)

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x