ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بنٹی کا پرچم – نور مارچ ۲۰۲۱

’’ بنٹی بیٹا کہاں چھپ گئے؟‘‘ بنٹی کی امی نے تولیہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا ۔
’’ میں یہاں ہوں امی جان ‘‘ پردے کے پیچھے سے بنٹی نے جھانکا امی نے فوراً سر پر تولیہ ڈالتے ہوئے کہا پکڑ لیا ۔ پکڑ لیا اور دونوں ہنس پڑے۔ بنٹی ایک ننھا منا پیارا سا بچہ تھا ۔ جس کو گھر کے سب ہی لوگ پیار کرتے تھے ۔ اسے رنگ برنگی بنٹیاں کھانے کا بہت شوق تھا ۔ وہ چھوٹی بڑی ، گول اور چپٹی، ہری ،لال، نیلی ، پیلی ، گلابی بنٹیاں ہر وقت اپنی جیب میں ڈالے رکھتا تھا ۔ جب دل چاہتا نکالتا اور کھا لیتا ۔ اس لیے اُسے پیار سے سب ’’بنٹی ‘‘ کہتے تھے ۔ بنٹی ابھی دو سال کا تھا ۔ حرف سیکھ رہا تھا ۔ اسے گھر کی چھوٹی بڑی چیزوں کے نام آتے جا رہے تھے جیسے ٹی وی ، کرسی، میز ، الماری وغیرہ وغیرہ جب ہی اس کی امی جان ایک دن اس کے لیے اردو کا قاعدہ لے آئیں ۔ جس پر حرف کے ساتھ رنگین تصویریں بنی تھیں ۔ الف ، ب ،پ کی پہچان کرواتے ہوئے ’’ پ‘‘ پر پہنچیں تو انھوں نے پ سے پرچم یاد کروایا اور اسے اچھی طرح یاد کرنے کے لیے بازار سے ایک پرچم بھی دلوا دیا ۔ بنٹی کو پرچم بہت اچھا لگا ۔ ہر وقت اسے سینے سے لگائے رکھتا تھا ۔ اس پر بنا چاند تارا اسے بڑا پیارا لگتا تھا ۔ بنٹی تھوڑا بڑا ہوا تو اسکول جانے لگا ۔گرمیوں کی چھٹیوں میں چاچو شہر سے آئے تھے ۔ وہ ایک فوجی تھے اس کے لیے شہر سے فوجی کھلونے لاتے تھے ۔ جیسے ہوائی جہاز، ہیلی کوپٹر ، بندوق، ٹینکس، توپ ، بحری جہاز وغیرہ وغیرہ ۔ وہ اپنے چاچو کی باتیں بہت غور سے سنتا تھا ۔ چاچو اسے وطن کے نغمے یاد کرواتے تھے ۔
اسکول آتے ہی کپڑے بدلتے ہوئے وہ اپنی امی جان کو اسکول کی ہر بات بتاتا تھا ۔ وہ کھانا کھا کر سو جاتا شام کو مولوی صاحب آتے تو قرآن پڑھتا ۔ پھر ہوم ورک کرنے بیٹھ جاتا ۔
شام کو اپنی ننھی منی چھوٹی سی بہن کے ساتھ کھیلتا۔ امی جان اس کی دو چوٹی باندھتی تھیں ۔ وہ بنٹی کو پوری ’’ مانو‘‘ بلی لگتی تھی۔ اس لیے اسے ’’ مانو‘‘ ہی کہتا تھا ۔ بنٹی اب چھٹی کلاس کا طالب علم تھا ۔ اس کا اسکول گھر سے دور شہر میں تھا ۔ اس لیے اسے ریل میں بیٹھ کر اسکول جانا ہوتا تھا ۔ چاچو نے اسے اس اسکول میں داخلہ کروایا تھا ۔انھوں نے بنٹی کے ابا سے کہا تھا ۔
’’ بھائی یہ اکیڈمی بہت اچھی ہے ۔ فوجی چھائونی میں ہمارا بنٹی یہاں سے ایک بہادر اور ذمہ دار انسان بن کر نکلے گا ۔‘‘کبھی دادا جان اور کبھی ابو جی اس کو ٹرین میں بٹھا دیتے ادھر ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی دینورکشے والا اسے چھائونی لے جاتا ۔ جہاں اس کا پیارا اسکول تھا۔ اس روز اس کے اسکول میں یوم دفاع بڑے جوش و خروش سے منایا گیا تھا ۔ اس نے تقریر بھی کی تھی ٹیبلو میں فوجی بھی بنا تھا ۔ پرچم اس کے ہاتھ میںتھا اس کی ریل نکل چکی تھی ۔ وہ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا مسافروں کو آتا جاتا دیکھ رہا تھا ۔ یوم دفاع کی چھٹی ہونے کی وجہ سے اسٹیشن پر رش تھا ۔ لوگ اپنے پیاروں سے ملنے آجا رہے تھے اسی دوران اسے ایک مشکوک سا شخص دکھائی دیا ۔ جو آہستہ آہستہ ادھر سے اُدھر جا رہا تھا ۔ وہ ہر چیز کا جائزہ لے رہا تھا ۔ اس کی پیٹھ پر بیگ رکھا تھا۔ ایک ریل آکر رکی۔ اس میں لوگوں کا بہت ہجوم تھا ۔ اس شخص نے غور سے ریل کی طرف دیکھا ۔ بنٹی کو اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگے اس نے ہاتھ میں پکڑے پرچم سے اس سپاہی کو اشارہ کیا جو اس فوجی بچے کو دیکھ کر پیار سے مسکرا رہا تھا ۔ سپاہی اشارہ سمجھ کر لپکا اور اس شخص کو بیگ سمیت گرفتار کرلیا ۔ اتنے میں بنٹی کے چاچو اسے لینے پہنچ چکے تھے ۔ پولیس کے سپاہی بنٹی کو شاباش دے رہے تھے جس کی ہوشیاری نے ایک دہشت گرد کو گرفتار کروا دیا ۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو بہت نقصان ہوتا۔کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع جاتیں ۔ چاچو نے یہ خبر گھر والوں کو سنائی تو سب بہت خوش ہوئے ۔ بنٹی کو پرچم اب اور بھی پیار ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر الماس روحی

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x