ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مردم گزیدہ – آسیہ کوکب

دھوپ کی تمازت ختم ہو گئی تھی ۔ سورج ڈھل گیا تھا مگر گھر کے کام تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ کام سمیٹتے سمیٹتے امی تھکاوٹ سے چور دکھائی دے رہی تھیں ۔ جب سے ماسی شریفاں ملازمت چھوڑ کر گئی تھی کوئی نئی ملازمہ مل ہی نہیں رہی تھی ۔ ایک دو دن کام کرتیں اور چل دیتیں نہ جانے انہیں کیا چاہیے تھا جو ٹک کر کام نہیں کر رہی تھیں ۔ نئے ملازم کو ڈھونڈنا اور اسے سیٹ کرنا بہت صبر اور حوصلے کا کام دکھائی دے رہا تھا۔ ملازمہ جو ان بھی ہو، صحت مند بھی ، کام کرنا جانتی ہو ایماندار بھی ان تمام محاسن و فضائل کے ساتھ ساتھ با اخلاق بھی ہو بد زبان اور جھگڑالونہ ہو ۔
کوئی ملازمہ بھی اس پیرا میٹر پر پوری نہیں اتر رہی تھی۔ بڑے بھیا کا خیال تھا کہ ان خوبیوں کی حامل تو آرڈر پر تیار کرنی پڑے گی ۔ امی اپنے کسی بھی بچے سے گھر کا کام کروانا جرم سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا گھر کے کام بچیاں ایک دو ماہ میں میں سیکھ ہی لیتی ہیں ۔ یہ ان کی پڑھائی کی عمر ہے اگر گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئیں تو گریڈ کم آئیں گے اسی لیے تمام ذمہ داریاں امی کے سر پر تھیں ۔
ساتھ والی آنٹی شبو نے ایک ملازمہ کا بتایا تو امی کے چہرے پر رونق آگئی ۔شام چار بجے آئے گی ، انہوں نے فون پر بتایا۔
ٹھیک چار بجے بیل ہوئی، بھائی نے جاکر دروازہ کھولا ۔ سامنے ایک ادھیڑ عمر لیے سانولے رنگ کی دبلی پتلی عورت کے ساتھ جواں سال لڑکی کھڑی تھی۔ انہیں لان میں کرسیوں پر بٹھا دیا گیا ۔امی کچن میں برتن دھو رہی تھیں ۔ وہ ہاتھ پونچھتے ہوئے باہر آئیں اور ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
سلام دعا کےبعد امی نے پوچھا ’’ آپ کیا کیا کام کر لیتی ہیں ؟‘‘
’’جی میں نے تین سال امریکیوں کے گھر کام کیا ہے اور دو سال چائنیز کے گھر‘‘ انہوں نے اپنی کوالفکیشن بتائی ۔ امریکہ کا رعب ڈالنے کے بعد گویا ہوئیں’’ میں کھانا بنا لیتی ہوں ‘‘۔
’’ اچھا ‘‘ امی نے پر امید لہجے میں کہا ’’ کیا کیا بنا لیتی ہیں ؟‘‘
’’ چکن کڑاہی ، بریانی ، کوفتے ، قورمہ سبھی کچھ بنا لیتی ہوں ‘‘۔
’’ اچھا ‘‘ امی خوش ہو کر بولیں تو پھر چائنیز بھی بنالیتی ہوں گی ‘‘۔
’’نہیں میں چائینز نہیں بناتی‘‘۔
’’مگر آپ نے دو سال چینیوں کے گھر کام کیا ہے ‘‘۔
’’وہ تو میں صفائی کا کام کرتی تھی ‘‘۔
’’ یعنی آپ کک نہیں ہیں ، جو بھی کام ملا کرلیا ‘‘ امی نا امیدی سے بولیں۔
’’پہلے آپ بتائیں آپ کے گھر کے کتنے افراد ہیں ، کیا کیا کام کروائیں گی ۔ آپ ساس ہیں یا بہو ؟ ویسے ساس ہی لگ رہی ہیں ‘‘ وہ تیوری چڑھا کر بولی ۔
’’ کیا مطلب ساس ہیں یا بہو…بات سمجھ میں نہیں آئی ‘‘ امی حیرت سے بولیں ۔
’’ جی صاف بات ہے ساس کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہے ۔ ہر وقت جان عذاب میںرہتی ہے ۔ بار بار کچن میں آکر دیکھتی ہیں کہ کھانا صفائی سے بن رہا ہے یا نہیں ۔گھی تو نہیں زیادہ ڈال دیا۔ کوفتے کچے ہیں یا پکے ۔ چاول ملیدہ تو نہیں کر دیے ۔ آٹا صحیح سے گوندھا ہے ۔ کچن اچھی طرح صاف ہؤا ہے یا نہیں کھانے میں مرچ زیادہ تو نہیں ۔ ہر کام میں نقص نکالتی ہیں ۔ ان کے گھر میں کام کرنا زندگی خراب کرنے والی بات ہے ۔
مگر بہو کے گھر میں کام کرنا آسان ہے ۔ وہ آرڈر دے کر کمرے میں چلی جاتی ہیں۔ انہیں تو پکاپکایا کھانا چاہیے وہ کچا ہو یا پکا ۔ بہو کے گھر میں کام کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے ۔ نہ تو اسے خود صفائی ستھرائی آتی ہے نہ ہی گند پڑا دکھائی دیتا ہے ۔ خود بھی کمرے میں چیزیں بکھیر کے بیٹھی رہتی ہے ۔بستر ہیں کہ بکھرے پڑے ہیں ۔ کپڑوں کے انبار ہیں جو کئی کئی دن تک سمیٹے نہیں جاتے ۔ جائو ، جھاڑو دے کر آجائو ، مز ے ہی مزے ہیں۔ کچن کی گندگی انہیں دکھائی نہیں دیتی نہ ہی شیلفوں کی میل انہیں نظر آتی ہے نہ کچن بکھرا ہؤا دکھائی دیتا ہے ۔ کپڑے جیسے مرضی دھو لو جیسے چاہو استری کر ومجال ہے جو کبھی نقص نکالیں ، بس شکریہ شکریہ کہتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف ساس ہیں انہیں تو ہر کام میں کیڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تولیے گندے دھلے ہیں بدبو آ رہی ہے ، دوپٹے صحیح استری نہیں ہوئے ۔ ہر کام میں دخل دیتی ہیں نہ بابا نہ میں تو ساس والے گھر میں کام نہیں کرتی‘‘۔
’’ مگرمیری بہو تو ایسی نہیں ہے ‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’ ’اسے صفائی ستھرائی کاپتا ہے ۔ کھانے کی اچھی طرح جانچ کرتی ہے سلیقہ مند بھی ہے ۔ آپ کس کاکام کریں گی؟‘‘
’’نہیں جی آپ دونوں انٹرویو میں فیل ہو گئی ہیں ہمیں ایسے سگھڑ گھر میں کام نہیں کرنا ‘‘۔
تلاش بسیار کے بعد ایک اور نوجوان لڑکی کا پتا چلا۔ خاوند نے طلاق دے دی تھی ایک بچی کا ساتھ تھا ۔ امی کا دل ہمدردی سے بھر گیا ۔ کام تو اچھا کر رہی تھی مگر وہ بہت باتونی واقع ہوئی تھی ۔ چار گھنٹے کام کرتی اور ساتھ ہی مسلسل بولتی جاتی ۔ اپنے سابقہ شوہر اور سسرال کے دکھڑے ، اپنے پر ہونے والی زیادتیاں ، ناروا سلوک کے قصے۔ امی چند دن تو اس کے دل کے حال احوال بغور سنتی رہیں تاکہ اس کے دل کی بھڑاس نکل جائے اور یہ پر سکون ہوجائے مگر اب تو یہ ہونے لگا تھا کہ وہ سب کام کاج چھوڑ کر امی کے سامنے آ بیٹھتی اور مسلسل دو دو گھنٹے بولتی رہتی ، اپنی کہانیاں سناتی رہتی ۔ امی اسےبہتیرا کہتیں کہ تم ساتھ ساتھ کام بھی کرتی رہو مگرنہیں، اسے اب کام سے زیادہ اپنی بر بادی کی کہانیاں سنانے میں زیادہ دلچسپی ہو گئی تھی ۔ اب ہو یہ رہا تھا کہ اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد اس کی طبیعت تو بحال ہو جاتی مگر امی کے سر میں درد ہو جاتا ۔
دس بارہ روز کے بعد امی کو محسوس ہونے لگ گیا کہ وہ سر درد کی مریضہ بنتی جا رہی ہیں ۔ اب انہوں نے اسے آرام سے سمجھانا شروع کیا ’’رانی کم بولا کرو ۔ تم نے تو میرے سر میں درد کر دیا ہے ‘‘۔ وہ پانچ منٹ کے لیے خاموش ہو جاتی پھر ویسے ہی اس کی زبان چلنے لگتی ۔ جب پیار سے بات نہ بنی تو امی نے اسے ڈانٹ دیا ’’ رانی خدا کے واسطے چپ ہوجائو تم نے تو مجھے بیمار کر دیا ہے ‘‘۔
’’ میں نے بیمار کردیا ہے ؟‘‘ وہ زور سے چلائی۔
’’ ہاں تم نے بول بول کر میرے سر میں درد کر دیا ہے ۔ خاموش رہو! خبر دار اب میں تمہاری آواز نہ سنوں ۔ خاموشی سے اپنا کام کرو اور اپنا منہ بند رکھو ‘‘۔
امی کا اتنا ہی کہنا تھا کہ اس کا پار ہ یکدم آسمان کو پہنچ گیا ۔ اس کے دماغ کا پریشر ککر سیٹیاں بجانے لگا اور وہ نان سٹاپ بولنے لگی۔
’’ یہ آپ مجھےکہہ رہی ہیں کہ میں اپنا منہ بند رکھوں میں خاموش رہوں ۔ کیا آپ کو ملازمین سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے ؟ کیا اس طرح نوکروں سے بات کی جاتی ہے ؟ اپنے دماغ کا علاج کروائیں اور بات کرنا سیکھیں آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے … جس کا جو جی چاہے کہہ دیتا ہے … جب دل چاہا جو چاہا کہہ دیا ‘‘۔
امی نے حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے اسے دیکھا جو آنکھیں دکھا دکھا کر ہاتھ نچا نچا کر بول رہی تھی ۔ امی کو اس کی آنکھوں میں وحشت دکھائی دی جو کسی مردم گزیدہ کے حصے میں ہی آ سکتی تھی۔
امی نے خاموشی سے اسے اس کے گھر بھیج دیا اور اس کی ماں کو بلوا بھیجا اور اسے کہا ’’ تمہاری بچی کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔ اسے کسی ڈاکٹر کودکھا ئو اگر کہتی ہو تو میں کسی ڈاکٹر سے ٹائم لوں تاکہ اس کا علاج ہو سکے ۔یہ کسی نارمل لڑکی کے کرنے کی باتیں نہیں ہیں ‘‘۔
وہ یہ بات سن کر رونے لگی اور کہنے لگی ۔
’’ جب یہ سات برس کی تھی تب اسے کسی باجی کے گھر کام کاج پر لگوایا تھا جہاں اسے دن رات رہنا تھا ۔ اسے بات بات پر ڈانٹ پڑتی کئی بار ماریں بھی پڑیں ۔ اس پیٹ کی خاطر سبھی بچوں کو دن رات کام پر رکھوایا کہ دو وقت روٹی تو مل جائے گی ۔ ان کا باپ تو نشہ کر کے پڑا رہتا ہے اسے تو کسی کی بھی پروا نہیں ہے ۔ باجی اسے جواب نہ دیں اسے کام کرنے دیں ‘‘ وہ منتوں پر اتر آئی ۔
’’ باجی زمانے نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے رد عمل کے طور پر یہ ضدی ، ہٹ دھرم اور منہ پھٹ ہو گئی ہے ‘‘۔
’’ مگر یہ منہ پھٹ نہیں ہے بیمار ہے ، ذہنی مریضہ ہے ۔ اس کا علاج کروائو ‘‘۔
’’ نہیں باجی اس پر سایہ ہے ۔ جب اس پر جن آتا ہے تب یہ ایسی حرکتیں کرتی ہے ‘‘۔
’’ اس پر سایہ نہیں ہے۔ میں تمہیں دوبارہ کہہ رہی ہوں ‘‘ امی افسردگی سے بولیں ۔ انہوں نے اس کے ہاتھ پر پورے ماہ کی تنخواہ رکھ دی اور اس سے معذرت کرلی کیونکہ وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے پر کسی صورت راضی نہیں ہو رہی تھی۔
رانی کے بارے میں سوچتے ہوئے امی بے طرح اداس ہو گئیں۔ وہ آنٹی شبو کو فون پر کہہ رہی تھیں ’’ جو بچیاں دن رات کے لیے گھروں میں کام کے لیے رکھی جاتی ہیں وہ خوف و ہراس کی زندگی گزارتی ہیں ۔ تحقیر آمیز رویوں کا سامنا کرتے کرتے وہ ذہنی طور پر غلام یا پاگل پن کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ رانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہؤا ہے ۔ کاش میں اس کے لیے کچھ کر سکتی ‘‘ امی نے ایک ہاتھ سے اپنے دکھتے سر کو دباتے ہوئے کہا ۔
’’ مگر آپا سبھی لوگ تو ایسے نہیں ہوتے بہت سے لوگ انہیں پیار محبت سے اپنے بچوں کی طرح رکھتے ہیں ‘‘ آنٹی شبو نے وضاحت کی۔
’’ جی آپ کی بات بھی درست ہے مگر ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ‘‘۔
ملازمہ کا مسئلہ پھر آن کھڑا ہؤا تھا چند روز بعد کسی نے ایک لڑکی کا بتایا ۔ نئی نئی شادی ہوئی ہے کام اچھا کرتی ہے ۔
لڑکی آگئی ۔ اچھی شکل و صورت کی مالک تھی سمجھدار اور سگھڑ دکھائی دے رہی تھی ، پہلے دن اس نے خوب دل لگا کر کام کیا اور داد طلب نگاہوں سے امی کو دیکھا ۔ امی بھی اس کا کام دیکھ کر مطمئن ہو گئیں ۔ اگلے روز اس نے آتے ہی کچن کی الماریوں کو کھول کھول کر دیکھنا شروع کردیا ۔ تمام میں جھانکنے کے بعد وہ کمروں کی الماریوں کی طرف متوجہ ہوئی اور تمام الماریاں کھول کھول کر دیکھنے لگی ۔
’ ’ یہ تم کیا کر رہی ہو ؟‘‘ امی گھبرائی ہوئی آواز میں بولیں ’’ تم کس کی اجازت سے الماریاں کھول رہی ہو ؟‘‘
’’ پھر کیا ہؤا اگر میں نے الماریاں کھول لیں… باجی آپ تو برا ہی مان گئیں۔ میں جہاں پہلے کام کرتی تھی ان باجی کی تمام الماریاں میں ہی سیٹ کرتی تھی ۔ میں نے سوچا آپ کی الماریاں بھی میں سیٹ کردوں ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے وہ فرج اورڈیپ فریزر کو بھی کھول کردیکھنے لگی کہ اس میں کھانے پینے کا کتنا سامان پڑا ہے ۔ اس سے پہلے کہ امی اسے کچھ کہتیں وہ بولی ۔
’’باجی بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو دے دیں ‘‘۔
کوئی امی کو کہہ دے کہ مجھے بھوک لگی ہے امی کادل فوراً پسیج جاتا ہے ۔ امی سب کچھ بھلا کر اس کے لیے کھانا گرم کرنے لگیں اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھیں کہ میں اس آنت کی پر کالہ کو کیسے ہینڈل کر وں گی شاید مجھ سے اس کی اتنی نگرانی نہ ہو پائے ۔ امی نے اسے کھانا دیا تو وہ کئی دن کے بھوکے کی طرح کھانا کھانے لگی۔
اتنے میں باہر بیل ہوئی ۔ امی نے اسے کہا جا کے باہر دیکھو کون آیا ہے تو وہ بولی۔
’’کھانا کھانے کے دوران میں کہیں نہیں جاتی ۔ کوئی ملازم کھانے کے دوران نہیں اٹھتا ۔ آپ خود جا کر دیکھ لیں ۔ ویسے بھی باہر گیٹ پر ایک چوکیدار رکھیں ۔ گیٹ کھولنا ،بیل دیکھنا میرا کام نہیں ہے ‘‘۔
اس کا اتنا طویل لیکچر سننے کے بعد امی باہر خود دیکھنے گئیں ۔ واپس آئیں تو وہ فرج سے پیپسی نکال کر کھانے کے ساتھ پی رہی تھی ۔
’’ تم نے کس کی اجازت سے پیپسی نکالی ؟‘‘ امی نے پریشانی سے پوچھا۔
’’ باجی پھر کیا ہو گیا میرا دل چا ہ رہا تھا سو میں نے پی لی ‘‘وہ بے اعتنائی سے پیپسی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی ۔ امی بے بسی سے اسے دیکھتی رہ گئیں۔
’’ تم نے آئندہ نہ تو میری اجازت کے بغیر فرج کھولنا ہے نہ ہی الماریاں ‘‘ امی نے تنبیہہ کے انداز میں کہا۔
’’ باجی آپ تو برا مان گئیں ۔ اگر آپ کو برا لگا ہے تو آئندہ میںایسا نہیں کروں گی ۔ اچھا بتائیں کپڑے کہاں پڑے ہیں دھو دوں اور ساتھ ہی برتن بھی ‘‘۔ کپڑوں اور برتنوں کا انبار دیکھ کر امی کو اس کی تمام غلطیاں بھول گئیں اور وہ اسے واشنگ مشین کے بٹن سمجھانے لگ گئیں ۔
لیلیٰ بہت اچھا کام کر رہی تھی اب وہ کچن کے برتنوں کے ساتھ سبزی بنانے اور روٹیاں بھی پکانے لگ گئی تھی۔اس نے امی کو بہت آرام طلب بنا دیا تھا ۔ آہستہ آہستہ امی نے گھر کے سبھی کام اس کے سپرد کر دیے اور اس نے اپنی تنخواہ ڈبل کروالی ۔ ایک ماہ بعد اس نے کاموں میں ڈنڈی مارنی شروع کردی ۔ کبھی کپڑے استری نہ کرتی کبھی آدھے برتن دھوتی کبھی صفائی چھوڑ دیتی۔ امی اسے کہتیں تو ڈھٹائی سے جواب دیتی۔
’’ باجی آپ سارا دن آرام کرتی رہتی ہیں خود اٹھ کر بھی کچھ کرلیا کریں ۔ میں نے سارے کاموں کا ٹھیکا نہیں لیا ہؤا کبھی کمی یا زیادتی ہو جاتی ہے آپ تو سر پر سوار ہو جاتی ہیں کئی بار بندے کا دل نہیں چاہتا کہ وہ کام کرے ۔ میں نے تو ایسے ہی کام کرنا ہے ۔ مجھے بار بار نہ کہا کریں اچھا نہیں لگتا۔دوسرے مجھے زیادہ باتیں سننےکی عادت نہیں ہے ۔ میں نے کبھی کسی باجی کو سر پر نہیں چڑھایا ۔ میں سب کوان کی اوقات میں رکھتی ہوں ۔ کام کروانا ہے تو کروائیں نہیں تو میں جا رہی ہوں ‘‘ اس نے دھمکی دی۔
’’ مگر تم تو مجھ سے سارے کاموں کی اجرت لے رہی ہو ‘‘ امی روہانسی ہو کر بولیں ۔ وہ بے اعتنائی سے بولی۔
’’ پھر کیا ہو گیا اگر میں پورا کام نہیں کرتی‘‘۔
کچھ دنوں بعد امی کو محسوس ہونے لگا کہ وہ کا م کر کر کے تھک گئی ہیں ۔ اب تو وہ ہفتے میں صرف تین بار آتی ۔ جب آتی تو امی نے آدھے سے زیادہ کام نپٹا لیے ہوتے ۔ ایک روز امی نے اسے کہا مجھے لگتا ہے جیسے میں نے تمہیں کام پر نہیں رکھا بلکہ تم نے مجھے کام پر رکھا ہؤا ہے تمہارے آدھے سے زیادہ کام تو میں کر رہی ہوں ۔ امی کی بات سن کر دل کھول کر ہنسی جب ہنسنے سےفارغ ہوئی تو بولی ۔
’’ باجی اتنا زیادہ کام اب مجھ سے نہیں ہوتا ۔ مجھے ایک ہیلپر چاہیے تھا سو وہ آپ کی شکل میں مجھے مل گیا ہے ‘‘ یہ بات کہہ کر وہ اپنے پورے دانت نکال کر دوبارہ ہنسنے لگی۔
اب اسے ملازمت پر رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہ گیا تھا ۔ اسے جواب دے دیا گیا ۔امی کو یوں لگا جیسے ماضی میں ان سے کوئی ایسی غلطی سر زد ہوئی ہے جس کی پاداش میں انہیں اتنی منہ پھٹ اوربے باک ملازمائیں مل رہی ہیں ۔
آنٹی مونا امی سے ملنے آئی ہوئی تھیں ۔ ملازمین کا موضوع زیر بحث تھا وہ امی کو ملازمین کی خصوصیات بتا رہی تھیں ۔ انہوں نے ملازمین کے بارے میں بے حساب معلومات سے امی کو لاد دیا تھا ۔ جو ملازم کم پیسوں میں کام کرنے پر راضی ہو جائے وہ سمجھ لو چور ہے ۔ جو زیادہ اجرت مانگے وہ لالچی ہے ۔ سوچ سمجھ کر ملازم رکھنا چاہیے ۔ انہیں کئی قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں جو ان کے ہاتھوں ناخنوں اور منہ کے راستے آپ کے گھر میں داخل ہو جاتی ہیں ۔ انہیں صفائی ستھرائی پاکی ، ناپاکی کا بھی کچھ علم نہیں ہوتا ۔ شوہروں کے ساتھ سونے کے بعد بنا غسل کے کام پر آجاتی ہیں ۔ ان کے ساتھ کئی قسم کے آسیب آپ کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں یہ آپ کے فرج میں پڑے کھانے کو جھوٹا کر دیتی ہیں ، آپ ان کا جھوٹا کھا رہے ہوتے ہیں ۔
امی دکھی ہو گئیں ’’ان کی کیسے اصلاح کی جائے ؟ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ انہیں اچھائی اور برائی کا فرق بتائیں ، صفائی ستھرائی سکھائیں‘‘۔
’’ ان کی اصلاح کی عمر گزر چکی ہوتی ہے آپ ان کی پختہ عادات کو نہیں بدل سکتیں ‘‘ آنٹی مونا استہزائی انداز میں بولیں۔
’’درستی کیوں نہیں ہو سکتی ‘‘ امی ایک عزم کے ساتھ بولیں ۔
’’ لگتا ہے یہ آپ کی غلطیاں ٹھیک کر کے جائیں گی ‘‘ آنٹی مونا بڑبڑائیں۔
جب ایک ہفتہ ملازم کے بغیر گزر گیا تو نیکی کے جذبے بھی سرد پڑنے لگے۔ ملازم تو کوئی تھا نہیں یہ جوش و جذبے کس پر آزمائیں کسی ہمدرد نے بارہ تیرہ برس کی بچی لادی کہ ضلع قصور سے آئی ہے یہ آپ کے پاس دن رات رہے گی ، بہت سمجھدار ہے سارے کام کر لیتی ہے مگر چور ہے احتیاط کیجیے گا ۔
’’چور ہے ؟‘‘ امی نے حیرت سے کہا ’’ مگر یہ چوری کر کے کہاں جائے گی اس نے تو دن رات یہیں رہنا ہے ‘‘۔
اب امی کے پاس بچی کی اصلاح کا سنہری موقع تھا وہ بخوشی اسے رکھنے پر تیار ہو گئیں۔
بینا واقعی سگھڑ تھی ۔ امی کے اٹھنے سے پہلے سارے گھر کی صفائی کر لیتی ۔امی کے ناشتہ بنانے تک وہ کپڑے دھونے اور استری کا کام بھی نپٹا لیتی ۔ کچن کے کام میں بھی ان کی پوری مدد کر دیتی ۔ امی کو اس کے آنے سے بہت سہولت ہو گئی تھی۔ دو ماہ سے اوپر ہو گئے تھے اس نے کبھی کھانے پینے کی کسی چیز کو بغیر اجازت ہاتھ نہیں لگایا تھا۔جو ملتا خوشی خوشی کھا لیتی ۔ وہ انہیں کہتی بس باجی میں ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھا سکتی ۔ باجی مجھے بوٹی نہ دیں مجھے اچھی نہیں لگتی میں ویجیٹیرین ہوں ، دودھ سے مجھے بو آتی ہے، پھل کھانے کی تو مجھے عادت نہیں ہے پیٹ خراب ہو جاتا ہے ۔ بس تھوڑا سا سالن اور ایک روٹی دے دیا کریں وہی کافی ہے ۔
امی کے دل کو جیسے سکون سا آگیا تھا کہ چلو اب فریج میں پڑے کھانے اور دودھ جھوٹے تو نہیں ہوں گے ۔ امی اس پر مکمل اعتماد کر کے بے فکری سے اپنے کام سمیٹتی رہتیں اور وہ اپنی صفائی ستھرائی میں مصروف رہتی ۔انکار تو اس کی سر شت میں تھا ہی نہیں جیسے وہ جانتی ہی نہ تھی کہ اس کی زبان انکار بھی کر سکتی ہے ۔
اسے ہمارے ہاں رہتے چار ماہ سے اوپرہو گئے تھے آج اس کی ماں نے اسے لینے آنا تھا ۔ وہ بار بار کہتی پتا نہیں کیوں لینے آ رہی ہیں۔باجی میرا تو یہاں اتنا دل لگ گیا ہے میرا واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا ، و ہ امی سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی اور امی بھی خوش تھیں کہ انہوں نے اسے اتنے پیار سے رکھا ہے تبھی تو یہ ایسے کہہ رہی ہے ، معلوم نہیں لوگ اسے چور کیوں کہتے ہیں ۔
اگلے روز بینا کی ماں اسے لینے آگئی بینا جیسے بیٹھی تھی ویسے ہی اٹھ کر ماں کے ساتھ چل دی ۔ نہ ہی اس کے ہاتھ میں کوئی کپڑے تھے نہ ہی کوئی اور چیز بس اٹھی اور چلی گئی۔
اگلے روز بڑے بھیا شور مچاتے آگئے میرا پرفیوم تو نہیں کسی نے دیکھا ؟ وہ چھٹیوں پر بھابھی کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے ۔ باجی نے اپنا ہیئر برش اور سٹریٹنر ڈھونڈتے ہوئے سارا گھر چھان مارا تھا ۔ پاپا کے امپورٹڈ جاگر اور ڈریس کوٹ غائب تھا ۔ بھابھی کی کاسمیٹک کی بہت سی اشیا ڈریسنگ ٹیبل پر نہیں تھیں۔ باجی کے جہیز کی بہت سی اشیا برینڈڈ پرس، بیڈ شیٹ ، کپڑے غائب تھے ۔ امی کی گرم شالوں اور سویٹروں پر بھی ہاتھ صاف کر دیا گیا تھا ۔کٹلری سیٹ اور فور پیس والا ڈنر سیٹ بھی غائب تھا ، اسی طرح گھریلو استعمال کی بے شمار اشیا غائب تھیں۔
مگر یہ واردات ہوئی کیسے یہ کوئی نہ جان سکا ۔
امی کو مسز فہیم کی بات بار بار یاد آئی ’’ یہ چورنی ہے دھیان رکھنا ‘‘۔ امی کو ذرا بھی شک ہوتا تو وہ اس کی اصلاح کی کوشش کرتیں۔
بینا کی واپسی کی تاریخ گزر چکی تھی۔ امی نے اس کی اماں کو فون کیا اور ان پر بالکل بھی ظاہر نہیں کیا کہ ان کی بے شمار چیزیں چرائی جا چکی ہیں۔ اس کی اماں نے فون پر امی کی آواز سے اندازہ لگا لیا کہ ابھی انہیں واردات کا علم نہیں ہؤا لہٰذا دو دن بعد بینا کام پر واپس آگئی۔
اب گھر کے ہر فرد کی نگاہ بینا پر تھی کہ کس وقت کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے ۔ سبھی خاموشی سے اس کی حرکات نوٹ کر رہے تھے ۔ چند روز بعد پھر کچھ نہ کچھ غائب ہونے لگا ۔ امی نے نوٹ کیا کہ یہ بار بار پچھلے سٹور کی طرف جا رہی ہے وہ اس کے پیچھے پیچھے چل دیں ۔ سٹور میں سامان سے بھری ہوئی ایک جیوٹ کی بوری پڑی ہوئی تھی ، و ہ اس میں جھانک رہی تھی ۔ امی نے آگے بڑھ کر دیکھا تو نیا چوری شدہ سامان اس میں موجود تھا۔
’’ تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ ‘‘ امی نے پوچھا۔
’’ میں تو سٹور کی صفائی کرنے آئی تھی ‘‘۔
یہ سامان بوری میں کیسے آیا ؟‘‘ امی نے دوبارہ سوال کیا ۔
’’ پتا نہیں باجی مجھے نہیں پتا آپ نے رکھا ہوگا ‘‘وہ ڈھٹائی سے بولی۔
چوری پکڑے جانے پر کوئی ظاہری اضطراب کا نشان اس کے چہرے پر نہیں آیا نہ ہی اس کا رنگ پیلا پڑا ، نہ ہی اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر آئیں ۔ وہ پر سکون چہرے کے ساتھ وہیں کھڑی رہی ۔ بس ٹک ٹک امی کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔
’’ بینا تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ امی نے دکھ سے پوچھا۔
وہ خاموش رہی ۔ امی نے دوبارہ سہ بارہ پوچھااگر تمہیں چیزیں چاہئیں تھیں تو مجھ سے کہتیں، چوری تو نہ کرتیں ۔ وہ اپنے چہرے پر زخمی مسکراہٹ سجائے امی کو دیکھتی جا رہی تھی۔
یک دم وہ پھٹ پڑی۔
’’ تو کیا آپ مجھے یہ پرفیوم ، میک اپ ، سٹریٹنر دے دیتیں ؟ میری ماں کے لیے یہ خوبصورت شالیں اور سویٹر اور میرے باپ کے لیے یہ کوٹ اور جوگر ، یہ خوبصورت برتن اور گنگا جمنی کٹلری سیٹ ، رنگ برنگے گلاس، یہ ڈول ہائوس اور کینڈی لینڈ … کیا آپ مجھے یہ سب کچھ دیتیں ؟ مجھے معلوم ہے آپ کبھی بھی یہ سب نہ دیتیں …‘‘
شاید میں دے دیتی ‘‘ امی کو اپنی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ یہ قیمتی بیڈ شیٹ پردے… مجھے یہ سب ا چھا لگتا تھا ۔ یہ کپڑے اور جیولری پہن کر میں اپنی سہیلی کی شادی پر بہت فخر سے جا سکتی تھی ۔ مجھے کتنی خوشی ملتی آپ کو اس کا اندازہ بھی ہے ؟‘‘ اب وہ پر سکون انداز میں بول رہی تھی۔
’’ بیٹا تم نے تو چوری کی ہے ۔ چوری کرنا بہت بڑا گناہ ہے جانتی ہو چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ‘‘۔
’’مگر آپ لوگ تو ہمارا دل کاٹ ڈالتے ہیں … اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ ہمیں پرانے کپڑے، پرانا کھانا ، پرانی جوتیاں ، پرانی چیزیں دے کر آپ سمجھتے ہیں آپ نے اپنا فرض پورا کردیا۔ کیا ہمارا دل نہیں ہوتا کہ ہم اچھا کھائیں ، اچھا پہنیں، اچھی نئی اور قیمتی چیزیں استعمال کریں ؟ ہمارے گھر میں بھی یہ ساری سہولتیں ہوں جو آپ کے گھر میں ہیں ؟‘‘وہ بولی۔
’’ مگر یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے اچھی چیزیں حاصل کر نے کا۔ ہم نے بہت محنت کر کے یہ تمام چیزیں حاصل کی ۔ میرے بچوں نے دن رات محنت کی ہے ، پڑھا ہے لکھا ہے ملازمت کی ہے میرے میاں نے صبح سے شام تک جاب کی ہے بلکہ دو دو نوکریاں کی ہیں ۔ میں نے کئی سال تک یونیورسٹی میں پڑھایا ہے تب کہیں جا کر ہمیں یہ تمام چیزیں میسر ہوئی ہیں اور تم دودنوں میں یہ سب کچھ حاصل کر لینا چاہتی ہو؟‘‘
’’ ہم بہن بھائیوں کو کون پڑھاتا ؟ کس نے ہمارے بارے میں سوچا ؟میر ے ماں باپ پڑھے لکھے ہوتے تو ہمیں پڑھاتے ہمارے بارے میں کسی نے غور ہی نہیں کیا نہ ہی توجہ کی زمین پر چلنے والے کیڑوں مکوڑوں کو کون دیکھتا ہے ۔
میں یہ سب چیزیں آپ کو استعمال کر کے واپس کر دوں گی ۔
وہ بہت اطمینان سے بوری کو اپنی جانب گھسیٹتے ہوئے بولی جیسے وہ اس کی حقدار ہو ۔ امی نے حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھا جو اپنے دونوں بازئوںمیں بوری کو سمیٹے امی کو ملتجیانہ انداز میں دیکھ رہی تھی کہ یہ مجھ سے نہ لینا۔
امی اپنے آپ کو بہت بڑا مجرم سمجھ رہی تھیں’ ’ اچھا اسے چھوڑو اور اندر آئو ‘‘ وہ پیار سے اس کا بازو پکڑ کر اندر لے آئیں۔سارہ ، مانو ، حاشر ، رملہ سبھی غصے میں کھولتے پھر رہے تھے ۔ ان دونوں کے اندر آتے ہی سبھی بینا کو کوسنے لگے۔
’’یہ شکل سے ہی چورنی لگتی ہے … کیسے میسنی بن کر سارے گھر میں پھرتی رہتی تھی ‘‘۔
سبھی اپنی اپنی چیزوں کے بارے میں پوچھنے لگے ۔ امی نے بتایا سبھی کچھ سٹور میں موجود ہے بوری میں ، بوری اندر لے آئو ۔
سبھی سٹور کی طرف لپکے۔
امی بینا کو لے کر کمرے میں آگئیں ۔ بینا بے بسی سے امی کو دیکھ رہی تھی جیسے یہ سب چیزیں تو اس کی تھیں تو یہ سب اپنی سمجھ کر کیوں لے رہے تھے ۔
اس نے واردات کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ سامان بوری میں جمع کر کے ساتھ والے پلاٹ میں پھینک دیا گیا تھا ۔ وہاں سے اس کی ماں اور بھائی لے گئے تھے ۔ انہوں نے دن اور وقت پہلے سے مقرر کر رکھا تھا۔
’’ تو اس چوری میں تمہاری امی اور بھائی بھی شامل تھے ۔ تمہیں کون سمجھاتا سارا خاندان ہی چور ہے ‘‘ امی نے افسردگی کہا۔
اگلے روز امی نے اس کے ماں باپ بھائی سبھی کو بلوالیا ۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ چوری پکڑی گئی ہے انہوں نے آتے ہی بینا کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ۔
’’ تو تو کہتی تھی تجھے یہ سب چیزیں باجی نے دی تھیں ۔ تو چوری کرکے لائی ہے ؟ باجی اسے جیل بھیج دیں ۔ میں تو اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں یہ … زادی کمینی کم بخت ماری نے میرے گھر میں ہی پیدا ہونا تھا‘‘۔
ماں جب بینا کو مار مار کر تھک گئی تو باپ آگے بڑھا ۔ بینا کے منہ سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا ۔اسے دیکھ کر وہ رک گیا۔ امی نے آگے بڑھ کر بینا کو ان سے چھڑوایا ۔ اسے بمشکل اندر کمرے میں لے کر آئیں وہ نیم بے ہوش سی زمین پر گر پڑی ۔ ماں باپ ڈرامہ رچا کر واپس چلے گئے اور بچی کو وہیں چھوڑ گئے ۔ امی کو سمجھ آگئی تھی کہ بینا کو یہ مار اس کی واردات کی ناکامی پر ماری گئی تھی۔
امی نے اسے پانی بلایا ، کھانا کھلایا ، زخموں پر مرہم پٹی کی دوا دی۔ تمام رات بخار میں پھنکتی رہی ۔ صبح تک اس کی طبیعت کافی بہتر تھی۔
اگلی صبح امی آنٹی مونا کو کل کی پوری کہانی سنا رہی تھیں۔ انہیں بینا سے بہت ہمدردی ہو رہی تھی ۔انہیں فکر تھی کہ یہ بچی مستقبل میں پکی چور نہ بن جائے ۔وہ کہہ رہی تھیں بینا کیسے پڑھ لکھ سکتی تھی اس کا بھائی کیسے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکتا تھا ۔ بینا اور اس کا خاندان کیسے معاشرے کے بنائے ہوئے رسوم و رواج سے لڑ سکتا تھا ۔ کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے معاشرے کے تمام در کھلے ہیں ۔ اچھے اور اعلیٰ سکولوں میں داخلے ملازمتوں کے لیے بڑی بڑی سفارشوں کی چھتر چھایہ تمام وسائل پر حکومت کی کھلی سر پرستی صرف اور صرف صاحب ثروت لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔ بینا اور اس کے گھر والے تو صرف دور کھڑے ہو کر دیکھ سکتے ہیں وہ خو اب جن کی کوئی تعبیر نہیں ان خوابوں کے پورا ہونے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ چار پانچ جماعتیں پاس کر سکتے ہیں، مگر تعلیم کی وہ دنیاوی ڈگری نہیں حاصل کر سکتے ، جو انہیںمعاشرے میں با عزت مقام دلوا سکے ۔ امی سسک پڑیں۔
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں آنٹی مونا نے جواب میں کہا ، اب ہمارے بہت سے گھر انوں میں تعلیم نےشعور کے چراغ جلا رکھے ہیں ۔ انہیں کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی سبھی سہولتیں دی جاتی ہیں ان کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
مگر ایسے لوگ نایاب ہیں،امی نے جواباً کہا ۔
اتنے میں بینا کمرے سے باہر آگئی ۔ امی اس کی اصلاح کرنا چاہتی تھیں مگر گھر میں موجود لوگ ان کے ہمنوا نہ بن سکے۔ جس خاتون کے ذریعے وہ لائی گئی تھی اسے بلا کر اسی کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا ۔ امی نے پہلی والی بوری کے سامان کامطالبہ بھی نہ کیا کہ شاید بینا کو ان چند چیزوں سے کچھ دن کی خوشیاں میسر آجائیں ۔
میں سوچ رہی تھی کہ کیا یہ تمام ملازم مرد م گزیدہ تھے یا پھرمیری امی۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x