ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عہدِ نبویؐ میں نظام تعلیم – بتول مئی ۲۰۲۲

عہدِ نبویؐ میںمسجد کا کردار
تعمیرات کے باب میںہم دیکھ آئے ہیں کہ آپؐ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے جس بات کی طرف توجہ دی وہ مسجد کی تعمیر تھی ۔ مسجد نبویؐ جس جگہ تعمیر ہوئی اس کے بارے میں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں آپؐ کی ہجرت سے قبل نمازپڑھائی جاتی تھی ۔ اسلامی معاشرے میں مسجد کا کردار بہت اہم ہے ۔ آپ ؐ نے نئے معاشرے کی تعمیر کے لیے جو پہلی اینٹ رکھی وہ مسجد ہی تھی ۔ مسجداسلامی معاشرے میں روحانی اورمادی رہنمائی کا اولین سر چشمہ ہے ۔ مسجد عبادت گاہ ، علم کامرکز و منبع اور ادب کی مجلس ہے ۔
اسلام کے دورِ اوّل میں مسجد نبوی بطور مدرسہ استعمال ہوتی تھی ۔ معاشرے کے لیے تمام کوششیں اسی مسجد سے وابستہ تھیں ۔ مسجد ایک اجتماعی ادارہ ہے ۔ مسجد ایک تعلیم گاہ ہے ۔ مسجد ایک تربیت گاہ ہے ۔ نبی کریم ؐ اسی مسجد میں صحابہ کرام ؓ کوتعلیم دیتے تھے۔
یہاںعلمی و قانونی مسائل پر بحث کی جاتی تھی ، قرآنی نکتوں کی وضاحت ہوتی تھی ، یہاں جانثارانِ رسولؐ اکٹھا ہو کر اپنے دامنوں کو علم کے جواہر سے آراستہ کرتے تھے ۔ مسجد کے منبر سے تعلیم و ہدایات کی کرنیں پھوٹتی تھیں ۔ یہاں مسلمانوں کو نظم و ضبط، مساوات ، اتحاد و بھائی چارہ کا درس دیا جاتا تھا ۔ قرآن میںمسجدوںکو بیوت اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ مسجد کی تعمیر در اصل اجتماعی زندگی کی تعمیر ہے ۔ یہ وہ فیکٹری ہے جہاں عرب بدوئوں نے اسلام کے ڈھانچے میںڈھل کر دنیا کی امامت و پیشوائی کا منصب حاصل کیا ۔ مسجد ہی نے ان میں ایک فکری وحدت پیدا کی ۔ مسجد نبوی عمرانی اور معاشرتی ترقی کاایک بڑا ذریعہ تھی اور نئے معاشرے کی تعمیر کی اولین بنیادتھی ۔ انہیں تمام وجوہات کی بنا پر عہد نبویؐ اور عہد خلفاؓء کے بعد کے دور میں مساجد مسلمانوں کے علمی مراکز بن گئیں ۔ ان مساجد میں مسلمانوں کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا تھا ۔ ان کے ساتھ کتب خانوں کابھی انتظام کیا جاتا تھا ۔ مسجد کے ساتھ ملحقہ کمروں میں طلبا کی رہائش ہؤا کرتی تھی ۔ عہد نبویؐ میں مسجد اجتماعی اغراض کا مرکز تھی یعنی مسجد صرف عبادت گاہ ہی نہیںبلکہ سیاسی ، اجتماعی زندگی کا مرکز تھی ۔ آپ ؐ مسجد میں سفیروں سے ملاقات فرماتے تھے اور سیاسی اور مذہبی تقریریں فرماتے تھے ۔
عہد نبوی میں مسجد میں ان تمام امور کا اعلان کیا جاتا تھا جن کا تعلق مفاد عامہ سے ہوتا تھا ۔ عہد نبوی میں درس کے لیے ایک جامع کتاب رکھی گئی تھی یا یوں کہہ لیجیے کہ جو سیلبس بنایا گیا تھا اس میں صرف ایک کتاب تھی جو تمام علوم کاسر چشمہ تھی ۔ وہ اللہ کی کتاب قرآن مجید تھی ۔ اس میں سارے علوم کی اساسی چیزیں موجود ہیں ۔ عقائد ، عبادات ، قانون ، سیاست ، تاریخ ، معیشت ،اخلاق ، علمِ فلکیات ، علمِ ارضیات ، علم حیوانات نیز ہر علم کی طرف رہنمائی کرنے والی یہ واحد کتاب تھی ۔
آپ ؐ کا انداز یہ رہا کہ جہاںبھی کچھ لوگ نظر آتے آپ ؐ ان کو مخاطب کر کے قرآن کی کچھ آیتیں پڑھتے اور اسلام کی دعوت دیتے ، اس کے لیے منڈی ، بازار ، میلے میں تشریف لے جاتے تھے ۔
کبھی یہ ہوتا تھا کہ کسی خاص مسئلہ پر آپؐ سے صحابہؓ پوچھ لیا کرتے تھے ۔ جیسے کہ ماں کے حقوق سے متعلق ایک مشہور حدیث ہے کہ ایک شخص نے آپ ؐ سے دریافت کیا کہ مجھ پر سب سے زیادہ کس کاحق ہے ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماںکا ۔ اس شخص نے یہ بات تین دفعہ دریافت کی اور آپ ؐ نے یہی فرمایا کہ تمہاری ماں کا اورچوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا تمہارے باپ کا۔
اسی طرح دین سکھانے کے بارے میں وہ حدیث جو حضرت جبرئیلؑ کی تشریف آوری اور پھر آپ ؐ سے سوالات سے متعلق ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیںکہ ایک دن آپ ؐ لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ آپؐ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہؤا اور اس نے دریافت کیا : یا رسول اللہ ؐ ایمان کیا ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا :’’ کہ ایمان کامفہوم یہ ہے کہ تم اللہ کی ذات پر ، ملائکہ کے وجود پر ، روزِ حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر ، اللہ کے رسولوں کے برحق ہونے پر ایمان لائو اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا یقین رکھو‘‘۔ اس نے مزید سوال کیا : یا رسول اللہ ؐ اسلام کیا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:’’ اسلام یہ ہے ۔(۱) تم محض اللہ کی عبادت کرو اور عبادت میں کسی غیر کو شریک نہ بنائو ۔(۲) فرض نمازیں ادا کرو ۔(۳) زکوٰۃ دو (۴) رمضان کے روزے رکھو ‘‘۔پھر اس نے دریافت کیا ،احسان کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا :’’ احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اس لیے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تو یقیناً تمہیںدیکھ رہا ہے‘‘۔پھر اس نے سوال کیا : یا رسول اللہ ؐ قیامت کب برپا ہوگی؟ آپ ؐ نے فرمایا :’’ جس سے سوال کیا گیا ہے قیامت کے بارے میں وہ بھی سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ البتہ میں تم کو قیامت برپا ہونے کی کچھ نشانیاں بتائے دیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے آقا جنے گی اور جب اونٹوں کے سیاہ فام چرواہے بڑی بڑ ی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے ۔ در اصل قیامت کا علم ان پانچ امور غیبہ میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘۔ پھر آپؐ نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی (لقمان :34)۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا معاً آپ ؐ نے فرمایا : ’’ اسے واپس بلائو ‘‘۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓنے اس کو تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا توآپ ؐ نے فرمایا :’’ کہ یہ حضرت جبرئیلؑ تھے جو اس غرض سے آئے تھے کہ اس طرح لوگوںکو دین کے ضروری امور کی تعلیم حاصل ہو ‘‘۔(حدیث)
مدینہ سے باہر اساتذہ کا تقرر
مدینہ سے باہر اساتذہ کو آپؐ نے وفود کی شکل میں روانہ کیا ۔ دو تبلیغی وفود کے ساتھ مشرکین نے دھوکہ کیا اور انہیں قتل کر دیا ۔
صفر۴ ھ کا واقعہ ہے کلب کے رئیس ابو براء الکلابی کی درخواست پر آپ ؐ نے ستر قاری حضرات کا ایک وفد تبلیغ کی غرض سے روانہ کیا مگر عامر بن طفیل الکلابی نے ان تمام افراد کو شہید کر دیا ۔ ان میں سے ایک صحابی بڑی مشکل سے جان بچا سکے ۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ اسی سال رجیع کے مقام پر پیش آیا ۔ یہ دوسرا تعلیمی وفد تھا ۔ جو عضل وقارہ کی طرف روانہ کیا گیا تھا ۔ اس وفد کی قیادت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کر رہے تھے ۔ اس وفد کے ارکان کو بنو لحیان کی مد دسے شہید کردیا گیا تھا۔
اجتماعات
اشاعت علم کے لیے مذہبی اجتماعات بھی موزوں ہوتے تھے ۔ لہٰذا آپ ؐ جمعہ ،عیدین اور حج کے موقع پر بھی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ۔
تبلیغی خطوط
آپ ؐنے اشاعت دین و علم کے لیے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو اور مختلف قبائل کے سرداروں کو خطوط لکھے جن کا ذکر پچھلے اوراق میں کیا جا چکا ہے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں ’’ صوبہ وار درس گاہوں کا معیار بلند کرنے کے لیے آپ ؐنے صوبہ یمن میں ایک صدر ناظر تعلیمات مقرر کیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ مختلف اضلاع و تعلقات میں ہمیشہ دورہ کرتا رہے اور وہاں کی تعلیم اور تعلیم گاہوں کی نگرانی کرے ‘‘۔تعجب نہیں جو اور صوبہ جات میں بھی اس طرح کے افسر مامور کیے گئے ہوں (عہد نبوی میں نظام حکمرانی209)
مذہبی اور دنیاوی تعلیم
مذہب کے ٹھیکیدار یہ سمجھتے ہیںکہ قرآن اور حدیث کے علاوہ دوسراعلم نہیں حاصل کرنا چاہیے۔آزادی سے قبل اور آج تک ہندو پاک کے دیہاتوں میں یہی طریقہ رہا ہے کہ دنیا کی تعلیم حاصل نہ کی جائے یا لڑکیوں کو تعلیم نہ دی جائے۔
اس سے متعلق ڈاکٹر صاحب اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیںکہ ’’یمن کے گورنر عمرو بن حزمؓ کے نام جو طویل تقرر نامہ یا ہدایت نامہ جناب رسالت مآبؐ نے لکھا تھا ۔ اسے تاریخ نے محفوظ رکھا ہے ۔ اس میںبھی گورنر کو ہدایت ہے کہ لوگوں کے لیے قرآن حدیث اور علومِ اسلامیہ کی تعلیم کا بندوبست کریں ۔ اس دستاویز پر ایک اور جملہ بڑا دلچسپ یہ بھی لکھا ہؤا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی اور دنیاوی تعلیم میں کس طرح فرق کرنا چاہیے اور جملہ یہ ہے کہ ’’ لوگوں کو اس بات کی نرمی سے ترغیب دو کہ وہ دینیات کی تعلیم حاصل کریں ‘‘۔
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اللہ کے نبیؐ نے مختلف اوقات میں مختلف علوم حاصل کرنے کا حکم دیا جس کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔ گورنروں کو نماز روزہ ، وضو ، غسل اور حج کے احکامات کی تعلیم رائج کرنے کے ساتھ ساتھ خاص کر زراعت ، تجارت اور نقد بچت کی تعلیم دینے کے لیے بھی کہا گیا تھا ۔ آپ ؐ نے غیر زبانوں کو سیکھنے کا حکم دیا تھا جیسے کہ حضرت زید بن ثابت ؓخود فرماتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا ’’ میرے پاس مختلف خطوط آتے رہتے ہیںاور میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ ان خطوط کو ہر کوئی پڑھے تو کیا تم عبرانی زبان کا لکھنا پڑھنا سیکھ سکتے ہو ، میں نے عرض کیا کہ ہاں سیکھ سکتا ہوں ‘‘۔ چنانچہ میں نے سترہ دن ہی میں وہ زبان سیکھ لی ۔ اس طرح عبد اللہ بن زبیر ؓبھی بہت سی زبانیں جانتے تھے۔
جنگ بدر کے نتائج میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے کہ بدر کے ستر ا سیروں میں سے جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اللہ کے نبیؐ نے ان کی رہائی کی یہ شرط رکھی کہ ان میں سے ہر ایک قیدی دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے گا۔
خواتین کی تعلیم
اسلام نے عورت کو معاشرے میں بلند مقام عطا کیا ہے ۔ قرآن کریم اور احادیث کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو تمام معاملات میں مردوں کے مساوی حقوق عطا کیے۔ اگر کہیں عورت کو کسی وجہ سے مرد سے کم درجہ دیا تو یہ بھی عورت کی شان بڑھانے ہی کا موجب ہے ۔ اس بحث سے قطع نظر کے اعمال اور ان کی جزا و سزا میں عورت اور مرد برابر ہیں ، آپ ؐ نے عورتوں اور مردوں دونوں کو علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ۔ یہاں تک کہ آپ ؐ نے لونڈیوں کو بھی تعلیم دلانے کا حکم دیا اور اس پر اجر و ثواب کا مژدہ بھی سنایا ۔ اس اجرو ثواب کی اہمیت کو یوں بیان کیا کہ جو اپنی لونڈیوں کو تعلیم و تربیت دے کر ان سے نکاح کرے گا اسے دو گنا ثواب ملے گا۔
مختلف عنوانات کے تحت ہم عورتوں کی علمی کوششوں اور ماہرانہ صلاحیتوں کے بارےمیں پڑھ آئے ہیں ۔ اللہ کے نبی ؐ نے ان کی تعلیم و تربیت پر اسی طرح توجہ دی جیسے مردوں کی ۔ خواتین کے مخصوص مسائل کے لیے آپ ؐ کی ازواجِ مطہرات نے اس فریضہ کو انجام دیا ۔ عیدین کے موقع پر آپ ؐ خواتین کی طرف رخ کر کے خطاب فرماتے ۔ درس و تدریس کا کام مسجد میں ہوتا تھا ۔ جب آپؐ کو یہ شکایتیں ملیں کہ اصحابؓ اپنی بیویوں کو مسجد آنے سے روکتے ہیں تو آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’ تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے نہ روکو‘‘۔
خواتین نے آپ ؐ سے درخواست کی کہ ان کے لیے ہفتہ میں ایک دن تعلیم و تربیت کا رکھیں تو آپ ؐ نے ان کی درخواست پر ایک دن ان کی تعلیم کا مقرر کر دیا ۔ تعلیم یافتہ خواتین میں اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے ہم پلہ کوئی نہ تھا ۔
بچوں کی تعلیم
بچوں کی تعلیم کی طرف بھی آپ ؐ نے توجہ دی اور والدین کو ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کرنے کا حکم دیا ۔ صالح اولاد کو صدقہ جاریہ بتایا ۔ دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی بہترین پرورش و تعلیم و تربیت کر کے ان کے نکاح کرنے پر جنت میں اپنے ساتھ ہونے کا مژدہ سنایا۔
اس کے علاوہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بچوںکو نماز کا حکم دو ۔ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کی عادت ڈالواور اگر نہ پڑھیں تو انہیں سزا بھی دینے کو کہا ۔ لیکن ایسی سزا نہیں جو آجکل ماں باپ یا استاد دیتے ہیں ۔فہمائش کے ذریعے جو کام ہو سکتا ہے وہ زدو کوب کے ذریعہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علاوہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بچوں کو ابتدا ہی سے تیر اندازی ، نشانہ بازی ، گھوڑ سواری اور تیراکی کی تعلیم دو ۔ آپؐ کو بچوں کی تعلیم کا ہمیشہ خیال رہتا تھا ۔ آپ ؐ کے نزدیک بچوں کو ادب سکھانا ایک صاح صدقہ کرنے سے افضل ہے ۔(الترمذی،195-337:4)
تعلیم کے سلسلے میں آپ ؐ کی کوششوںاور اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کے اندازِ تعلیم کی خصوصیات کو بھی بیان کیا جائے ۔ اگر اس کا ذکر نہ کیا جائے تو مضمون کا حق ادا نہ ہوگا۔
آپ ؐ طبیب اعظم تھے ۔ ماہر نبض شناس تھے ۔ معاشرے کی برائیوں پر آپ ؐ کی نظر تھی ۔ آپ ؐ انسانی نفسیات کو سمجھتے تھے۔لہٰذا آپؐ کا اندازِ تعلیم و تربیت بھی نفسیاتی تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو حکم دیا تھا کہ :
ترجمہ: ’’ اے نبی ؐ اپنے رب کی طرف دعوت دو ، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو ۔ تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہؤا ہے اور کون راہ راست پر ہے ۔(125النحل)
آیت کی رو سے پہلا حکم بلانا ہے رب کے رستے کی طرف دوسرا حکم حکمت کے ساتھ یعنی ایسے انداز کہ سننے والا اس کو فوراً قبول کر لے ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ انداز ایسا ہو کہ سننے والے کو نا گوار نہ گزرے بلکہ وہ اس کو فوراً قبول کر لے ۔ چوتھا حکم یہ تھا کہ بحث بھی ایسی ہو کہ مخاطب قائل ہو جائے ۔ محبت کے ساتھ ، دلیل کے ساتھ ،اخلاق کے ساتھ اور اعتماد کے ساتھ ۔ آپؐ کا طریقہ تعلیم بھی ایسا ہی تھا ۔
ان چار خصوصیات کے علاوہ آپ ؐ کی تعلیم میں اور کئی خصوصیات پائی جاتی تھیں جن میں قولِ لین ، تالیفِ قلب ، شفقت ، عفو ودر گزر شامل تھا۔ آپؐ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ ’’ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ‘‘۔
آپ ؐ کے اس انداز کو ہم اپنا لیں تو دنیا سے نا خواندگی کا خاتمہ کر سکیں گے ۔ آپ ؐ کا یہ طرز تعلیم کئی صدیوں تک چلتا رہا تب ہی امتِ مسلمہ میں امام مالک ؒ ، امام ابو یوسفؒ ، امام یحیؒ جیسے ائمہ پیدا ہوئے۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x