ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اِک تیرے آنے سے پہلے – بتول مئی ۲۰۲۲

تینوں بچیوںکو سکول بھیج کر اب جمیلہ گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ میلے کپڑے سمیٹ کر اس نے ٹب میں ڈالے اور سرف ڈال کر بھگونے رکھ دیئے اور کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگی۔ سبزی وہ گلی میں آنے والے سبزی والے سے پہلے ہی خرید چکی تھی۔ اس نے چھری اور ٹوکری لی اور کچن کے ساتھ برآمدے میں بیٹھ کر سبزی کاٹنے لگی۔
جمیلہ کے ہاتھ تیزی تیز چل رہے تھے۔ ہنڈیا چڑھا کر ابھی برتن دھونے تھے اور پھر جھاڑو بھی لگانی تھی اور وہ چاہتی تھی یہ سارے کام وہ چھوٹو کے اٹھنے سے پہلے پہلے کر لے جوکہ ناممکن تھا۔ لیکن سوچنے میں کوئی حرج تو نہیں تھا۔ ہاتھ اس کے سبزی بنا رہے تھے اور دماغ ڈھیروں کاموں میں الجھا ہؤا تھا۔ آج تو کپڑے بھی زیادہ تھے۔ کل کپڑے دھونے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ لہٰذا آج اس نے پہلے ہی کپڑے بھگو دیے تھے۔
دوسری طرف چھوٹو کی طرف بھی دھیان لگا ہوا تھا۔ ڈیڑھ سالہ سفیان جسے پیار سے سب چھوٹو کہتے تھے بہت شرارتی تھا۔ اپنی شرارتوں سے جمیلہ کا ناک میں دم کیا ہؤا تھا۔ چونکہ اکلوتا تھا اسی لیے بڑی تینوں بہنوں اور ماں باپ کا لاڈلا بھی تھا۔ ہر کام میں گھسنا، چیزیں پھیلانا اور ماں کی گود میں چڑھنا، اس کے پسندیدہ کام تھے۔ موڈ ہوتا تو بہنوں کے ساتھ کھیلتا ورنہ جمیلہ کے پاس کچن میں گھس کر اس کا کام بڑھاتا۔ جمیلہ نے مصالحہ بھوتا، ہنڈیا چڑھائی اور پھر جلدی جلدی برتن دھونے لگی۔ ابھی چند برتن ہی دھوئے تھے کہ اس کو چکر آنے شروع ہوگئے تھے۔ ساتھ ہی متلی بھی محسوس ہونے لگی۔ اس نے صابن لگے ہاتھوں کو دھویا اور نل بند کرکے چند لمحے وہیں کھڑی رہی۔ لیکن جب طبیعت زیادہ ہی خراب ہونے لگی تو وہ چولہا بند کرتی ہوئی آہستہ آہستہ چلتی کمرے میں آگئی اور عین پنکھے کے نیچے لیٹ گئی۔ چھوٹو وہیں پلنگ پر سویا ہوا تھا۔ وہ بھی آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔ پنکھے کی ہوا سے اسے کچھ سکون محسوس ہؤا۔ پچھلے ہفتہ بھر سے اس کی طبیعت کافی گری گری تھی۔ بھوک بھی کم ہوگئی تھی۔ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ آج کل گرمی زیادہ ہے اور پھر گھر کے کام، جوکہ ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اس کا بلڈ پریشر گرا ہؤا لیکن آج چکر اور متلی کا ہونا، پریشان کرگیا تھا۔
’’خدا خیر کرے، میں نے تو ارشد سے بھی طبیعت کی خرابی کا ذکر نہیں کیا تھا اور آج اس طرح…‘‘ وہ اسی طرح اپنی کیفیت پر غور کرہی تھی۔ پنکھے کی ٹھنڈی ہوا اس کے جسم کو لگ رہی تھی اور اسی ٹھنڈی ہوا کے نتیجے میں اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ ویسے بھی وہ صبح سویرے ہی کی اٹھی ہوئی تھی۔ بچوں کے سکول جانے کے بعد، ارشد بھی سویرے ہی کام پر نکل جاتا تھا۔ وہ ایک بسکٹ بنانے والی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ صبح کا نکلا مغرب کے وقت ہی گھر میں گھستا۔
جمیلہ گہری نیند سو گئی تھی، تبھی چھوٹو کے چیخنے سے وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ چھوٹو اس کے پاس بیٹھا اسے اپنی زبان میں آوازیں دے رہا تھا۔ اگرچہ ابھی اسے بولنا نہیں آیا تھا لیکن اماں، اماں کہہ کر پکارتا تھا۔ جمیلہ نے گھڑی دیکھی۔ ’’اوہ! ساڑھے دس بجے گئے۔‘‘ اس کا مطلب تھا کہ وہ تقریباً پون گھنٹہ سو چکی تھی۔ جمیلہ نے چھوٹو کا ہاتھ منہ دھلایا اور اسے ناشتہ کرانے لگی۔ اور اس کے بعد پھر جو وہ گھر کے کاموں میں لگی تو روز کی طرح بچیوں کے سکول سے آنے کا ٹائم ہوگیا تھا، جب ہی گھر کے کام نپٹے۔ ماسی رکھنے کا اس کا بجٹ ہی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ورنہ ہر مہینے سوچتی کہ گھر کے خرچوں میں کچھ کٹوتی کرے اور کم از کم کپڑے برتنوں کے لیے ہی ماسی رکھ لے تو کچھ کام کا بوجھ تو اس کے سر سے کم ہو لیکن ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی نیا خرچہ سامنے کھڑا ہو جاتا اور اس کی معصوم خواہش دم توڑ دیتی۔ اگرچہ تینوں بچیاں گورنمنٹ سکول میں ہی پڑھتی تھیں لیکن پھر بھی ان کے یونیفارم، بیگ، کتابیں، کاپیوں کا خرچہ کم نہ تھا۔ پھر ہر مہینے بجلی، گیس کے ہوشربا بل، مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے کے لیے سفید پوش طبقہ کس طرح ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ یہ کوئی جمیلہ اور ارشد جیسے گھرانوں سے پوچھے۔ جمیلہ سارا دن گھر اور بچوں کے کام اور بکھیڑے نمٹاتی تھک جاتی اور آج کل تو اس کی طبیعت بھی خراب چل رہی تھی۔ بڑی بچی ابھی صرف دس سال کی تھی۔ وہ جمیلہ کے ساتھ چھوٹے موٹے کام ہی کرا سکتی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
رات کو کھانے کے بعد اس نے ارشد سے اپنی طبیعت خرابی کا ذکر کیا ۔
’’ جب اتنے دن سے طبعیت خراب تھی تو ، تم ڈاکٹر صادق کے پاس کیوں نہ چلی گئیں ؟‘‘ ارشد نے اس کی بات کے جواب میں عام سے انداز میں کہا اور ایک پرانا اخبار لے کر بیٹھ گیا ۔جواب میں جمیلہ صرف سرہلا کر رہ گئی ۔ کیا کہتی کہ اسے دوسری گڑ بڑ لگ رہی ہے ۔
اگلے دن وہ بڑی سعدیہ کو لے کر ڈاکٹر صادق کے بجائے لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی ۔ چھوٹو کو سلا کر آئی تھی ، دونوں بچیوں کو سمجھا کر۔اس نے چند گلیاں دور ڈاکٹر رفعت کو دکھانے کا فیصلہ کیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا نمبر آگیا تھا ۔ ڈاکٹر نے اس کی کیفیت پوچھی اورپھر اس کے شک کی تصدیق کردی ۔
’’ تم یہ ٹیسٹ کرالو پھر مجھے آکر دکھا دینا ۔ کتنے بچے ہیں تمہارے؟‘‘
’’ چار‘‘ وہ دھیمی آواز میں بولی۔
’’ ہوں … اور سب سے چھوٹا بچہ کتنے سال کا ہے ؟‘‘
’’ڈیڑھ سال کا ‘‘ اس کی آواز اور پست ہو گئی تھی۔
’’ایک تو تم لوگ بھی نا … نہ جانے کب عقل آئے گی ‘‘۔ ڈاکٹر بڑ بڑائی اور اگلی مریضہ کے لیے گھنٹی بجائی ۔ جمیلہ سست قدموں سے کلینک سے باہر آگئی۔
یہ کیا ہو گیا ؟ چھوٹو کے آنے کے بعد تو ان کی فیملی مکمل ہو گئی تھی۔
اب نہ تو جمیلہ اور نہ ہی ارشد اپنے خاندان میں کسی قسم کا اضافہ چاہتے تھے ۔ ارشد کی لگی بندھی تنخواہ میں پہلے ہی خرچ اورآمدن میں توازن رکھنا مشکل ہو جاتا تھا اور اگر اس ننھی جان کی بھی آمد ہو گئی تو…جمیلہ مزید اس سے آگے سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ ماسی کو دینے کے لیے ہزار روپے نکالنا تو مشکل ہو جاتے تھے ۔ اب اگر خاندان میں مزید ایک فرد کا اضافہ ہو جائے گا تو اس کے خرچے کہاں سے نکلیں گے ؟
جمیلہ واپسی کا سارا راستہ انہی پر پیچ سوالوں کے جواب تلاش کرتی رہی ۔ گھر آکر بھی وہ لیٹ گئی ۔ آنے والے وقت نے اسے ابھی سے جیسے نڈھال کردیا تھا ۔
’’ بابا ، دیکھیں امی نے مجھے ڈاکٹر کے ہاں سے آتے ہوئے جو س بھی نہیں دلوایا ۔ مجھے اتنی پیاس لگ رہی تھی لیکن امی نے کہا پانی پی لو۔‘‘رات کو ارشد کے گھر میں آنے کے بعد سعدیہ نے اس سے ماں کی شکایت لگائی ۔
’’ ایک صرف تمہارے لیے نہیں لینا پڑتا ۔ سب کے لیے لیتی اورمیرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے‘‘۔ جمیلہ جھنجھلا کر بولی، اس نے سعدیہ کو بڑا سمجھایا تھا لیکن جوس نہ دلوانے پروہ اب تک منہ بنائے ہوئے تھی ۔
’’ میں کل سب کے لیے جوس لے آئوں گا ، اب خوش ہوجائو ‘‘۔ ارشد نے سعدیہ کا سرسہلاتے ہوئے کہا اور پھر جمیلہ کی طرف رخ کیا ۔ ’’ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں ؟ کیا کہا اس نے ؟ تمہارا بلڈ پریشر گرا ہوگا؟‘‘ اس نے جیسے خود سے اندازہ لگایا ۔
’’ میںڈاکٹر رفعت کے پاس چلی گئی تھی‘‘۔ جمیلہ نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔
’’ ڈاکٹر رفعت کے پاس؟‘‘ ارشد نے حیرت سے سوالیہ لہجہ میں جمیلہ کو دیکھا ۔ جواب میں جمیلہ آہستہ سے سر ہلا کر رہ گئی۔
’’ میرا بلڈ پریشر بھی لو، ہے اور اس نے چند ٹیسٹ کرانے کو بھی کہا ہے ‘‘۔
’’ کیوں؟ خیریت ہے نا؟‘‘ارشد نے چونک کرجمیلہ کو دیکھا جو نفی میںسر ہلا رہی تھی۔
’’ ڈاکٹر نے وہی کہاہے جو …‘‘ جمیلہ لمحہ بھر کو ٹھہری۔’’ ان بچوں کی دفعہ کہا تھا‘‘۔
’’ اوہ تو اس کامطلب ہے …‘‘ارشد بھی لمحہ بھر کوخاموش ہوگیا ۔ اس کی آواز اور لہجہ بھی کسی قسم کی خوشی سے عاری تھا۔
’’ اچھا تم کھانا لگائو بہت بھوک لگ رہی ہے ‘‘۔ ارشد نے موضوع بدلا اوروہ بھی خاموشی سے کچن کی طرف بڑھ گئی کھانا معمول کے انداز میں بچوں کی ادھر اُدھر کی گفتگو کے درمیان کھایا گیا ۔ کھانا سمیٹ کر بچوں کو سلا کر جمیلہ جب اپنے بستر پر لیٹی تو ارشد آنکھیں بند کیے لیٹا تھا ۔جمیلہ کچھ دیر تویونہی خاموش لیٹی چھت کو گھورتی رہی ۔ پھر کروٹ بدل کر ارشد کی طرف رخ کر کے اسے دیکھنے لگی۔
’’ارشد آپ سو گئے ؟‘‘ اس نے ارشد کو دیکھ کردھیمی آواز میں پوچھا۔’’ ارشد !‘‘
’’ ہوں،کیا بات ہے ؟‘‘ وہ کچھ نیند میںآچکا تھا۔
’’ ارشدمیں بہت پریشان ہوں‘‘۔
’’ کیوں؟‘‘
’’ اس وجہ سے جو ڈاکٹر نے بتائی ‘‘۔
’’ پریشان ہونے سے کیا ہوگا ؟ کیا مسئلہ حل ہوجائے گا ؟‘‘
’’میں کیا کروں ؟ شام سے میں سوچ سوچ کر تھک گئی ہوں۔ ان ہی بچوں اور گھر کے کاموں سے مجھے فرصت نہیں ملتی ،پھر چھوٹو بھی ڈیڑھ سال کا ہے ۔میری اپنی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور سب سے بڑھ کر یہ روز کے بڑھتے اخراجات… آخر اس مہنگائی میں ہم کس طرح اس آنے والے کی ضروریات پوری کر سکیں گے اور اب پھر ہسپتال، دوائیوں کے چکرشروع ہو جائیں گے ۔ آپ کی محدود آمدنی میں کیسے ہوگا ؟‘‘ جمیلہ تو جیسے بھری بیٹھی تھی ۔ ارشد کا کندھا ملتے ہی جیسے بہہ سی گئی ۔ ذہن میں کلبلاتی سوچیں ایک کے بعد ایک کہتی چلی گئی۔
’’ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ تم فکر نہ کرو۔ اب سو جائو ‘‘۔ ارشد نے نرمی سے جمیلہ کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا توجمیلہ کوجیسے ارشد کے رویے سے ڈھارس ملی اور اس نے آنکھیں موند لیں۔ جلد ہی وہ نیند کی وادی میں چلی گئی لیکن دوسری طرف وہ اپنی سوچوں سے ارشد کو فکر میںمبتلا کر چکی تھی ۔ ارشد کچھ دیر تو آنے والے وقت پر غور کرتا رہا لیکن پھر سر جھٹک کر سونے کی کوشش کرنے لگا اور جلد ہی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا۔
٭…٭…٭
چند دن اس طرح آگے کھسک گئے ۔ آج چھٹی کا دن تھا ۔ بچوں نے صبح اٹھتے ہی ارشد سے کہہ دیا تھا کہ وہ آج شام کوانہیں کہیں تفریح کے لیے لے کر جائے گا اورارشد نے وعدہ کرلیا تھا ۔ لہٰذا کھانے سے فارغ ہو کر وہ بیوی بچوں کولے کر گھر سے کچھ فاصلے پر بنے پارک میں لے آیا تھا۔ بچیاں خوشی خوشی پارک میں بنے جھولوں پر جھول رہی تھیں تو کوئی سلائیڈ پر چڑھ رہی تھی ۔ چھوٹو بھی بہت خوش تھا اورگھاس پر بھاگ رہا تھا ۔ ارشد اورجمیلہ وہیں ایک بینچ پر بیٹھ کر آنے والوںکو دیکھ رہے تھے ۔
’’ ارشد!‘‘ جمیلہ نے ارشد کو اپنی طرف متوجہ کیا جو سامنے کھیلتے بچوںکودیکھ رہا تھا۔
’’ پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’ ہاں ، کس بارے میں ؟‘‘ وہ نا سمجھی سے جمیلہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ آپ بھول گئے ؟ میں اس آنے والے کے بارے میں بات کر رہی ہوں ‘‘۔
’’ تم کیوں اتنی پریشان ہو رہی ہو ، خود بھی فکرمند ہو اور مجھے بھی کررہی ہو۔ اب کیا ہو سکتا ہے ‘‘۔ ارشد نے چھوٹو کو اشارے سے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا۔
’’ ویسے ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے ‘‘۔ جمیلہ اپنے ناخنوں کو بغور دیکھتے ہوئے بولی۔
’’ میں جب سے ڈاکٹر کے ہاں سے آئی ہوں تب سے ہی میرا ذہن بہت الجھا ہؤا ہے ۔ پہلے ہی اتنے کھینچ تان کر گزارہ کر رہے ہیں۔ خاندان مزید بڑھے گا تو اس کا مطلب ہے کہ مسائل میں مزید اضافہ اور میں ابھی یہ سب نہیں چاہتی ، میں نے اس رخ پر پچھلے دن بہت سوچا اور پھر اس کا حل یہی نکالا ہے کہ … کہ… ‘‘ کہتے کہتے وہ ہچکچا گئی ۔
ارشد اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔’’ میں اسے ضائع کرادوں‘‘۔ اس نے اپنی بات پوری کی۔
’’ ہائیں … دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا ؟یہ کیا کہہ رہی ہو ؟‘‘ ارشد اس کی بات سن کر حیران رہ گیا ۔ جمیلہ اتنا بڑا فیصلہ بھی کر سکتی ہے اس نے سوچا بھی نہ تھا ۔
’’ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے ‘‘۔
’’تم کیسی احمقانہ باتیں کر رہی ہو ۔ ہمارا بھلا یا برا کس میں ہے یہ ہم نہیں جانتے ۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی … میں اجازت نہیں دوں گا ۔ میں چند دن میں کچھ رقم کا بندو بست کردوں گا ۔ پھر اگر ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں تو ٹیسٹ کروا لو ‘‘۔ ارشد بہت سنجیدہ ہو چکا تھا ۔
’’ ارشد آپ جانتے ہیں پہلے ہی خرچے پورے نہیں ہوتے اور بچے کے آنے کے بعد تو ہمارے خرچے … ‘‘
’’ دنیا میں ہر آنے والا اپنا رزق خود لے کر آتا ہے ۔ کیا پتا جب تک میری آمدنی میں بھی اضافہ ہو جائے ‘‘۔ ارشد نے جمیلہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں ، اضافہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ۔ میں تو ان ہی بچیوں کی شادی بیاہ کے بارے میں ابھی سے سوچ کر پریشان ہوں ۔ ہماری تو کوئی بچت بھی نہیں ہے ۔ اب ایک اور بیٹی آگئی تو … ‘‘ جمیلہ واقعی از حد پریشان تھی۔
’’ اور ، کیا جو تم کہہ رہی ہو وہ آسان ہے ؟ تمہیں معلوم ہے اس میں کتنی پیچیدگیاں بھی ہو سکتی ہیں ۔ ٹھیک ٹھاک رقم چاہیے ہو گی ۔ پھر تمہاری صحت… تمہیں کتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی یہ بھی سوچا ہے ؟‘‘
’’ ایک ہی دفعہ اٹھانی پڑے گی ناں اور میں کوئی ڈاکٹر سے تھوڑی کروائوں گی … یہ برابر میں جو روبی باجی رہتی ہیں انہیں بڑے ٹوٹکے معلوم ہیں ان ہی سے … ‘‘ جمیلہ نے اپنی بات ادھوری چھوڑدی۔
’’ بس میں نے منع کر دیا ناں ۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی ۔ خرچے کی تم فکر نہ کرو ہو جائے گا کچھ … اللہ مالک ہے ‘‘۔
’’ مجھے بھی تو اتنا وقت نہیں ملتا ۔ ورنہ میں ہی کچھ سلائی کڑھائی کر کے چند روپے کما لو ں‘‘۔ جمیلہ نے اپنی مجبوری بتائی۔
’’ اب گھر چلو ‘‘۔ ارشد نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور بچیوں کو گھر چلنے کے لیے بلانے کے لیے آگے بڑھ گیا ۔ جمیلہ بظاہر اسے دیکھ رہی تھی لیکن وہ فیصلہ کر چکی تھی اور سوچ رہی تھی اب اسے آگے کیا کرنا ہے۔
٭…٭…٭
’’ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں … ویسے ابھی کتنے مہینے ہوئے ہیں ‘‘۔
’’ میرے خیال سے دو ڈھائی ماہ ‘‘۔ جمیلہ دبی آواز میں بولی۔
’’ ارے یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ‘‘۔ روبی باجی ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولیں ۔’’ ویسے تمہیں جلدی آنا چاہیے تھا ‘‘۔ ساتھ انہوں نے اونچی سر گوشی کی ۔
’’ اصل میں مجھے تو خود ابھی دو ہفتے پہلے ہی معلوم ہؤا ۔ پچھلے ہفتے میں آپ کے پاس آئی تھی تو پتا چلا کہ آپ اپنی بیٹی کے ہاں گئی ہیں ۔ لہٰذا میں … ‘‘
’’ ہاں کل ہی تو آئی ہوں ، میں رخسانہ کے گھر سے وہاں بھی ایک مزیدار واقعہ ہؤا۔ اس کے پڑوس میں ایک نرس رہتی ہے وہ اپنے گھر میں چوری چھپے یہی کام کرتی ہے ۔ جس سرکاری ہسپتال میں کام کرتی ہے وہاں اس کے جاننے والے بہت ۔لہٰذا کسی عورت کو اپنے گھر بلا لیا اب کیس خراب ہو گیا اور اس کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ وہ تو یوں کہ عین وقت پر میں پہنچ گئی تو معاملہ نمٹ گیا۔ ورنہ وہ تو شاید بے موت مرتی ‘‘۔ روبی باجی حسب عادت قہقہہ مارتی ہوئی بولیں ۔ وہ اس خوفناک واقعہ کو مزید ار واقعہ کہہ رہی تھیں ۔ جمیلہ کو بڑی حیرت ہوئی اور ’’ بے موت‘‘ نہ جانے وہ کس کو کہہ رہی تھیں۔ نرس کو یا اس غریب قسمت کی ماری عورت کو جو غلطی سے اس کے پاس آگئی تھی۔
’’ روبی باجی کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا ناں؟‘‘ جمیلہ نے اگرچہ ارادہ تو کرلیا تھا لیکن وہ اندر سے ڈری ڈری بھی تھی۔
’’ ارے نہ نہ … تم میرے پاس آگئی ہو ناں ۔ اب دیکھنا میں کیسے آسانی سے تمہارا یہ مسئلہ حل کرتی ہوں ۔ میرے پاس بڑے جدید اور محفوظ طریقے ہیں ۔ میں کوئی بے وقوف تھوڑی ہوں ۔ تمہارے سامنے ہی کتنی عورتوں کا علاج کرچکی ہوں ‘‘۔
کسی حد تک وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں ۔ دو تین کو تو جمیلہ ذاتی طور پر جانتی تھی اسی لیے تو اس نے ارشد کے منع کرنے کے باوجود یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
’’ اصل میں روبی باجی میرے میاں تو راضی نہیں ۔ لیکن میں اب مزید بچے نہیں چاہتی ۔ اسی لیے …‘‘ جمیلہ کچھ اٹکتی ہوئی بولی۔
’’’ ہاں ہاں اور کیا … ٹھیک فیصلہ کیا ۔ بچے تو عورتوں کوہی سنبھالنے پڑتے ہیں ۔ یہ مرد پالیں تو پھر ان سے پوچھیں ‘‘۔انہوں نے جمیلہ کی بھرپور تائید کی ۔’’ ویسے تم اپنے میاں کو راضی کر لو پھر آنا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا میاں میرے ہی گلے پڑ جائے ۔ اب بھئی میں بھی انسان ہوں غلطی مجھ سے بھی ہو سکتی ہے ۔ آخر غلطی بڑے بڑے ڈاکٹروں تک سے ہو جاتی ہے ۔ اگر خدا نہ کرے کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو … بس میں تو ایسے ہی کہہ رہی ہوں ۔ ویسے ہوتا ووتا کچھ نہیں … بڑا آسان ہے ‘‘۔ روبی باجی نے اگر ایک طرف اسے تسلی دی تو دوسری طرف کچھ ڈرا بھی دیا تھا ۔ پھر بات کے اختتام پر، حسب عادت ایک بے ڈھنگا مختصر سا قہقہہ لگایا۔
’’ مجھے زیادہ تکلیف تو نہیں اٹھانی پڑے گی ناں ؟‘‘ جمیلہ نے پھر جھجکتے ہوئے سوال کیا۔
’’ ارے جمیلہ تم بچی تو نہیں ہو ۔آخر ، چار چار بچوں کی ماں ہو ، یہ بچے بھی تو تم نے تکلف اٹھا کر ہی جنے ہوں گے ۔ یا کوئی فرشتہ تمہارے گھر دے گیا تھا ‘‘۔ اب وہ کچھ برا مان گئیں تھیں۔
’’ ہاں … نہیں ، بس وہ روبی باجی میں تو احتیاطاً…‘‘
’’ اب احتیاطاًکیا ، اگر پہلے ہی احتیاط کرلی ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی ۔ بی بی اچھی طرح فیصلہ کر کے اگلے ہفتے آنا میرے پاس۔ پھر ہی میں تمہارا کام کر سکوں گی ‘‘۔ روبی باجی نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا تھا ۔ لہجے میں سرد مہری آچکی تھی اور جمیلہ سر جھکائے واپس آگئی۔ پھر ایک ہفتہ تو اسے ارشد کو اپنے فیصلہ سے متفق کرنے میں ہی لگ گیا ۔ وہ ارشد کی اجازت کے بغیر یہ قدم نہیں اٹھا سکتی تھی اور ارشد اس کے لیے تیار نہ تھا ۔ بڑی مشکل سے وہ جمیلہ کی منت سماجت کے بعد راضی ہؤا۔ اس طرح ایک ہفتہ مزید آگے بڑھ گیا تھا ۔ جوں جوں وقت آگے کھسک رہا تھا ۔ جمیلہ اپنے اندر کمزور بڑھتی محسوس کر رہی تھی ۔ اسے اچھی غذا اور دوائیوں کی ضرورت تھی لیکن وہ روبی باجی کے دیے ہوئے نسخوں پر عمل کررہی تھی ۔ انہوں نے نہ جانے کس قسم کے شربت اور معجون دی ہوئی تھی ، جس سے جمیلہ کو ہر وقت ہی چکر آتے رہتے اور وہ گھر اور بچوں پر بھی پوری توجہ نہ دے پا رہی تھی ۔ ڈر کے مارے اس نے ارشد کو بھی کچھ زیادہ نہ بتایا کہ وہ الٹا اس پر ہی گڑ جائے گا ۔ روبی باجی نے اسے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا کہ ان دوائوں کے استعمال کے ایک ہفتے بعد نتیجہ تمہارے سامنے آجائے گا اور واقعی ایک ہفتے بعد نتیجہ سامنے آگیا ۔
٭…٭…٭
آج چھٹی کا دن تھا ، اس نے میاں اور بچوں کو ناشتہ دیا ۔ خود اس نے بمشکل ایک سلائس اور چند گھونٹ چائے کے لیے ۔ کچھ دل ہی نہ کر رہا تھا ۔ ارشد نے اسے ٹوکا بھی کہ اس کی بھوک ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ لیکن وہ ہنس کر ٹال گئی اور ابھی وہ ناشتہ کے برتن ہی دھو رہی تھی کہ اس کو زور دار چکر آیا اس نے سنبھلنے کے لیے ادھر اُدھر ہاتھ پائوں مارے لیکن ناکام رہی۔ ارشد کو آواز دینی چاہی لیکن اس کے منہ سے آواز بھی نہ نکل سکی ۔ اس نے سنک پکڑ کر بیٹھنا چاہا لیکن پکڑتے پکڑتے بھی وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکی اور فرش پر گر گئی ۔ ساتھ ہی کئی برتن بھی گر گئے جن کی آواز سن کے ارشد اورسعدیہ بھاگے ہوئے کچن میں آئے ۔
’’ جمیلہ ! جمیلہ ! کیا ہؤا؟ ‘‘ ارشد نے گھبرائے ہوئے انداز میں جمیلہ کو پکارا اور اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا ۔ سعدیہ بھی ’’ امی امی ‘‘ کر کے آوازیں دینے لگی ۔ لیکن جمیلہ مکمل طور پر بے ہوش ہو چکی تھی۔
ارشد نے جمیلہ کو ہوش میں لانے کی کافی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تب اس نے بچیوں کوسمجھاکر گھر میں چھوڑا اور ٹیکسی کر کے ڈاکٹر رفعت کے کلینک لے آیا ۔ ڈاکٹر رفعت اکثر اتوار کو بھی کلینک میں ہوتی تھیں ۔ اسے ارشد سیدھا ایمرجنسی میں لے گیا تھا ۔ ڈاکٹر نے ہاتھوں ہاتھ جمیلہ کو لیا تھا ۔اس کا کیس بگڑ چکا تھا ۔ نہ صرف بچے بلکہ اب تو جمیلہ کی جان کو بھی خطرہ تھا ۔ ارشد باہر بیٹھا جمیلہ اور ان دیکھے بچے کی زندگی کی دعا کر رہا تھا جو جمیلہ اپنی بے وقوفی سے گنوانے چلی تھی ۔ وہ جمیلہ کی امی کو فون کر کے بتا چکا تھا اس کی امی فوراً ہی ہسپتال آگئی تھیں اور اب بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں ۔ انہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی کو جمیلہ کے گھر چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ گھر اور بچے دیکھ لے۔
پھر ڈاکٹروں کی محنت رنگ لائی ۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کے بعد جب جمیلہ کو ہوش آیا تو ڈاکٹر نے اطمینان کی سانس لی ۔ جمیلہ کو چیک کرکے ڈاکٹر تھیٹر روم سے باہر آئی تو اس نے ایک نظر ارشد اور جمیلہ کی ماں پر ڈالی جو پریشانی سے اسی کا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔ آنکھوں میں ان گنت سوالات تھے ۔’’ شکر کیجیے اللہ کا … جس نے ماں اور بچے دونوں کی زندگی رکھ لی ۔ ورنہ آپ لوگوں نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی…‘‘ ڈاکٹر سخت غصے میں تھیں ۔ ارشد نے ڈاکٹر کو من و عن ساری تفصیلات صاف صاف بتا دی تھی کہ کس طرح جمیلہ نے بچے کو ضائع کرنے کی کوشش کی تھی۔’’ جہالت کی بھی انتہا ہوتی ہے ۔ نہ جانے کس قسم کے لوگوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں اور پھر کیس بگڑ جاتا ہے تو ہمارے پاس آجاتی ہیں ۔ آپ تو ماں ہیں آپ کو تو بیٹی کو سمجھانا چاہیے تھا کہ وہ یہ کیسی حماقت کرنے چلی ہے۔ وہ بھی تب جب تیسرامہینہ ختم ہو چکا ہے اگرچہ مریضہ نے میرے پاس نام بھی نہیں لکھوایا تھا اور اصولاً یہ کیس میرا تھا بھی نہیں جو میں لیتی… لیکن صرف انسانی ہمدردی اور چونکہ جمیلہ کے سارے بچے میرے پاس ہوئے ہیں اس لیے لیا ‘‘۔ ڈاکٹر رفعت، ارشد اور جمیلہ کی والدہ کو بے دریغ سنا رہی تھیں اور دونوں سر جھکائے سننے پر مجبور تھے کیونکہ وہ جو کہہ رہی تھیں درست ہی تھا۔
’’ آپ کو معلوم ہے کتنا خون ضائع ہؤاہے۔بس یہ معجزہ ہی ہؤا کہ جان بچ گئی ۔ بچہ تو بچہ توخودپیشنٹ کی جان کو بھی خطرہ تھا۔ اُف‘‘ ڈاکٹر کہہ رہی تھیں اور جمیلہ کی والدہ سوچ رہی تھیں کہ انہیں تو کسی بات کا علم ہی نہ تھا ۔ جمیلہ نے انہیں نہ تو اپنی پریگننسی کے بارے میں بتایا تھا اور نہ ضائع کرنے کے ارادے کے بارے میں ۔ ورنہ وہ ضرور اسے باز رکھنے کی کوشش کرتیں۔ جبکہ ارشد خود اس وقت جمیلہ کی اس حرکت سے سخت کبیدہ تھا کہ منع کرنے کے باوجود جمیلہ نے اپنی چلائی تھی اور روبی بااجی کی نا تجربہ کاری اور غلط مشوروں کی بدولت اس حالت کو پہنچ گئی تھی ۔ دل تو چاہ رہا تھاکہ اس نیم حکیم کو گھسیٹ کر یہاں لائے اور دکھائے کہ اس کی کم عقلی اور جہالت کی بدولت جمیلہ زندگی و موت کی کشمکش سے گزر رہی ہے لیکن وہ بمشکل اپنی اس خواہش پر قابو پائے ہوئے تھا ، کیوںکہ قصور وار تو جمیلہ بھی تھی لیکن ارشد نے سوچ لیا تھاکہ جمیلہ کے ٹھیک ہوتے ہی وہ اس روبی باجی کا بھانڈا ضرور پھوڑے گا ۔تاکہ اوروں کے لیے وہ خطرہ جان نہ بنے۔
دو دن ہسپتال میں رہ کر جمیلہ کو گھر جانے کی اجازت اس شرط پر ملی کہ ابھی وہ مکمل آرام کرے گی اور پابندی کے ساتھ وقت پر دوائیاں کھائے گی ۔ ساتھ غذا کا بھی خیال رکھے گی اور جمیلہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا کر رہ گئی ۔ ڈاکٹر رفعت نے جمیلہ کو بھی اس کی بے وقوفی پر ٹھیک ٹھاک سنائی تھی ۔ نرس نے ارشد کو بل پکڑایا اور بل دیکھ کر ارشد ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔
’’ تم میرے پیسے بچانا چاہ رہی تھیں ناں؟ ابھی چار دن پہلے ہی تنخواہ ملی تھی اور دیکھو برابر ہو گئی ‘‘۔ ارشد کے لہجے میں تلخی گھلی ہوئی تھی ۔ وہ اگرچہ کہنا نہیں چاہ رہا تھا لیکن اپنے آپ کو کہنے سے باز بھی نہ رکھ سکا اور بل بھرنے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔
’’یا خدا میں کیا کروں‘‘۔ جمیلہ کے ہونٹوں سے ایک سسکی نکلی۔
’’ غلطی کرو گی تو پھر سرزنش بھی کی جائے گی ۔ کل سے کتنے پریشان ہیں ہم سب … اس کا بھی تو اندازہ کرو ‘‘۔
امی اسے سہارے سے پکڑ کر باہر لے جاتے ہوئے بولیں اور وہ پلکیں جھپک کر اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی ۔ امی کل سے یہاں اس کے پاس ہی تھیں ۔ جبکہ بچوں کے پاس جمیلہ کی چھوٹی بہن رکی ہوئی تھی اور ارشد کل سے ہسپتال اور گھر کے درمیان شٹل کاک بنا ہؤا تھا ۔ آج اس نے فیکٹری سے چھٹی کی تھی ۔ گھر سب ہی نے سکون کی سانس لی ۔ چاروں بچے بھی ماں کے بغیر بہت اداس تھے ۔ خاص کر چھوٹو کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔ اس نے نہ صرف بہنوں کو بلکہ خالہ کو بھی خوب تنگ کیا تھا۔ جمیلہ کی حالت ابھی ایسی نہ تھی کہ وہ گھر سنبھالتی ۔ لہٰذا اس کی امی نے جمیلہ سے چھوٹی شگفتہ کو اس کے پاس چھوڑ دیا تھا تاکہ جمیلہ کو آرام مل جائے ۔ خود بھی چکر لگاتی رہتیں ۔ شگفتہ بے چاری چند دنوں میں ہی تھک گئی ۔ گھر کے سارے کام ، پھر بچوں کے کام اس کے علاوہ جمیلہ کی تیمار داری ۔ وہ بیچاری اگرچہ اپنی سی پوری کوشش کر رہی تھی کہ کہیں کوتاہی نہ ہو ۔ اس کے باوجود گھر بری طرح ڈسٹرب ہو رہا تھا۔
’’ کیا حاصل ہؤا تمہیں یہ سب کر کے ؟ الٹا امی کا گھر بھی پریشان ہو گیا ‘‘۔ وہ یہ سب دیکھ کر اپنے آپ سے کہتی ۔
آج شگفتہ کو آئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا ۔ اب وہ واپس جا رہی تھی ۔ اور اس کے بدلے جمیلہ کی چھوٹی بھابھی نے دو دن رکنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اس کا ایک ہی تین سال کا بیٹا تھا ۔ لہٰذاوہ رکنے پر بخوشی راضی ہو گئی تھی ۔ اس کے بعد امی آجاتیں ۔ چونکہ ان کو بھی میاں اور بیٹے کو دیکھنا ہوتا تھا ۔ ان کے کھانے وغیرہ کا دھیان رکھنا ہوتا تھا ۔
’’ پلیز… اب اپنا اور بچے کا خیال رکھنا ‘‘۔ ارشد نے جمیلہ سے کہا اور وہ نظریں چرا کر رہ گئی ۔ کہنے کو اس کے پاس کچھ نہ تھا ۔ وہ تو سب سے شرمندہ تھی ۔ روبی باجی بھی اس کی حالت کا سن کر خیریت لینے آئی تھیں ۔ امی اور ارشد تو خاص طو رپر انہیں خوب سنانا چاہ رہے تھے ۔ لیکن جمیلہ نے ہاتھ جوڑ کر ارشد کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھا ۔ کیونکہ وہ روبی باجی کو جانتی تھی ۔سارے محلے میں وہ اس کے بارے میں ایسی باتیں اڑاتیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہوتا ۔ امی نے ضرور ان کو ڈھکے چھپے لفظوں میں چند الفاظ کہے جس کے جواب میں وہ صاف اپنا دامن بچا گئیں۔
’’ میں نے تو ٹھیک ہی دوا دی تھی۔ اس نے ہدایت پر صحیح عمل نہ کیا ہوگا اور پھر ایسا تو ہو ہی جاتا ہے ۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ غلطی تو بڑے بڑے ڈاکٹروں سے ہو جاتی ہے ۔ اب کیا لوگ ان سے بھی جواب دہی کرتے ؟ بھئی ہم بھی بندہ بشر ہیں ۔ شکر کریں آپ کی بیٹی کی جان بچ گئی‘‘۔ روبی باجی بے نیازی سے کہہ رہی تھیں۔
’’ ہاں بس اس ذات کا شکر ہے جس نے میری بیٹی کو زندگی دے دی ورنہ لوگوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی‘‘۔ امی کے دکھے دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی الفاظ نکل گئے جسے روبی باجی نے بڑی مشکل سے برداشت کیا ۔ لیکن نا گواری کے اثرات چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے ۔ پھر جلد ہی وہ اٹھ کر چلی گئیں۔
جلد ہی جمیلہ سب گھر والوں کی دعائوں اور مناسب دیکھ بھال کے بعد صحت یاب ہو گئی اور آہستہ آہستہ معمول کی طرف آگئی ۔ امی اور شگفتہ اب بھی دو چار دن کے بعد اس کے گھر آجاتیں اور کئی کام کر دیتیں جمیلہ شرمندہ ہی ہوتی رہتی ۔ ارشد نے بھی اسے بھر پور توجہ دی تھی ۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی غلطی پر پشیمان ہی رہتی اور اللہ سے رو رو کر توبہ استغفار کرتی۔ آخر سب گھر والوں کی دعائیں بار یاب ہوئیں ۔ جمیلہ نے ایک صحت مند اور تندرست بچے کو جنم دیا ۔
٭…٭…٭
اشعر بڑا پیارا بچہ تھا ۔گھر بھر کی آنکھ کا تارا ۔ جمیلہ تو اسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھی ۔ حالانکہ سفیان بھی تھا لیکن نہ جانے اشعر میں ایسی کیا بات تھی کہ جمیلہ تو جمیلہ … ارشد اور بہنیں بھی اس کی دیوانی تھیں اس کی من موہنی صورت اور معصوم باتیں سب ہی کو اس کا گرویدہ بنائے ہوئے تھیں ۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جا رہا تھا ویسے ویسے سب کو اپنی طرف ہی کھینچتا جا رہا تھا ۔ حیرت انگیز طور پر وہ سفیان کی ضد تھا ۔ جمیلہ اور ارشد جو کہتے وہی کرتا ۔ نہ ہی والدین اور بہنوں کو ستاتا نہ ضدیں کرتا ۔ نہ ہی کسی سے لڑتا جھگڑتایا روتا۔ جمیلہ اسے جس طرح کہتی اس کی فرمانبرداری کرتا اور جمیلہ کے دل سے اس کے لیے دعائیں پھوٹتیں کبھی تو وہ دل مسوس کر رہ جاتی کہ اس بچے کو وہ دنیا میں آنے سے روک رہی تھی ۔ لیکن خدا کی قدرت کے آگے کمزور انسان کا کیا زور ! خدا نے اسے وہ بچہ دینا تھا اور وہ دے دیا۔
٭…٭…٭
اشعر سات سال کا ہو گیا تھا اور اب نیا نیا دوسری کلاس میں گیاتھا۔ جب سے نئی کلاس میں آیا تھا بڑاخوش تھا ٹیچرنے اسے کلاس کا مانیٹر بنا دیا تھا۔ کیونکہ وہ اسکول میں بھی اپنی پیاری عادتوں کے باعث طلبا اور استانیوں میں یکساں مقبول تھا ۔ نہ صرف عادتیں اچھی تھیں بلکہ پڑھنے میں بھی بڑا تیز تھا ۔ اسکول کا کام بھی وقت پر کرتا اور پابندی سے اسکول جاتا ۔ جس کی وجہ سے اسکول میں بھی سب اسے پسند کرتے ۔
اس دن کی ابتداء بھی عام دنوں کی طرح ہوئی تھی ۔ سب بچوں کو اسکول بھیج کر جمیلہ نے معمول کے کام نبٹائے تھے ۔ بچے گھر آگئے تو انہیں کھانا دیا ۔ کھانا کھا کر کوئی تو سو گیا اور کوئی کھیل میں لگ گیا ۔ تو کسی نے ٹی وی کھول لیا تھا ۔ اشعر واحد تھا جس نے کھانا کھا کر اسکول کا ہوم ورک کیا تھا ۔ شام میں حسب معمول بچے کھیل رہے تھے ۔بچے عموما ً چھت پر چلے جاتے تھے ۔ وہاں جگہ تھوڑی کھلی تھی اور پھر ہوا بھی چل رہی ہوتی ۔ جمیلہ بھی چھت پر جا کر اپنا کوئی کام لے کر بیٹھ جاتی آج بھی یہی ہؤا تھا بچے نیچے صحن میں کھیلتے کھیلتے چھت پر چلے گئے ۔ چونکہ دیواریں چھت کی اونچی تھیں لہٰذا جمیلہ بھی مطمئن رہتی ۔ ہاں سیڑھیاں کچھ کچی تھیں ان پر سیمنٹ نہیں ہؤا تھا لیکن ہر وقت اترنے چڑھنے کی وجہ سے سب گھر والے انہی سیڑھیوں کے عادی ہو چکے تھے ۔ آج جمیلہ اوپر نہیں گئی تھی ۔ نیچے ہی بیٹھی پالک صاف کر رہی تھی اوپر بچوں کے کھیلنے کا شور سنائی دے رہا تھا۔
اس نے سر اونچا کیا تو اسے اشعر نیچے آتا ہؤا دکھائی دیا ۔ اس نے مسکرا کر ایک نظر اشعر پر ڈالی اور پھر پالک کے پتوں کو کاٹنے لگی اور یہی وہ لمحہ تھا جب اشعر کا نہ جانے کیسے سیڑھی اترتے ہوئے پیر مڑا اور وہ سنبھلتے سنبھلتے بھی سیڑھیوں سے لڑھکتا چلا گیا ۔ ایک تیز چیخ اس کے منہ سے نکلی تھی ۔ جمیلہ نے ایک جھٹکے میں سر اٹھایا اور چھری اور پالک پھینکتی ہوئی وہ بجلی کی سی تیزی سے بھاگی ۔’’ اشعر… میرے چاند… ‘‘ جمیلہ کی چیخیں نہ رکنے والی تھیں ۔ چھت سے چاروں بچے بھی بھائی اور ماں کی خوفناک آوازیں سن کر دوڑے آئے ۔ اشعر سیڑھیوں سے لڑھکتاہؤا آخری سیڑھی پر آکر رک گیا تھا ۔ جمیلہ نے اسے ہلایا جلایا لیکن وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو چکا تھا۔
’’ اپنے بابا کو فون کرو… جلدی کرو۔ سعدیہ تم برابر والی آنٹی کو بلائو… میں اسے لے کر ہسپتال جا رہی ہوں‘‘۔ جمیلہ بد حواس ہو چکی تھی ۔ اس نے اشعر کو جلدی سے گود میں اٹھایا اور دروازے کی طرف بھاگی اور عین اسی وقت ارشد گھر میں داخل ہؤا
’’ کیا ہؤا؟‘‘ ارشد کے لیے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔
’’ جلدی کریں … ہسپتال … ‘‘ جمیلہ سے جملہ پورا نہ ہؤا ۔ آنسو دیوانہ وار بہہ رہے تھے۔
’’ بابا اشعرسیڑھی سے گر گیا ‘‘۔سعدیہ سے چھوٹی عافیہ نے باپ کو بتایا اورارشد الٹے پیروں دروازے سے باہر نکلا ۔ اس نے باہر نکل کر دوڑ لگائی اور جلدی سے رکشہ لے آیا ۔ اشعر کو لے کر وہ دونوں اسی وقت ہسپتال بھاگے تھے ۔ سارا راستہ جمیلہ اور ارشد اشعر کو آوازیں دیتے رہے ، اسے چومتے رہے ، ہلاتے رہے کہ شاید وہ ہوش میں آجائے ۔ لیکن اشعر کو ئی رسپانس نہیں دے رہا تھا ۔خدا خدا کر کے ہسپتال پہنچے اور اسے ایمرجنسی میں لے گئے ۔ ڈاکٹروں نے اسے چیک کیا اور پھر وہ ہؤا جس کا کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا ۔ ڈاکٹر نے ارشد کے پاس آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مایوسی سے سر ہلا کر ’’ سوری‘‘۔کہتاہؤاآگے بڑھ گیا اور ارشد فق چہرے کے ساتھ ڈاکٹر کو دیکھ کر رہ گیا ۔ ارشد نے کچھ فاصلے پر کھڑی دعائوں کا ورد کرتی ، کانپتی ، لرزتی جمیلہ کو دیکھا جس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو رہے تھے ، اس نے ڈاکٹر اور ارشد کو دیکھا اور نا سمجھی سے ارشد کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کے اندر اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ ارشد سے یہ پوچھتی کہ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ۔ چند لمحے اسی طرح آگے کھسک گئے۔
’’ ار… ارشدڈاکٹر نے … کیا کہا؟‘‘ جمیلہ نے اپنی ہمت مجتمع کر کے ہکلاتے ہوئے آہستہ ارشد سے پوچھا ۔ اور ارشد جو ڈاکٹر کے جواب کے بعد گم صم کھڑا تھا اس نے پلٹ کر آنسو بھری آنکھوں سے لڑکھڑاتی جمیلہ کو دیکھا اور اپنے ہونٹ بھینچتا نفی میں سر ہلانے لگا ۔
’’کک… کیا مطلب؟‘‘ جمیلہ نے اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے کہا۔
’’ کہاں … کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘ جمیلہ واقعی نہیں سمجھی تھی ۔ لیکن اب ارشد سے اس کی بات کا جواب نہیں دیا گیا اور وہ جمیلہ کو پکڑ کر پاس پڑی کرسیوں پر بیٹھ گیا ۔ اس کی ٹانگوں سے جیسے جان نکل سی گئی تھی ۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ اندو ہناک خبر وہ کس طرح بیوی کو سنائے اور پھر اس نے بمشکل جمیلہ کو ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اشعر کی موت کا بتایا ۔ لیکن جمیلہ سے یہ سب سنا نہ گیا وہ اس سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔
ارشد نے ہمت کر کے اپنے اور جمیلہ کے گھر والوں کو فون کر کے اس ناگہانی حادثے کے بارے میں بتایا ۔ جمیلہ کو نرسوں نے فوری طور پر بیڈ پر لٹا دیا تھا ۔ اور ٹریٹ منٹ دے دی تھی ۔ گھر والے فوراً ہی ہسپتال آگئے تھے۔ ضروری کارروائی کے بعد ہسپتال والوں نے اشعر کو ان کے حوالے کر دیا تھا ۔ اشعر کی موت ڈاکٹروں کے مطابق اس کے گرتے ہی واقع ہو گئی تھی ۔ دماغ پر لگنے والی چوٹ موت کا باعث بنی تھی ۔ جمیلہ کے گلشن میں کھلنے والا سب سے دلفریب پھول اچانک ہی مر جھا گیا تھا ۔ جمیلہ اور ارشد کے لیے یہ صدمہ نا قابل برداشت تھا ۔ جمیلہ کو اس حادثے سے سنبھلنے کے لیے بہت وقت درکار تھا ۔
٭…٭…٭
اشعر کی نا گہانی موت کو کئی ماہ گزر گئے تھے ۔ جمیلہ کے جسم سے تو جیسے کسی نے جان ہی کھینچ لی تھی ۔کئی ماہ گزرنے کے باوجود وہ جیسے چلتی پھرتی لاش لگتی ۔ ارشد نے تو بڑی ہمت کر کے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا لیکن جمیلہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی تھی ۔ بظاہر وہ گھر کے سارے کام کرتی بچوں کو دیکھ بھال کرتی لیکن خوشی جیسے اس کی زندگی سے روٹھ گئی تھی۔ وہ اب بھی اشعر کو یاد کر کے روتی رہتی ۔ اس کے کپڑے ، جوتے ، کتابیں ، سینے سے لگائے چپکے چپکے آنسو بہاتی رہتی ۔ سب اس کو دوسرے بچوں کا واسطہ دیتے کہ ان کی خاطر زندگی کی طرف آئو۔
’’ میں زندہ ہوں ۔ سانس لے رہی ہوں… یہ کافی نہیں ‘‘۔ وہ ایک آہ بھر کر کہتی اور کہنے والے خاموش ہو کر رہ جاتے۔
٭…٭…٭
اشعر کو گزرے دو سال ہو گئے تھے ۔ جمیلہ اب سنبھل چکی تھی ۔ وہ زندگی کی طرف آہستہ آہستہ آچکی تھی ۔ زندگی معمول کی طرح گزر رہی تھی کہ آج بڑے عرصے کے بعد اس کی سہیلی اور پرانی محلہ دار نورین اس سے ملنے آئی تھی ۔ نورین کو اس محلے سے گئے ڈھائی سال ہو چکے تھے ۔ اسے پچھلے دنوں ہی اشعر کے متعلق معلوم ہؤا تھا ۔ وہ آج جمیلہ سے تعزیت کرنے آئی تھی۔
’’’ وقت کو تو سچ مچ پر لگ گئے ہیں ۔ یہ محلہ چھوڑے مجھے ڈھائی سال گزر گئے ۔ شروع میں تو ہمارا تمہارا رابطہ رہا لیکن پھر وہ بھی مصروفیت میں ختم ہوگیا ۔ اب اشعر کا بھی … میرے میاں کو کوئی پرانے محلہ دار ملے تھے کہیں ۔ انہوں نے بتایا ۔ بس میں تو سن کر دوڑی آئی ‘‘۔
’’ ہاں نورین… بس اچانک ہی ہؤا سب ‘‘۔ جمیلہ کی آواز بھرا گئی تھی۔
’’ بظاہر میں اب ٹھیک ہوں ۔ لیکن میں نے کس طرح اپنے اشعر کی موت پر صبر کیا ہے ۔ یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ بہت وقت لگا مجھے نارمل ہونے میں لیکن اشعر کی یاد اب بھی میری ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ ہے۔ وہ مجھے بھولتا ہی نہیں ‘‘۔ جمیلہ کے آنسو بہنے لگے تھے۔
’’ نہ رو میری بہن ‘‘۔ نورین نے جمیلہ کا ہاتھ تھاما ’’ ہم دونوں کا دکھ سانجھا ہے ۔ اشعر … یہ وہی بچہ ہے ناں جس کو ضائع کرنے کی تم نے کوشش کی تھی ‘‘۔ نورین نے اسے پرانی بات یاد دلائی ۔
’’ہاں ۔ لیکن یہ تم کیوں کہہ رہی ہو ‘‘۔ جمیلہ بری طرح چونکی ۔
’’ تمہیں یاد ہے ایسی ہی ایک کوشش میں نے بھی کی تھی ‘‘۔
’’ تم نے ؟آں… ‘‘ جمیلہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’ بھول گئیں تم میری حنا شہزادی کو ؟‘‘ نورین نے جمیلہ کو پانچ سال پرانی بات یاد دلانے کی کوشش کی ۔ وہ اپنی بیٹی کو حنا شہزادی کہتی تھی۔
’’ ہاں ہاں … جس کو ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا اور جو بعد میں … ‘‘ اسے میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔ سال بھر کی تو ہو گئی تھی وہ ۔ یہاں سے وہاں سارے گھر میں بھاگتی تھی ‘‘۔ جمیلہ کو یاد تھا۔
’’ ہاں وہ میری پھول سی گڑیا ۔ ان دنوں ٹائیفائیڈ پھیلا ہؤا تھا ۔ میری شہزادی کو بھی ہو گیا اور وہ چند دن بخار میں مبتلا رہ کر ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئی‘‘۔
نورین چند لمحہ خاموش رہی جیسے اپنے آپ کو نارمل کر رہی ہو ۔ اپنی بچی کی یاد آج بھی اسے تڑپا دیتی تھی ۔ پھر تھوک نگلتے ہوئے ایک پھیکی ہنسی چہرے پر لائی ۔
’’ کتنے عرصے تک میں بھی پاگلوں کی طرح اس کو یاد کر کے روتی رہی ۔ میری ہنستی کھیلتی بچی چند دن میں ہی جھٹ پٹ ہو گئی تھی۔ لیکن پھر پتا ہے کیا ہؤا ؟ ‘‘ نورین نے لمحہ بھر کو وقفہ لیا۔
’’ میری خالہ ساس جو دوسرے شہر میں رہتی تھیں ۔ وہ ہمارے گھر اکثر رہنے آتی تھیں ۔ میرے میاں کو اپنی ان خالہ سے بہت محبت ہے ۔ لہٰذاو ہ جب حنا کی موت کے بعد ہمارے ہاں آئیں اور میری دگر گوں حالت دیکھی تو مجھے صبر شکر کرنے کا کہتیں کہ جس کی امانت تھی اس نے لے لی ، پھر ایک دن مجھے بٹھا کر ایک ایسی بات کی کہ میں تو حیران رہ گئی‘‘۔ نورین خاموش ہوئی تو جمیلہ کی نظروں میں بھی سوال تیر گیا ۔
’’ میں نے تو کبھی اس پہلو پر سوچا بھی نہ تھا ۔ انہوں نے کہاکہ جب خدا تم کو اپنی رحمت سے نواز رہا تھا لیکن تم اس سے منہ موڑ رہی تھیں ۔ وہ تمہیں دنیا کی سب سے قیمتی شے دے رہا تھا لیکن تم اسے دھتکار رہی تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود کہ تم وہ بچہ ضائع کر رہی تھیں اس نے تمہیں اولاد دے دی ۔ کیوں کہ خدا کی قدرت کے آگے بندہ بے بس ہے اور جب وہ رحمت تمہارے پاس آگئی تو تم اس کی محبت میں مبتلاہو گئیں ۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ نعمت تم نے خوشی سے نہیں بلکہ بنا چاہے لی تھی ۔ پھر خدا نے وہ نعمت تم سے واپس لے لی ۔ ایک سال پہلے نہ لی ایک سال بعدلے لی ۔ تمہاری مرضی کے مطابق تو ہو گیا ناں ! اور میں یہ سب سن کر کانپ کر رہی گئی ۔ میں یہی تو چاہتی تھی اور جب میری خواہش پوری ہو گئی تو اب میں اللہ سے شکوے شکایت کر رہی تھی کہ اس نے میری بچی کیوں لے لی‘‘۔ نورین نے بڑی تفصیل سے اپنی بات بتائی تھی اور اتنا کہہ کر وہ تھک سی گئی تھی ۔ وہ اپنی آنکھوں سے گرتے قطروں کو رومال سے رگڑنے لگی۔
جمیلہ ، سکتے کی کیفیت میں بیٹھی سن رہی تھی ۔ اس کے دماغ میں ایک ہی بات ہتھوڑے کی طرح وار کر رہی تھی ۔ اسے پیس رہی تھی ، تو کیا … اس کے ساتھ بھی … ؟؟ سات سال پہلے نہیں سات سال بعد …!!…؟؟
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x