ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حیاتِ زریں اسما مودودی مرحومہ کی یادیں – بتول مارچ ۲۰۲۳

وقت کی لہریں سبھی جذبے بہا کر لے گئیں
ذہن کی دیوار پر یہ نقش کیسا رہ گیا
14جنوری2023ء بروز اتوار شام تقریباًچھ بجے محترمہ اسما مودودی صاحبہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں اِنا للہ واِنا الیہ راجعون۔ آپ نے 82سال عمر پائی ۔دل غم سے بوجھل ہے ۔ آنکھیں پرنم ہیں ۔ میں دھندلائی آنکھوں سے بچپن کی یادیں تلاش رہی ہوں۔
پہلا منظر جو میر ی نگاہوں میں گھومتا ہے ، ایک نوجوان لڑکی سفید چادر میں لپٹی ہوئی والدہ صفیہ سلطانہ کے پاس بیٹھی اپنا قرآن کا سبق سنا رہی ہیں ۔ کبھی وہ برقعہ میں آتی ہیں اور کبھی چادر میں ۔ میں بوجوہ کوشش کے ان کے چہرے کو دیکھ نہیں پاتی۔ میں نے انہیں کبھی کوئی فالتو بات کرتے نہیں سنا ۔ وہ خاموشی سے آتیں اور سبق سنا کر چلی جاتیں ۔ یہ اسما مودودی صاحبہ تھیں۔
پھر دوسرا منظر میری آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے ۔ ہم سب گھر والے بہت تیاری کے ساتھ اسما مودودی صاحبہ کی شادی میں شرکت کے لیے گورمانی ہائوس جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ گورمانی ہائوس کے وسیع و عریض لان میں گول میزیں سجائی گئی تھیں ۔ سن ستر میں ایسی سجاوٹ خال خال ہی ہوتی تھی۔ آج کل تو ہر شادی میں ایسا انتظام ہوتا ہے ۔ ان کی شادی کی شان و شوکت میری بچپن کی یادوں میں سے ایک خاص یاد ہے۔
اسما آپا کو دیکھ کر بلا شبہ کسی شاہزادی کا گمان ہوتا تھا ۔ دبلی پتلی ، درمیانہ قد ، گوری رنگت ، خوبصورت نین نقش پر وقار چال ، شیریں زبان ، دلنشیں لب و لہجہ ، ٹھہر ٹھہر کر بولنے کا انداز ان کی شخصیت کو با وقار بنا دیتا ۔ دودھیا سفید دوپٹے میں لپٹا ان کا صبیح چہرہ دیکھنے والے کے دل میں ان کے لیے عقیدت و احترام بھر دیتا ۔
اپنی زندگی میں وہ بہت کم لوگوں سے ملیں ۔ جن کے قریب تھیں ان کے دلوں میں بس گئیں۔
ماہ وسال گزرتے گئے ایک روز معلوم ہؤا کہ ہماری ادبی محفل جو حریم ادب کے نام سے معروف ہے اس کا ماہانہ اجلاس اسما مودودی صاحبہ کے ہاں ہؤا کرے گا یہ تقریباً1981ء کی بات ہے جب میں نے ادب سے اور اسما آپا سے تعارف حاصل کیا ۔ وہ وقت اکثر یاد آتا ہے ۔ میزبان اسما مودودی صاحبہ سدا کی خاموش اور کم گو طبیعت کی حامل تھیں وہ بہت کم گفتگو میں حصہ لیتیں البتہ بہترین سامع تھیں کچھ سالوں کے بعد ان کے شوہر مسعود صاحب کی علالت کے باعث یہ سلسلہ ان کے ہاں جاری نہ رہ سکا۔
کچھ عرصے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ آپا کے شوہر مسعود صاحب کا انتقال ہو گیا ہے ۔ آپا کی بے قراریاں دیکھی نہ جاتی تھیں ۔ وہ اس دنیا میں تنہا رہ گئی تھیں ۔ اتنے بڑے صدمے کو انہوں نے بہت بہادری سے برداشت کیا ۔ اس صدمے نے ان کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ۔ انہوں نے کہا میرے میاں کی وفات میرے لیے میرے رب سے قرب کا باعث بنی ۔ میں نے اپنے گھر کی تنہائیوں میں سب سے قریب اپنے رب کو پایا۔
وقت کے ساتھ آپاکی شخصیت میں ہمیں حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے کو ملی تھی ۔ وہ جو خاموش طبع تھیں ، جھجکتے ہوئے بات کرتی تھیں ، آگے بڑھ کر کسی بات یا کام میں حصہ نہ لیتی تھیں ، اب ان میں ایک خاص اعتماد آگیا تھا ۔ الفاظ میں شیرینی اور تاثیر آگئی تھی ۔ زبان و بیان کی سادگی اور معاملہ فہمی تو وارثت میں ملی تھی ، اب وہ سامنے والے کو بھرپور توجہ دیتیں ،

اس کے دکھ درد اور معاملات کو دل جمعی سے سنتیں ۔ ان کے پاس گویا ایسی روحانیت آگئی تھی کہ ہر کوئی ان کے پاس بیٹھ کر سکون محسوس کرتا اور اپنائیت کا احساس جاگزیں رہتا ۔ ان سے جڑنے والا ہر شخص یہی محسوس کرتا کہ اسما آپا سے اس کا سب سے قریبی تعلق ہے۔
یہ سب قرب الٰہی جیسی نعمت کی بدولت ممکن ہؤا تھا ۔ جب کوئی بندہ قربِ الٰہی کا مقام حاصل کر لیتا ہے تو خدا کی محبت اس کے ریشے ریشے میں سما جاتی ہے ۔ اس کی روح کی توانائیاں رفتہ رفتہ سارے جسم پر غالب آجاتی ہیں جن کے پر تو سے شبستان روشن ہو جاتے ہیں ، سب تیرگیاں کافور ہو جاتی ہیں۔
کبھی کبھار مولانا مودودی صاحب کے ہاں جانا ہوتا تو آپا سے سر سری سی ملاقات ہو جاتی جو سلام دعا سے آگے نہ بڑھ پاتی ۔ زندگی کی مصروفیات میں کچھ فرصت ملی تو سوچا قرآن پاک کا ترجمہ ادھورا ہے اسے مکمل کرنا چاہیے تو میں نے اپنے سب سے نزدیک اسما آپا کو پایا ۔ معلوم ہؤا ان کے ہاں قرآن کلاس ہوتی ہے ، یوں ان کے ہاں آنا جانا دوبارہ شروع ہؤا۔
آپا جان محمودہ خانم (بیگم مودودی) ان دنوں علیل تھیں اور اپنی بیٹی اسما کے ہاں مقیم تھیں ۔ ہماری کلاس کے دوران آپا جان مسلسل قرآن کھولے سنتی رہتیں اور کئی مقامات پر ہماری درستی بھی کرتیں حالانکہ وہ اپنی یادداشت مکمل طور پر کھوچکی تھیں مگر قرآن انہیں ازبر تھا۔
اسما آپا نے اپنے والد کے بعد والدہ کی بھی دل و جان سے خدمت کی اور ان کی تیمار داری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا ۔ نہ کبھی ماتھے پر بل آیا اور نہ ہی ناراضگی کا اظہار ہؤا۔ ان کی محبت اور شفقت نے میرے اندر اتنا حوصلہ پیدا کر دیا کہ میں اپنی ہر بات بے تکلفی سے ان سے ڈسکس کر لیتی تھی ۔ کلاس کے دوران ایک روز میں نے ان سے پوچھا ، آپا آپ اپنی نفلی عبادات میں سے کوئی ایسی عبادت بتائیں جو ہم بھی آسانی سے کر سکیں ۔ بولیں یہ سب اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے ہمیں دعا کرنی چاہیے، میں اشراق کے نوافل پڑھنے کے بعد دو نفل حاجت ہر روز پڑھتی ہوں اور یہ دعا کرتی ہوں یا اللہ میرا آج کا دن تیری اطاعت و فرمانبرداری میں گزرے اور مجھے کوئی بھی غلطی اور گناہ کرنے سے بچالے اور پھر میرا دن بہت اچھا گزرتا ہے۔
ایک بار میں نے کہا آپا میری یاد داشت بہت کمزور ہو گئی ہے بات کرتے کرتے بھول جاتی ہوں ۔ مجھے بتائیں میں کیا کروں ۔ انہوں نے کہا فجر اور مغرب کی نماز کے بعد سورہ حشر کی آخری آیات تین تین دفعہ پڑھ کر اپنے لیے دعا کیا کرو اللہ نے چاہا تو یاد داشت ٹھیک ہو جائے گی اور پھر ایسا ہی ہؤا۔میں نے باقاعدگی سے ان آیات کو پڑھا اور چند ہی ہفتوں میں میں نے بہتری محسوس کی۔
میں نے پوچھا آپا کیا دعا مانگنی چاہیے ؟ بولیں ایمان پر خاتمہ کی دعا کے ساتھ یہ مانگنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہ کرے ، انسانوں کے حوالے نہ کرے انسان(بعض اوقات) بہت ظالم ہوتے ہیں۔
جب میں اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئی تو آپا کا فون آگیا ہم تمہارے گھر آرہے ہیں ۔ مارے خوشی کے میں پھولے نہیں سما رہی تھی ۔ آپا کی آمد سے ہماری خوشیوں کو چار چاند لگ گئے ۔ آپا میرے لیے بہت قیمتی تحائف لائیں جنہیں میں نے آج بھی سنبھال کر رکھا ہے ۔
ایک روز میں نے ان کے کمرے میں پڑے ٹی وی کو دیکھ کر کہا آپا آج کل فلاں ڈرامہ بہت اچھا چل رہا ہے کیا آپ نے دیکھا ہے ۔ انہوں نے حیرت سے میرے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا میں ٹی وی نہیں دیکھتی ۔ تو پھر آپ نے ٹی وی کیوں اپنے کمرے میں رکھا ہے ؟ میرا اگلا سوال تھا۔
کہنے لگیں میرے فلاں عزیز نے رکھ دیا ہے تاکہ کبھی تنہائی سے دل گھبرائے تو دیکھ لوں ۔ اب حیران ہونے کی میری باری تھی ۔ آپا کیا آپ نے کبھی کوئی فلم دیکھی ۔ بولیں نہیں کبھی نہیں ۔ قدرے توقف کے بعد بولیں ایک بار مجھے کسی نے کہا ٹی وی پر فلاں فلم بہت اچھی آ رہی ہے تم بھی دیکھنا ، میں نے اپنے میاں سے کہا مجھے فلاں فلم دیکھنی ہے ۔ انہوں نے کہا آپ نے اپنی تمام زندگی اتنی پاکیزگی میں گزاری ہے کبھی اپنے آپ کو لہو ولعب میں مشغول نہیں کیا تو اب کیا ہو گیا ۔ آپ اپنی نگاہوں کو اسی طرح پاکیزہ رہنے دیں ۔ ان کا جواب سن کر میں شرمندہ ہو گئی اور میں نے ارادہ

کرلیا کہ آئندہ کبھی ایسی خواہش نہیں کروں گی۔
ایک بار مجھے کہنے لگیں تم ایک کہانی لکھو جس کا موضوع میں تمہیں بتائوں گی ۔ میں بہت خوش ہوئی پوچھا بتائیے بولیں ، انسان زندگی میں جوغلطیاں کرتا ہے اس کی سزا بھی بھگتتا ہے مگر کچھ عرصے کے بعد سب کچھ بھول جاتا ہے اور دوبارہ وہی غلطی کرنے لگتا ہے ۔
یہ موضوع بلا شبہ بہت جاندار تھا ۔ میں نے کہا آپا مومن ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسا نہیں جاتا ۔ کہنے لگیں ، اسی سے انسان کو اپنی پہچان کر لینی چاہیے کہ وہ مومن ہے یا نہیں اور پھر وہ دن بھی آیا جب میں نے آپا سے کہا میں بتول کے لیے آپ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں آپ ہمیں اجازت دیجیے ۔ پہلے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ میں تو درویش بندی ہوں مجھے نمودو نمائش والی چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں مگر میرے بے حد اصرار پر گویا ہوئیں ، تم رخشندہ آپا کی بیٹی ہو اس لیے تمہیں انکار نہیں کر سکتی مگر میری ایک شرط ہے ۔
وہ کیا میں نے پوچھا۔
بولیں ، انٹرویو میں میرا نام نہیں آنا چاہیے میں نے گم نامی کی زندگی گزاری ہے، میں اسی طرح دنیا سے رخصت ہونا چاہتی ہوں ۔ میں نے ان کی بات مان لی اور یوں مولانا مودودی صاحب کی منجھلی صاحبز اد ی کے نام سے یہ ملاقات شائع ہوئی۔
کچھ سال قبل مجھے عمرے کی سعادت نصیب ہوئی تو حرم شریف میں عجب واقعہ ہؤا ۔ ایک روز میں حرم میں بیٹھ کر نماز پڑھ رہی تھی ۔ جب میں نے نماز کے بعد دائیں جانب سلام پھیرا تو مجھے لگا اسما آپا میرے سامنے بیٹھی ہیں ۔ پھر میں نے بائیں جانب سلام پھیرا تو ان کی بڑی بہن حمیرہ مودودی صاحبہ دکھائی دیں ۔ میں نے سوچا شاید یہ لوگ بھی عمرہ کرنے آئے ہوئے ہیں ۔ دعا کے بعد میں اٹھ کر ان کے قریب گئی تو وہ کوئی اور ہی خواتین تھیں ۔ مجھے خیال ہؤا کچھ لوگوں کی مشابہت ایک دوسرے سے بہت زیادہ ہوتی ہے اسی لیے مجھے ایسے لگا ہے ۔مگر اگلے روز جب میں ابھی نماز کے لیے حرم میں داخل ہوئی تھی تو سامنے برآمدے میں لوگوں کے ہجوم میں حمیرہ آپا اور اسما آپا کے چہرے دوبارہ دکھائی دیے ۔ میں بے قرار ہو کر لوگوں کے ہجوم کو چیرتی ہوئی ان کے قریب آئی مگر وہ توکوئی اور ہی خواتین تھیں ۔ میں حیرت زدہ تھی اتنی مشابہت ، پھر میں نے سر کو جھٹکا کہ سفید براق دوپٹوں اور اوڑھنے کے انداز سے مجھے اب لگ رہا ہے ۔ یہ سوچ کر میں نے اپنے آپ کو تسلی دی مگر ایسا تین چار مرتبہ ہؤا کہ مجھے دونوں بہنیں اپنے دائیں بائیں دکھائی دیتی ر ہیں۔
عمرہ سے واپسی پر میں نے آپا سے اس بات کا ذکر کیا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ، شاید جب لوگوں کے دل اللہ کے قریب ہوں اور وہ اللہ سے جڑے ہوئے ہوں تو وہ اللہ کے گھر میں ہی رہتے ہیں وہ وہیں پائے جاتے ہیں ان کی روح ہر وقت وہیں موجود رہتی ہے ، ان کے جسم کو کسی پرواز کی ضرورت نہیں ہوتی ، اللہ نے تمہیں دکھا دیا۔
نا چیز جہانِ مہ وپرویں ترے آگے
وہ عالم مجبور ہے تو عالمِ آزاد
اسما مودودی صاحبہ اپنی باقیات میں ایمان ، دانشمندی اور پیار و محبت کی میراث چھوڑ کر گئی ہیں ۔ ان کے عزیز و اقارب ، دوست احباب ، شاگرد خواتین سبھی دل کی گہرائیوں سے ان کی خوبیوں ، نیکیوں اور اچھائیوں کے معترف ہیں اور ممنون احسان ہیں جن کی زندگیوں پر ان کی نظرِ کرم نے مثبت اثرات مرتب کیے ۔ جو لوگ انہیں جانتے تھے ان کے دلوں میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی ۔ ان کی حکمت اور رہنمائی سے وہ اپنی زندگی کو سنوارتے رہیں گے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے۔
گلشنِ ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے ان کی تمام منزلیں آسان کرے اور انہیں جنت الفردوس کے بلند ترین مقام عطا کرے ( آمین )۔
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x