ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

انوکھا البم – شاہدہ اکرام

کہانی کے کردار ہماری آنکھوں دیکھے ہیں ۔ کچھ موجود ہیں کچھ ملک عدم کو سدھار گئے ۔ ان میں دیہاتی اور شہری تڑکے کا حسین امتزاج ہے ۔ یہ گائوں کی ’’مچھیاں ‘‘ ( ٹافیاں ) اور شہر کی چاکلیٹ ہیں ۔ پڑھیے، کبھی ہنسیے اور کبھی روئیے ۔
بھائی ماکھا
ابا ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تو تمام خدمت گار اُن کے نقش پا تلاشتے ہوئے ان کی حویلی تک آن پہنچے ۔ ان میں سر فہرست بھائی ماکھا تھا ، ابا کا خاموش دستِ راست۔ وہاں بھی ابا کی سواری ( گھوڑی ) کی دیکھ بھال ، خواتین کو اُس پہ بٹھا ، خود پیدل لگام پکڑ کبھی میکہ اور کبھی سسرال۔ خوشی غمی میں لے کر جانا بھائی ماکھے کا کام تھا ۔
نام تو مبارک علی تھا نجانے کیسے ماکھا ہی مشہور ہو گیا ۔ عام لوگ اسی نام سے پکارتے مگر ہمارے خاندان کا ہر بچہ تہذیب میں گندھا ہونے کی بنا پر ساتھ بھائی لگانا نہ بھولتا ۔ ہندوستان ہویا پاکستان ، انہوں نے ابا کے ساتھ یاری اور وفا داری خوب نبھائی ۔ اپنے موضع میں ابا نے گائوں کی چوکیداری کی ملازمت بھی انہیں دی ، چوپال میں اپنا ایک بڑا احاطہ دیا ، اس میں دو کمرے بناکر دے دیے جس میں ایک کو انہوں نے ’’ ہٹی‘‘ (دکان)بنایا اور دوسرے کو گودام ۔ ابا کے تمام حسابات کی ذمہ داری جی جان سے نبھائی ۔ ابا کی منشی گیری جس میں غلہ منڈی کی اجناس کا حساب، فصل ربیع و خریف، ٹیوب ویل ، زمینیں ، اجناس، کسانوں سے عُشرکی وصولی، تھانہ کچہری میں ابا کے تمام رجسٹر اور کاپیاں بغل میں دبا کر پیچھے پیچھے چلنا ، ابا کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھنا اُن کا وصفِ خاص تھا ۔ گائوں کے ہر بچہ کی پیدائش کا پہلے ان کو قائد اعظم بعد میں اُن کے چھوٹے بھائی سمجھتے رہے بڑے ہوکر پتہ چلا کہ وہ صورت و سیرت میں مشاب تھے ۔ اور فوت شد گان کا اندراج اُن کے رجسٹروں میںموجود ہوتا تھا جب کسی کو ضرورت پڑتی حاصل کر سکتا تھا ۔ لکھائی بہت خوبصورت تھی ، اردو ، انگریزی اور رومن ہندسے بہت خوبصورتی سے لکھتے۔ ایسے لگتا جیسے موتی پروئے ہوئے ہیں ۔ میں ابا کی لاڈلی اکثر دونوں کو کام کرتا دیکھتی ، کاپیوں کو الٹ پلٹ کرتی کیش بک ، کھاتہ بک اورنجانے کون کون سے رجسٹرڈکھنگالتی رہتی ، صبح شام ان کا حویلی میں آنا جانا رہتا ۔
حویلی کا جنوبی حصہ اکثر خالی ہوتا وہاں بھائی ماکھا سویا کرتا شادی بیا ہو یا کوئی فوتگی ، وہ کاپی پن لے کردیگوںکا حساب کتاب کرنے بغیر کہے حاضر ہو جاتے اورابا کی پائنتی بیٹھ کر خاموشی اور ادب سے سن کر لکھتے جاتے ۔ ابا اُن کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتے ، جیسے ہی رات ڈھلتی وہ اپنی سونے کی ڈیوٹی دینے آن پہنچتے ، ابا اپنے دالان کا سامنے والا دروازہ کھلا رکھتے نظر پڑتے ہی صدا لگاتے ’’ مبارک علی آگیا ، مبارک علی آگیا، آ بھئی مبارک علی !‘‘ ابا ان کی بہت قدر دانی کرتے ۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ ہم نے ان کو کبھی بولتے نہیں سنا تھا ۔میںتو اکثر سوچتی کہ شاید یہ گونگے ہیں، ہماری والدہ کووہ بی بی کہتے تھے یہ بہت عزت والا لفظ سمجھا جاتا تھا ۔ آج بھی مائوں ، بہنوںبیٹیوں کے لیے احتراماً یہ لفظ رائج ہے ۔ ہمارے ،خاندان میں سے کسی نے شہر جانا ہوتا یا دوسرے گائوںگوٹھ میں خوشی غمی میں شرکت کرنا ہوتی تو محافظ کے طور پر اُن کو ساتھ بھیجا جاتا ۔ کمال کے با اعتماد آدمی تھے ، ہماری حویلی کے زنان خانے میں کوئی پرندہ پَر نہیں مار سکتا تھا سوائے بھائی ماکھے کے ۔
دن ہو یا رات ابا کے بلاوے پر دوڑے چلے آتے ، ہروقت ہر خدمت کے لیے تیار رہتے ، شادی کے دعوت نامے ( سّدا ) لکھتے ، بانٹتے ، مبارک باد ی وصول کرتے ،شادی کے موقع پر سلامیاںلکھتے ، غرض ابا کی حویلی کا سارا انتظام و انصرام انہوں نے سنبھالا ہؤا تھا ۔ ابا نے اپنی زمینوں میں سے کچھ اراضی ان کی خدمت کے صلہ میں اُن کی نذر کی ہوئی تھی ۔ ہمیں تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے کوئی روبوٹ چل پھر رہا ہے ۔ نہ ادھر اُدھر دیکھتے نہ کسی سے بات کرتے ، اپنے کام سے کام رکھتے ۔ اونچے لمبے قد کے دبلے پتلے انسان تھے ہمیںوہ بالکل قائد اعظم کی طرح لگتے ، کام اور شخصیت دونوں لحاظ سے ، اُن کا پورا گھرانہ حویلی کا خیرخواہ تھا خاموشی اورعزت سے جیے اور خاموشی سے رخصت ہو گئے ، نہ بھولنے والے انسان تھے۔
ماسی دانو
میری انوکھی البم کی یہ دوسری تصویر ہے ۔تھیں تو عیسائی مذہب کی پیرو کار ، مگر یاد گار مدد گار تھیں ۔ محنت کش ، ایماندار ، فرض شناس خاتون تھیں۔حویلی کا طویل و عریض صحن صاف کرنا، دونوں طرف کی چوپال کی صفائی ، ڈھور ڈنگروں کی جگہ کو صاف کر کے کوڑا کرکٹ ٹوکروںمیںبھر بھر کر باہر سلیقہ سے رکھ کے آنا ، کیونکہ یہی دیسی کھاد کے طور پر کھیتوں میں استعمال ہوتا تھا ۔ صبح سویرے ناشتے کے وقت آتی ، سیدھی اماں کے پاس چولہے کے نزدیک بیٹھ جاتیں ۔پراٹھاچائے کاناشتہ ہوتا ساتھ ساتھ گھر ، خاندان کے تمام دُکھڑے اماں کو سنانا اس کا روز کا معمول تھا۔
حویلی کے جنوبی حصہ میں بڑی آپا کی رہائش تھی ۔ وہ بہت جلدی کام کرنے کی عادی تھیں ۔ ماسی دانوکو آرام سے بیٹھے دیکھ کر ان کا خون کھولے لگتا آوازوں پہ آوازیں دیتیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتی ۔ پھر وہ والدہ سے کہتیں ۔
’’ بی بی ! تم نے اسے سر پر چڑھایا ہؤا ہے کیا مچ مچ کر رہی ہے ، اسے اٹھائیں کام کرے دوپہر چڑھتی جا رہی ہے ‘‘۔
ماسی دانوں کااپنا نداز تھا ، آپا کی باتوں پرتوجہ ہی نہ دیتیں ۔ کبھی بیٹے کوساتھ لے آتیں بھاری کام وہ کر لیتا ۔یونہی دن گزرتے گئے ماسی دانو رخصت ہو گئیں ، بیٹا آتا رہا ، اور پھرکرنا خدا کا کیا ہؤا کہ بیٹے نے اسلام قبول کرلیا ۔ وہ اب بھی حویلی آتا جاتا ہے ، تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ پہ جاتا ہے نام بھی اسلامی رکھ لیا ہے ۔ آخر کچھ کوشش تو اماںکی بھی اس میں شامل ہے نا !
کاکا
’’ہائے اماں ! یہ کیا مدد کرے گا میری ، اِتّا چھوٹا … اس کا کام تو مجھے کرنا پڑے گا ‘‘۔
گائوں سے آنے والے چھوٹے سے مُنے سے کاکے کودیکھ کر میں نے حیرت سے سوال کیا ۔ضرورت پڑنے پر سسرال میںبیٹیوں کے لیے خدمت گار کے طور پر خام مال میکہ سے ہی دستیاب ہوتا تھا، اماں وہی میرے حوالے کرنے آئی تھیں ۔
کاکا تیزنظروں سے مجھے گھور رہا تھا ۔ ہوگا کوئی آٹھ ، نو سال کا ۔
’’ بیٹی ! چھوٹے ہی ٹھیک رہتے ہیں ، پیار پچکار سے بڑا کام دے جاتے ہیں ‘‘ ۔
اماں تو اپنی بھٹی میں کندن بنا رہی تھیں ، کا کے کو میرے حوالے کر نصیحتوں کو میرے پلو باندھ رخصت ہو گئیں ۔
کاکا واقعی بڑے کام کانکلا’’ جِنّا نِکاّ اُونا تِکھّا‘‘ کے مصداق ثابت ہؤا ۔ میرے چھ سالہ بیٹے سے کھیلتا آنکھیں گھما گھما کر چاروںطرف کا جائزہ لیتا ۔ مجھے کافی آرام ملا ، میں یکسوئی سے اپنے کاموںمیں مصروف ہوگئی ۔ کاکے کی طرف سے اطمینان تھا کہ کہیں جانے کانہیں، اِتے چھوٹے کو دنیا کی کیا خبر !
کرنا خدا کا کیا ہؤا کہ میری چند دوست ملنے آئیں ۔ گپ شپ ہوتی رہی ۔ کاکے کو کام بتا کر میں اُن کے پاس بیٹھ گئی ۔ کھانے پینے کی چیزیںلینے باہر آئی کیا دیکھتی ہوں استری آن ہے اور نیچے والا کپڑا جل رہا ہے ۔ مجھے دیکھ کر کا کا شاید باتھ روم میںجا گھسا تھا ۔ آوازیںدیں تو باہر آگیا۔میں نے اشارہ سے پوچھا یہ کیا ؟ جواب ندارد۔
’’ کاکے مہمان چلی جائیں تو تم سے پوچھتی ہوں‘‘۔
استری بند کی ، کپڑا اٹھایا ، سہیلیوں کو رخصت کر کے واپس آئی ۔ کاکا کہیںنظر نہیں آرہا تھا۔سوچا پھر باتھ روم میں گھس گیا ہوگا ۔ دیکھا تووہاں نہ تھا پورا گھرچھان مارا ، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ۔ دفتر فون کر کے میاں صاحب کو اطلاع دی ۔ پوری کالونی میں ڈھنڈورا پٹ گیا ہر جگہ چھان ماری کاکے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔
’’ ہائے بیگانی اولاد … کہاں سے بھریں گے ؟ کہاںچلا گیا ؟ بردہ فروشوں کے ہاتھ نہ لگ جائے … ماںباپ کو پتہ چلے گا تو اُن پر کیا بیتے گی ؟‘‘
میںسوچ سوچ کر پریشان تھی۔
گائوں میں بتائے بغیر بات نہ بنتی تھی ۔ اک موہوم سی امید تھی کہ شاید وہاں چلا گیا ہو، مگر کیسے ؟ کبھی باہر نہ نکلا ، نہ رستہ کی خبر نہ منزل کی ، دل ڈوبا جا رہا تھا ۔اطلاع پہنچائی گئی ، جوابی اطلاع حیران کن تھی کہ کاکے صاحب اپنے گھر پہنچ گئے ہیں ۔
پوچھ گچھ کی تو راز کھلا کہ جب بڑی بی بی چھوڑنے گئی تھی تو میں نے لاری اڈہ، ویگن اڈہ ، تانگہ اڈہ سب دیکھ لیے تھے ، اپنی اماں ابا کو بہانہ کیا بتایا کہ میں نے باجی سے روٹی مانگی تھی اُس نے دی نہیں تو میںآگیا ۔ گویا تین گھنٹے کا بس کا سفر گھر سے لاری اڈہ تک ویگن ، وہاں سے اپنا شہر پھر گائوںکی بس ، اتنا لمبا سفر کر کے کاکے صاحب اپنی اماں سے روٹی کھانے گئے تھے !
کاکے کی ذہانت ، حاضر دماغی ، بے خوفی کو سلام ہے ۔ یہ بھی آج تک سر بستہ راز ہے کہ اتنی بسوں کا کرایہ اس نے کہاں سے لیا ۔
بہر حال اُس کے ماں باپ نے دوبارہ بھیجنے کے لیے بڑی منتیں کیں لیکن قارئین ! آپ ہی بتائیے مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈسا جا سکتا ہے ؟البتہ ہمارے ہی بھائی بندوں کے ہاں دوسرے گھر جا پہنچا ۔ کام تو خوب کرتا تھا ۔ خاتون خانہ نے برتن مانجھنے کی تعریف کردی ۔ وہ کافی گوری چٹی خاتون تھیں ،فی البدیہہ بول اٹھا ۔
’’ باجی ! میںبرتن مانجھ کر تم سے زیادہ چٹے کر سکتا ہوں ‘‘۔
لو جی اُن کے گھر میں بھی کاکے کا وہ آخری دن تھا ۔
کاکے صاحب تیسرے گھر گئے ۔وہاں کے نوجوان مزاح کا مزاج رکھتے تھے ، پوچھا۔
’’ ہاںبھئی کاکے ! کوئی گیت شیت بھی آتا ہے ؟‘‘
اور کاکے کی پھٹے ڈھول جیسی آواز میں سنگیت شروع ہو گیا ۔
’’ جُتی میری چِت مچتی وچ تلے دی تار وے‘‘۔
قہقہوں اور پیسوںکی بارش نے کا کے کے ہوش اڑا دیے ۔ اب کوئی جان لیوا مریض بھی ہے تو اس کے سامنے بھی کاکے کی تلے والی جتی آن ٹپکتی ۔ہرموقع تو ’’ ویلیں‘‘ دینے کا نہیں ہوتا ناں !
اُن ہی مخو لیے جوانوں نے ایک دن پوچھ لیا ’’ کاکے تمہارا ابا کیا کام کرتا ہے ‘‘۔
کاکے صاحب تو پول کھولنے پہ تیار ، فخریہ انداز میں گویا ہوئے ۔
’’ صاحب جی ! میرا ابا گھڑے بھر بھر کر شراب بناتا ہے ، زمین میں دبا دیتا ہے ، اس طرح اچھی بنتی ہے امیر لوگ بڑی بڑی گاڑیوںمیں آکر لے جاتے ہیں ، بہت اچھی ہوتی ہے صاب جی ، باجی ! اب میں جب جائوںگا تو آپ کے لیے بھی لے کر آئوں گا ، آپ کو پسند آئے گی ‘‘۔
اب تو سب کو سانپ سونگھ گیا ۔ قہقہے ماند پڑ گئے ۔ سب حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے ۔ آخر کار وہاںبھی کاکے کی دال نہ گل سکی ۔
قارئین کرام! یہ آج سے 30سال پہلے کی باتیں ہیں ، آج کاموازنہ کر لیجیے ۔ یہ وہ خدمت گار ہیں جوہمارے بزرگوں کی دسترس میں تھے مگر کیا کیا گل کھلاتے تھے ، چوہدریوںکی ناک کے نیچے کیا کیا خزانے زمین میں دفن تھے ۔
بالا
یہ آٹھ سال کا تھا جب حویلی کے کارخانے میں آیا ۔ دالان کی جھاڑ پونچھ کرنا ، دوکان سے برف اور بوتلیں لانا ، پنکھا ( بجلی والا ) کھینچ کر آگے پیچھے کرنا اس کا کام تھا ۔
عید شبرات کے موقع پر ابا کی حویلی کسی جشن کا سماں پیش کرتی کثیر الاولاد تھے ، رونق لگ جاتی ، خاندانی ملازمین کی موجودگی میں چوری چکاری کا دھڑکا نہ تھا ۔ بالانیا نیا آیا تھا ابھی خام مال تھا ۔منجھلی بہو نے حسب سابق اپنی سونے کی چوڑیاں اُتار کردالان میں ’’ ڈولی ‘‘ میںرکھ دیں۔ جانے کی تیاری تھی ، دیکھا تو چوڑیاں غائب ۔ اُس زمانے میں ہر بات ، ہر مسئلہ بزرگوں کے گوش گزار کیا جاتا تھا ۔ ابا اماں تک بات پہنچائی گئی ، ابا نے کچہری لگالی ۔ بڑی خوشگوار ہوتی تھی ابا کی کچہری ، ہر کوئی اس میں جانے کو بے تاب ہوتا تھا ۔ سب بچوں کو بلا لیا گیا ۔ بھاگم بھاگ گرتے پڑتے سارے حاضرِ خدمت ہو گئے ۔
’’ اچھا تو بچو ! آپ کو ایک بہت شاندار انعام ملنے والا ہے ‘‘۔
کیا کیوں کیسے کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ بالے صاحب بھی محفل میں شریک تھے ۔ یہ ابا کا طریقۂ کارروائی تھا ۔ غیر حاضر کوئی نہ ہؤا، انعام کا لالچ تھاسب ہمہ تن گوش تھے ۔
’’ ہاں تو بچو! چھوٹی باجی کی ایک چیزگم ہوگئی ہے جو بچہ ڈھونڈ کر لائے گا انعام اُسے ملے گا ‘‘۔
نشانیاں ابا نے تھوڑی بہت بتا دیں ۔ اب تو بچوں کی دوڑیں لگ گئیں کسی کو کسی کی خبر نہ رہی ۔ ایسے میںبالے صاحب بھی چپکے سے کھسک گئے ۔ ابا بے نیازی میںبھی بالے پر نظر رکھنا نہ بھولے تھے ۔سب سے پہلے بالے صاحب ہی ابا کے حضور پہنچے اورپوٹلی تھما دی ، انعام کے لیے تک رہے ہیں۔
’’ آجائو بھئی بچو آجائو ‘‘ ۔
سب جمع ہوگئے ۔
’’ گم شدہ چیزمل گئی ہے اور سب سے پہلے ڈھونڈ کر لانے والا بالا ہے ۔ تالیاں بجائو سب اس کے لیے ‘‘۔
حویلی کا صحن تالیوں سے گونج اٹھا ۔
’’ چل بھئی بالے ! یہ پوٹلی اٹھا کراماں کو دے آئواوراپنا انعام وصول کر لو ‘‘۔
کیاشاندار طریقہ تھا تربیت کا ! اماں کہتی تھیں ۔
’’ بیٹی حکمت سے کام لیا کرو ، یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ مجر م کی بے عزتی سب کے سامنے کریںیا اکیلے میں ، وہ جری ہو جاتے ہیں ، دل میںکینہ رکھتے ہیںاور کبھی نہ کبھی انتقام ضرور لیتے ہیں‘‘۔
بالے نے چوری سے توبہ کرلی بونگیاں جاری رہیں۔ گرمیوں کا موسم تھا ۔ بالا اب کچھ بڑا اورابا بوڑھے ہوگئے تھے ۔ صحن میں چھڑکائو کرکے ابا کو بٹھایا جاتا ، بالے کو برف اور بوتل لینے بھیجا جاتا ۔ حسب معمول دکان سے واپسی پر راستے میں شرارت سوجھی ۔ اونچے درخت پر لگے شہد کی مکھیوں کے چھتے پرپتھر مار کر حویلی کی طرف دوڑ لگا دی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ بالا آگے آگے اور تمام مکھیاں کمال اتحاد و یگانگت سے بالے کے پیچھے بڑے دروازے سے اندر صحن میں آگئیں ۔ابا کے پاس برف بوتل گرا کرموصوف تو بغلی دروازہ کھول کنڈی چڑھا کر محفوظ ہو گئے ۔ مکھیاں چند سکینڈ اسی دروازہ پر بھنبھناتی رہیں ۔ اُس کے بعد آئو دیکھا نہ تائوابا کو حملہ آور جان کر اُن کی ننگی کمر اور بازوئوں پہ چمٹ گئیں ۔ اماں تو ابا کو نہلا کر چھائوں میں بٹھا ، بڑی آپا اوربالے کے حوالے کر کے اپنے چھوٹے بھائی کے گھر خیر سگالی دورہ پرچلی گئی تھیں جو ان کو قسمت سے نصیب ہوتا تھا ۔
’’ ارے کوئی ہے ؟ کتھے مر گئے سارے ؟‘‘ ابا نے مکھیوں کودونوںہاتھوںسے اڑانے کی ناکام کوشش میں آواز بلند کی ۔
آپا دوڑی آئیں ، برف بوتل اوربند دروازے کو دیکھ کر بھانپ گئیں ۔ اب ایک طرف آپا زور و شور سے ابا کے جسم سے مکھیاں توڑ توڑ کر پھینک رہی ہیں ساتھ ساتھ بالے کو آوازیں دے رہی ہیں۔
’’ کہاں مر گئے ہو کمرے سے باہر نکلو، پنکھا لے آئو تیز کر کے لگائو‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
اماں تک خبر پہنچی ، وہ بھی دوڑی آئیں ۔ حالات پر قابو پا لیا گیا ۔ چاروںطرف مکھیاں مری پڑی تھیں باقی کی واپس جا چکی تھیں ۔ بالے کے تو ہماری آپا نے خوب لتے لیے ۔
اب آپ کوایک راز کی بات بتا دوں ۔ وہ ساری مکھیاںہمارے ابا محترم کے ڈنگ مار مار کرمر گئی تھیں ۔ حیران نہ ہوںقارئین ! بھڑ ہو یا شہد کی مکھی ، ہمارے ابا پر حملہ کر کے زندہ نہیں رہ سکتی تھی بلکہ خود موت کے منہ میں پہنچ جاتی تھیں ۔ کیوں؟ کیا پتہ ! سنا تھا کہ ابا جان کا خون بہت کڑوا ہے یعنی کہ زہر مار ۔
یہ تھا بالا اور ایسے تھے ہمارے ابا ! مدد گار لڑکے جب تھوڑے بڑے ہو جاتے تو اُن کودوسرے کارخانے ( بھائیوںکا گھر ) بھیج دیا جاتا جہاں وہ مردوں کی نگرانی میں علم وفن سیکھ کر آتے اور معاشرے کے کار آمد پُرزے بن جاتے ۔ بالے صاحب نے وہاںگاڑی چلانا سیکھی ۔ آج حویلیوں کی دوسری نسل کے باسیوں کی خدمت میںمصروف ہے اور امانت ، دیانت اس کاخاصہ ہے۔
بھولا
ابا کی حویلی خام مال کا مرکز تھی ۔ یہ پہلی منزل ہوتی جہاں آنے والے چھ سات سال کی عمر کے ہوتے ۔ یہاں اُن کی ناک صاف کی جاتی ، کلمہ سکھایا جاتا ، صفائی کے ادب آداب سکھائے جاتے ، رَج کے انہیں کھلایا پلایا جاتا تاکہ اُن کی نیت اور پیٹ دونوں سیر ہوجائیں ، ہلکے پھلکے کام سکھائے جاتے ۔ اتنے میں بیاہی بیٹیوں کے سندیسے ملنے شروع ہو جاتے اور خام مال کو دوسری بھٹی میں ڈال دیا جاتا ۔ ساتھ نصیحتوں کا ٹوکرا بیٹیوں کے سر رکھ دیا جاتا ۔ چار چھ سال نکل جاتے ، بعض اوقات مال پہلے ہی ہاتھوں سے نکل جاتا ۔
اب کے ماشاء اللہ ساتویں بیٹی نے فرمائش کی ، ساتھ ہی گزشتہ کارونا رویا تو اماں نے بھی چن کے دانہ بھیجا ۔ نورانی قاعدہ پڑھا کر ، سدھا کر روانہ کیا ۔ نام کاہی نہیں کام کا بھی بھولا تھا ۔ دوکان پہ جاتا ، پہروں واپس نہ آتا سست ہی اتنا تھا ۔ غیر موجودگی میں بہت سے کام خود کرنا پڑتے ۔ البتہ تمیز اور تہذیب تو گویا اس پر ختم تھی۔
’’ بھولے !‘‘ آواز لگتی ۔ جواب آتا ۔
’’ جی بی بی جی ‘‘۔
’’ کہاںہو؟‘‘
’’ آیا بی بی جی ‘‘۔
’’یہ کام کرو‘‘۔’’جی اچھا بی بی جی ‘‘۔
’’بھوک لگی ؟ــ‘‘ ’’ہاں جی بی بی جی ‘‘۔
’’ چلوبیٹھو یہاں ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے بی بی جی ‘‘ جھٹ سے ڈھیر ہوجاتا ۔
’’ اور کچھ چاہیے‘‘۔
’’ نہیںبی بی جی ‘‘۔
’’ اب دیرنہ لگانا ، جلدی آنا ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے بی بی جی ‘‘ جی ، جی ، جی … کام ہو نہ ہو زبان یہی گردان کرتی رہتی۔
’’بھولے دل چاہتا ہے تمہیں چھٹی دے دوں۔ پر کیا کروں تمہاری زبان اجازت نہیںدیتی ‘‘بی بی جی گویا ہوتیں ۔
بچپن سے لڑکپن ، پھر جوانی ، اُس کے میٹھے بول اور خدمت گزاری نے اُس کو بڑے رنگ لگائے ۔ نیک بیوی، صوم و صلوٰۃ کے پابند بچے اورسب سے بڑی سعادت رب کے گھر کی حضوری ملی ، وہ آج بھی دنیا جہان کی دولت چھوڑ کر بی بی جی کی اولاد کے پاس آنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ اس کا پورا خاندان ہماری مائوںکے لیے صدقہ جاریہ ہے اللہ سلامت رکھے ۔
اللہ دِتی
اللہ دتہ نام تو بہت سنا تھا ۔ دو بیٹیوں کی جوان ماں مدد گار کے طور پر میرے پاس آئی تو نام جلدی زبان پر نہ چڑھا ۔ بلاتے ہوئے ہنسی آجاتی۔ خامو ش طبع اور ذمہ دار عام شہری مائیوںسے کافی مختلف لگی ۔ ایک ہی دفعہ سمجھانے سے سمجھ گئی۔ آتے ہی جھاڑ پونچھ میںلگ جاتی ، بلانے پر ہوںہاں کرتی ، خاموشی سے آتی اسی طرح چلی جاتی ۔ میرے دل میں اس نے اہم مقام بنا لیا ہمیںایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔
ایک دن کیا دیکھتی ہوںکہ صفائی سے فارغ ہو کر گیراج میں بچھی چار پائی پر اداس بیٹھی ہے ۔ یہ اُس کی عادت نہ تھی ۔ میں بھی پاس جا کر بیٹھ گئی۔
’’ اللہ دِتی اِتی اداس کیوں ہو؟‘‘
جواب ندارد ۔ ایسے موقعوںپر میں تو فوراً اپنا ہی محاسبہ کرنے لگ جاتی ہوں۔ آنسو تیزی سے گرنے لگے ، میرا تو دل دھک دھک کرنے لگا، ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔
’’کوئی گلہ شکوہ ہے تو بتائو ‘‘۔
اب تو اس کی چیخیں نکل گئیں یا اللہ خیر میں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔ خود میرا بھی برا حال تھا کہ نجانے کون سی فرد جرم عائد ہونے والی ہے۔
’’ باج ی ی ی مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ‘‘۔
’’اچھا تو بچوں نے کچھ کہا ؟‘‘
’’ باجی ! میرا بھائی ‘‘ پھر دھاڑم دھاڑ شروع۔ میں نے پریشانی سے پوچھا ’’ اللہ خیر کرے کیاہؤا بھائی کو ؟‘‘
’’ ایک ہی تو بھائی ہے ‘‘۔
’’ ہاں،ہاں، بتائو ‘‘ میں نے کندھے سہلائے ، روتے ہوئے اُس نے خبر سنائی ’’ باجی ! میں نے اپنے بڑے بیٹے کے لیے بھائی سے اپنی بھتیجی کارشتہ مانگا ، اس نے جواب دے دیا ۔ طوفان بادوباراں پھر زورپکڑ گیا ، میں اپنے بے ساختہ قہقہہ کو روکنے میںناکام رہی ۔ اُس نے حیرت سے مجھے دیکھا اب وہ خاموش نظروں سے جواب طلب کر رہی تھی۔
’’ پگلی نہ ہو تو … اس میں رونے والی کون سی بات ہے یہ تو اوپر والے کے فیصلے ہوتے ہیں ‘‘’’ باجی ! مجھے اپنے بھائی اور بھتیجی سے بہت محبت ہے ، یہ میرا ارمان تھا باجی جو ٹوٹ گیا ‘‘۔
’’ تم اب دونوں کے لیے دعا کرو اللہ سب کے نصیب اچھے کرے ، اسی میںبہتری ہے بہن بھائیوں کی محبت کو اللہ قائم رکھے ‘‘۔
بات اس کی سمجھ میں آگئی اور پھر اس کے دونوں بیٹوں کے گھر میں اللہ نے رنگ لگا دیے ۔دونوںبہوئیں اس کی خدمت گزار ہیں ۔
’’ باجی ! رب سوہنا جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے ‘‘ ملنے آئی بہت خوش تھی رب کا شکر کر رہی تھی ۔
’’ اور تمہاری بھتیجی ؟‘‘
’’ باجی ! بھائی بھی بعد میں مان گیا تھا ، وہ بھی ہمارے گھر ہی آئی ہے باجی‘‘۔
اور میںمحبتوںکے اس ملاپ پر رب کی قدرت اوراللہ دتی کی دلی مراد پوری ہونے پر حیرت زدہ رہ گئی ۔
کرماں
کرماں جس دھماکے سے آئی اُسی سے رخصت ہو گئی ۔ ہمارے گھر میں وہ ڈیڑھ دن رہی ۔ اتنے تھوڑے وقت میں وہ اپنے ساتھ کیا کیا لے گئی ہمیشہ یاد رہے گا ، تلخ و شیریں یادوں کی البم سے ایک انوکھی تصویر اورتجربہ پیش خدمت ہے ۔
اُس کو لانے والی ہمارے ہی محلے کے ایک چوہدری کے گھر مستقل سکونت پذیر ماسی تھی ، میرے مسئلہ کاسن کر کرماں کولے کر آئی بہت تعریف کر رہی تھی اس کی ، ضمانت پرمیں نے حامی بھرلی ۔ اونچی لمبی صحت مند سرخ و سفید کرماںکچھ عجیب تولگی ۔ مجبوری آڑے تھی بھاگ بھاگ کام کرنے لگ گئی۔کچن کے ساتھ والا دروازہ عمومی طور پر ماسیوں کی آمدو رفت کا تھا ، اسے چھوڑ کر وہ اندرونی دروازے سے باہر آ جا رہی تھی اور ساتھ دونوںملحقہ کمروں کی تانک جھانک کر رہی تھی ۔ میں نے دو تین دفعہ منع کیا مگر اُس کی آنیاں جانیاںجاری رہیں ۔ خیر پہلا دن تھا زیادہ گرفت نہ کی ۔ اندرونی دروازہ کے پاس استری والی میز پر ہمارے برقعے اور پرس پڑے ہوتے تھے ۔ وہ تو چلی گئی اور میںسوچ میںپڑ گئی ۔ آتے جاتے وہ مجھے اپنے خاندان کا مکمل تعارف کرانا نہ بھولی ، مجھے خوف زدہ کرنے کی پوری کوشش کر گئی ۔
’’ باجی ! میرا خاوند گن مین ہے پولیس افسر کا گارڈ ، اور میرے بڑے بڑے چاربیٹے ہیں ۔ کوئی کچھ کہہ دے تو بندوقیں لے کر پہنچ جاتے ہیں ‘‘۔
ایک بیٹا تواسے لینے آیا ، اکڑ کر ہمارے لائونج کے صوفہ پر بیٹھ گیا۔ کسی نواب کا پتر لگ رہا تھا ، ماں جیسا صحت مند اونچا لمبا ، میں حیران کہ میری اجازت کے بغیر اندر لے آئی ۔ ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ گویا ہوئی ۔
’’باجی ! اس کو کھانے کے لیے کچھ دیں اسکول سے آیا ہے ‘‘۔
’’ نہیں باجی !اس نے یہاں پنکھے کے نیچے بیٹھنا ہے ‘‘ ۔
بارہ تیرہ سال کا لڑکا تھا میں نے منہ ڈھک لیا ۔ کھا پی کے وہ رخصت ہوئی ۔لڑکے کو دیکھ کر بھی ماتھا ٹھنکا ۔ پہلا دن ہے کل سے قابو کروں گی ، دل ہی دل میں منصوبہ بنایا ۔
منجھلی بیٹی میکہ آئی تھی اگلے روز اس کو ہدایات دیں ، خود ایک ضروری پروگرام میں گئی ۔ دو گھنٹے بعد واپس آکر اپنا امانتی فنڈ سے بھرا ہینڈ بیگ اور برقہ استری والی میز پہ رکھ کر واش روم کی راہ لی ۔ اندرونی دروازہ سے اس کی آمد و رفت میں کافی تیزی آگئی تھی ۔ میںباہر آئی تو وہ جانے کو تیار کھڑی تھی۔
’’ باجی ! آج مجھے ذرا جلدی ہے کل باقی کام کردوں گی ، آج سکینہ ( محلہ والی ماسی ) کی طرف بھی جانا ہے ‘‘ ۔
’’ ٹھیک ہے ، کل جلدی آنا ‘‘۔
وہ یہ جا وہ جا۔ برقعہ اٹھایا ، بیگ ندارد ۔ سوچابیٹی نے اٹھا کر رکھ دیاہوگا ۔
’’ میرے فون پہ گھنٹی بجائو پتہ چل جائے گا ‘‘ جواب نہ دارد۔
تشویش و تلاش شروع ہوگئی ۔ بیگ نہ ملنا تھا نہ ملا ۔ فوراً سکینہ کی طرف دوڑ لگائی۔ مجھے دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا ۔
’’ سکینہ ! کرماں آئی تھی ؟‘‘
’’ ہاں باجی! آئی تو تھی بہت جلدی میں تھی فوراً چلی گئی ‘‘۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ پتہ نہیں باجی‘‘ سکینہ ہکلا رہی تھی ۔
میںبات کی تہہ تک پہنچ چکی تھی ۔ فوراً ہی چند معززین محلہ کو لیا سکنیہ کو ساتھ بٹھایا دو گاڑیاں کرماں کی بستی میں چھاپہ مارنے گئیں ۔ یہ ہماری خام خیالی ہی تھی کہیں پکے مجرم نشان چھوڑتے ہیں ۔ کرماں تو ایسی تھی ، کرماں ویسی تھی، وہاں تو ہر ایک کی زبان پر یہی الفاظ تھے اور کرماں اپنے شوہر سمیت گھر سے فرار ہو چکی تھی ۔ اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے ۔ سکینہ کو باز پرس کی دھمکی بھی مہنگی پڑی ، وہ بھی اگلے روز بوریا بستر گول کرکے غائب ہوگئی اوراہل خانہ کا کافی سامان لے گئی ۔
قارئین ! یوںاس ڈیڑھ روزہ خدمت گار وں ، مدد گاروں کے ڈرامہ کا اختتام ہوگیا ۔ پرس کاحال بھی سناتی چلوںاس میںپچاس ہزار امانتی فنڈ اور میرا موبائل فون تھا ۔ رقم تو ہم نے بھر دی موبائل میںکچھ قیمتی یاد داشتیںتھیں اُن کا افسوس ضرور ہؤا، معاملہ اللہ کے حوالے کر دیا اپنا بھی محاسبہ کیا ۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ کرماں بڑی عدالت میںجا پہنچی ہے ۔ یہی بات اگر یاد رہے تو ہم وہاں کے خسارے سے بچ سکتے ہیں۔
بصوّ
بصوکب سے ہمارے گھر میں تھی کچھ علم نہیں ،اتنا پتہ ہے کہ اس نے ہمیں گودوںکھلایا تھا یعنی وہ ہماری آپا بھی تھی ہم جب بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچے تو وہ اپنے پیا دیس سدھارچکی تھی ۔ اماں بتاتی تھیں کہ اُس کی ڈولی بھی ہمارے گھر سے اٹھی تھی ۔ ابا کے گھر میںمدد گار بچیاںانگوٹھا چوستی پنگھوڑے میںآتیںاور ڈولی میں رخصت ہوتیں ۔ بچی جونہی سن شعور کو پہنچتی اُن کے ماں باپ کو رشتہ باندھنے کاحکم صادر ہوجاتا۔
بصو ان میں سے ایک تھی ۔ ابا نے تو اپنی بیٹیوںکوبھی ایسے ہی رخصت کیا تھا ۔ یہ اُن کی فہم وفراست کا ایک ہلکا سا ثبوت ہے وہ تو دعائیںلیتے رخصت ہوگئے اور پورا گائوں یتیم ہو گیا بھلا ہوا باکی اولاد کا جو یہ نیک سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
’’ توقارئین ! بصو ایک بڑے شہر کے غریب محنتی جوان کے گھر کی رونق بنی ۔ اماںکے پاس آنا جانا لگا رہتایہی تو اس کا میکہ تھا ۔ میرے اوپر اس کی خاص نظر ہوتی بڑی بہنوںکے رشتے طے تھے ۔ میری اٹھان پٹھانوں جیسی تھی ۔ میںاس بات سے بے خبر تھی کہ مجھے کون کس نظرسے دیکھ رہاہے ۔ حویلی میں اٹھکیلیاں کرتے ، کدکڑے لگاتے وقت گزر رہا تھا۔ بصوجب بھی آتی اماں سے کھسر پھسر کر کے چلی جاتی ۔ عقدہ تب کھلا جب اُس نے اپنے سسرالی محلہ سے ہمارے لیے رشتہ بھیج دیا ۔بقول اُس کے لڑکا نہایت شریف پڑھا لکھا اورہماری گڈوکی طرح خوبصورت اونچا لمبا ہے ۔
موصوفہ ان کی والدہ اورخالہ کو لے کر حویلی پہنچ گئیں ۔ہم تومیٹرک کا امتحان دے کر موج میلہ کرنے بڑی آپا کے ہاںگئے ہوئے تھے وہاںآن پہنچیں ۔ ہم پڑھے لکھے زمانہ ساز خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،اقدار و روایات ضرور تھیںقدامت پسندی نہ تھی ۔ اب یہ تینوں خواتین ٹوپی والے سفید برقعوںمیںملبوس آپا کے گھر وارد ہوئیں ۔قارئین اب آپ سے کیا پردہ! ہمیںوہ ایک آنکھ نہ بھائیں۔ ہم نے بے نیازی سے دیکھا اور پیڈل والی مشین پر گلکاری جاری رکھی۔ وہ دونوںبھی میرے قریب ہی بیٹھ گئیں ۔ حیرانی ہوئی کہ مہمان آپا کی اور گھور مجھے رہی ہیں ۔
’’ کاکی پانی توپلا‘‘۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ، جھٹ باہر چھلانگ لگادی۔
بصّو ان کو یہاں کیوں لے آئی ہے ، بات پلے نہ پڑ رہی تھی اور بصو مسکرا مسکرا کرمیری طرف دیکھ رہی تھی اس کو ویسے ہی میرے ساتھ بڑی محبت ہے ۔ آپا کو پانی کا بتایا اورپلٹ کر نہ دیکھا ۔آپا نے خاطر مدارت میںکوئی کسر نہ اٹھا رکھی ، ہم دیگر مشاغل میںمصروف رہے ۔ رخصتی کے وقت پھر بلاوا آگیا ، بڑے گھُٹ گھُٹ کے پیار دیے بصو کی آنکھوںمیں تو محبت کی جوت جلتی ہی رہتی تھی ، دعائیں دیتی رخصت ہوئی۔
بات ذہن سے نکل گئی ، ایسی بات بھی نہ تھی کہ یاد رکھی جاتی ۔ مگر کوئی بات تو تھی! بصو کا معنی خیز انداز تصور میں آرہا تھا ۔ چند دن بعد انکشاف ہؤا اور اب تک بصو کی عنایتوں کا لطف لے رہے ہیں ، قول و قرار نبھا رہے ہیں۔ سسرال میں اُس نے ہمارا بہت ساتھ دیا ، دُکھ تکلیف میں خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتی ، مجھے لگتا یہ میرے سارے دُکھ آنکھوں کے رستے دل میں اتارلے گی بعض اوقات مجھے مشکل میںدیکھ کرپریشان ہو جاتی ۔ مجھے خدشہ ہوتا کہ میری پریشانی اماں کو نہ بتا دے کہیں ، میں نے اُسے سختی سے اپنے گھر آنے سے منع کر دیا ۔
ایک دفعہ اپنی سہیلی کو لے کر آئی کہ چلو تمہیں اپنے چوہدریوں کی بیٹی سے ملائوں۔ حُسن اتفاق ہم اپنے چھوٹے سے گھر کی مرمت کے لیے مزدور بنے ہوئے تھے ۔ اُس نے اندر آنے کے لیے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے اس کی اوراماں ابا کی لاڈلی سیڑھی پہ چڑھی دیوار پر پلستر کر رہی تھی ۔ اُس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میںسر جھاڑ منہ پھاڑ حلیے میں بھی ہو سکتی ہوں ۔ بولتی تو پہلے ہی بہت کم تھی سکتے میں آگئی ۔ دونوںہاتھوں سے دروازے کے دونوں پٹ پکڑ کر چند سکینڈ کھڑی رہی سہیلی کو تو اندر جھانکنے بھی نہ دیا پھرکھٹ سے دروازہ بند کیا اوراُس کوواپس لے گئی ۔
مجھے اُس کی پریشانی پہ پریشانی ہوئی ۔ مجھے اس حال میں دیکھ کر اس کو جو صدمہ ہؤا میں بیان نہیں کر سکتی ۔ تب میںنے اس کو منع کردیا ۔ اُس نے خاموشی سے میری بات کو حکم جانا اور دوبارہ مجھے شکل نہ دکھائی۔ اُس کے الفاظ آج بھی یاد ہیں اس نے مجھے کہا ۔
’’ میری پیاری گڈو! میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں مجھے معاف کر دینا ‘‘۔
’’ جوہونا تھا ہوگیا بس تم پریشان نہ ہو ، مجھے اللہ کی ذات پر یقین ہے‘‘۔
بصوّ کافیصلہ غلط نہیں تھا ، اُس نے میرے لیے بہترین رفیق سفر کا انتخاب کیا تھا ۔ اس نے حق نمک ادا کیا تھا ۔ الحمد للہ میرے شوہر لاکھوںمیں ایک ہیں ۔ میں ہمیشہ اپنی آپا بصو کو دعائیںدیتی ہوںاللہ اس کی قبر کونور سے بھر دے ، اُس کی جہاںدیدہ نظروں نے میرے شوہر کے روپ میں مجھے آخرت کارستہ دکھایا۔
وہ اپنے سسرال میں بھی ایک ہیرا تھی آپا بصو کی آنکھیں بولتی تھیں۔ میرا حال احوال پوچھنے آتیں تو خاموش نگاہوں سے تکتی رہتیں ، وہ میرے تمام دُکھ پلکوں سے چن لینا چاہتی تھیں ۔ اُن کی دانست میں میںحویلی سے جھونپڑی میں آگئی تھی ۔ وہ شرمندہ تھیں مگر آپا بصو ! تمہیں کیا خبر کہ تم نے میرے ساتھ کتنی بڑی نیکی کی ہے ۔ اگر میںحویلی سے حویلی میں چلی جاتی تو میںشاید اندھیرے میںرہتی ۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے ۔ میں جو کہ باندیوں کی لوریوں اور گودوں میںپلی تھی ، کچھ بننے کے لیے جوگ تو مجھے کاٹنا تھانا ، مجھے بھی مالک نے دس سال باندی بنایا ، کیسا عجیب اور حسین اتفاق ہے ستر سے اسی تک پورے دس سال حالات کی چکی نے پیسا اور پورے دس سال بعد’’ دعائے انس‘‘ عطا ہوئی۔ کرم تو رب کا ہے لیکن آپا بصو، ذریعہ تو اس نے تمہیں ہی بنایا اوراب جبکہ میرا نیا جنم جاری ہے تو میری نسلیںبھی تیرے لیے صدقہ جاریہ بنی رہیں گی ۔ اب میں جاہل نہیں ہوںزمانے میں سر اٹھا کر چل سکتی ہوں ۔ تمہارے ذریعہ جورفیق زندگی ملا اس نے مجھے میری اور میرے مالک کی پہچان دی ، بصو! تم بہت عظیم ہو، سلام ہے تم پر !
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x