ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بارش کے بعد – بتول دسمبر ۲۰۲۱

گلابی جاڑے کی آمد آمد تھی ۔ شام کو ہلکی سی ٹھنڈک محسوس ہوتی ، مگر دن میں گرمی کا احساس غالب رہتا ، سبک سی ہوائیں گرمی کو الوداع کہنے آتیں مگر کچھ پیش نہ چلتی ۔ایک دن ان نرم نرم سی ہوائوں نے آندھی سے ایکا کرلیا… پھرتندو تیز ہوا کا طوفان ، درختوں ، کمزور چھتوں ، سڑک کے سائن بورڈز کو اکھاڑنے کے در پے ہو گیا شہر کا ساراانتظام بھپری ہوا نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ، سہ پہر کو ہی بازار ، گلیاں سنسان ہو گئے … بجلی دَم سادھے حسب معمول کسی کونے کھدرے میں جا چھپی۔ سائیں ، سائیں کرتی ہوائیں درختوں کی شاخوں کو اِدھراُدھر پٹخ رہی تھیں ۔مٹی کا طوفان بگولوں کی شکل میں در بدر پھر رہا تھا ۔اس شہر خاکی میںآندھی اور گردو غبارکا کوئی موسم نہیں ، ہر وقت ،وقت غبار ہے ۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر نمازی بمشکل اپنے گھروں کو پہنچے … جہاں دروازوں اورکھڑکیوں کے پٹ بے قابو ہوکر سینہ کوبی کررہے تھے ۔ صحن اور برآمدے درختوں کے پتوں سے اٹ گئے۔ مٹی اوردھول نے صحن اداس کر دئیے ۔ گلیوں میں جگہ جگہ پلاسٹک کے بیگ اپنی بے بسی پہ ماتم کناں اڑتے پھر رہے تھے ۔ ذرا سی دیر میں سارے منظر دھندلا گئے ۔ چھتوں اور صحنوں سے بچوں ، عورتوں کی ملی جلی آوازیں عجیب سی لگ رہی تھیں۔ ہوا جس سمت کا رخ کرتی اُدھوری سی آوازیں اُدھر ہی مسافر ہو جاتیں ۔
مسجد سے نکل کر عابد حسین اپنی پھولتی سانسوں اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ گھر کے دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ بارش کا پہلا قطرہ ان کے گال پر پڑا … صدر دروازے سے صحن عبور کرنے اور برآمدے تک پہنچنے میں جتنی دیر لگی ، اتنے میں وہ بارش سے اچھا خاصا بھیگ چکے تھے ۔ نفیسہ بیگم نے ٹی وی لائونج میں داخل ہوتے عابد حسین کو دیکھا تو نماز کی چوکی سے اٹھنے کی کوشش کی ، مگر اب اتنی سکت نہ تھی کہ لپک جھپک کر شوہر کا استقبال کرتیں ۔ لائونج سے ملحق باورچی خانے میں کام کرتے راشد نے عابد حسین کو سہارا دے کر غسل خانہ پہنچایا اور کپڑوں کا نیا جوڑا لاکر دیا ۔
باہر بارش تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔ ساتھ ہوائوں کے جھکّڑ بارش کی بوچھاڑکا رُخ بدل رہے تھے ۔لائونج میں بیٹھی نفیسہ بیگم کو یکدم اپنی ٹانگوں میں ٹھنک کا احساس ہونے لگا ۔ نماز کی چوکی پہ بیٹھے بیٹھے انہوں نے جائے نماز ہی اپنی ٹانگوں پہ ڈال لی۔ عابد حسین لباس تبدیل کر کے آئے تو راشد کو چائے کا کہا۔ایمرجنسی لائٹ کی روشنی میں کمرے کی ہر چیز واضح تھی۔لیکن برآمدے اور گھر کے دوسرے کمروں میں اندھیرا تھا ۔ باورچی خانہ میں راشد نے بڑے سائز کی موم بتی جلا رکھی تھی۔
نفیسہ بیگم نے اپنی نماز کی چادر کو اپنے گرد مزید اچھی طرح لپیٹتے ہوئے سوچا، ہماری زندگی میں اتنی ہی روشنی ہے جہاں ہم بیٹھے ہیں … آگے ،پیچھے تو اندھیرا ہی ہے … نفیسہ بیگم کو خود کبھی یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ بارش کا موسم ان کو اداس اور مایوس ساکیوں کر دیتا ہے ۔ دن کے وقت بارش ان کے اعصاب کو مردہ سا کیوں کر دیتی ہے۔ شاید دن کی روشنی وقت سے پہلے ختم ہو جانے کا کوئی نفسیاتی اثر ہو … اس وقت بھی وہ اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرنے لگیں۔ چار بیٹوں کی ماں ہونے کے باوجود ان کو اپنی کوکھ خالی سی لگنے لگی … اور دل بھر آیا ، آنکھیں بھیگنے لگیں۔
’’راشد گیٹ کو تالا لگا دو ‘‘

نفیسہ بیگم کی محویت اپنے شوہر کی آواز پہ ٹوٹ گئی جو قمیض کے بٹن بند کرتے ہوئے انہی کی طرف آرہے تھے ۔
نفیسہ بیگم نے ان کے لیے جگہ بنانے کو ٹانگیں سکیڑ لیں ۔
’’کیا سوچ رہی ہو بیگم ‘‘؟
ہلکے آسمانی رنگ کے قیمتی سوٹ اور گہرے برائون بالوں والی باوقار سی نفیسہ بیگم کواسی سوال کی توقع تھی۔
’’کچھ نہیں ‘‘
عابد حسین کو حسب عادت جواب ملا ۔
’’چلو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں ‘‘
انہوں نے صلح جولہجہ میں کہا۔ ان کو بخوبی معلوم تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہیں اور اس موسم میں ان کی کیفیت کیسی ہو جاتی ہے ۔
’’وہ شکیلہ لوٹ کے ہی نہیں آئی گائوں سے ،راشد بتا رہا تھا دو ہفتے بعد آئے گی ، تمہیں تو بہت مشکل ہو گی‘‘۔ وہ اپنی بیوی کی توجہ ان کی سوچوںسے ہٹانا چاہتے تھے ۔
’’کوئی بات نہیں ، آجائے گی ‘‘۔
باورچی خانے سے برتنوں کے اٹھا پٹخ کی آوازیں آرہی تھیں۔ بجلی کے کڑکنے ، بارش کے شور اور نیم اندھیرے نے ماحول کو اور بھی پر اسرار سا بنا دیا تھا۔انسانی آوازیں عجیب نامانوس سی لگ رہی تھیں۔
دونوں میاں بیوی نماز کی چوکی پر خاموش بیٹھے ہوئے تھے مگر شاہراہ حیات پر دونوں کو ساتھ ساتھ چلتے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔ اس چالیس سال کے طویل عرصہ میں سے تیس سال ایک گہما گہمی تھی ، رونق اور امنگوں بھری زندگی تھی۔ دونوںنے چار بیٹوںکو اپنی جوانی کے سنہرے دن دے کر ، خون پسینے کی کمائی کھلا کر، اپنی آرزئوں کی پوٹلیوں کے منہ سی کر تعلیم و ترقی کی راہوں پر سبک رفتاری سے چلنے کے قابل بنایا۔ کامیاب اولاد کے والدین کہلانے کی خاطر ان کو یورپ امریکہ کی شہریت حاصل کرنے ، ڈالر ، پائونڈکمانے کا شوق دلایا ۔ تلقین کی، راستے سُجھائے ، ہمت بندھائی اور آج ایک دنیا ان کی قسمت پہ رشک کرتی ہے ۔ ان کے بیٹوں نے کبھی والدین کو مایوس نہ کیا ۔ جو خاکے بچوں کے مستقبل کے بنائے انہوں نے اس میں بخوبی رنگ بھرے ۔ تعلیمی میدان ہو یا معاشی میدان جودونوں نے چاہا سو پایا ۔ لائق ، مہذب کامیاب بیٹوں کے والدین کو اب نہ جانے کیا احساس محرومی تھاکہ اندر سے خالی پن کا احساس کم ہی نہ ہوتا تھا۔
’’بیگم ! راشد کادل پکوڑے کھانے کو چاہ رہا ہے ، دیکھو ، موسم کا لطف لے رہا ہے ۔ خوشبو آرہی ہے نا!عابد حسین نے لمبا سانس لے کر بچوں کی سی سرخوشی کا اظہار کیا۔
نفیسہ بیگم کو اپنے شوہر کی اس ادا پہ ہنسی آہی گئی ۔ مگر اس کے اثرات دیر پا نہ ہوسکے ۔ سوچ کاغلبہ پھر ہونے لگا ۔ انسان کیوں بھول جاتا ہے اس آنے والے وقت کو جب اعصاب ساتھ نہیں دیتے اور ہمت و قوت کہیں کھوجاتی ہے … مستقبل کے سارے منصوبے یوں بنتیہیں جیسے یہ قوت و طاقت ہمیشہ رہے گی … آج ان چار بیٹوں کی کمائی سے دونوں قابل رشک زندگی گزار رہے ہیں جو سرمایہ انہوں نے اپنے بیٹوں پہ لگایا تھا اس کا جواباً نفع ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر مل رہا تھا ۔ مگر پھر بھی دونوں ماضی کی راہوں میں اکثر بھٹک جاتے تھے جیسے کہیں شروع میں ہی راہیں کھوٹی ہو گئی تھیں۔
بارش کبھی کم ہو جاتی ، لیکن پھر تیز بوچھاڑ کے ساتھ نئے سرے سے شروع ہو جاتی ۔ چھتوں سے گرتا ہوا پانی پرنالوں کی شکل میں الگ شور کرنے لگا تھا ۔ بجلی کی کڑک وقفے وقفے سے جاری تھی … باورچی خانے سے آنے والی پکوڑوں کی خوشبو سے سارا گھر مہک اٹھا تھا ۔ راشد اور شکیلہ اس گھر کے نوکر کم اور لاڈلے بچے زیادہ لگتے تھے کچھ دن پہلے ہی راشد کی بیوی میکے گئی تھی …چند مہینے پہلے راشد کی شادی ، نفیسہ بیگم نے ہی کرائی تھی ۔ بہت خدمت گزار، فرمانبرادر ، مہذب لڑکی ان کو شاید کسی نیکی کے صلہ میں مل گئی تھی ۔اپنی بہو، بیٹی بھی اتنی محبت

،خلوص اور توجہ سے ان کی دلجوئی نہ کر سکتی۔ماحول کی اداسی کے اثرات بھی دور ہونے لگے… انہوں نے راشد کو چائے کی ٹرے اٹھا کر لاتے دیکھا تو آہستہ سے اپنے پائوں چوکی سے نیچے لٹکائے ۔ عابد حسین نے بھی ساتھ ہی اٹھنے کاارادہ کیا ۔ دونوں لائونج میں پڑے صوفے پہ بیٹھ گئے ۔ درمیانی میز پر راشدنے چائے کی ٹرے رکھی ۔ ساتھ بسکٹ اورپکوڑے بھی تھے۔
’’بابا جان ! آج پکوڑے ہو جائیں ‘‘۔
راشد نے ہنسی سے بھرپور آواز میںنعرہ لگایا۔
’’ابی!سب جانتا ہوں ، تمہارا اپنا دل چاہ رہا تھا پکوڑے کھانے کو ،ہمارا تو بس نام ہے ‘‘۔
راشد نے کھسیانا سا ہوکر سر کھجایااور باورچی خانے کی طرف بھاگا۔
عابد حسین نے دو کپ میں چائے انڈیلی اورچائے دانی کو ایک طرف رکھ دیا ، نفیسہ بیگم نے پلیٹ میں بسکٹ اورپکوڑارکھا اور صوفے سے ٹیک لگا لی ۔ آہستہ آہستہ بسکٹ کترتے ہوئے عابد حسین نے نفیسہ بیگم کو دیکھا ۔وہ پہلے سے کچھ بہتر موڈ میں لگ رہی تھیں۔
’’بارش تھمنے کے بعد تو راستوں کے حالات اوربھی خراب ہو جاتے ہیں ‘‘عابد حسین نے بات برائے بات کی ۔
’’ہاں‘‘ نفیسہ بیگم نے ہولے سے کہا اور چائے کا کپ منہ کو لگا لیا۔
تیز بارش بجلی کی کڑک اور ہوائوںکا شور پھر ماحولپہ غالب آنے لگا۔
جس گھر میں عابد حسین اس وقت رہائش پذیر تھے وہ ان کے والد کے ہاتھوں کا بنایا ہوا تھا ۔ وارثت کی تقسیم میں یہ مکان ان کے نام ہوا تھا ۔ بچپن ، لڑکپن اور جوانی کی بے شمار یادیں اس گھر اورمحلہ سے وابستہ تھیں۔ ان کی بیگم کا میکہ بھی اس گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا جہاں اب ان کے بھائی کے بال بچے رہتے تھے ۔ دونوں کا ماضی اسی فضا سے جڑا ہوا تھا … مختلف شہروں میں بیٹوں کی بنائی ہوئی کوٹھیاں کرائے پر دے کر دونوں اپنے بچپن میں لوٹ آئے ۔ بڑھاپا بھی ایک طرح کا بچپن ہی ہوتا ہے … ابھی رنجیدہ ہیں تو ابھی خوش … ماضی کے سارے واقعات ایک کھلونا ہی بن جاتے ہیں ۔کبھی غم کو یاد کر کے روئے اور کبھی خوشی کو یاد کر کے ہنس دئیے ۔تنہائی میں یہ ’’کھلونے ‘‘ کتنا ساتھ دیتے ہیں ! دونوں میاں بیوی ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے اپنے اپنے ’’کھلونوں ‘‘ سے کھیل رہے تھے ۔
نفیسہ بیگم کی بچپن کی ساری سہیلیاں جانے کہاں کن حالوں میں تھیں۔ اکلوتے بھائی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ بھابھی معذور ہو کر بستر سے لگ گئیں۔ ان کی بیٹیاںدوسرے شہروں میں تھیں ۔بھائی کی دو بہووئیں اسی گھر میں تھیں جو کبھی نفیسہ بیگم کے بابل کا گھر تھا ، ان کا میکہ تھا ۔ بابل کا خیال آتے ہی دل میں ہوک سی اٹھی اور نفیسہ بیگم نے سرد آہ بھری… وہ گھر اب میرا نہیں ، میری ماں کا نہیں تومیرا کیسے ہوگا ! چلو غنیمت ہے انہوں نے خود کو تسلی دی کہ رشتہ داری کا ناطہ قائم ہے ۔ مرنے پر اپنے جمع تو ہو جائیں گے ۔ اپنوں میں مرنے کا خیال ہی ان دونوں کووطن چھوڑنے کے خیال سے گریزاں رکھتا تھا … اپنے مرنے اور اولادوں کی دوری کے خیال سے ان کا سینہ گھُٹنے لگا اور چائے کی پیالی واپس رکھ دی ۔
ان کے بچے نا فرمان نہیں تھے پھر بھی کچھ کہاں ، کیا غلط تھا وہ سوچتی رہ جاتیں کہ اپنے دل کی گرہ کہاں کھولیں ؟ کس کے پاس جاکر کھولیں ؟ کیا ہم نے بچوں کو اپنے قرب کا وہ احساس زندہ کر کے دکھایا جو دل سے جڑا ہوتا ہے ؟ بیٹیوں نے توہر حال میں والدین سے جُدا ہوکر دور جانا ہوتا ہے ۔مگر بیٹے … لیکن کیا قصورہے بیٹوں کا … حقیت پسند بننے کی تلقین کے ساتھ حالات کو اپنے قابو میں کرنے کا گُر تو ہم نے ہی سکھایا … دنیاایک گائوں بن گئی ہے ۔ مگر کیسا گائوں ہے کہ قرب میں دوری کے سارے راز مضمر ہیں ۔ رابطوں کے نت نئے طریقوں نے ، جدید آلات نے احساسِ مروت کوکچل کر رکھ دیا ہے ۔ رابطے صرف لفظوں اور تصویروں کے نہیں ہوتے جذبات اورقرب کے بھی ہوتے ہیں ۔ ہر وقت رابطے میں رہنے کا ایک روحانی نقصان توکسی نے

سوچا ہی نہیں … وہ رابطہ جو ماں اپنے رب کے واسطے سے رکھتی تھی اولادکے ساتھ وہ کتنا کمزور ہو گیا ہے۔ نفیسہ بیگم نے اس کمی کو بہت دیر بعد محسوس کیا جب ہر بچے کے نام کی ‘‘آیت الکرسی‘‘ اور‘‘یا حفیظُـ‘‘ کا وردچھوٹ گیا ۔ وہی وقت اپنے بچوںکے ساتھ انٹر نیٹ کے ذریعے رابطے میں گزار کر شانت ہو جاتیں اور اطمینان محسوس کرتیں … لیکن جب اس محرومی کا ادراک ہوا توان کو ناقابلِ بیان خلش کا سامنا کرنا پڑا اور یہ خلش ہنوز باقی ہے کہ وقت کا حساب ایسا آن پڑتا ہے کہ جو اپنے رب سے مناجات کاوقت ہوتا ہے وہی وقت بچوں کے جاگنے اور فرصت کا ہوتا ہے … صبح و شام بھی ایک ساتھ نہیں کر سکتے جانے یہ کیسا ’’گلوبل ولیج‘ ہے!!وہ اکتاہٹ کا شکار ہو جاتیں۔
ماضی کے دریا پہ سوچوں کی لہریں سبک رفتاری سے اٹھکیلیاں کرنے لگتی ہیں تو انسان اُسی پانی میں پائوںلٹکا کر آسودہ ہونے لگتا ہے ۔ ماضی کی یاد یںعذاب بھی ہوں تو یہ تصور دل خوش کن ہوتا ہے کہ وہ عذاب گزر چکاہے اور خوشی جو نصیب میں ملی اس کوکوئی چھین نہیںسکتا۔
ایکسائز آفس میں اعلیٰ عہدے پہ زندگی کے تیس سال گزارنے والے عابد حسین بہت سی ان کہی کہانیوں کے رازداں تھے ۔ وہ خودبھی کوئی’’اخلاق عالیہ ‘‘ کے دعوے دار نہ تھے۔ دنیاوی وسائل اورمواقع کو ’’محتاط‘‘ طریقوں کے ساتھ نبھایا …گزشتہ صالح نسل کے اثرات تھے کہ نماز پنجگانہ اور صبح سویرے تلاوت قرآن پاک کوبھی زندگی سے نہ جانے دیا …مگرشادی کے پہلے دس سالوں میں چاربیٹوں کے والدین بن جانے کے بعد اگلے بیس سال ان کے شاندار اورجاندارمستقبل بنانے میں کھپا دئیے ۔مگرگزشتہ صالح تربیت اگلی نسل تک منتقل ہوئے صرف دنیاوی اخلاق تک رہ گئی کون جانے اب یہ آگے کیادینے والے ہیں اپنے بچوں کو! نسل درنسل ،ارادے ،منصوبے،جذبات ، دوست احباب ، رشتہ داریاں منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔
مغرب کا وقت ہو چکا تھا ۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اذان کی آواز نہ آئی ۔ گھڑی دیکھ کر دونوں نماز کی تیاری میں لگ گئے ۔راشد رات کے کھانے کی تیاری میںمگن تھا ۔ عابد حسین نے راشد کو نماز کی تلقین کی اورخود نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ نمازکے بعد نفیسہ بیگم اپنے کمرے میں ہی بستر میں بیٹھی شام کے وظائف میںمصروف تھیں ۔ان کے شوہر نے صوفے پر بیٹھ کر ہی تسبیح کے دانے گھمانے شروع کردئیے۔ہر دانہ فکرو شعور کے ساتھ ذکر الٰہی کا گواہ بن رہا تھا۔یہ فکر وشعورکی نعمت ان کو پندرہ سال پہلے ایسے ہی بارش والے دن نصیب ہوئی تھی ۔
آنکھیں موندے وہ اس دن کو یاد کررہے تھے ۔اللہ تعالیٰ کی شان نرالی ہے … رات سے دن ، دن سے رات ، مردہ سے زندہ نکالتا ہے ۔پتھر سے پانی کے چشمے نکالنے پرقادر ہے ، اس کے فیصلے اٹل ہیں ۔ ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہے … واقعات و حالات کی ترتیب انسان کے بس سے باہر ہے۔
بجلی کے آجانے سے ان کی سوچوں میں تعطل آگیا ۔ ادھر بارش رک گئی تھی اور لائونج میں ہلکا سا حبس محسوس ہونے لگا تھا۔ راشدنے کھڑکیاں کھول دیں تو فرحت بخش ہوا کا جھونکا کمرے میں تازگی کی لہر دوڑا گیا ۔ٹی وی آن ہونے سے بھی کمرے میں انسانی آوازوں کی چہل پہل ہو گئی ۔
ابھی رات کا کھانا میز پر چُنا جارہا تھا کہ عابد حسین کے سیل فون کی بیپ نے ان کو متوجہ کیا …’’جاذب‘‘کا نام سکرین پر جگمگا رہا تھا ۔ عابد حسین کی روح تک جھوم اٹھی ۔ ان کو شایداسی کا انتظار تھا اورشاید اس کی بہت ضرورت بھی تھی’’ السلام علیکم ‘‘کی آواز میں دلی خوشی کا ارتعاش شامل تھا مختصر سی گفتگو کے بعد سیل فون بند کردیا گیا۔
’’راشد!میرایار بھی آرہا ہے کھانے پر …بس کچھ دیر میں آتا ہی ہوگا۔نفیسہ ! جاذب آرہا ہے رات یہی رکے گا‘‘ ۔ انہوں نے کمرے کی طرف منہ کر کے ذرا بلند آواز میں اطلاع دی۔نفیسہ بیگم نے بھی خوشی کا اظہار کیا اوردل میں اطمینان محسوس کیا کہ اب میاںکا وقت ان کے ساتھ گپ شپ میں اچھا گزرجائے گا۔
جاذب قریشی اورعابد حسین کا یارانہ بہت پرانا تھا۔ گزشتہ کئی سال سے وہ بیرون ملک رہائش پذیر تھا اور ہر سال پاکستان آنے پرعابد حسین سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔

’’راشد بیٹا کوئی خاص پکوان بنا لو ، ارے میٹھا تو وہ کھائے گا نہیں ذیابطیس کا مریض ہے ‘‘۔
’’بابا جان ! آپکوچکن تکہ کھلاتا ہوں ‘‘۔
’’ارے واہ !تم تو بہت ہوشیار ہو ‘‘۔
انہوں نے اُسے شاباش دی ۔’’ بس نمک اپنی مرضی کا نہ ڈالنا ۔میری ضرورت کے مطابق ڈالنا ‘‘۔
’’جی بہتر‘‘
عابد حسین نے لائونج سے باہر نکل کر برآمدے سے فضا اور حالات کا جائزہ لیا ۔اندھیرے میں آسمان تو نظر نہ آرہا تھا ۔ہلکے بلب کی مدھم روشنی میں صحن دُھلا دُھلا لگ رہا تھا ۔ چھوٹے سے لان میں پانی بھرا ہوا تھا ۔ پتوں سے پانی ٹپکنے کی آوازیں بھلی لگ رہی تھیں۔ گملوں کے پودے سخت بارش کی مار کھا کرجیسے تھکے تھکے سے لگ رہے تھے ۔ برآمدے میں کیچڑ ہورہا تھا۔ مجموعی طور پر فضا میں خنکی اور تازگی کا احساس نمایاں تھا ۔ انہوں نے لمبی لمبی سانس لے کر اپنے اندراس تازگی کو اتارا۔
ماضی کی پگ ڈنڈی پر سوچوں کو رواں رکھنے سے وہ نہ روک سکے … موسم ، بارش،خوشبو کے ساتھ سوچوں کا رشتہ ایسا جڑا ہوتا ہے کہ انسان ہلکے سے احساس سے اسی دور میں پہنچ جاتا ہے ۔ وہ بارش کا دن جو ابھی ان کو یادآرہا تھا ۔ وہ یادیں جس کے ساتھ باطنی کیفیت جڑی تھی ۔ انہوں نے سوچا وہ روشنی کی کرن کہاں سے آئی ؟ وہ کسی کی دُعا بھی ہوسکتی ہے ان کی اپنی کوئی نیکی یا ماں باپ کی نیک کمائی خلوص و محبت اور تربیت کا نتیجہ… سالوں گھپ اندھیرے میں چھپی نورانی سوچ … ایک دن کے ایک پہر میں چند گھنٹوں… بلکہ گھنٹے کے کچھ حصے میں کسی کے چند جملوں سے ابھر کر باہر آگئی ۔من میں ایسی ہلچل مچائی کہ وہ ایک جذبے کے اسیر ہوکر رہ گئے ۔ وہی جذبہ ان کے ایمان کو تپش دیتا اور گزرے وقت کے بارے میں خلش کا سامان کرتا رہتا ہے ۔ کبھی بھول بھی جاتے مگر موسم ، خوشبو، رنگوں سے جڑی یادیں اور احساسات ان کرنوںکی طرح ہوتے ہیں جوبند روشن دان کی ننھی سی درز سے اپنے موجود ہونے کا یقین دلانے لگتے ہیں ۔
اُس دن طوفانی بارش میں دفتر سے گھر تک پہنچنا اک کارے دارد تھا ۔ دفتر سے نکلتے وقت اندازہ نہ تھا کہ بارش اس قدر جلدی اتنی تیز ہو جائے گی راستے میں ہی گاڑی خراب ہو گئی۔ جاذب کاملنا بھی ان واقعات میں سے تھا جن پرانسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اپنی گاڑی وہیں چھوڑ کر وہ جاذب کے ساتھ چل پڑے جس نے مدد کی پیش کش کی تھی …جاذب نے بتایا وہ پریس کلب جارہا ہے جہاں فاروق فارانی صاحب کا لیکچر ہے مجبوراًان کو بھی ساتھ جانا پڑا۔
پریس کلب کی عمارت کے اندر لوگ کافی تعداد میں داخل ہورہے تھے … گیلے جوتو ںنچڑتے کپڑوں کے نشان دم بدم فرش کو گیلا کررہے تھے ۔آج برآمدے میں کھڑے عابد حسین نے ان چہروں کوسوچا توایک آہ سی سینے سے نکلی ۔ دوستوں کے حلقے سے ایک ایک کر کے اپنی باری کے اسٹیشن آنے پر زندگی کی گاڑی سے اترتے جارہے ہیں ۔ کون ۔ کہاں کب کس کو چھوڑ جائے گا کوئی نہیں جانتا … گزشتہ زندگی کو سوچنے لگو تو ساری عمر ایسے گزر جاتی ہے جیسے برآمدے میں کوئی ایک چکر یہاں سے وہاں لگا لے واقعی گزرا وقت تھوڑا اورگزرتا ہوا وقت طویل لگتا ہے ۔ انہوں نے خود کلامی کی۔ ان کو محسوس ہوا وہ جاذب قریشی کا بہت دیر سے انتظار کررہے ہیں ان کو وہ دن پھر سے یاد کی تختی پر نمایاں نظر آنے لگا جب جاذب ان کو بغیر انتظار کے مل گیا تھا ۔
پریس کلب میں افرا تفری ، آوازیں ، لوگوںکی چلت پھرت جاری و ساری تھی… ہال کے اندر سب کا داخلہ ہلکی سی چیکنگ کے بعد ہورہا تھا … دونوں نے جا کر کرسیوں پر خود کو گرا دیا ۔ عجیب بھیگا بھیگا سا ماحول تھا ۔ پنکھوں کی ہوا گیلے کپڑوں پہ جھرجھری سی لا رہی تھی ۔ عابد حسین آئے نہیں لائے گئے تھے ، مجبوراً آناپڑا تھا ، ان کو اس ماحول سے

کوئی انسیت محسوس نہ ہورہی تھی۔
’’فاروق فارانی ‘ ‘ کا تعارف انہوں نے بے دلی اور دھیان دئیے بغیر سنا ۔لیکچر علامہ اقبال کے فکرو فلسفہ پر تھا ۔ ہال میں لوگوں کی آوازیں آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں اور پھر ’’ سوئی گرنے کی آواز ‘‘ والی کیفیت میں فاروق فارانی کی آواز نے سب کے دھیان ،دماغ اور دل بھی اپنے سحر میں جکڑ لیے۔
عابد حسین کی توجہ تو اس قصہ کے سحر میں جکڑی گئی جب انہوں نے بتایا ، علامہ اقبالؒکے والد ؒ کو اپنے بارے میں فکر تھی کہ ان سے پوچھا جائے گا انہوں نے بیٹے کی کس طرح تربیت کی اور اس کی اُٹھان و پرورش کیسی کی ؟ فارسی شعر تو ان کی سمجھ میں نہ آئے ۔ جب فاروق فارانی نے یہ کہا کہ :۔
’’ہم سب اپنے اپنے بچوں کے بارے میں غور کریں ، تصور کریں کہ حضور اکرمؐہم سے باز پرس کررہے ہیں کہ یہ معصوم جان تمہارے سپرد کی گئی تھی تم نے اس کو کیسا پروان چڑھایا تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا ؟‘‘
عابد حسین کی نظروں میں اپنے چاروں بیٹے گھوم گئے ۔ انہوں نے اس نظر سے کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ امانت ہے جو اللہ کے حضور لوٹانی اور حضور اکرم ؐ سے اس کارنامے کی داد حاصل کرنا ہے ۔دنیاوی لحاظ سے کامیاب راہوں پر گامزن تہذیب و شائستگی سے مزین ایک مشینی نظام کے کل پُرزے بنے ہوئے چاروں بیٹوں میں وہ کوئی ایسی جھلک نہ پا سکے جو ان کو حضورؐ کے سامنے سر خرو کر سکے۔
انہوں نے عجیب بے کلی سی محسوس کی جیسے بیٹے ان کے خلاف مدعی ہونے جارہے ہیں۔
فاروق فارانی کیا کہہ رہے ہیں ان کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ وہ تو حضوراکرمؐ کے قدموں میں اپنے بیٹوں کے بارے میں سوال و جواب کے تصور سے ہوش گم کئے بیٹھے تھے ۔ یہ لمحہ جاذبیت ، گہرائی ، گیرائی کا قیمتی لمحہ تھا … جیسے خالی سیپ میں موتی آن براجا ہو… دل کا آئینہ اُجلا ہوکر اس میں کوئی نئی شخصیت نظر آرہی ہو۔گزرے لمحوں کی شرمندگی نے ادر برسات سی کر رکھی تھی آنکھوں میں اس برسات کے اثرات نمایاں ہونے لگے تھے ۔ وہ گزشتہ زندگی کاکوئی لمحہ تلاشنے میں لگے رہے جس کو سہارا بناکر وہ اُس دن کی شرمندگی سے بچ سکیں ۔ لیکن کوئی دن ، کوئی راستہ کوئی لمحہ ایسا ان کے کاسۂ زندگی میں نہ ملا … یہ تلاش ناکام رہی تو بے اختیار ان کی آہ نکل گئی جیسے طویل سفرایک سراب کی خاطر طے کر کے تھک گئے ہوں۔ عمر بھر کی کمائی کھوٹے سکوں کی صورت میں نظر آرہی تھی۔ بیٹے … وہ بھی چار بیٹے … کسی کو بھی انہوں نے اپنی فلاح کا ذریعہ نہ بنایا… سرمایہ بھی لگ چکا ، ہمت وطاقت بھی سلب ہو گئی ۔ لق و دق صحرا میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیںانہوں نے اپنے پیاسے ہونٹوں پہ لاشعوری طور پر زبان پھیری ، بے چینی سے پہلو بدلا ۔
فاروق فارانی کا مسحور کن لب و لہجہ ہال میں گونج رہا تھا…
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
میرے خیال میں ہم خود کو تلاش کرنے میںناکام ہیں ۔اس کی وجہ کیا ہے ؟ اقبال کی زبان میں اس کا جواب ہے؎
ترا تن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
عابد حسین ! تو نے روحِ زندہ والے بیٹے نہیں پالے وہ تو بس من و توش ہیں … انہوں نے خود کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔
اور اپنا وجود ؟ پت جھڑ کی زد میں ہونے کو ہے عمر کا شجر… مدت سے دل میں ایسا عہد خزاں چل رہا تھا جیسے برگ و بار سے کوئی واسط نہ ہو۔ عابد حسین کے نہاں خانہ دل سے ایک آہ دُعا بن کر نکلی ۔

’’میرے مولا ، میرے دل کی خزاں کو بہار میں بدل دے ‘‘
شاید یہ قبولیت کا لمحہ تھا کہ عابد حسین کی روح جھوم اٹھی۔
مقرر بھی کسی روح کا تذکرہ کررہا تھا۔
؎ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی۔
’’نکتۂ آغاز ہی نکتۂ انجام ہوتا ہے … جیسا بیج ڈالو گے ویسا شجر ہوگا ۔ و ہ پہلی آواز ، پہلی پکار ، پہلا پیغام … احساس ذمہ داری کا وعدہ اپنے بچوں کے کانوں میں مکمل مومنانہ روح کے ساتھ ڈالا جائے تو شاید سمت درست مل جائے ۔ بس رسم ہے جوادا کردی جاتی ہے کہاں ہیں وہ دیوانے جواللہ کی بڑائی کاترانہ روح بلالی کے ساتھ نومولود بچوں کے کانوں میں اتارتے ہوں؟‘‘
ایک جذب کے عالم میں فاروق فارانی دلوں کے تار ہلا رہے تھے …’’ کیا آپ میں سے کسی نے روح بلالی سے آشنائی حاصل کی؟‘‘
عابد حسین کی طرح بہت سے لوگوں نے سوچا توان کو یہ بھی یاد نہ آیا کہ ان کے بچوں کے کانوں میں پہلی اذان کس نے دی … کس جذبہ کے تحت دی ؟ کچھ کو تو یہ بھی یاد نہ آیا کہ اذان دی بھی گئی یا نہیں !
احساسِ محرومی نے ان کو نڈھال سا کر دیا ۔ عابد حسین نے خود کو خالی دامن پایا ۔
ہال سے کیسے ، کب نکلے ، جاذب نے ان کو کب گھر چھوڑا یہ سب کچھ ان کے حافظے میں نہیں تھا۔ وہ کسی اوردنیا میں تھے جہاں پہلی اذان، روح بلالی ، نکتۂ آغاز ، حضور ؐ کے سامنے پیشی کا احساس … تازیانے برسا رہا تھا۔
گھر آکر وہ اپنی سابقہ زندگی کے اطوار ، اصول و قواعد کامیابیوں کے ہر گُر کی نفی کرتے رہے ۔ ان کے بیٹے تو ان پرندوں کی طرح آزاد فضائوں میں دور جاچکے تھے۔جن کے پنجرے کا دروازہ کھول دیا گیا ہو۔ آزاد کردہ پنچھی کب واپس آتے ہیں۔
ساری رات خون جگر سے اشک پیازی ہوتے رہتے ۔ اس امید پر کہ کاش وقت ِ سحر کا نالہ آسمانوں کے سارے دروازے کھلواتا ہوا منزلِ مراد تک پہنچ جائے ۔ فجرکی نماز میں سوز جگر اور بڑھ گیا … اورچند لمحوںمیں جب وہ سجدے میں تھے تو ایسا واقعہ پیش آیا کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔محلہ میں انکے پرانے ساتھی انوار الحق انکے ساتھ ہی نماز ادا کررہے تھے کہ نماز کے دوران بے ہوش ہوکر گر پڑے نمازیوں نے جلد ازجلد ان کو قریبی ہسپتال میں پہنچایا ۔ ساتھ عابد حسین بھی تھے ۔ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میںان کورکھا گیا ۔ باقی لوگ گھروں کو چلے گئے عابد حسین انتظار گاہ میں بیٹھ گئے ۔ کل سے جوکچھ ظاہری آنکھ کے ساتھ ہورہا تھا وہ تو تھا ہی ، دیدہ دل کے اشکوں کو صرف وہی جان سکتے تھے ۔ تپش اور خلش دونوں جذبے انسان کی روح کو تازہ دم رکھتے ہیں ۔ آج روح کی آبیاری کا موسم عروج پر تھا۔
’’کاش… اے کاش… کوئی ہنر ، کوئی موقع مل جائے جس کوسندِ قبولیت کاجواز بناکر دنیا سے رخصت ہو سکیں ‘‘۔ شدتِ کرب کے ساتھ انہوں نے رب سے التجا کی۔
انتظار گاہ میں ان کے سامنے ایک نوجوان انتہائی اضطراب کے عالم میں کبھی ٹہلنے لگتا کبھی بیٹھ جاتا ۔ کبھی ہاتھ ملتا اورکبھی استقبالیہ پر جاکر کچھ بات چیت کی کوشش کرتا ۔ عابد حسین نے اس کا سرسری سا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں انوار الحق کی صحت یابی کی دُعا کرنے لگے تھوڑی دیر بعد ایک نرس نے باہر آکر اس نوجوان کو بیٹے کی خوشخبری سنائی تو فرطِ انبساط سے وہ نوجوان پاس کھڑے عابد حسین ہی کے گلے لگ گیا ۔’’ میرا بیٹا ‘‘ آگیا ۔عابد حسین نے اس کو مبارک باد دی ۔ بات چیت سے معلوم ہوا کہ وہ اس شہر میں اجنبی ہے ، دو ہفتے پہلے اس کا ٹرانسفر ہوا ہے … اس کا بچہ بھی ڈاکٹرکے دئیے ہوئے وقت سے کچھ پہلے دنیا میںآگیاہے…
اسی اثناء میں نرس نے نوجوان کوبچہ دیکھنے کی اجازت دی … عابد حسین نے کچھ سوچا اور نوجوان سے پوچھا۔
’’کیا میںبھی دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

’’جی ہاں، کیوں نہیں ضرور، ضرور ‘‘ نوجوان خوشی سے بے حال ہوا جارہا تھا۔
دونوں نرسری میں پہنچے ۔نرس نے بچہ نوجوان کوپکڑادیا۔ بچے کو دیکھ کرنوجوان فرط محبت سے رونے ہی لگ گیا ۔ نرس نے ساتھ ہی کچھ دوائیاں لانے کو کہا اور کاغذ ہاتھ میں تھما کر باہرچلی گئی۔
نوجوان نے بے اختیار بچہ عابد حسین کے حوالے کیااور خود دوائیاں لینے چلا گیا ۔
وہ ننھا سا ، گلابی سا وجود، نئی زندگی ، پہلی پکار ، روح بلالی… عابد حسین کے ذہن میں برق سی دوڑی اورجیسے دل کے تار پھرسے ارتعاش میں آگئے اور اس سے پہلے کہ نوجوان واپس آتا وہ اس ننھی سی جان کے کانوں میں آبِ حیات انڈیل چکے تھے ۔ وہ سارا سوز جگر جو کل سے ان کو تپش دے رہا تھا اس پر ٹھنڈک اور سکون کا مرہم رکھا گیا ۔
’’میرے رب!اس روح بلالی کی لاج رکھ لینا‘‘ ۔ انہوں نے درخواست بھی ساتھ ہی پیش کردی۔
جب وہ اس عمل میں مصروف تھے توانہوں نے دیکھا کہ نو موجود کے دائیں کان پر پیدائشی سیاہ رنگ کا نشان ہے ، کان کا نصف حصہ بالکل جدا رنگ کا ہے …
چند منٹ بعد نرسری پر مامور نرس نے آکر بچے کو ان سے واپس لے لیا اور وہ انوار الحق کے بارے میں خبرلینے استقبالہ پر کھڑے ہوگئے۔
انوار الحق کو دل کا درہ پڑا تھا ۔ اگلے دو دن سخت تشویشناک تھے ۔ ان کے گھر والے بھی خبر لینے آچکے تھے ۔ ان کے آنے پر عابد حسین ہسپتال سے باہر جارہے تھے کہ وہی نوجوان مل گیا ۔انہوںنے اس کو اپنی طرف سے ہر طرح کے تعاون اور مدد کی پیشکش کی ۔
اُس کے دونوںہاتھ میں کچھ سامان تھا ، وہ نیچے رکھ کر اُس نے عابد حسین سے ہاتھ ملایا اور پھر جھک کر سامان اٹھانے لگا تو ان کی نظر نوجوان کے سینے پر پڑی قمیض کے اندر گلے میں صلیب لٹکتی دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو گئے اور لرزہ سا طاری ہو گیا ۔ انہوں نے جاتے نوجوان کو مڑ کر دیکھا اور بے جان ٹانگوں سے گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھے۔
’’یا اللہ! وہ آب حیات میں نے کہاںانڈیل دیا … اُس برتن میں جس کے پیندے میں سوراخ تھا‘‘۔ شاید اس نے فیشن کے طور پر… مگر مسلمان ابھی اتنے گئے گزرے نہیں کہ وہ گلے میں صلیب لٹکانے لگیں … اپنی تسلی کی خاطر یہ سوچتے ہوئے وہ دوبارہ استقبالہ تک پہنچے حالت ایسی تھی کہ بس بیان سے باہر …
وہ ابھی جس نوجوان کے بیٹا پیدا ہوا ہے اس کا نام کیا ہے ؟
’’اکرم مسیح‘‘
اور ان کو اپنی بے بسی پہ رونا آنے لگا ۔ جذب و شوق ، سوزدروں کے ساتھ یہ سلوک؟ انہوں نے سوچا ابھی مجھ میں بے حدو حساب خلا ہے ۔ میں موسیٰ نہیںہوں کہ آگ لینے جائوں تو پیغمبری ملے جائے ۔ ابھی دل کے داغ اتنے گہرے نہیں ہیں کہ چاند شرمانے لگے۔
آج پھر بارش کے بعد ساری کہانی دہرا کے انہوں نے وہی دُعا مانگی ’’ اے اللہ! کوئی تو عمل ایسا کروا دے جو سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے پہلے مطمئن کر سکے ‘‘۔باورچی خانے سے تکّوں کی اشتہا انگیز خوشبو باہر تک آرہی تھی ۔ برآمدے میں ٹہلتے ٹہلتے انہو ں نے پندرہ سال پہلے کا قصہ دہرا لیا ۔جاذب ابھی تک نہیں آیا انہوں نے گھڑی دیکھی … اور اُسی وقت باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔
راشد نے آکر گیٹ کھولا ، بارش کی ’’باقیات‘‘ سے لبریز گاڑی اندر داخل ہوئی ، کیچڑ کے چھینٹوں سے گاڑی انتہائی مضحکہ خیزشکل میں نظر آرہی تھی،
’’یار ، بہت دیر لگا دی ‘‘
’’کہاں دیر لگائی ہے ۔لگتا ہے انتظار شدید تھا‘‘
جاذب نے گلے ملتے ہوئے وضاحت طلب کی ۔
دونوںڈرائینگ روم میں جا بیٹھے اور پھر باتیں ۔ تبصرے تذکرے ، کھانے سے پہلے، کھانے کے دوران اور بعد میں بھی چلتے رہے۔ ملکی ، غیرملکی ، بین الاقوامی سیاست ، معیشت ثقافت ، سیاحت کچھ

بھی تونہ چھوڑا انہوں نے … رات بہت گزر گئی توسونے سے پہلے عابد حسین نے پوچھا
’’کل کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’فاروق فارانی ‘‘ کے گھر جاناہے ۔ ظہر کی نماز ان کی مسجد میں ادا کروں گا انشاء اللہ۔
’’اچھا ؟؟ ‘‘ آواز میں محبت بھرا اشتیاق شامل تھا۔
’’میں نے بھی جانا ہے ‘‘ بچوں کی سی معصومیت سے کہا گیا۔
’’چلے چلنا ‘‘ جاذب نے نارمل لہجہ میں کہا ، وہ نہیں جانتا تھا کہ فاروق فارانی سے ان کے دل کا رشتہ جڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ بھی وہ خود ہی تھا۔
رات کی بارش کے بعد سورج کا منہ دُھلاہوا لگ رہا تھا ۔ فضا بھی نکھری نکھری سی تھی لیکن سڑکوں ، راستوں ، گلیوں میں گندا پانی ،کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بدبو پھیلا رہے تھے ۔ دونوںکے چہروں پر تاسف اور ناگواری کے اثرات نمایاں تھے ۔ دونوں میں وہی کچھ تبادلہ خیال ہوتارہا جو ایسے مناظر دیکھ کر ہوناچاہیے۔ باتوں میں راستے کی طوالت کا پتہ ہی نہ چلا اور وہ’’مہر ٹائون ‘‘کے ایک گھر کے سامنے جا رُکے گھر کے باہر دو تین اور گاڑیاں بھی کھڑی تھیں۔
’’اِن سے ملاقاتوں کا تانتا بندھا رہتا ہے‘‘ چار جاتے ہیں تو دو آتے ہیں ‘‘… گاڑی سے نکلتے ہوئے جاذب نے بتایا ۔
’’ہاں! بڑے لوگوں سے محبت اور عقیدت ہوتی ہے نا!‘‘ عابد حسین نے بھی مؤدبانہ لہجہ میں جواب دیا ۔
انہوںنے سوچا ادب و احترام میں اضافہ ، عمر کی وجہ سے نہیں علم و عمل کا مرہون منت ہے ۔ ’’فاروق فارانی ‘‘ عمر میں ہم سے کہیں کم ہے مگر خلق خدا میں ان کی عزت کرنے والے ہم جیسے بوڑھے بھی ہیں۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے وہ سامنے والے کمرے میں جا پہنچے جس کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا تھا ۔
دونوں نے سلام کیا اور دیوار کے ساتھ ساتھ لگی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔وہاں پہلے سے موجود لوگوں کی توجہ سے بات سنتے ہوئے فاروق فارانی تھے ،جن کے چہرے پر اب بھی وہی نورانی کشش تھی صرف داڑھی کے بال مکمل سفید ہو چکے تھے ، سر پہ عمامہ تھا… کافی عرصہ ملک سے باہر رہ کر پاکستان واپس آئے تھے ۔ عابد حسین نے اس دن کے بعد ان کے تذکرے سنے تھے ، بالمشافہ ملاقات کبھی نہ ہوئی تھی۔ ابھی لوگوں کی گفتگو جاری تھی کہ چند اور لوگ آگئے ۔ پھر ایسا لگا کہ شاید کوئی تقریب ہونے والی ہے ۔ کچھ گہما گہمی کے آثار لگنے لگے ۔ آہستہ آہستہ کمرے میں رکھی کرسیاں ملاقاتیوں سے پُر ہو گئیں۔ ’’فاروق فارانی ‘‘ کے سامنے مائیک رکھ دیا گیا ۔ ایک نو عمر بچہ ان کے ساتھ بٹھایا گیااوراُس کے ساتھ ایک اور صاحب، دونوں باپ ، بیٹا لگتے تھے ۔ سب حاضرین خاموش تھے کہ ’’فاروق فارانی ‘‘ کی حمدو ثنا کے ساتھ آواز گونجی اور پھر انہوں نے بتایا کہ آج کا مبارک دن ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ امت مسلمہ میں ایک اور خاندان کا اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ سب نے زیر لب سبحان اللہ کہا، کسی نے اللہ اکبر کہا۔
بچے کے ساتھ بیٹھے ہوئے صاحب کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ بھراّئے لہجے میں وہ شخص بولا:
’’میرا ایک ہی بیٹا ہے ۔ وہ عجیب مزاج لے کر آیا تھا شروع دن سے … ہمیں اپنے بیٹے سے محبت نہیں عشق تھا ۔ اُس کی عادتیں عام بچوں سے بہت مختلف تھیں ۔ وہ اذان کی آواز پہ اتنی توجہ دیتا تھا کہ ہم حیران ہوتے تھے ، ماں کی گودمیں ہی تھا جب ہم کہتے تھے اس میں کسی مسلمان کی روح حلول کر گئی ہے ۔‘‘
چند جملے بولنے کے بعد ان صاحب کا اعتماد بحال ہونے لگا ،
’’میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا ، اللہ تعالیٰ کی مہر بانی ہے کہ اُس نے ہمیں اس طرح کا بچہ عطا فرمایا اور اس کے ذریعہ سے ہمیں صراط مستقیم نصیب ہو ئی ۔ آپ سب ہمارے لیے دُعا کریں۔‘‘
سب لوگ ہمہ تن گوش ہوکر سن رہے تھے۔
’’اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے ‘‘۔ کچھ آوازیں آئیں باقیوںنے آمین کہا ۔پھر بچے سے فاروق فارانی نے پوچھا۔
آپ نے کیسے اسلام کی طرف رجوع کیا ؟

نوعمر بچہ دبلا پتلا لمبے قد کا تھا ۔ مگراعتماد سے بھرپور لہجہ توانا تھا ۔
’’مجھے مسجد سے آئی اذان کی آواز، مسجدمیں جاتے لوگ بہت بھلے لگتے تھے ۔ میں نمازیوں کوبا جماعت نماز ادا کرتے دیکھ کر اپنے دل میں بہت ساری خوشی محسوس کرتا تھا ۔ میں نے لائبریریوں میں جاکر ، سینٹر پر اسلام اور آخری نبیؐکے بارے میں بہت پڑھا، اپنے والدین کو بھی ساتھ ساتھ پڑھوایا ۔ اللہ تعالیٰ کی مہر بانی ہے کہ اُس نے ہمیں ہدایت کا نور بخشا‘‘۔
سب لوگ رشک بھری نگاہوں سے اس بچے کو دیکھ رہے تھے ۔
’’فاروق فارانی ‘‘ نے باری باری سب کے سامنے دونوں سے کلمہ شہادت ادا کروایااور دونوںکے نام رکھے ۔
یہ ’’اکرم مسیح‘‘ سے آج ’’محمد اکرم‘‘ ہو گئے ہیں …‘‘
عابد حسین کی سماعتیں وہیںجم کر رہ گئیں کانوں میں استقبالیہ پہ بیٹھے شخص کی آواز گونجی ’’اکرم مسیح ‘‘
ان کا دل اتنی زور سے دھڑکا گویا کہ سینے سے باہر آجائے گا ۔
اکرم اور اس کے بیٹے محمد بلال دونوں کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے ۔ عابد حسین آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں کو دیکھنے لگے، یکدم ہی انہوں نے اکرم مسیح کو پہچان لیا ۔’’ وہی ہے ،وہی ہے ‘‘جیسے آرشمیدس نے ’’پا لیا … پا لیا ‘‘ کانعرہ لگایا تھا ۔ یہاں یہ فرق تھا کہ انہوں نے اپنے دل کی آواز صرف خود ہی سنی۔
ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ چہرہ مارے خوشی کے تمتمانے لگا۔ اٹھنے کی سکت نہ تھی ایک دم ان کو بچے کا کان یاد آیا ۔ مگر وہ تو عمامہ ایسے باندھے تھا کہ کان کا اوپر والا حصہ چھپا ہوا تھا ۔ کیسے دیکھوں؟ کس سے پوچھوں؟
ان کی حالت ایسی تھی جیسے جامِ کوثر لبوں کے قریب آکر چھوٹنے کا خدشہ ہو۔
کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جس کے ہونے میں انسان کا نہ ارادہ ہوتا ہے نہ کوشش نہ نیت ۔ یہ وہی افعال ہیں جن پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا!
دُعائے استقامت کے بعد مبارک بادیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو عابد حسین نے جاذب کاہاتھ پکڑا اور بچے کے پاس گئے ۔ وہ بچہ پہلے جس شخص سے مل رہا تھااسکا ہاتھ لگنے سے عمامہ ٹیڑھا ہوگیا ۔ عابد حسین نے دیکھا بچے کے دائیں کان کا اوپر والا حصہ پیدائشی کالے نشان سے مزین ہے … ان کا دل سینے میں زور سے دھڑکا … اور پھر شاید دھڑکنا بھول گیا ۔
سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے سے پہلے مطمئن ہو جانے کی دُعا قبول ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1.5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x