ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

چلے تو غنچوں کی مانند مسکرا کے چلے – بتول مارچ ۲۰۲۳

والد محترم قاضی عبدالقادر کا مُشک بو تذکرہ

 

ڈبائی منزل کے زیریں حصے میں بلب کی روشنی متواتر جل رہی ہے ۔رات کے کسی پہر دو قدم اپنی مربوط چال کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسّی کی اس دہائی میں بھی اُن قدموں میں کوئی لرزش اور ڈگمگاہٹ نہیں کیونکہ وہ ایسی شخصیت کے قدم ہیں جو مضبوط اعصاب کی مالک ہے۔ وہ شخص بڑے کمرے میں اپنی لائبریری میںرکھے مُصلے اور قرآن سے ایسا ناطہ جوڑ لیتاہے کہ اس کے مقناطیسی اثر سے اس کی زندگی ہمیشہ متحرک اور پر سکون رہی ہے۔ تحریک کے ایک کارکن کے طور پر بھرپور مشقت کی زندگی گزارنے والی یہ نابغۂ روز گار شخصیت میرے والد محترم قاضی عبد القادر عفی عنہ کی ہے۔
والد محترم کا ابتدائی تعارف کچھ یوں ہے کہ علی گڑھ ضلع بلند شہر کا ایک قصبہ ’’ڈبائی ‘‘ میں پیدا ہوئے اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے گھر کا نام بھی ’’ڈبائی منزل‘‘ رکھا تھا ۔ خاندانی اعتبار سے ہمارا خاندان قاضیوں کا خاندان ہے والد صاحب اپنی خود نوشت ’’یادوں کی تسبیح ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ ہمارے کوئی جدامجد مسلم حکمرانوں کے دور میں غزنی افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے اور اس علاقے کے قاضی مقرر کیے گئے تھے ‘‘۔
والد صاحب فروری 1934ء محلہ قاضی خیل قصبہ ڈبائی میں پیدا ہوئے۔ ایک سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔ چار سال تک خالہ نے پرورش کی۔ میٹرک تک تعلیم کبُیرانٹر کالج ڈبائی سے حاصل کی اور پھر پاکستان ہجرت کے بعد انٹر ، بی کام اور پھر ماسٹرز کیا ۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ قیام پاکستان کے وقت ہندو مسلم فسادات کی آگ آہستہ آہستہ بھڑک رہی تھی تو ان کے والد نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا اور محلہ قاضی خیل سے براستہ علی گڑھ دہلی ، بمبئی اور پھر پاکستان پہنچے۔کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پہنچنے تک قربانیوں کی ایک داستان رقم ہے ۔ وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ۔
’’ کیماڑی کی بندر گاہ سے ظہر کی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے … اللہ اکبر … اللہ اکبر … اور زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو جاتا ہے‘‘۔
قیامِ پاکستان کے بعد حالات کے مدو جذر جب اعتدال کوپہنچے تو والد صاحب 12سال کی عمر سے ہی…
جن کے ذہن میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کا تصور رچ بس چکا تھا اسی لیے اسلام کے انقلابی تصور سے وہ آشنا ہو چکے تھے ۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
رُوحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
جس ماحول اور حالات میں آپ نے دین کے کاموں کا آغاز کیا وہ آسان نہ تھے کیونکہ تھوڑے بہت پیسے جو ہجرت کے وقت وہ ساتھ لا سکے بس وہی کل جمع پونجی تھی ساری جائیدادیں ،زرعی زمینیں ، دکانیں اور مکان وغیرہ سب ڈبائی چھوڑ چکے تھے نا مساعد حالات کا سامنا تھا… لیکن اللہ رب العزت کو اپنی مشیت کے مطابق دنیا میں جس سے کام لینا ہوتا ہے اسے حالات کے مطابق وہ اوصاف عطا کردیتا ہے اور انسان اپنی محنت اور تربیت سے مزید ان اوصاف کو چمکاتا ہے ۔ والد صاحب بھی ان نیک ارواح میں سے تھے جنہوں نے مقصد زندگی پہچانا تو اس کے سچے عاشق ہو گئے 12سال کی عمر میں اسلام کے انقلابی تصور سے آشنا ہو چکے تھے مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کا تصور ان کے ذہن میں روح بس چکا تھا جنہوں نے صرف 10سال کی عمر توبۃ النصوح پڑھائی تو ان کی زندگی کا محور بدل گیا یادوں کی تسبیح میں لکھتے ہیں ۔
’’ توبۃ النصوح پڑھ کر زندگی میں جو تبدیلی آئی اس میں ایک طرف فرائض دینی کی پابندی ، دوسری طرف غلط رسومات سے خاصی حد تک اجتناب تھا ۔ کونڈے کھانا ، تعزیے دیکھنا ، عاشورہ کے جلوس کے ساتھ

چلنا ، عرس شریف کی برکات سے فیضیاب ہونا ترک ہو گیا ‘‘۔
12سے 15سال کی عمر میں تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ نوکری کی مشقت بھی اور ساتھی ہی دعوت دین کا پلیٹ فارم بھی چن لیا … اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی ، اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تحریکی کاموں کو ترجیح دینا ،متواتر رابطے ، مضبوط تعلقات بنانا ان کا خاصہ تھا بھرپور مشقت کی زندگی اورجمعیت سے تعلق نے انہیں جسمانی وروحانی طور پر تازہ دم اور جواں ہمت رکھا تعلیم یا نوکری کی مصروفیات بھی انہیں کسی ذمہ داری کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکی ۔ آفس کے تھکا دینے والے کام کے بعد تحریکی ذمہ داری کے فرائض ادا کرنے ایسے نکلتے تھے جیسے یہ’’پارٹ ٹائم جاب‘‘ ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا والد صاحب کو تحریکی مصروفیات میں ہمہ تن جوش پایا ہفتہ ہفتہ بھر ہماری والد صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تھی سوائے چھٹی کے دن کے جس میں وہ بھرپور ٹائم دیا کرتے دفتری اور تحریکی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے نیک رفیقۂ حیات کی رفاقت سے زندگی مزید کامیابی کی جانب گامزن ہو گئی چونکہ دونوں ہم خیال ہمسفر بن گئے تھے لہٰذا وہ مقصد عظیم آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ ہو یازندگی کے بڑے اور گھمبیر مسائل والدہ صاحبہ جنہوں نے کبھی ضرورت سے زیادہ مادی اشیاء کی طلب نہ کی اور ہر تنگی اور ترشی اور مادی لحاظ سے ہر کڑے وقت میں والد صاحب کا ساتھ دیا۔
ہم آٹھ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ہمارے والدین نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کہ ’’ یہ اولاد ہی آخرت کا سرمایہ ہیں ‘‘ اسی سوچ کے تحت بچوںکی تربیت پر خاص نظر رکھی کہ ہم بچوںکے اندر علمی دوستی کی اہمیت اس طرح جذب کی کہ ہم نے بچپن سے ہی فرصت کے اوقات اچھے رسالوں ، میگزین اور اصلاحی کہانیوں کے ساتھ گزارے یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ تھا فرصت کے اوقات میں ہماری دلچسپی کا سامان یہی ’’ کتابیں ‘‘تھیں ۔
الغرض دفتری اور تحریکی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے رہے … ہم بچوں کی پراگرس رپورٹ سے لے کر میڈیکل رپورٹ یعنی صحت کے مسائل کے حوالے سے ہمہ وقت فکر مند رہتے اچھے معالج سے علاج کرواتے انہیں اپنے آٹھوں بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت کے بارے میں مکمل علم ہوتاکہ کس بچے کو کن چیزوں سے الرجی ہے ٹیکے کب لگوانے ہیں … الغرض والد صاحب ’’رُحما ئُ بینَھُم کی جیتی جاگتی تصویر تھے ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگوںسے گھل مل جاتے بچوں سے بہت محبت کرتے ان کی بات توجہ سے سنتے ، انہیں نظمیں سنا یا کرتے ، انہیں گد گدی کرتے روتے بچوں کو ہنسا دیا کرتے تھے۔خاندان میں اپنی بہو ، بیٹیوں ، بھائی کی بہو، بیٹوں کواصلاحی کتابیں اور بچوںکو ان کے حساب سے اصلاحی ناول اور تحفے دیا کرتے ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کے سب بچے حج کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں لہٰذا جن بچوںنے حج نہیں کیا تھا انہیں اپنے اخراجات پر حج کرایا اوران کے پیچھے پوتا پوتی کی ذمہ داری بھی نبھائیں۔
فریضہ اقامت دین اور رجوعِ الی القرآن کے بہترین داعی رہے اسی لیے اپنی تمام زندگی اجتماعیت کے ساتھ گزاری ۔ اپنے طالب علمی کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے سر گرم رکن رہے پھر جماعت اسلامی کے ساتھ بے انتہا جذباتی وابستگی رہی اور عملی میدان میں بھی ، تحریک اسلامی کے نامور شخصیات محترم خرم جاہ مراد ؒ ، خورشید احمد صاحب اورڈاکٹر ظفر اسحق انصاری کے ساتھ زندگی کا یاد گار اور گراں بہا دور گزارا۔973میں انتخابی سیاست پر کچھ اختلافات کی بنیاد پر الگ ہوئے مگر اجتماعی زندگی کا دامن پھر بھی نہ چھوڑا اور اپنے جمعیت کے زمانے کے ساتھی ڈاکٹر اسرار احمد ؒصاحب جو تنظیم اسلامی کے بانی تھے، ان کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہو گئے۔
پھرڈاکٹر اسرار احمد صاحب میرے والد صاحب کے سمدھی بھی بنے۔ان کے سب سے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر عارف رشید کے ساتھ میری بڑی بہن کا رشتہ طے ہؤا۔یہ شادی بھی دیندار خاندانوں کے لیے مثالی شادی تھی۔والد صاحب نے چونکہ عزم کیا تھا شادی بیاہ کی رسومات اور جہیز کی لعنت ختم کرنے کا، تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے گھر سے آغاز کیا اور اپنے آٹھوں بچوں کی شادی انتہائی سادگی سے کی ،بیٹوں کی

شادی کے موقع پر بھی بہوئوں سے کسی قسم کا جہیز یا سامان نہیں لیا۔
قیم تنظیم اسلامی اورصدر انجمن خدام القرآن کی گراں بہا ذمہ داری تن من دھن سے بخوبی ادا کی۔ اس مقصد کے لیے والد صاحب نے اپنی بہترین جوب کوخیرباد کہا اور بمع فیملی کراچی سے لاہور ہجرت کی ،اس مقصد سے کہ مکمل تندہی کے ساتھ دعوت دین پر توجہ دیں لہٰذا انہوں نے اپنے تمام ذرائع وسائل استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک دوروں کا آغاز کیا ۔شمالی ہند جنوبی ہند امریکہ ، کینیڈا کے دورے کیے ۔ ان دوروں کے انتظامات ، دعوتی کتب اور دیگر کام بذاتِ خود ترتیب دیتے۔
والد صاحب کو بچپن سے ہی مطالعہ بینی کا شوق اور علم و ادب کی طرف گہرا رحجان تھا مختلف جرائد اور اخبارات کو پڑھ کر ان میں آنے والی اچھی تحریروں کی حوصلہ افزائی اور نا مناسب تحریروں کے حوالے سے تنقیدی تبصرے اور خطوط بھی لکھا کرتے۔ چونکہ آپ عام زندگی میں بھی حس مزاح اور ادبی ذوق رکھتے تھے اس لیے مزاحیہ اور فکاحیہ مضامین بھی لکھتے تھے ۔ اپنی خود نوشت ’’یادوں کی تسبیح ‘‘ کے نام سے لکھی جو رسالہ ندائے خلافت میں سلسلہ وار شائع ہوئی ان کے چاہنے والوں نے اس آپ بیتی کو اتنا پسند کیا کہ کچھ ہی عرصے بعد دوسرا ایڈیشن بھی چھپوایا۔ والد صاحب نے ہم بچوں کی ادبی رہنمائی کی ان کے جن بچوں نے قلم اٹھایا اور تھوڑا بہت لکھا ان کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں مزید بہتر لکھنے کی ترغیب دی۔ اپنی حساب سے ریٹائر منٹ کے بعد ایک بڑی لائبریری’’ مکتبۂ الہدیٰ‘‘ کے نام سے بنائی جس میں لا تعداد کُتب جملہ موضوعات پر موجود کہیںمختلف مصنفین کی لکھی ہوئی قرآن کی تفاسیر ، احادیث کے مجموعہ سیرت النبی ؐاور فقہ اور دیگر اصناف موجود ہیں بڑے مکتبوں میں جن نئی کتب کا اجرا ہوتا وہ فوراً منگوا لیتے ۔ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ دینی کتابوں پر خرچ کرتے خاندان ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں کو اچھی کتابوںکی شکل میں تحائف دینا بچوں کے لیے اچھے رسائل اور میگزین لگوا کر دینا ان کی دعوت کا خاصہ تھا ۔
قرآن سے تعلق ان کی روح کے لیے غذا کا کام دیتا تھا اکثر قرآن کی تلاوت قرآن کی سورتیںحفظ کرتے نظر آتے ، ان کے قرآن مجید پر منتخب سورتوں پر حاشیہ ( ہائی لائٹ) نظر آتا … جنہیںوہ اپنی ڈائری پر نوٹ کرتے کیونکہ وہ اپنے موبائل سے بھی دعوتی و اصلاحی کام لیا کرتے روزانہ قرآن کی منتخب سورتیں ، احادیث اور خوبصورت اشعار کے پیغامات گھر اور خاندان کے بیشتر افراد کو (sms)کرتے اور جن افراد کو بھیجتے اُن سے بھی یہ اصرار کرتے کہ آگے کم از کم 8یا10 افراد کو لازمی بھیجیں یہ قرآن سے بہترین تعلق ہی تھا کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جب والدہ صاحبہ کو لے کر قریبی ہسپتال گئے جہاں ایمرجنسی میں کچھ ہی دیر بعد والدہ کا انتقال ہو گیا ایمبولینس کے ساتھ والدہ کی میت لے کر وہ اکیلے ہی آئے اور گھر آکر اپنے بیٹی داماد اوردیگر رشتہ داروں کو فون کیا اس وقت ہم 6بہن بھائی ، بھابھی حج پر تھے ۔ ہماری واپس میں 7دن باقی تھے ۔ ہم نے والدہ کے انتقال پر جلد آنا چاہا تووالد صاحب نے کہا کہ جلدی آنے کی ضرورت نہیں تم لوگ مسجدِ نبویؐ چلے جائو وہیںرہ کر دعائیں کرو ’’ ایمان لانے والوں میں سے ایسے لوگ موجود ہیںجنہوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہدکو سچا کر دکھایا ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔ (الاحزاب ۲۳)
والدین تو اپنی اولاد کے لیے ’’ شجر سایہ دار ‘‘ہوتے ہیں جب تک یہ سایہ بچوں پر رہتاہے زندگی کے نشیب و فراز کا اُسے پتہ نہیں چلتا ۔ کیونکہ دعا کے وہ ہاتھ اٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن جب یہ سایہ رخصت ہو جاتا ہے تو اولاد کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے سر پر سے سائبان ہٹ گیا ہو… وہ محبت کا ایسا ہی شجر سایہ دار تھے جس کی چھائوں میں اپنے ، غیر ، چھوٹے ، بڑے اور ملازم سب کے لیے تھی ہمیشہ دوسروںکی ضرورت کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ، خاموشی سے دوسروں کے قرضے اتاردیتے ، تحائف سے ان کی مدد کیا کرتے ، رمضان آنے سے پہلے رمضان کی تیاری شروع کردیتے اپنی زکوٰۃ صدقات ، کشمیر فنڈ اور دیگر فنڈ اور مالی معاونت کثرت سے کیا کرتے والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد ان کی اعانت ، ان کی قربانی ، کشمیر فنڈ اور بتول اور ترجمان جو وہ اپنی زندگی میں لیا کرتی تھیں ان کی وفات کے بعدبھی جاری رکھی ۔والدہ کے انتقال کے

بعد والد صاحب 15سال حیات رہے۔ وہ پابندی سے مہینہ کی پہلی تاریخ کے بعد اعانت کا لفافہ اور رسائل کے پیسے تیار رکھا کرتے تھے ( وہاں کی ناظمہ حلقہ نے بتایا)۔
9باتوں کا حکم حدیث کے مطابق عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے اپنی اولادوں کو بھی ہمیشہ صلہ رحمی کی تاکید کیا کرتے ۔ اپنے خادم کے ساتھ بہترین برتائو کرتے اس کی ضروریات کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے اکثر اپنے کام خود ہی کیا کرتے ان کے پاس جو خادم بچہ بھی رکھا جاتا وہ کم از کم پانچویںکلاس تک پڑھاتے اور ایک اچھا انسان بن کرجاتا ان کے انتقال کے وقت جو بچہ تھا اسے آٹھویں جماعت کا کورس بھی پڑھا دیا تھا وہ بچہ بھی ان کا ایسے خیال رکھتا تھا کہ لوگوں کو گمان ہو تا کہ شاید ان کا نواسہ یا پوتا ہے غرض یہ کہ حاجت مندوں کی تالیف قلب کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور ان کی مدد اور تعاون کے لیے ہمیشہ متعد رہتے ۔
والد صاحب نے مختلف ادوار میں کئی بیماریوں کو اللہ کی مدد اوراپنی قوت ارادی کے بل پر زیر کیا بلڈ پریشر ، شوگر ، سروائیکل ، گھٹنوں کی تکلیف ، کانوں سے کم سننا وغیرہ۔ یہ سب ان کے شوق عبادت اور شوق دعوت کو کم نہ کر سکیں ۔ اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق علی الصبح قرآن اور حدیث کا SMS تیار کر کے اپنے موبائل کے عام رابطوں کو بھیج چکے تھے ۔ یہ ان کا آخری پیغام تھا ’’ استغفار‘‘ جس پر وہ اپنی زندگی میں بھی بہت زور دیا کرتے تھے جاتے جاتے بھی وہ اپنا دعوتی کام کر گئے استغفار کی کثرت پر زور اور اپنے لیے مغفرت کی دعائوں کے لیے یاد دہانی کر ا گئے …
19اکتوبر جمعہ کی شب 84سال کی عمر گزار کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے … روشنی کی مانند زندگی گزارنے والے والد محترم آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کی دعوت دین کی روشنی آنے والی نسلوں کو منور کرتی رہے گی ( انشاء اللہ ) اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے ۔ آمین
چلے وہ غنچوں کی مانند مسکرا کے چلے
پر اپنے چاہنے والوںکو خوں رلا کے چلے
جھٹک دیا سرِ داماں سے گردِ دنیا کو
مبارک اپنے لیے عاقبت بنا کے چلے
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x