ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول دسمبر ۲۰۲۱

قارئین کرام!
کورونا سے متأثر ایک اور سال ختم ہورہا ہے، اس حال میں کہ اس وائرس کی نئی قسم آنے کا خوف پھر سر پہ مسلط ہے۔ ساتھ ہی ڈینگی بخار نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اپنی مخلوق کو ان آزمائشوں سے نکالے، ان کے صلے میں ہمارے گناہوں کو دھو دے اور ہمیں راہِ ہدایت پہ گامزن کرے آمین۔
تو اگر چاہے تو ذرے کو بھی صحرا کردے
اور اک قطرہِ ادنیٰ کو بھی دریا کردے
اک اشارہ ہو تو ہو جائے عدم ہر موجود
کن اگر کہہ دے تو کونین کو پیدا کردے
تحریک انصاف اپنی حکومت کی دو تہائی مدت پوری کرچکی ہے۔ابھی تک تبدیلی کے ایجنڈے کا کوئی مثبت اثر عوام تک نہیں پہنچا۔ مہنگائی کا طوفان البتہ ضرور آگیا ہے جس نے زندگی مزید مشکل کردی ہے۔اگرچہ کورونا سے نبٹنے اور ویکسین کی مفت فراہمی کے اعلیٰ انتظامات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ معیشت کو سنبھلنے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کے لیے جن اقدامات کا تذکرہ اپنے سیاسی ایجنڈوں میں کیا جاتا تھا، ان میں سے کوئی بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا، بلکہ بالکل ان کے الٹ پالیسی نظر آرہی ہے۔ سٹیٹ بنک اور آئی ایم ایف کے معاملات تشویش پیدا کررہے ہیں۔سرکاری محکموں میں کرپشن کا راج اسی طرح ہے۔ انصاف کا حصول اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔چلیے معیشت، اگرچہ سب سے بڑا مسئلہ سہی، مگر ایک مسئلہ ہی ہے۔ڈالر کو مصنوعی قدر سے نکالنا، بین الاقوامی طور پہ کورونا کے اثرات اور تیل کی گرانی نے بھی بہت اثر ڈالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن معاملات کا معیشت سے براہ راست تعلق نہیں ہے ان میں بہتری لانے کے لیے کس بات کا انتظار ہے؟سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر کیوں نہیں کی جاتی؟ قابل اور ایماندار افسر کیوں نہیں ڈھونڈے جاتے؟ عوام کے روزمرہ مسائل حل کرنے کے لیے فوری انصاف کی عدالتیں کیوں نہیں لگائی جاتیں؟ بدعنوانی پر برطرفیاں اور سزائیں کیوں نہیں ہوتیں؟اخلاقی گراوٹ روکنے کے لیے قوانین کیوں نہیں بنائے جاتے؟ بیرونی اشاروں پر خاص قانون سازی کے لیے ایک ہی دن میں کئی بل بغیر بحث کے پاس ہو سکتے ہیں تو عوام سے سیاسی جلسوں میں کیے ہوئے وعدوں کے لیے قانون بنانے سے کون روک سکتا ہے؟ سیاحت کے فروغ کا بہت تذکرہ تھا مگر سیاحتی علاقے سڑکوں کے نظام، مناسب رہائشی انتظامات، صفائی اور پلاننگ سے محروم ہیں۔ کیا بھروسے کے قابل ایسے ماہرین دستیاب نہیں ہیں جو سیاحتی مقامات کی خوبصورتی برقرا رکھتے ہوئے وہاں کم خرچ ٹورازم کی پلاننگ کرکے دیںتاکہ حکومت کو اضافی آمدنی ہو؟ نجی سیکٹر کی شراکت سے کتنے نئے کاروباری منصوبوں کا افتتاح ہؤا؟ سستی بجلی کے کتنے منصوبوں پر کام شروع ہؤا؟ کسان کو کیا سہولتیں دی گئیں؟ نوجوانوں کے لیے روزگار کے کون سے نئے راستے کھولے گئے؟ ہمارے وزیر اعظم ترقی یافتہ دنیا کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔وہ وقت تو ہمارے ہاں نجانے کب آئے گا، مگرکئی ترقی پذیر ممالک میںعوام کی مدد سے مختلف سیکٹرز میں خود انحصاری پیدا کرنے کے اعلیٰ اور کامیاب منصوبے کام کررہے ہیں،ان سے سیکھنے

میںکیا چیز مانع ہے؟ عمران خان عوام کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جوماضی کے کرپٹ ٹولے سے ہر قیمت پہ نجات چاہتے ہیں۔ ان کے اس جذبے کو ملک کی ترقی اور خود انحصاری کے لیے سو طرح کام میں لایا جاسکتا تھا، مگر اب تک کے حالات نے مایوسی پیدا کردی ہے اور لوگ رفتہ رفتہ ان کی حمایت سے دست کش ہورہے ہیں۔
ٹی وی چینلوں کو اشتہارات دینے اور روکنے کے بارے میں مریم نواز کی آڈیو ٹیپ لیک ہوئی۔ اگرچہ یہ کوئی خبر نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں مسلم لیگ ن اپنے دورِ حکومت میں صحافیوں اورمیڈیا کے لوگوں کو کس کس طرح نوازتی تھی اور انہی نوازشات کو روکنا ان کا تنبیہہ کرنے اور سزا دینے کا طریقہ تھا۔صحافتی حلقوں کو کرپٹ کرنے کا کریڈٹ میاں صاحبان کو جاتا ہے۔ میڈیا کو جمہوری نظام کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے کیونکہ عوامی رائے بنانے اورحکومت کی کارکردگی پر بے لاگ تنقید کرنے میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہے ۔ یہ دو عوامل وہ ہیں جن سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے، عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور حکومتوں پر اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے دباؤ پڑتا ہے۔ عوامی شعور بیدار ہو تو حکومتوں کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال اتنا آسان نہیں رہتا اور یہ شعور لوگوںکے اندرایک بیدار ، فرض شناس اور باضمیر میڈیاپیدا کرتا ہے۔مگر افسوس کہ ہمارے ہاں کے جمہوری تماشے میں ہر شعبے کی طرح صحافت اور میڈیا میں بھی ضمیروں کی بولیاں لگا دی جاتی ہیںاور وہ بھی حکومتی رقم سے۔ آڈیو ٹیپ میں اسی جرم کا اعتراف ہے ۔حکومت کے اشتہار اخبارات اور چینلوں کے لیے کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ یہ اشتہارات اصول و ضوابط کے مطابق اخبار اور چینل کی عوامی مقبولیت کی بنا پر دیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچے۔ مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور میں عوام کا پیسہ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر بے دریغ خرچ کیا۔ کرپشن ،بے ضابطگیاں، نااہلیاں عوام کے سامنے آنے سے روکنے کے لیے اشتہارات کو انہوں نے طے کردہ ضوابط کی بجائے حکومت کی حمایت سے مشروط کردیا، اپنی پسند کے چینلوں کو اشتہارات سے نوازتے رہے اور کسی نے بے لاگ تنقید کے ذریعے فرض نبھانے کی کوشش کی تو اسے حکومتی اشتہارات کی بندش کے ذریعے سزا دی گئی۔کوئی اور ملک ہوتا تو عدالتی کارروائی کے نتیجے میںایسی جماعت کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتا۔مگر یہ پاکستان ہی ہے جہاں اب بھی ایسے عناصر سیاسی میدان کے نمایاں کھلاڑیوں کے طور پہ موجود ہیں۔سیاسی منظر نامے کے ایسے ہی کردار اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ایسے ہی کرتوت ہیں جن کے باعث بار بار آمریت کو مداخلت کاموقع فراہم ہو جاتا ہے ۔ اللہ کرے وہ دن آئے کہ وطن عزیز میں نعرے بازی کا نہیں، حقیقی انصاف کا بول بالا ہو۔
شکیب جلالی کے چند اشعار کے ساتھ اجازت ، اگلے ماہ تک بشرطِ زندگی!

سکوں نہیں ہے مگر اب وہ بے کلی بھی نہیں
رہِ حرم نہ سہی، یہ تری گلی بھی نہیں

ابھی کہاں شبِ وعدہ کے سرمئی آثار
ابھی تو دھوپ درِ یار سے ڈھلی بھی نہیں
ہم اپنی روشنیِ دل پہ کیوں نہ نازاں ہوں
کہ شمعِ درد دل ِغیر میں جلی بھی نہیں
نگاہ رنگ کے جادو پہ مر مٹے لیکن
گُلِ حیات فقط رنگ کی ڈلی بھی نہیں

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x