ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابو چلیے، بہت دیر ہوگئی ہے! – بتول مارچ ۲۰۲۳

یہ میرے ماموں مرحوم کا تذکرہ ہے جس میں بہت سی باتیں میں ان کے بیٹے سے سن کر انہی کی زبانی لکھ رہی ہوں(ع۔ز)

 

آدھی رات بیت چکی ہے، آسمان پر چاند بھی آدھا ہی نظر آ رہا ہے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے ہلکی سی چاندنی میں دور تک نظر آنے والا ہر منظر اداسی کی چادر اوڑھےہوئے ہے۔ میری آنکھیں غیر مانوس بےخوابی کی وجہ سے جل رہی ہیں۔ میں جلدی سونے کا عادی ہوں مگر آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں باری باری ذہن پر دستک دے رہی ہیں۔ سرزمینِ حجاز ، اور مدینہ میں ہماری یہ آخری رات ہےاور دل کی بے کلی ہے ،کہ ہر لمحے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
تمام مخلوقات میں انسان کس قدر خوش قسمت ہے! اس کے پاس، ماں ،باپ، بہن، بھائی، بیوی یا شوہر، بچے، یہ تمام خوبصورت رشتے موجود ہوتے ہیں جو اس سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ اس کی خوشی میں خوش اور تکلیف میں مضطرب ہوتے ہیں۔ اس کی ترقی کے لیے دعا کر تے ہیں۔ اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اور اس کے خیر خواہ ہو تے ہیں۔ کبھی وہ تھکنے لگے یا گرنے لگے تو ہاتھ پکڑ کر کھڑا کرتے ہیں، سہارا بنتے ہیں۔ ان تمام رشتوں میں استاد یا والد کا رشتہ ہی وہ عظیم رشتہ ہے جو ہمیں خود سے زیادہ کامیاب اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتاہے۔
’’ابو آ گئے ابو آ گئے!‘‘
ہم سب بہن بھائی ابو کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔ اور ابو ہر ایک کی پسند کی چیزیں الگ الگ سب کے ہاتھوں میں پکڑاتے تھے۔ چیزیں لے کر سب پھر سے کھیل میں لگ جاتے۔ابو تھک کر صحن میں رکھی کرسی پر ٹک جاتے۔ میں سبزی اور پھلوں کا تھیلا لے جا کر امی کو دیتا اور ان کا بیگ ان کے کمرے میں رکھ آتا۔پھر ٹھنڈا پانی لا کر ابو کو دیتا، ابو مجھے بہت ساری دعائیں دیتے۔
’’خوش رہو بیٹا، ہمیشہ کامیاب رہو‘‘۔
چائے کی ٹرے لاتی ہوئی امی آمین کہتیں اور پھر میں بھی کھیل میں مگن ہو جاتا۔
ہم چھ بہن بھائی تھے، چار بھائی اور دو بہنیں، مگر میں ہمیشہ سے ابو کا سب سے چہیتا بیٹا رہا تھا۔ اس کی وجہ سب سے چھوٹا بیٹا ہونا نہیں تھا۔ بس ہم دونوں کا کوئی روحانی رشتہ ضرور تھاکہ ابو کو میری ہر تکلیف ہر ضرورت کا پتا چل جاتا تھا اور مجھے بھی ان کی ہر ضرورت کا معلوم ہو جاتا۔
ابو ایک نجی تعمیری ادارے میں کیشئر تھے۔ سستا زمانہ تھا تنخواہ معقول تھی، ہمارے گھر کی تمام ضروریات کے لیے کافی ہو جاتی تھی۔ کبھی کوئی تنگی نہیںہوئی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ سب بہن بھائی بڑے ہو رہے تھے،سب کی فیسیں اور ضروریات بڑھ رہی تھیں اور اب ابو کی آمدنی ناکافی ہونے لگی۔ ویسے تو امی کافی سلیقہ مند اور کفایت شعار ہیں سو انہوں نے کمال مہارت سے گھر سنبھالا ہؤا تھا۔ لیکن جب مہنگائی کے طوفان نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تب گھر کا ماحول کبھی کبھی کشیدہ ہو جایا کرتا۔ عموماً ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں امی ابو سے شکوہ کرتیں جس پر ابو اپنی نرم گفتگو سے، ہنستےہوئیے کوئی چٹکلہ چھوڑ دیتے تھے اور گھر کا ماحول پھر سے خوشگوار ہو جاتا۔
پھر ابو نے شام میں ایک جز وقتی ملازمت بھی کر لی جس سے کچھ بہتری آ گئی تھی۔بڑے دونوں بھائیوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ سیمسٹر کی فیسوں کا انتظام کچھ ابو کرتے اور کچھ بھائی ٹیوشنز کے ذریعے کر لیتے۔
تیسرے نمبر کے بھائی کا رجحان وکالت کی طرف تھا۔ ابو نے مخالفت کی تھی کہ اس پیشے میں کبھی کبھار اپنے موکل کے بچائو کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن بھائی نے کسی طرح ابو کو قائل کر کے لا کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ جس سے ابو کافی دلبرداشتہ ہوئے تھے۔ مگر ہمیشہ کی طرح وہ اس بات کو بھی پی گئے۔

مجھے ابو نے کہا تھا کہ تم کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کرنا آج کل اسی کی مانگ ہے۔ تو میں نے وہی کیا تھا۔ اس کے لیے مجھے بہت محنت کرنی پڑی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ داخلہ مل گیا تھا۔
آج ہم سب کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے۔ بڑی بہن کی شادی ہو گئی اور ابو کے اصرار پر حج کے سفر سے پہلے چھوٹی بہن کرن کا نکاح بھی ہو گیا۔ بڑے دونوں بھائیوں کی شادی بھی ملازمت شروع کرنے کے فوراً بعد ہی ہو گئی تھی۔ اب ہمارا چھوٹا سا گھر خوب بھرا بھرا سا لگتا ہے۔
الحمد للہ چھ سات ماہ پہلے ابو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور اس دوران انہوں نے اپنے تمام فرائض بہ حسن و خوبی انجام دیے تھے۔ مجھے یاد ہے ہر ماہ جس دن تنخواہ ملتی ، ابو ایک کلو کا مکس مٹھائی کا ڈبہ لے کر آتے۔ اس میں سب کی پسند کی مٹھائیاں ہوتیں۔ آپی کی پسند کی برفی، امی کے لیے پتیسہ، بڑے بھائی جان کے لیے لڈو،کرن کے لیے چمچم۔ سب کو اپنے ہاتھ سے پکڑاتے۔
امی کو انگور بہت پسند تھے تو انگور اکثر لے آتے۔ اپنے حصے میں سے صرف دوچار دانے کھا کر باقی امی کے پیالے میں ڈال دیتے۔ امی منع کرتی رہ جاتیں۔کبھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے۔ گھر میں سب کے کپڑے استری کرنا آپی کے ذمہ تھا۔ آپی ہفتے والے دن اکثر بھول جاتیں کیوں کہ ان کی چھٹی ہوتی تھی۔ تب ابو نے ان کو کبھی نہیں ڈانٹا خود ہی اپنے کپڑے استری کر لیتے۔رمضان میں تو ابو کا بس نہیں چلتا کہ ہر بچے کی ہر فرمائش پوری کریں۔
ایک مرتبہ عید پر ابو کو ان کی کمپنی نے اپنا کوئی بڑا پروجیکٹ مکمل ہونے کی خوشی میں بونس دیا تھا۔ اس دن ابو بہت خوش تھے۔ ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ آتے ہی اعلان کیا۔
’’ کل ہفتہ ہے۔ انشاءاللہ میں کل جلدی آؤں گا۔ تم سب لوگ تیار رہنا۔ ہم عید کی شاپنگ کرنے چلیں گے‘‘۔
دوسرے دن ابو دوپہر میں ہی آ گئے تھے۔ ہم سب بھی تیار بیٹھے تھے۔ابو نے سب کو، دو دو جوڑے اور اپنے پسند کے جوتے دلائے۔ بہنوں کی شاپنگ میں میچنگ جیولری اور چوڑیاں وغیرہ بھی شامل تھیں۔ امی کو بھی بہت خوبصورت جوڑا دلایا تھا اور گھر میں کام کرنے والی ہماری زلیخا آپا کے لیے بھی اچھا سا جوڑا لیا تھا۔ ہم نے افطار ڈنر بوفے بھی باہر ہی ایک اچھے ریستوران میں کیا تھا۔ وہ دن ہمارے لیے ایک یادگار دن تھا کیوں کہ ہمارے گھر میں عموماًباہر افطار اور کھانا نہیں کھایا جاتا تھا۔
گھر آ کر سب لوگ خوشی خوشی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اپنا سامان کھول کر دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔اچانک مجھے خیال آیاکہ ابو نے تو اپنے لیے کچھ بھی نہیں لیا جبکہ امی مسلسل ابو سے کہہ رہی تھیں اور ابو نے کہا تھا کہ میں بعد میں لے لوں گا!
میں فوراً ان کے کمرے میں پہنچا اور پوچھا۔
’’ابو، آپ نے اپنے لیے جوڑا کیوں نہیں لیا؟‘‘
’’کہنے لگے ، میرے تو پچھلی عید کے جوڑے ویسے ہی نئے کے نئے رکھےہوئے ہیں۔ کیوں کہ آفس تو میں پینٹ شرٹ ہی پہن کر جاتا ہوں۔ صرف جمعہ کو ہی شلوار قمیض پہنتا ہوں نا ، اس لیے میں نے نہیں لیا۔ اور تم تو میرے دوست ہو نا، اس لیے صرف تمہیں بتا رہا ہوں‘‘ ابو نے میرے کمر کے گرد بازو ڈال کر مجھے خود سے قریب کر لیا تھا۔
’’ پرسوں رات کھانا کھاتےہوئے کرن نے کیا کہا تھا یاد ہے نا؟ ‘‘
میں نے پوچھا،’’کیا کہا تھا؟ مجھے تو یاد نہیں!‘‘
’’اس نے مجھے بتایا کہ اس کی وہ پکی دوست ہے نا، کیا نام ہے اس کا، ہاں اریبہ… وہ لوگ اب تک چار مرتبہ بوفے ڈنر پر جا چکے ہیں ۔ اور زمل بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ جاتی ہے ، ہم کیوں نہیں جاتے؟ تو میں نے سوچا کہ اس کاا یک شوق بھی پورا کر دیتے ہیں… تم فکر مت کرو، میں واقعی بعد میں لے لوں گا‘‘۔
لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ مجھے پتا تھا کہ بعد میں کا مطلب کیا تھا!
دوسرے دن میں امی کے ساتھ اسی دکان پر گیا اور میرے لیے جو دو جوڑے لیے تھے اس میں سے ایک واپس کر کے اس کے بدلے ابو کی پسند کا لائٹ بلو جوڑا لے لیا اور ابو کی الماری میں چپکے سے رکھ دیا ۔
جب رات میں ابو نے وہ جوڑا دیکھا، سب سے استفسار کیا، کہ

’’یہ کس کا جوڑا ہے؟ کہاں سے آیا ہے!‘‘
جب ان کو پتا چلا تو کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گئے تھے۔ کہنے لگے۔
’’ارے بیٹا، مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی‘‘۔
’’کیوں نہیں ضرورت؟ کیا آپ عید پر پرانا جوڑا پہنیں گے؟‘‘
ابو نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا تھا۔ جس طرح سے انہوں نے مجھے بھینچا تھا وہ لمس مجھے ابھی بھی محسوس ہو رہا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی اور امی دروازے پر کھڑی ہوئی اپنے دوپٹے سے آنکھیں صاف کر رہی تھیں۔
ابو کو خانہ کعبہ اور مدینہ دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ ویسے تو ہر مسلمان کو یہ ارمان ہوتا ہی ہے۔ مگر ہر ایک کے جذبے کی شدت مختلف ہوتی ہے۔ ابو کی بے قراری کا ادراک مجھے تین سال قبل ہؤا تھا۔ میرے امتحانات ہو رہے تھے۔ میں رات میں دیر تک جاگ کر پڑھتا۔ ایک دن ایسے ہی پڑھتےہوئے میری آنکھ لگ گئی اور میں میز پر ہی سر رکھ کر سو گیا ۔ اچانک میری آنکھ ابو کی ہچکیوں سے کھلی تھی۔ میں چپکے سے کمرے سے نکلا، تو ابو لاؤنج میں جائے نماز بچھا کر نالہ نیم شب کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔
وہ رقت آمیز لہجے میں دعا مانگ رہے تھے۔’’یا اللہ، آپ نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ عزت کی زندگی دی۔ گھر بار، فرماں بردار بیوی بچے، ہر قسم کی خوشیاں دی ہیں۔ اب بس ایک آخری خواہش ہے، اپنے گھر کا دیدار کروا دیجیے۔ اور اپنے حبیبؐ کا روضہ دکھا دیجیے‘‘۔
ابو زار و قطار روئے جا رہے تھے اور بار بار یہی جملہ دوہرا رہے تھے۔
میں اسی خاموشی اور نم آنکھوں کے ساتھ پلٹ گیا۔ اسی وقت میں نے اپنے دل میں پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ ان شاء اللہ جیسے ہی سہولت ہوگی میں ابو کو ضرور حج کرواؤں گا۔ اور اللہ نے میرا ارادہ پورا بھی کرلیا تھا۔ میری دعا سن لی تھی۔
ابو جب ملازمت سے فارغ ہوئے تھے تو ان کے پراویڈنٹ فنڈ میں کوئی خاص رقم موجود نہیں تھی۔ کیونکہ بہن کی شادی کے وقت، کبھی ہماری فیس دینے کے لیے اور کبھی کسی بڑی ضرورت کے لیے ابو وقتاً فوقتاً قرض لیتے رہے تھے۔حج کے فارم جمع کروانے کے لیے کچھ پیسے امی نے دیے جو انہوں نے پس انداز کر رکھے تھے، کچھ میری جمع پونجی موجود تھی اور کچھ رقم بڑے بھائیوں سے لی۔ اور اس طرح ہم نے اللہ کا نام لے کر ابو ، امی اور میرا حج کا فارم بھر دیا تھا۔
قرعہ اندازی کا نتیجہ آنے تک ابو کی بے قراری کا عالم یہ تھا کہ اپنا زیادہ تر وقت نوافل اور مختلف وظائف پڑھنے میں مصروف رہتے اور دعائیں مانگتے رہتے۔ ہر وقت لبیک الھم لبیک پڑھتے۔ بس انہیں کی دعا سے ہمارا نام ان خوش قسمت افراد میں سر فہرست تھا جنہیں سفر حجاز کا اذن مل چکا تھا۔ ہم سب ہی خوش تھے لیکن ابو کی خوشی دیدنی تھی۔پھر کووڈ 19 کی منحوس وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا یہاں تک کہ حرمین بھی خالی ہو گئے۔ کسی لمحے نا رکنے والا طواف بھی رک گیا تھا۔ مزید دو سال تک حج و عمرہ کی اجازت نہیں مل سکی تھی اور یہ وقت ابو نے بہت کرب میں گزارا ۔ میں اکثر ان کو حج کی وڈیوز ٹی وی پر لگا کر دیتا کہ اس سے ان کے دل کو کچھ سکون ملتا تھا۔
بہر حال اس سال اللہ کا حکم ہؤا اور ہم نے نئے جوش سے حج کا قصد کر لیا۔ لیکن اب حج کے لیے جو رقم جمع کی ہوئی تھی وہ بہت کم تھی۔ کیوں کہ اس مرتبہ حج کے لیے دوگنی رقم جمع کروانی تھی۔ میں نے امی ابو سے کہااس مرتبہ آپ دونوں چلے جائیں، مگر امی نے بصد اصرار کہا ۔
’’نہیں میرے بچے، تم اپنے ابو کو ساتھ لےکر جاؤ۔ میں اکیلی ان کو نہیں سنبھال پائوں گی‘‘۔
اور اس طرح ہم دونوں باپ بیٹا اس مقدس سرزمین میں موجود تھے۔ ابو نے تمام ارکان بہت جوش و خروش کے ساتھ مکمل کیے ہمارا حج بحسن خوبی مکمل ہو چکا تھا۔
مکہ میں قیام کے دوران ابو زیادہ تر وقت حرم میں گزارتے۔ ایک طواف کے بعد دوسرے کی نیت کر لیتے۔ میں تھک جاتا مگر ان کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔اس پاک سرزمین کی برکت سے ان کے اندر جیسے بجلی بھر گئی تھی۔ میں حیران ہو جاتا تھا کہ گھر میں تھوڑی دیر میں تھک جاتے تھے۔ اور یہاں پر ایک دن میں پانچ سے بھی زیادہ طواف کر لیتے۔ دوڑ دوڑ کر سعی کر رہے ہوتے۔ساری نمازیں کھڑے ہو

کر پڑھ رہے تھے۔ خوب تلاوت کرتے نوافل ادا کرتے۔
ہم نے مزید پانچ عمرے کر لیے تھے۔
جب ہم الوداعی طواف کر رہے تھے تب ابو بلک بلک کر روتے رہے۔ میں نے ان سے کہا ، ابو ان شا اللہ اگلے سال آپ پھر سے امی کے ساتھ آ جائیےگا۔ حرم سے باہر نکلتےہوئیے جہاں تک خانہ کعبہ نظر آتا رہا وہ پلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ دل تو میرا بھی تڑپ رہا تھا، نا جانے اب دوبارہ آنا نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں۔
اب ابو کو ایک ہی لگن تھی کسی طرح جلد از جلد اڑ کر مدینہ پہنچ جائیں۔دوسرے دن مدینہ کے لیے نکلنا تھا۔ ابو نے صبح ہی نہا دھو کر نیا جوڑا پہنا خوشبو لگائی، مسلسل درود شریف پڑھتے رہے۔ ابھی نکلنے میں دو گھنٹے باقی تھے۔ انہوں نے وڈیو کال پر امی سے اور سب بہن بھائیوں سے بات کی۔ اپنے رشتہ داروں کو اور دوستوں کو بھی وائس میسج کیا۔ وہ سب کو خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ ہم مدینہ جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
پانچ چھ گھنٹے بس کا طویل سفر طےکرتےہوئے ابو نے بہت کم بات کی تھی۔ کچھ کھایا بھی نہیں، صرف زم زم گھونٹ گھونٹ پیتے رہے تھے۔ جب بس مدینہ شہر میں داخل ہوئی تو بس میں سوار تمام افراد زور زور سے درود شریف پڑھ رہے تھے۔ دور سے ہی مینار نظر آنے شروع ہو چکے تھے۔ سب بہت اشتیاق سے ایک دوسرے کو دکھا رہے تھے لیکن ابو گردن جھکائے بیٹھے رہے۔ مجھے ابو کی اس ادا پر پیار آ گیا تھا۔ وہ شاید اس ادھورے طریقے سے نہیں دیکھنا چاہ رہے تھے۔
ہم ہوٹل پہنچے تو ابو کا مکہ والا جوش و خروش بالکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ انہوں نے بس سے اترنے کے لیے بھی میرا سہارا لیا تھا۔ قدم بھی بہت آہستہ اٹھا رہے تھے۔ شاید سفر کی تھکن تھی۔
میں فوراً نہا کر مسجد نبوی جانے کے لیے تیار ہو گیا۔لیکن ابو نے جانے سے منع کردیا۔ کہنے لگے۔
’’میں کچھ تھکن محسوس کر رہا ہوں۔ میں یہیں پر نماز ادا کروں گا۔ تم ہو آؤ۔ اور ہاں ہر نماز حرم نبویؐ میں ہی پڑھنابلکہ توسیع شدہ مسجد کی بجائے پرانی مسجد میں جو اصل مسجد نبوی ہے اس میں پڑھنے کی کوشش کرنا۔ ریاض الجنہ بھی جتنی مرتبہ موقع ملے ضرور جانا ۔ وہاں جس نے نماز پڑھ لی وہ جنت میں ضرور جائےگا۔ کیوں کہ وہ جگہ جنت کا ٹکڑا ہے اور یوم قیامت وہ حصہ جنت میں چلا جائےگا‘‘ ۔
میں پھر حیران ہؤا کہ مدینہ آنے کا اتنی بے تابی سے انتظار کر رہے تھے اور اب مسجد نبوی کیوں نہیں جا رہے ہیں!
میں نے عصر، مغرب اور عشا ادا کی۔ بیچ میں ابو کو دو مرتبہ فون بھی کیا۔ پھر واپس ہوٹل آیا۔ کھانا ہمارے ہوٹل میں ہی ملتا تھا۔ کھانا کھا کر ہم جلد ہی سو گئے تھے۔
رات میں پھر ایک مرتبہ میری آنکھ ابو کی سسکیوں سے کھلی تھی۔ ابو جائےنماز پر سجدے میں گرےہوئے تھے۔ میں نے جا کر ان کو سہلایا، پانی دیا۔ لیکن ان کا اضطراب کم نہیں ہو رہا تھا۔میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا۔
’’ابو اب تو آپ کی تھکن اتر گئی ہوگی، کیا ابھی چلیں گے تہجد کے لیے؟‘‘
لیکن انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ پھر میں تنہا ہی تہجد، فجر اور اشراق کی نماز پڑھ کر آ گیا تھا۔
دوسرے دن بھی ابو کا یہی حال تھا۔ تمام نمازیں ہوٹل میں ہی ادا کرتے یا قریبی مسجد چلے جاتے۔میں نے فون پر گھر والوں کو سارا ماجرا بتایا، وہ بھی حیران ہو رہے تھے۔ چھ دن اسی طرح گزر گئے۔ ان چھ دنوں میں ابو کا رنگ زرد پڑ گیا تھا، برسوں کے بیمار اور کمزور نظر آ رہے تھے۔ روزانہ امی سے اور سب سے وڈیو کال پر بات کرتے۔ میں روزانہ مسجد چلنے کا کہتا اور ابو ٹال جاتے۔ کہتے ابھی اجازت نہیں ملی، کبھی کہتے ابھی بلاوا نہیں آیا۔ابو کی کیفیت دیکھ کر مجھے مشہور مصنف کی ایک کتاب یاد آ گئی، اس میں بھی انہوں نے اپنے ساتھی کی ایسی ہی کیفیت ظاہر کی تھی۔
اگلا دن جمعرات تھا۔ اب ہماری واپسی میں صرف دو دن باقی تھے۔ ہفتے کی صبح ہماری مدینہ سے کراچی روانگی تھی۔ ابو نے اس دن سارے گھر والوں سے خوب باتیں کیں۔ ویڈیو کال پر ہوٹل سے نظر آنے والے مسجد نبوی کے مینار امی کو دکھائے۔ اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں

میں سے ایک ایک کو یاد کر کے سب کو سلام کہلوایا۔
مجھے محسوس ہؤا کہ ان کا جوش و جذبہ پھر لوٹ رہا ہے۔انہوں نے کہا۔
’’آج ہم ساری رات مسجد نبوی میں ہی گزاریں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’کیوں نہیں ضرور۔ جیسا آپ چاہیں‘‘ ۔ آج ان کی اداسی دور ہو چکی تھی وہ پھر سے تازہ دم ہو چکے تھے۔
عشا کے وقت خوب اچھی طرح خوشبو لگا کر تیار ہو گئے۔ میں بھی بہت خوشی سے ان کو لے کر مسجد نبوی آیا۔ جیسے جیسے مسجد قریب آ رہی تھی، ابو کے قدم بھاری ہو رہے تھے ۔ اسی طرح مسجد نبوی پہنچ گئے۔ جاتے ہی ابو نے صحن میں رک کر سجدہ شکر کیا تھا کہ اللہ نے ان کو مسجد نبوی میں پہنچا دیا ہے۔ ہم نے عشا باجماعت ادا کی۔ اس کے بعد جب روضہ رسول ؐپر حاضری کا قصد کیا تو ابو کی حالت پھر خراب ہو گئی تھی۔ ابو کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے۔ انہوں نے روضے پر جانے سے منع کر دیاکہ کل چلیں گے۔
دوسرے دن جمعہ کی نماز کے لیے ہم نے سیدھے ریاض الجنہ کا رخ کیا۔ اللہ کے کرم سے قدیم مسجد نبوی کے احاطے میں جگہ مل گئی تھی۔ ابو خوش تھے۔ دوسری طرف آنسو تھے کہ ان کی آنکھ سے بہے چلے جا رہے تھے۔ ان کی یہ کیفیت دیکھ کر ان کے شوق کا اندازہ ہو رہا تھا۔میں ہر تھوڑی دیر بعد زم زم پینے کے لیے دیتا، ان کے ہاتھ سہلاتا جو بالکل ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ انہوں نے بصد احترام خطبہ سنا، جمعہ کی نماز ادا کی۔ ، خوب لمبی دعائیں مانگیں۔
اب ریاض الجنہ جانا تھا۔ وہاں جانے والی لائن میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ابو بہت مشکل سے ایک ایک قدم بڑھا رہے تھے۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ ریاض الجنہ جالیوں کے سامنے پہنچ کراللہ کے نبی ؐکے روضے کے سامنے کھڑے ہو کر ہم نے درود و سلام پیش کیا۔ پھر آگے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے مزار اقدس کی زیارت کی۔ ابو کی حالت غیر ہو رہی تھی مگر وہ وہاں سے ہٹنا نہیں چاہ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے وہاں سے ہٹایا کیوں ہمارے پیچھے ایک لمبی قطار اپنی باری کی منتظر تھی۔
اب نماز پڑھنے کا مرحلہ تھا۔ میں نے ستون ابولبابہ کے پاس ابو کو کھڑا کیا اور خود بھی طویل نوافل ادا کیے۔ ابو سجدے میں دعا مانگ رہے تھے۔
اس جگہ کے جو گارڈز ہوتے ہیں وہ زیادہ دیر کسی کو رکنے کی اجازت نہیں دیتےلیکن انہوں نے ابو کو دیر تک نماز پڑھنے سے نہیں روکا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے بھی مزید دو رکعت کی نیت باندھ لی۔ میری حالت بھی عجیب سرشاری والی ہو رہی تھی کہ الحمدللہ ابو کا جو خواب اور دیرینہ خواہش تھی وہ پوری ہو چکی ہے۔ ابو کو مدینہ آنے کا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر حاضری دینے کا شوق پورا ہو چکا۔ابو اب تک سجدہ ریز تھے اور نہ جانے اللہ سے کیا رازونیاز کر رہے تھے۔ میں بھی درود شریف پڑھتا رہا اور اور ریاض الجنہ کی خوبصورتی کو اپنی نظروں کے ذریعے دل میں اتارتا رہا۔ اتنے میں میں شورتہ یعنی گارڈ آیا اور اس نے ہمیں وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ وہاں پر بات کم سے کم کی جاتی ہے، روضہ رسول ؐ کے احترام میں زیادہ تر اشارے میں ہی بات ہوتی ہے۔ میں نے آہستہ سے ابو کو آواز دی۔
’’ابوچلیے اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ اور لوگوں کو بھی موقع دینا چاہیے‘‘۔
لیکن ابو نے کوئی جواب نہیں دیا بدستور سجدے میں پڑے رہے۔ میں نے دو تین مرتبہ پکارا، ہلایا مگر ابو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرا دل یکبارگی زور سے دھڑکااور میں نے ابو کو پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی۔
لیکن…. لیکن…. لیکن میرے پیارے ابو، وہ نفس مطمئنہ اپنی آخری خواہش پوری کر کے، مجھے تنہا چھوڑ کر، اپنے پیارے رب سے جا ملے تھے۔ اور فرشتوں نے ان کی روح بھی اللہ کے محبوب کے قدموں میں قبض کی تھی۔
ابو کی یہ خواہش بھی چند گھنٹوں بعد یعنی عصر میں ہی پوری ہو گئی تھی کہ مجھے مدینہ کی مٹی نصیب ہو !
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x