ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عورت کا گھر – بتول دسمبر ۲۰۲۱

گھر ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان بے فکری سے اپنا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزارتا ہے، گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گھر کوئی لگی بندھی، متعین شکل کی عمارت کا نام نہیں۔ چار دیواری اور چھت کے ساتھ ایک دروازہ ہو تو وہ بھی گھر کہلا سکتا ہے۔ چھت گھاس پھونس کی ہو، دیواریں کپڑے کی ہوں اور ٹاٹ کا ٹکڑا دروازے کا کام دیتا ہو تو وہ بھی گھر ہی ہے۔ کسی بھی جگہ پہ چھوٹا یا بڑا مکان بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے مکین اس مکان کو گھر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مرد اپنے گھر کا مالک و حاکم ہوتا ہے، اور یہ بات معاشرے میں معروف ہے کہ عورت باپ کے گھر میں رہتی ہے، شادی کے بعد وہ شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔ اور اگر باپ اور شوہر نہ رہیں تو وہ بھائی کے گھر میں رہتی ہے۔ جب بیٹے بڑے ہو جائیں تو وہ بیٹے کے گھر میں رہتی ہے۔ عوام الناس (الا ماشاءاللہ) کے رویے یہ تاثر دیتے ہیں کہ
’’عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا‘‘۔
بے شک مرد کے سربراہ ہونے کا تاثر بالکل درست ہے۔ یقیناً مرد ہی عورت کا ’’قوام‘‘ ہے۔ عورت کسی بھی مرحلے یا حالات سے گزر رہی ہو، محرم مرد کے سایہ شفقت و محبت اور تعظیم کے قلعہ میں رہتی ہے۔ یہ احساسِ تحفظ عورت کو بہت سے مسائل سے بچاتا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں عورت کو گھر کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس کیوں رہتا ہے؟
اور’’اپنے گھر‘‘کی خواہش اس کے دل میں کیوں رہتی ہے؟
ملکیت کا احساس وہ جذبہ ہے جو دو سالہ بچے کو بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی عمر کے مطابق اپنی چیزوں کے مالک ہونے کا احساس رکھتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ بھی اپنی شکل بدلتا رہتا ہے۔
لڑکے مرد بن جاتے ہیں تو ان کے خواب فطرتاً الگ ہوتے ہیں۔ لڑکی گڑیوں سے کھیلتے کھیلتے’’اپنے گھر‘‘ کے خواب دیکھنے لگتی ہے۔شادی سے پہلے وہ یہی سنتی ہے کہ تمہارا ’’اصلی گھر‘‘ شادی کے بعد والا ہے وہیں جا کر اپنی مرضیاں کرنا، یہاں سے تم نے کبھی نہ کبھی رخصت ہونا ہے۔مگر عموماً شادی کے بعد اس کے خوابوں کے محل دھڑام سے گر جاتے ہیں کیونکہ وہاں اس کی اپنی مرضی نہیں چل سکتی۔ وہاں اس کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ:
’’یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے کہ اپنی مرضیاں کرتی پھرو‘‘۔
مائیں اپنے تجربات کی روشنی میں بیٹیوں کے لیے ایسے رشتے تلاش کرتی ہیں جہاں بیٹی کلی طور پہ خود مختار اور آزاد ہو۔ اگر کسی کو مشترکہ گھرانے کے ساتھ رہنے کا موقع ملے تو مائیں ان سے بھی چھٹکارا دلانا چاہتی ہیں۔ اور لڑکی بھی خود کو قید و بند میں مبتلا سمجھتی ہے اور ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شادی سے پہلے لڑکی کا ذہن’’اپنے گھر جا کر اپنی مرضی کرنا‘‘ بنانا درست ہے؟کیا والدین کا گھر اس کا گھر نہیں ہوتا؟
یہ نکتہٴ تربیت یقیناً نیک نیتی سے ہی کارفرما ہوتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں حقوق و فرائض، باہمی تعلقات کے معاملات، افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
بحیثیتِ انسان، سب اگر آزاد ہیں تو معاشرے کے امن وامان کا تعلق رواداری سے منسلک ہے۔ رواداری کا مطلب ہے سب کے ساتھ مل جل کر رہنا اور دوسرے کے جذبات اور حقوق کو بھی روا سمجھنا۔ اور سب مسلمان بہر طور اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہر فرد نے اپنے اچھے

یا برے رویے اور عمل کا اللہ رب العالمین کو جواب دینا ہے۔ اور ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے’’رہن‘‘ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کو اس لیے بنایا کہ وہ جانچے کہ کون سب سے زیادہ اچھے عمل کر کے دکھاتا ہے۔ ایک ہی مکان، ادارے، شہر یا ملک میں رہنے والوں میں ’’فاستبقوا الخیرات‘‘ کا چیلنج ہے۔
جیسا کہ ایک ملک، جغرافیائی طور پہ ہر شہری کا برابر ملک ہے۔ اسی طرح ایک مکان میں رہنے والے یکساں طور پہ اس گھر کو’’اپنا گھر‘‘ ہی کہتے ہیں۔ لیکن قانونی طور پہ وہ کسی ایک یا ایک سے زائد افراد کی ملکیت ہوسکتا ہے۔ گھر کے ہر فرد کے نام سے گھر کا رجسٹرڈ ہونا لازمی نہیں وہ کرائے کا مکان بھی ہو سکتا ہے۔ مکان پہ نام کی تختی بے شک کسی ایک فرد کی لگی ہو، مگر اس گھر میں رہنے والے، کرائے دار ہونے کے باوجود اس کو’’یہ میرا گھر ہے‘‘ کہہ کر ہی متعارف کرواتے ہیں۔ وہ ایک بچے کا گھر بھی ہے اور بڑے کا بھی؛ اور گھر کے ہر مکین کے دوست احباب کی نظر میں وہ گھر، ان کے دوست کا ہے۔
گھر میں رہنے والے سب افراد کے جذبات و احساسات اور یادیں اسی گھر سے جڑی ہوتی ہیں۔گھر میں رہنے والے افراد اپنے اس گھر کو سکون و عافیت کا گہوارہ بنانے میں جس قدر حصہ ڈالتے ہیں انہیں اس گھر سے لگاؤ بھی اسی قدر ہوتا ہے۔ اور سب اسی کو سراہتے ہیں، اس کی حوصلہ افزائی، کرتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے عورت کو گھر گرہستی کی طرف فطرتاً راغب کیا ہے، مکان کو گھر بنانے کے لیے عورت کی موجودگی ضروری ہے اور اس کے حسن سلیقہ کا ہی اعجاز ہے کہ عورت مکان کے مکینوں، اور تعلق داروں میں الفت و محبت اور باہم رابطوں کا باعث بنتی ہے۔ اور یہی حسن معاشرت، عورت کے شایان شان ہے۔
یہ ضروری نہیں کسی مکان کی رجسٹری بیوی کے نام ہو(یہاں بیوی سے مراد ساس اور بہو دونوں ہیں)۔ گھر سے جذباتی تعلق عورتوں کا ہی ہوتا ہے۔ وہ اینٹ گارے سے بنی عمارت میں جان ڈال دینے والی ہوتی ہیں۔ محبت و الفت، سکون کا گہوارہ انہی کے دم سے بنتا ہے۔ مرد باہر کے جھمیلوں سے نبرد آزما ہو کر اسی پناہ گاہ میں آتے ہیں۔ عورت اس گھر کی چار دیواری میں مرد کی حفاظت میں رہتی ہے۔ گھر ہمیشہ ایک دوسرے کی رفاقت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہر شوہر اپنی بیوی کو میری’’گھر والی‘‘ اور ہر عورت شوہر کو میرا ’’گھر والا‘‘کہتی ہے۔
گھر سے فطری لگاؤ اور اس کی منتظمہ ہو نے کے باعث اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں جہاں بھی گھر اور عورت کا ذکر کیا تو گھر کو عورت سے منسوب فرمایا ہے۔ خوشگوار حالات نہ بھی ہوں تو بھی اس کی گھر کے ساتھ جذباتی وابستگی کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے گھر کی نسبت عورت کی طرف کیوں کی حالانکہ وہ عموماً مرد کی ملکیت ہوتا ہے؟
اس لیے کہ گھر سے عورت کا فطری اور جذباتی تعلق ہے۔ اور اللہ الخالق نے اپنی اس مخلوق کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے گھر کو اسی سے منسوب فرمایا اور بے شک اپنے بندوں کے جذبات و احساسات کو جس رب نے پیدا کیا ہے وہی بہتر جان سکتا ہے۔ اسی لیے اس نے عورت کے جذبات کی رعایت کی ہے اور اسے اہمیت، احترام اور عزت کے بڑے حصے سے نوازا ہے۔
شادی کے بعد مکان کے متعلق عورت کے ذہن میں ملکیت کا احساس ہونا فطرت کے عین مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون اس فطرت کو جان سکتا ہے؟اللہ تعالیٰ نے خواتین کو گھر میں رہنے کی تاکید کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ اپنے شوہروں یا باپوں کے گھر میں قرار سے رہو، بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور‘‘اپنے گھروں’’ میں قرار سے رہو اور جاہلیت والا بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو‘‘ (الاحزاب: 33 )
اللہ تعالی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی قابلِ احترام خواتین سے مخاطب ہیں تو فرماتے ہیں:
’’اور (اے نبی کی بیویو!) تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو‘‘( الاحزاب: 34)
کیا یہ گھر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نہیں تھے؟ لیکن ان گھروں

کی نسبت ازواج مطہرات کی طرف کی گئی۔
اور جب علیحدگی اور طلاق کے احکامات سکھائے جاتے ہیں تو بھی اس گھر کو عورت سے منسوب رکھا جب تک کہ معاملات انجام تک نہ پہنچ جائیں۔
حتیٰ کہ شدید اختلاف کے موقع پہ جبکہ معاملہ انتہائی سنگین ہوجائے اور بات طلاق رجعی تک پہنچ جائے تب بھی عورت کو اس کے گھر میں رہنے کی تلقین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے نبی! (اپنی امت سے کہو) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت کے لیے انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا رب ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ’ان کے گھروں‘ سےنہ نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں‘‘ (الطلاق: 1)
سورہ یوسف میں جس نا پسندیدہ کردار کی عورت کا ذکر ہے وہاں بھی گھر کو ’’عزیز مصر‘‘ سے نسبت کی بجائے اس عورت کے گھر سے منسوب کیا گیا ہے۔
’’اس عورت نے ’جس کے گھر‘ میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کرکے کہنے لگی، لو آجاؤ‘‘ (یوسف: 23)
سیدہ آسیہ علیھا السلام نے فرعون کے ظلم سے نجات کے لیے جو دعا فرمائی فطرتاً اس میں بھی گھر، مگر حقیقی اور اصلی گھر کا ذکر ہے۔
’’اے میرے رب! اپنے پاس میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیجئے‘‘ (التحریم: 11)
دنیا کے عارضی گھر کو جنت نما بنانے والی عورت کے جذبات کی قدر کرنا میکے میں والدین، بھائیوں، اور سسرال میں شوہر اور اس کے والدین کی ذمہ داری ہے۔ عدم تحفظ کا احساس کسی کی بھی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ اور احساسِ تحفظ اعتماد کی دولت عطا کرتا ہے۔
لڑکی جب تک والدین کے گھر میں ہے اس چھت کو اس کے لیے پرائی ہونے کا تصور نہ دیا جائے نہ اس کے بھائیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ بہن ایک بوجھ ہے۔ جس کے چلے جانے سے زندگی ہلکی پھلکی ہو جائے گی۔ اسلامی معاشرت میں باپ اور بھائی کا گھر، بیٹی اور بہن کے لیے سرائے نہیں بلکہ زندگی کے سرد وگرم میں ہمیشہ ایک قلعہ و پناہ گاہ رہتا ہے۔
اور دوسری طرف بیٹی کو زندگی کا شعور دیتے ہوئے رواداری، مروت، قدردانی، افہام و تفہیم اور معاشی کمی بیشی و معاشرتی اتار چڑھاو میں حکمت بالغہ سے کام لینے کی تربیت دی جائے۔ بیٹی کو اپنے گھر کی ملکیت کے ایسے نقشے ذہن نشین نہ کروائے جائیں کہ اسے مختلف مزاجوں کے انسانوں میں رہنا محال لگنے لگے۔ اور وہ اپنا گھر بلا شرکتِ غیرے حاصل کرنے کو مقصدِ زندگی بنا کر سسرال میں آئے اور نادانی کا ایسا مظاہرہ کرے کہ اپنے منفی رویے سے سب کے لیے باعثِ آزار بنی رہے۔ شوہر کا بھی فرضِ عین ہے کہ بیوی کے فطری جذبات کو نظر انداز نہ کرے اور حالات کے مطابق اس کی دلجوئی کرے۔ اس کو تنہا ہونے یا عدم تحفظ کا احساس نہ ہونے دے۔
’’اپنا گھر‘‘ وہی ہے جہاں کے مکینوں کے دلوں میں گھر کر لیا جائے۔ جو دلوں کو دور اور رنجیدہ کر کے ایک الگ مکان کا مالک تو ہو جائے مگر دل نہ جیت سکے وہ روحانی طور پہ بیمار دل کا مالک ہے۔ گھر کے سارے مکین ایک دوسرے کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں تو گھر امن و سکون کا گہوارہ بن جاتے ہیں اور دل روحانی طور پہ صحت مند اور کجی سے پاک رہتے ہیں۔
سچ ہے’’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘‘
دنیا و آخرت کی کامیاب زندگی، اور اطمینان قلب کا راز کشادہ دلی میں ہے۔
رب العزت نے فرمایا:
’’وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ خود اس چیز کے محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘ (الحشر: 9)
سچ ہے، تنگ دلی سے سوائے پشیمانی اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جبکہ دل کی کشادگی باعثِ عزت و وقار ہے۔ تنگ دلی سے کشادہ دلی

کی طرف قدم بڑھا کر اس خوب صورت کیفیت کا فرق اور تجربہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
ہر بہو کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ شوہر کی والدہ کا دل بھی اس گھر اور بیٹے کے ساتھ عرصہ دراز سے وابستہ ہے۔ اور ساس نے اس مقام تک آنے میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ ساس کو بھی یہ لازم ہے کہ ہر آنے والی بہو کو خوش دلی سے گھر کا معتبر فرد جانے کہ آنے والے دنوں میں یہی اس گھر کی جانشین ہوگی۔ ساس کی بڑھاپے میں جب توانائیاں ختم ہوجائیں گی تو نیک نیتی اور خلوص سے، اعتبار و محبت، حلم و برداشت، درگزر، صابرانہ طرز عمل کی شکل میں ساس نے بہو پہ جو سرمایہ کاری کی تھی وہ نفع سمیت اسے خدمت، توقیر و تعظیم اور قدردانی کی شکل میں واپس کبھی نہ کبھی ضرور مل جائے گی۔ جو بہو جس قدر دلوں میں جگہ بنائے گی آنے والے دور میں خوش بختی کا تاج اسی کے سر پہ سجے گا۔ دونوں خواتین میں گھر سے جذباتی تعلق پہ سمجھوتہ کرنے سے ہی گھر امن و سکون کا باعث بن سکتا ہے۔ دونوں کے درمیان گھر کے مرد افہام و تفہیم کی فضا قائم رکھیں تو ہی دوستانہ ماحول قائم ہوگا۔ گھر کے سب مکینوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی جگہ بن جائے تو بے شک سب ہی افراد رہائش گاہ کو سب کا برابر گھر تسلیم کریں گے۔ آخر ہم محبت کے اظہار کے لیے مہمانوں کو بھی باور کراتے ہی ہیں کہ’’یہ آپ کا اپنا گھر ہے‘‘۔
بیٹی اور بہن جن حالات میں، جس مقام پہ بھی ہو (میکہ ہو یا سسرال)، بلا شک و شبہ دونوں گھر اس کے لیے قلعہ ہیں۔
’’بیوی الگ گھر کا مطالبہ کرے تو شوہر اس کا مطالبہ ماننے کا پابند ہے‘‘ یہ بات بے شک ایک آئیڈیل صورتحال ہے کہ ہر جوڑا اپنا علیحدہ یونٹ رکھتا ہو مگر یہ کوئی قاعدہ کلیہ تو نہیں کہ فوری اس پہ عمل کرنا لازم ہو۔ حالات و واقعات کے تناظرمیں حقوقِ والدین کا مکمل خیال رکھتے ہوئے، افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے اس پہ عمل کرنا احسن عمل ہے۔ اور معاشی و معاشرتی حالات و واقعات کے مطابق حکمت سے اقدامات کرنا مناسب ہے۔ ہر شہر کی کالونیوں میں اضافہ اسی بات کا ثبوت ہے کہ کبھی نہ کبھی گھر الگ نصیب ہو ہی جاتا ہے۔ اس لیے صبر و تحمل اور حکمت سے، امتحان سمجھ کر زندگی گزارنا عقلمندی کی دلیل ہے۔
وہ عورت جس کی نگاہ میں دلوں میں گھر کرنے کا خوب صورت جذبہ ہو وہ مشترکہ خاندان میں بھی خوش رہ سکتی ہے، وہ جانتی ہے کہ دل جیتنا بھی ایک فن ہے اور اسی میں خوشی اور راحت کا سامان پوشیدہ ہے۔ اور جس کا دل تڑپتا ہو کہ جنت میں اپنا اصلی گھر مل جائے اور سب عورتوں پہ فوقیت رکھنے والی معزز ترین خاتون آسیہ علیھا السلام کا پڑوس مل جائے تو اس کی نگاہ اسی بلا شرکت غیرے گھر پہ رہے گی جس گھر پہ ساری دنیا کے گھر قربان کئے جا سکتے ہیں۔ اور وہ سیدہ آسیہ علیھا السلام کے الفاظ میں دعا کرے گی:
’’اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں گھر بنا دیجئے‘‘ (التحریم: 11)
’’انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے‘‘
@(قارئین سے معذرت اور اللہ تعالیٰ سے درگزر کی درخواست کے ساتھ تصحیح نوٹ)
* اکتوبر کے کالم’’لازمی پرچے‘ میں حوالہ سورہ الکہف کی بجائے سورہ بنی اسرائیل ہے)
* ستمبر کےکالم’’دروازہ‘‘ میں جنگ بدر والا واقعہ، دراصل قبیلہ جہینہ کے خلاف مہم میں پیش آیا۔ (صحیح مسلم 97)
* ’’جس شخص نے میدان جنگ میں خود کشی کی وہ منافق تھا‘‘(بخاری 6606، مسلم 111)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x