ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول مئی ۲۰۲۲

قارئین کرام! سلام مسنون
رمضان المبارک کی رخصت کی گھڑیوں میں آپ سے مخاطب ہوں۔ گزشتہ ایک ماہ میں قومی منظر نامے پہ بڑی بڑی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ حکومت تبدیل ہوئی ، عوامی مزاج بدلا، اداروں کی ساکھ مجروح ہوئی، قومی سلامتی اور خودمختاری پر سوالات اٹھے۔ایک بحرانی کیفیت ہے۔ ہر کوئی آئینی تقاضوں کی اپنی اپنی تشریح پر عمل پیرا ہے۔اگرتو اس خفیہ مراسلے میں پاکستان سے اظہارِ ناراضگی کے ساتھ حکومت ہٹانے کابھی ذکرموجود ہے تو پھر معاملہ محض مداخلت کا نہیں کیونکہ وقت کی مطابقت ہے اور ساتھ امریکی ملاقاتوں کے شواہدبھی موجود ہیں۔بہرحال عمران خان نے اس پر تحقیقاتی کمیشن اور سپریم کورٹ کی کھلی سماعت کا مطالبہ کیا ہے ، ملتا جلتاموقف جماعت اسلامی کا بھی ہے ۔محرکات مشکوک سہی مگر پہلی بار پارلیمانی عمل کے ذریعے وزیر اعظم کو ہٹایا گیا ہے ۔ افغانستان کی طرف سے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔تین دن کے اندر حکومت آئی ایم ایف کے پاس منت سماجت کرنے اور پیسہ مانگنے پہنچ گئی ہے، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھانے اور سبسڈی ختم کرنے کو اپنی کامیابی کہہ رہی ہے۔انتخابی اصلاحات کا شور مچا ہؤا ہے تاکہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہؤا جاسکے۔ ای وی ایم کا منصوبہ بھی اسی لیے منسوخ ہے اوراس لیے بھی کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی رائے حکومت کے لیے موافق نہیں۔نیب کو بند کیا جائے گا۔
اس وقت جو برسر اقتدار ہیںیہ وہ لوگ ہیں جن کی نورا کشتی میں قوم پینتیس سال پھنسی رہی اور جن کے بارے میں قاضی حسین احمد مرحوم نے ۱۹۹۱ میںہی اپنے تجربے اور بصیرت کی بنا پر کہہ دیا تھا کہ یہ دراصل ایک ہی ٹولہ ہیں،خود غرض، منافق ،کرپٹ اور دشمن کے ہاتھ بکے ہوئے، ان سے ملک اور عوام کے لیے کسی خیر کی توقع نہیں ہے لہٰذا چھوٹی اور بڑی برائی کے چکر سے نکلیں اورپوری قوت سے آگے بڑھ کر قوم کو ایک مخلص قیادت فراہم کریں۔قوم سے پہلے اپنے کارکن کو یہ بات سمجھانے میں انہوں نے آزمائش کا ایک کڑا وقت کاٹا۔اور جب مشکل وقت گزر گیا، ایک بیانیہ مستحکم ہؤا اور اس کا پھل کاٹنے کا موقع آیا تو نو گیارہ کے نتیجے میں نئے چیلنجز سامنے آگئے اورجماعت اسلامی کو اتحادوں کی سیاست کا رخ کرنا پڑاجس کی ایک بڑی وجہ اندرونی دباؤ تھا، یعنی ان کی صفوں میں وہ لوگ جو ابھی تک نواز شریف کے بچھڑے کو دلوں میں بسائے بیٹھے تھے، رفتہ رفتہ دوبارہ بااثر ہوگئے اور قاضی صاحب کو جھکنا پڑا۔
یہی وہ وقت تھا جب میاں نواز شریف کی منافق سیاست سے برابر کے ڈسے ہوئے عمران خان نے تحریک انصاف کو ملک گیر سطح پر منظم کرنا شروع کیا، اور کئی معاملات میں قاضی صاحب سے لی ہوئی رہنمائی کو سامنے رکھا۔ ان کے پاس ایک مستحکم جماعت کی پشت پناہی کی کمی تھی تو انہوں نے سیاست میں قدم جمانے کے لیے اپنی شخصی مقبولیت کا سہارا لیا۔ عمران خان نے کوئی سیاسی پس منظر نہ رکھنے کے باوجودجس طرح ذہانت سے سیاسی میدان میں اپنا ٹھکانہ (نیش) بنایا، محنت سے اپنا واضح موقف بنانے پر کام کیا، ثابت قدمی اور صبر کے ساتھ اس پہ جمے رہے اور اسے عوام تک پہنچانے بلکہ بار بار ان کو ذہن نشین کروانے پہ محنت کی، ملکی اور عالمی حالات سے اس بیانیے کو جوڑا،خصوصاً عوام کو دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے نقصانات پر بہت خوبی سے اور مسلسل باخبر کیا،اور بار یاں لگا کر پاکستان کو لوٹنے والے ٹولے کی حقیقت کھول کھول کرسالہا سال بتائی، اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔میاں نواز شریف نے سیاسی مخالفین کے لیے اپنے مخصوص اندازِ سیاست کے مطابق عمران خان کو اپنا نمبر ایک سیاسی حریف سمجھتے ہوئے ان پر ایسے حملے کیے جن سے خان صاحب کی ذاتی زندگی کا سکون برباد ہوگیا۔ اس تلخ تجربے نے ان کی کمٹ منٹ میں انتقام بھی شامل کر کے اسے دو آتشہ کردیا۔ پھرکرپٹ ٹولے کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا، قومی خودداری،امریکہ کے مقابل ڈٹ جانا،دہشت گردی کی جنگ کی مخالفت،فوج کی پشتیبانی، نظام کی تبدیلی،اسلامی نظام (ریاست مدینہ!)، امہ کا تصور اور مسلم بلاک، موروثی جماعتوں کی نفی یہ سارا بیانیہ جماعت اسلامی کا تھا جسے عمران خان نے اپنایا، شرح صدر کے ساتھ تفصیلاً عوام کو سمجھایا، عوام کے ساتھ ان کے انداز اور ان کی زبان میں ابلاغ کیا،جماعت ہی کی طرز پہ دھرنے کا انداز اپنایااور اپنی شخصیت کی مقبولیت کو سہارا بناتے ہوئے رفتہ رفتہ اپنی اچھی خاصی جگہ بنا لی ، بلکہ عوام کے اس طبقے کومتوجہ کرنے میں کامیاب رہے جس نے سیاسی جلسوں میں آنا تو کجا، کبھی ووٹ بھی شاید ہی دیا ہو۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ عوام کو دونوں بڑی جماعتوں کے سحر سے نکالنے کی ابتدا ہوگئی تھی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر پاکستان میں حکومتوں کا آناممکن نہیں ہے۔پاک فوج امریکہ کی جنگ میں اتحادی ہونے کا بہت خمیازہ بھگت چکی تھی،ایک طرف فوج جانیں دے رہی تھی دوسری طرف عوام اور فوج میں فاصلے بھٹو دور کی یاد دلا رہے تھے۔دشمن ایجنسیوں نے این جی اوز، سیاست اور میڈیا کے میدان میں ہمارے ہی لوگوں کو استعمال کرکے فوج کو بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی تھی۔ ادھر افغانستان میں نیٹو کی شکست بھی صاف نظر آنے لگی تھی۔ان حالات میں ملک میںایسی ہی سیاسی قیادت درکار تھی جو عمران خان صاحب کے موقف سے جھلکتی تھی اور عوام میں مقبولیت بھی پارہی تھی۔ حالات موافق ملے تو ابتدا میں انہوں نے کے پی میں جماعت اسلامی کے ساتھ مشترک حکومت بنائی، پھر انہیں اس مددکی ضرورت نہ رہی ، ان کی ترجیحات بدل گئیںاور وہ نام نہاد ’’جیتنے والے گھوڑوں ‘‘ کی طرف مائل ہوگئے۔
قومی سطح پرعمران خان کی حکومت آئی تو کرپٹ ٹولے سے تھکے ہوئے عوام نے نئے پاکستان کی آس لگائی ،پاکستان میں ادارہ جاتی کشمکش ختم ہوگئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک سمت میں ہونے سے مجموعی بیانیے کو فروغ ملا، پاکستان کی سلامتی، آزاد خارجہ پالیسی،خودداری، معیشت کی بحالی،قومی مجرموں کے احتساب پر پیش رفت اور مافیاؤں کا زور توڑنے کے ایجنڈے پر ملک دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔یہ آسان کام نہ تھا۔ گزشتہ پینتیس سالوں سے اس کرپٹ ٹولے نے قومی اداروں، سیاسی جماعتوں،بیوروکریسی، صنعتی و تجارتی حلقوں اور میڈیا میں جو ڈیپ پاکٹس بنا رکھی تھیں، ان کامقابلہ کرنا ایک کمزور جمہوری حکومت کے بس کی بات نہ تھی۔ عمران خان کو ملنے والے گرین سگنل کا مطلب اس تمام عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت تھی تاکہ صفائی کا یہ عمل ممکن ہو سکے۔
اسی دوران کورونا کا شدید ترین عالمی بحران آیا جس نے چھوٹے ملکوں کی معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا۔پاکستان بھی اس کے اثرات کی زد میں آیا۔اس سے قبل ڈالر کو سابق حکومتوں کی طے کردہ مصنوعی قدر سے نکالنے کا مشکل اور اہم فیصلہ کیا گیا تھا جس نے ملک میں مہنگائی میں اضافہ کیا۔عمران خان ایک مقبول رہنما کے طور پر اقتدار میں آئے تھے مگرخیال کیا جارہا تھا کہ ان کی عوامی پذیرائی میں کمی آرہی ہے اور اگلے انتخابات میں ان کا ووٹ بنک اتنا نہیں بڑھ سکے گا کہ وہ اکثریت سے حکومت بنا سکیں۔ اس تاثرکی وجہ صرف مہنگائی نہیں تھی بلکہ عمران خان کی کئی ایسی غلطیوں کابھی اس میں دخل تھا جن سے ان کے چاہنے والے مایوس ہوئے۔ان میں سب سے گھناؤنی غلطی تو جیتنے والے روایتی سیاستدانوں کو ٹکٹ دینا تھی جس نے نئے پاکستان اور تبدیلی کے خواب کو شدید دھچکا پہنچایا۔ کپتان ایک مضبوط ٹیم کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتااور انہوں نے ٹیم کے انتخاب میں انتہائی حماقت کا مظاہرہ کیا۔کئی جگہوں پرصاف ستھرے کردار کے لوگ چھوڑ کرناقابل اعتماد اور ناہل افراد کوساتھ ملایا،تبدیلی کا خواب دکھا کرملک پر قابض مفاد پرست ٹولے ہی کے محتاج ہوئے(اب منحرف اراکین کی صورت اس پالیسی کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں)۔ان کے زیادہ تر وزرا کی کارکردگی سیاسی جلسوں میںدعویٰ کی گئی تبدیلی کے مشکل کام کے شایانِ شان نہیں تھی۔ پھر آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا وعدہ توڑنے پر بھی انہیں کوئی شرمندگی نہ تھی اور نہ ہی انہوں نے قوم کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس کی۔غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے انقلابی اقدامات کا انتظار ہی رہا۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مضحکہ خیز فیصلہ کیا۔پارلیمنٹ میں اکثریت کے باوجود عوامی مسائل کے لیے قانون سازی نہ ہونے کے برابر رہی۔
اس کے باوجود ان کے ووٹر وں کو اعتماد تھا کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے اوران کا لیڈر سابق حکمرانوں کی طرح ذاتی مفاد کی خاطرملک کو نقصان پہنچانے والے کام نہیں کرے گا،حکومت کا پہلا تجربہ وقت کے ساتھ بہتر ہوگا۔ اقوام عالم کے آگے اسلام اور مسلمانوں کا مقدمہ ڈٹ کر لڑنے پر انہوں نے نہ صرف اپنے ووٹر وں کے بلکہ عام پاکستانیوں کے بھی دل جیت لیے۔امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا، روس کے ساتھ ملکی مفاد کو آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانہ متحرک ہؤا، ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ شروع ہؤا،امریکہ میں پاکستانی سفیر کو دھمکایا گیا، بھیڑ بکریوں کی طرح سب سے اعلیٰ ایوان کے ارکان کی منڈیاں لگیں ، رات کے بارہ بجے عدالتیں کھلیں اور قوم پر ایک بار پھر وہی مجرم ٹولہ مسلط ہوگیاجس کا دوبارہ آنا بہت سوں کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔حالانکہ وہی فوج تھی جو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کرپٹ ٹولے اور قومی سلامتی و خودداری کے معاملے پر قوم نے جوعمران خان پر اعتماد کیا ہے اور تبدیلی کا مینڈیٹ دیا ہے، اس کی حفاظت کرے گی اور مافیاؤں کے ہاتھوں اس مینڈیٹ کو اغوا ہونے سے بچائے گی۔
اب حال یہ ہے کہ مجرموں سے بھری ہوئی کابینہ دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنی ہوئی ہے کہ جنہیں دوروز میں جیل جانا تھا وہ حکومتی ایوانوں میں چلے آئے! یہ بتانا مشکل نہیں کہ فوری اورمنصفانہ انتخابات ہوئے تو عوام کا فیصلہ کیا ہوگا۔البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام کے اندر وسیع پیمانے پر ایک شعور بیدار ہؤا ہے، اچھی قیادت کے لیے،قانون کی حکمرانی اور اچھے طرزِ حکومت کے لیے، خوددار قوم بننے کے لیے، کرپشن کو برداشت نہ کرنے کے لیے۔ قومی اداروں میں بیٹھ کر ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے ، بیرونی اشاروں پہ گٹھ جوڑ کرنے کو ناپسند کیا گیا ہے۔قوم کو بھکاری کہنے پر شدید عوامی ردعمل آیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت کے آگے روایتی میڈیا بے اثر ہوکر رہ گیا ہے۔ اگرچینل مالکان کو میاں نواز شریف نے پیسے کی طاقت سے کنٹرول کر رکھا ہے تو انہی چینلوں کے کئی صحافی سوشل میڈیا کے ذریعے کھل کر عوام کو باخبررکھے ہوئے ہیںاور ان کی بات زیادہ سنی جاتی ہے۔
یہ آگاہی وہ دودھاری تلوار ہے جو ماضی کے برعکس عوام کو دھوکہ دینے کا سلسلہ پینتیس سال تو کیا پینتیس ماہ بھی چلنے نہیں دے گی۔بلکہ اگر کوئی صالح قیادت عمران خان کی متبادل قوت بن کر آئے تو اس کے لیے سازگار ترین عنصر یہی عوامی بیداری ثابت ہوگی، یعنی ماحول تیار ہو گیاہے۔ جمہوری عمل چلتا رہے گا توووٹ کے ذریعے احتساب ہوتا رہے گا ۔اللہ کرے آنے والے دن ہمارے ملک اور عوام کے لیے خیرو سلامتی اور بہتری کے ہوں آمین۔
بلقیس ایدھی انتقال کرگئیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت اپنے مرحوم شوہر کے ہمراہ انہوں نے پاکستان میں خدمت خلق کا بے مثال کام کیا۔تمغہِ امتیاز سمیت کئی ایوارڈ ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو دیے گئے۔اللہ ان کی مساعی ِ جمیلہ کو قبول و منظور فرمائے آمین۔

عیدالفطر کی مبارک باد کے ساتھ اجازت اگلے ماہ تک، بشرطِ زندگی!
دعا گو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x