ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

منی کی مانو – نور مارچ ۲۰۲۱

بادل زور سے گرج رہے تھے۔ آسمان پر جب بجلی کڑکتی ننھی مانو کا دل سہم جاتا۔
’’اللہ جی! بارش نہ ہو۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ دل ہی دل میں خوب دعائیں مانگ رہی تھی۔
لیکن تھوڑی دیر بعد گھن گرج کے ساتھ طوفانی بارش شروع ہو گئی تھی۔
’’اللہ جی! بارش میں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، میری امی کو جلدی سے گھر بھیج دیں۔ میری امی واپس آ جائیں۔” وہ اب اپنی سبز آنکھیں موندے دعائیں مانگ رہی تھی۔
لیکن پوری رات گزر گئی اور مانو کی امی ’’منی بلی‘‘ گھر نہ آ سکی۔
وہ روتے روتے بھوکی سو گئی۔ اللہ سے اتنی دعائیں مانگی تھیں ایک بھی قبول نہیں ہوئی تھی۔ اس کا دل سخت خفا ہو گیا۔

٭ ٭ ٭

پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی وادی کے دائیں جانب ایک گھنے اور خوب صورت جنگل میں مانو کا چھوٹا سا گھر تھا۔ جہاں وہ اپنی امی کے ساتھ رہتی تھی۔ مانو کی امی کا رنگ برف کی طرح سفید اور جلد روئی کی طرح بےنرم تھی۔ جنگل میں اس کی امی کو سب ’’منی‘‘ کہتے تھے۔ مانو بھی اپنی امی کی طرح سفید رنگ کی معصوم سی بلی تھی۔ جسےسب پیارسےمانوکہتےتھے۔
منی روز صبح سویرے گھر سے نکلتی اور خوب محنت کر کے خوراک جمع کرتی اور مغرب سے پہلے گھر پہنچ جاتی۔آج خراب موسم کے باعث وہ گھر نہیں آئی تھی اور مانو گھر میں اکیلی ڈر رہی تھی۔

٭ ٭ ٭

صبح مرغ نے بانگ دی ککڑوں ککڑوں کوں……مانونے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔ باہر بارش رک چکی تھی اور سورج بھی نکل آیا تھا۔ لیکن ماں کی یاد آتے ہی مانو اداس ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔صبح کا وقت تھا اس لیے جنگل میں خوب رونق کا سماں تھا۔ کوئل اور بلبل اللہ کی قدرت کے نغمے گا رہی تھیں، طوطے اور مینا بھی بی فاختہ کے ساتھ مل کر اللہ کو یاد کر رہے تھے۔ ہر طرف سے’’اللہ‘‘ کی حمد و ثناء کی آوازیں مانو کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ لیکن وہ تو اللہ میاں سے سخت خفا تھی۔ رات کواس نےبہت سی دعائیں مانگی تھیں مگرایک بھی دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔

٭ ٭ ٭

’’امی! آپ کو پتا ہے میں نے رات اللہ سے اتنی دعائیں مانگی لیکن ایک بھی قبول نہیں ہوئی۔‘‘ منی کے گھر لوٹتے ہی مانو نےاس کے ساتھ چپکتے ہوئےگلہ کیا۔
’’اچھا تو ہماری مانو نے کیا کیا دعائیں مانگی تھیں؟‘‘ منی نے پیار سے پوچھا۔
’’میں نے اللہ سے دعا مانگی بارش نہ ہو، لیکن ہو گئی۔‘‘ وہ ایک ایک کر کے بتانے لگی۔
’’میں نے اللہ سے دعا مانگی مجھے کھانا مل جائے لیکن نہیں ملا۔‘‘ اب اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
’’اور؟‘‘ منی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’اور میں نے دعا مانگی کہ آپ جلدی گھر آ جائیں لیکن، میں پوری رات اکیلی سوئی۔‘‘مانو رو پڑی۔
’’آپ تو کہتی ہیں اللہ تعالیٰ کوئی دعا رد نہیں کرتے پھر میری ایک بھی دعا قبول کیوں نہیں ہوئی؟‘‘ اس نےبھولپن سےپوچھا۔
’’ہممم…. میری پیاری مانو! تم نےاتنی دعائیں مانگیں لیکن ذرا سوچو کیا دعائیں مانگنے سے پہلے تم نے اللہ کو ناراض تو نہیں کر دیا تھا؟‘‘ منی نے اس کا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
اور اب مانو کو یاد آیا کہ اس نے کل خرگوش کے ساتھ مل کرچوہوں کوتنگ کیا تھا، مرغی کے انڈے توڑےتھے، چوزوں کی دوڑیں لگوائی تھیں اور اپنی پڑوسن ببلی بلی کے گھر سے دودھ اور پنیر چوری کیا تھا۔
’’اللہ سے دعا مانگنے سے پہلے سچے دل سے اپنے گناہوں پر توبہ کرنی چاہیے۔ جب ہم توبہ کرکے اللہ سے دعا مانگتے ہیں تو وہ جلد قبول ہوجاتی ہے۔‘‘ منی نے اپنے تھیلے سے پنیر نکالتے ہوئے کہا۔
اپنی ڈھیر ساری غلطیاں یاد آنے پر مانونےچہرہ شرمندگی سے جھکالیا۔

روبینہ عبد القدیر

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x