ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول جنوری ۲۰۲۳

قارئینِ کرام
سلام مسنون
نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کہ رب کریم اس سال کو ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں خیر و عافیت کا سال بنائے،زندگی کی مہلت باقی ہے تو نامہِ اعمال میں حسنات کوبڑھانےکی توفیق دے،زوالِ امت کے اس گنبدِ بے در میں کوئی امید کی کرن دکھا دے،کرہِ ارض پر بسنے والوں کو فساد سے امن کی طرف، گمراہی سے ہدایت کی طرف اور نفرت و انتشار سے سکون و سلامتی کی طرف راستہ دکھائے، آمین۔زمانوں کی گواہی یہی ہے کہ بحر وبر میں فساد کا ظہور انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ تکبر اورنفس پرستی، مال اور اختیارات کی ہوس، وسائل پر قبضے کا لالچ ،فرعونیت، بے حسی اور خود غرضی، یہ سب مل کر انسان کو اسفل السافلین کی سطح پر گرادیتے ہیں۔پھر وہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے کہ انسانیت منہ چھپاتی ہے ۔دوسری طرف فلاحِ انسانی اور اصلاحِ نفس کے بھی ایسے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں جو انسانیت پر اعتبار قائم رکھتے ہیں۔انسان کے اندر خیروشر کی کشمکش اور زمین پر نیکی اور برائی کے علم برداروں کی اپنی اپنی کوششیں تا قیامت جاری رہیں گی،امتحان ہر ایک کا ہے اور یہی اس ہنگامہِ ہست وبود کو برپا کرنے کی غرض وغایت۔
بدقسمتی سے گوادر میں ویسی ہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں جو مشرقی پاکستان کے باسیوں کے ساتھ کی گئیں۔دشمن کی ویسی ہی چالیں ہیں اور اپنوں کی وہی نامخلصی۔اللہ کرے نتائج ویسے نہ نکلیں اور نقصان سے پہلے ہم ہوش کے ناخن لیں۔ مقامی آبادی کو ان کے حق سے محروم کیا جارہا ہے اور ان کے احتجاج کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا نتیجہ مزید مخالف جذبات کی صورت میں نکل رہا ہے۔سی پیک منصوبے میں گوادر کی بڑی اہمیت ہے، یہاں کے مقامی لوگوں کو بہت امید تھی کہ اس کے نتیجے میں ان کے علاقے کو ترقی اور جدید سہولیات ملیں گی مگر بیس برس گزرنے کے بعد بھی یہاں یہ حالت ہے کہ نہ تعلیم نہ صحت، نہ پانی نہ بجلی اور گیس۔اس پر مستزاد یہ کہ اپنے سب سے بڑے صدیوں پرانے ذریعہ روزگار ماہی گیری کو بھی بڑے بڑے سرمایہ کاروں سے خطرہ ہوگیا ہےجو ان کے علاقے میں اپنی جدید مشینری کے ساتھ آچکےہیں اور مقامی ماہی گیروں کو تحفظ یا حصہ دیے بغیر ان کی روزی پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ اس سے مقامی آبادی شدید عدم تحفظ کا شکار ہے۔اوپر سے ان کی لانچوں کو پکڑ لیا اور انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔پھر بیرونی افراد کی سیکیورٹی کے نام پر عام لوگوں کو پریشان کیاجاتا ہے،پوچھ گچھ اور توہین آمیز سلوک کی شکایات عام ہیں جس پر گوادر کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ حق دو تحریک کے پُر امن مظاہروں سے اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔یہ رویہ احساسِ محرومی کو جنم دے رہا ہےجو ملکی امن کے لیے زہرِ قاتل ہے اور کسی سنگین صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔اس وقت گوادر کے غریب اور محروم عوام کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان کے حق کے لیے فوری اقدامات کرنا ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔
قومی سطح پر انتخابات کا انعقاد بہت سے شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی عوام کا فیصلہ اندرونی اور بیرونی طور پہ طے کردہ گیم پلان کے مطابق نظر نہ آرہا ہو تو جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے ۔بمشکل جمہوریت کی دو سے ڈھائی سال میعادمکمل ہو پاتی ہےاور عوام میں شعور پیدا ہونے لگتا ہے کہ ووٹ کے ذریعے حالات کیسے بہتر کیے جا سکتے ہیں،کہ فوراً حالات کا کنٹرول واپس اپنے ہاتھ میں لے لیا جاتا ہے۔

مرکزکے ساتھ ساتھ اب کراچی میں بھی پرانے آزمودہ اور عوام کے مسترد کردہ عناصر کو دوبارہ مسلط کرنے کی تیاریاں زور پکڑ گئی ہیں۔ لسانی تنظیم جو ۲۰۱۳ کے انتخابات میں عوام سے مسترد ہوجانے کے بعدٹکڑے ٹکڑے ہوکر دم توڑ گئی تھی اب اس کے دھڑوں کو اکٹھا کرکے اس کے تنِ مردہ میں جان ڈالی جارہی ہے، اور وہ اپنے ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشوں اوربھتہ خوری کے بھیانک ماضی کے ساتھ دوبارہ کراچی کامستقبل بننے جارہی ہے۔ دائروں کا سفر ہماری قسمت بن گیا ہے۔خوش فہمی نہ ہو تو لگتا یوں ہے جیسے اب عوامی شعور اس دائرے کو توڑ نے کو بے تاب ہے،اگرچہ اس کے نتیجے میں ٹکراؤ اور بدامنی کا خدشہ ہے۔پہلے ہی وزیرستان میں ہمیں دہشت گردی کی نئی لہر میں پھنسا دیا گیا ہے،افغان سرحد کے ساتھ بد امنی کا آغاز ہوگیا ہے۔ایسے میں خدا نخواستہ ملک کے اندر بھی حالات کاکشیدہ ہونا ہمیں کہاں لے جائے گا! اللہ کرے مقتدر اداروں کے اندر موجود ملک کے ساتھ مخلص اور سمجھدار عناصر رو بہ عمل آئیں اور ملک کو اس بحران سے نکالیں۔ساتھ ساتھ اس وقت پاکستان کے مفاد کےلیےفکرمند شہریوں کو اپنافعال کردارادا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔یہ ملک کب سازشوں کی زد میں نہیں رہا اور کب ہؤا کہ اپنی ہی صفوں میں دشمن چھپ کر نہیں بیٹھے۔مگرابلاغ کے معاملے میں ہم مابعد سچ کے دور میں ہیں جب ہر ایک اپنا اپنا سچ لے کر مطمئن بیٹھا ہؤا ہے جبکہ اس حالت میں مجموعی بھلائی کے راستے نہیں نکالے جا سکتے۔سول سوسائٹی کی سطح پرعوام میں موجودمخلص عناصر کی طرف سےایسی فکری سرگرمیاں ہونی چاہئیں جو حالات کا تجزیہ عوام کے سامنے پیش کریں،وسیع تر قومی مفاد کے لیے باہم فکری اشتراک کریں اور ایک دو بنیادی نکات پردانشورانہ سطح کااتفاق رائے پیدا کریں۔
سفیر کے عنوان سےشکیبؔ جلالی کی ایک نظم حسبِ حال لگ رہی ہے:

میں روشنی کا مُغنّی، کِرن کِرن کا سفیر
وہ سَیلِ مہ سے کہ رُودِ شرار سے آئے
وہ جامِ مَے سے کہ چشمِ نگار سے آئے
وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے
وہ دستِ گُل سے کہ پائے فگار سے آئے
وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے
وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے
وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے
جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر
وہیں کُھلیں مِری بانہیں، وہیں کَٹے زنجیر

اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی۔ دعاگو طالبہ دعا

صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x