ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خزانہ – بتول دسمبر ۲۰۲۱

عافیہ اگرچہ شکل و صورت کے اعتبار سے غیر معمولی نین نقش یا خدو خال کا کوئی دل رُبا مجسمہ نہ تھی، مگر عقل ، علم، سلیقہ مندی،اور گہرے شعور کے باعث اس نے گھرہی نہیں گائوں بھر کی بزرگ خواتین کوگرویدہ بنا لیا تھا ۔ فطری صلاحیت، جذبہ محبت و حوصلہ اور ولولہ خیر خواہی نے اُسے جس دلاویز شخصیت کا حامل بنا دیا تھا اس نے اسے ایک محبوبیت کے مقام پر فائز کر دیا تھا ۔ شادی کے بعد اس نے عالم دیہاتی دلہنوں کے برعکس اپنی ہتھیلیوں سے رنگِ حنا کے مٹنے کا انتظار کیے بغیر گھر کے سارے کاموں میں ہاتھ بٹاناشروع کردیا تھا ۔ اس کی ساس ( خالہ)اور نندیں حیرت اور مسرت سے اس پر نہال ہونے لگی تھیں ۔ ہر دل عزیز بننے کا یہی گُر ہے ۔ گھر کا معاملہ ہو یا بستی ، شہر یا پورے ملک کا ۔ اگر کوئی فرد ثابت کر دے کہ وہ سب کی ضرورت ہے تو اسے عزت کا مقام ملے گا اور سب اس کے پرستار بن جائیں گے۔
آج اگر عافیہ کو کالج میں اس کی مربی دوست نزہت آکر دیکھتی تو اسے اپنے پڑھائے ہوئے لٹریچر کی اثر انگیزی دیکھ کرفخر محسوس ہوتا۔
عافیہ کے سسر چوہدری بدر دین اپنی بہو کو دیکھ کر خوش ہوتے ایک دفعہ عافیہ نے ان سے کہا :
’’ خالو جان ! آپ اس علاقہ کے ایک معزز زمیندار ہیں ۔ اپنے گائوں میں طالبات کا مڈل سکول کھلوا ئیں تو یہاں کی طالبات اپنی ذہنی صلاحیت سے مستقبل کی بہتر خواتین ثابت ہوں گی ‘‘۔
اس زمانے میں ضلع کے ڈپٹی کمشنر ضلع کونسل کے چیئرمین ہوتے تھے اور عوام کی طرف بنیادی جمہوری نظام کے تحت منتخب شخص وائس چیئرمین ہوتا تھا ۔ تب قائد اعظم ؒ کے تحریک پاکستا ن کے ساتھی میاں عبد الحق ضلع کے وائس چیئرمین تھے اور وہ چوہدری بدر دین جیسے شرفا کے قدر دان تھے ، ان کی سفارش پر انہوںنے ان کے گائوں میں گورنمنٹ مڈل سکول کے اجرا کا حکم جاری کردیا۔
اب سکول کی عمارت ، فرنیچر ، اسٹاف کے تقرر کا فوری مسئلہ تھا اور دوران سال کوئی پندرہ لاکھ کا بجٹ فراہم کرنا آسان نہ تھا ۔ بدر دین صاحب نے کہا :
’’ سکو ل کے لیے اسٹاف کی بھرتی میں پہلے آپ میری بی ایس سی پاس بہو کا بطور ان ٹرینڈ ٹیچرتقرر کردیں پھر باقی فوری ضروریات کے لیے میں ہم خود اقدامات کریں گے ۔ آپ ضلع کے انجینئر عمارات کو ہمارے گائوں بھیجیں ہم انہیں شاملاتِ دیہہ سے دو ایکڑ رقبہ پیش کریں گے اور عمارت کا نقشہ بنا کر آپ سے منظور کرائیں گے ۔ سردست گائوں میں موجود میرا جو وسیع ڈیرہ ہے وہ ہم سکول کے لیے وقف کر دیں گے ‘‘۔
عافیہ اپنے سسر کے اس اقدام پر بے حد خوش تھی۔ اس نے اپنے جہیز میں ملا والدین کا بنوایا ہؤا پانچ تولے سونے کا سیٹ اپنے سسر کو پیش کیا :
’’خالو جان ! آپ یہ زیور بیچ کر مجھے سکول کی دفتری ضروریات اور سٹاف کے لیے میری فہرست کے مطابق فرنیچر بنوا دیں ‘‘۔
چوہدری بدر دین اپنی بہو کی اس پیشکش پر ہکا بکا رہ گئے ۔ انہوں نے اپنی بہو کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور کہا ’’ بیٹی! یہ زیور آپ کومبارک رہے۔ آپ مجھے فرنیچر کی فہرست دیں ۔ میں خود آپ کو شہر سے فرنیچر منگوا دوں گا‘‘۔
اسی دوران ضلعی دفتر سے عافیہ کے تقرر کاحکم جاری ہوگیا۔
عافیہ نے اپنی کالج کی مہر بان دوست کوگائوں میں سکول کھلنے اور اپنے تقرر کی خبر دی تو و ہ بے حد خوش ہوئیں۔ اور وہ اپنے مطالعہ کتب کی روشنی میں اپنے ساتھ بعض خواتین کوشامل کریں اورانہیں یہ بھی بتایا :
’’عافیہ بہن ! آپ اسلام آباد میں علامہ اقبال یونیورسٹی سے فاصلاتی تعلیم کے تحت بی ایڈ کے امتحان کا فارم بھیجیں اور پرائیویٹ طور پر

اس یونیورسٹی کی طرف سے مہیا کی جانے والی کتب پڑھنے کے لیے وقت نکالیں۔ آپ جیسی ذہین و فطین خاتون ان شاء اللہ یہ امتحان پاس کر کے اس سکول میں ہیڈ مسٹریس بن جائیں گی ‘‘۔
نزہت کے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے عافیہ نے بی ایڈ کا امتحان پاس کر لیا اور اس نے اپنے رزلٹ کارڈ کی کاپی ضلع کے دفتر تعلیم کو ارسال کی ۔ ایک مہینے میں اس کا بطور ہیڈ مسٹریس تقرر ہو گیا ۔ ابھی ہمارے ملک میں بی ایس سی بی ایڈ خواتین خال خال ہی ہوتی تھیں ۔ اس لیے جب ایسی خاتون محکمہ کے علم میں آتی تو وہ اس کو تعینات کر دیتے تھے۔
عافیہ اب پہلے سے زیادہ جلدی گھر کے کاموں سے فراغت حاصل کر کے اپنے سسر کے ڈیرے میں قائم سکول پہنچ جاتی ۔ ابتدا میں داخلہ لینے والی طالبات کی تعداد کم تھی لیکن عافیہ کے پاس اس کے گھر میں گائوں سے جو طالبات قرآن شریف پڑھنے آتی تھیں اس نے انہیں سکول میں داخل کیا۔ نصاب کے ساتھ وہ انہیں وہیں قرآن شریف بھی پڑھاتی تھیں ۔ اس نے ایک دن اپنی ساتھی نزہت صاحبہ کو اپنے گائوں آکر سکول قائم ہونے پر اسے دیکھنے کی دعوت دی اوراسے خیال آیا کہ اس کی ایک ہم جماعت عالیہ بھی تھی جواب گریجوایٹ ہو کر اپنے گھر میں تھی ۔ اس نے اسے بھی کہا کہ وہ اپنی گاڑی میں نزہت صاحبہ کو ساتھ لے کر اس کے گائوں آئے۔ عالیہ کالج کے زمانہ میں اگرچہ عافیہ کی رقابت میں مبتلا تھی لیکن اب اسے اپنی پرانی ہم جماعت کی دعوت پر خوشی بھی ہوئی اور وہ اپنے باپ کی کار لے کر نزہت صاحبہ کو ہمراہ لیے اس کے گائوں آئیں۔
گائوں میں اپنے وسائل سے قائم سکول سے عافیہ کی مہمان سہیلیوں کو بے حد مسرت ہوئی ۔ کھانے کی میز پر عالیہ نے عافیہ کی بہت تعریف کی اور رسمی طور پر پوچھا۔
’’ عافیہ بہن ! میںآپ کے سکول کی کس طرح مدد کروں؟‘‘
عافیہ نے اس پیشکش کو رحمت خدا وندی کا ایک اشارہ خیال کیا ۔
’’آپ ہمیں سکول کی عمارت بنانے میں مدد دے دیں کیونکہ آپ کے والد صاحب شہر کے ایک بڑے مخیر بزرگ ہیں ۔ ہم ان کے عطیہ سے سکول کی عمارت کے ابتدائی حصے کاسنگ بنیاد رکھیں گے ‘‘۔
شہر واپس جا کر عالیہ نے اپنی پرانی کالج فیلو کی گائوں میں فروغ تعلیم کی۔ کوشش کا ذکر کیا اوراپنے والد سے سکول کی عمارت میں مدد کی درخواست کی ۔شیخ کفایت اللہ بیٹی کی درخواست کورد نہ کر سکے انہوں نے اپنے ایک انجینئر دوست سے جو در اصل ضلع میں سرکاری عمارات کی تعمیر و مرمت کے ذمہ دار تھے ، کہا کہ آپ کے ہاں مڈل سکول کی ضروریات کے پیش نظر عمارت کا نقشہ تیار رہتا ہے ۔آپ ہماری عافیہ بیٹی کے پاس چوہدری بدر دین کے گائوں جائیں وہاں سکول کے لیے مختص زمین دیکھیں ۔ میں وہاں ایک بڑا کلاس روم ہیڈ مسٹریس کے دفتر کی تعمیر کا خرچ برداشت کروں گا ۔
شیخ کفایت اللہ صرف دولت کی نعمت سے مالا مال نہ تھے اللہ نے انہیں دنیاوی فراست سے بھی وافر سے نواز تھا انہوں نے عافیہ کے سکول میں عمارت کی ابتدا اس طرح کروائی کہ کل کو جب سرکاری گرانٹ سے باقی کمرے تعمیر ہوں تو وہ سب ایک وحدت کی شکل میں سامنے آئیں۔
موسم گرما کی تعطیلات کے بعد ماہ ِ ستمبر میں اس مڈل سکول کا باقی عملہ بھی سرکاری احکامات کے تحت تعینات ہو گیا ۔ عافیہ نے ان استانیوں کی رہائش کا سادہ سا انتظام اپنے سسر کے ڈیرے میں کردیا اور اگلے دو تین مہینوں میں جب سکول کی عمارت مکمل ہو گئی تو وہ اپنے سکول میں منتقل ہوگئیں ۔ پہلے سال نو طالبات کی تعداد بس واجبی سی تھی لیکن اگلے سال ماہ مارچ میں سالانہ امتحان دے کر آس پاس کے قریبی دیہات کی بچیاں اپنے گائوں کے قریب اس نئے سکول میں پڑھنے کو زیادہ پسند کرنے لگیں۔عافیہ اس علاقے میں ایک نہایت مقبول ، معزز اور خیر خواہ خاتون کے طور پر جانی پہچانی جاتی تھی ، ایک مسلم استاد کی حیثیت سے حق تعالیٰ نے عافیہ کوایسی درد مندی عطا کی تھی کہ اس نے طالبات اوراپنی اسٹاف ممبر زکو تعلیم کے لیے گویا بہت وابستگی دے دی تھی اوریوں اس علاقے کی قسمت جاگ اٹھی۔
اس عظیم کام میں عافیہ کے ساتھ اس کی کالج کی تعلیم کے دوران وہ طالبات تھیں جنہوں نے نزہت صاحبہ کی قیادت میں اسے ایسی کتب پڑھائی تھیں کہ اس کے دل کو ایک ولولہ تازہ سے سنوار دیا تھا۔ یہ ایسا

خزانہ اس کے ہاتھ لگا تھا جو بے بدل تھا اور جس کی بدولت وہ نہ صرف ایک قابل ذہین اور برد بار متحمل مزاج جو ان طالبہ بنی بلکہ اس نے حسن اخلاق سے اپنے من کو سنوارا تھا ۔اس طرح ایک خاندان ہی نہیں بلکہ کئی دیہات میں خواتین علم کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوگئیں۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
2.3 4 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x