ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

درد وچھوڑے دا – بتول نومبر ۲۰۲۱

گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی ہے ۔ یہ ان کی دس بارہ سالہ زندگی کا پہلا سفر ہے۔ شب ہجر نے چاروں طرف سیاہ چادر تانی ہوئی ہے ۔ بڑے بھیا ، بھابھی اور چھوٹی گڈی سے ڈھائی تین سال بڑی بہن کے ہمراہ سفر کا آغاز ہو چکا ہے ۔ دس سال کا عرصہ اماں ابا کے زیر سایہ گزار کر شب تنہائی اور جدائی گلے مل رہی ہیں ۔ بھائی نے اُن دونوں کو اوپر والی برتھ پر سوار کرادیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم نے اب سو جانا ہے ۔ دونوں خاموش اور سراسیمہ ہیں ۔اوپر لیٹ گئی ہیں ۔ گائوں سے چلتے وقت بھائی نے سب کو بتایا تھا کہ آج سے ہر کوئی ان دونوں کو اصلی نام سے پکارے گا ۔ چھوٹی گڈی اور بڑی گڈی نہیں کہے گا ۔ عائشہ اور فاطمہ ، یہی تو ان کے وہ نام تھے جو گائوں کے چوکیدار نے پیدائش رجسٹر میں درج کیے تھے مگر کسی نے پکار کر نہ دیے تھے ۔ بھائی نے اُن کو پہچان دی تھی ۔ اب بڑی عائشہ اور چھوٹی فاطمہ تھی۔
برتھ پر جاتے ہی چھوٹی کو تو گاڑی کے ہچکولوں نے پنگھوڑے کی طرح آغوش میں لے لیا ۔ بھائی، بھابھی نیچے بیٹھے تھے ۔ بڑی سسکیاں بھر بھر کر اماں کو یاد کر رہی تھی۔ چھوٹی کے دل میں کوئی شے چبھ رہی تھی ۔ وہ بڑی کے ساتھ لیٹ کر اماں کا لمس محسوس کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ سسکیوں کی آواز نیند کے خمار میں گم ہو تی جا رہی تھی ۔ چھوٹی خوابوں کے دیس میں پہنچ چکی تھی ۔ بڑی سوئی یا روتی رہی اُسے کوئی خبر نہ تھی ۔ وہ تو اُس وقت ہوش کی دنیامیں آئی جب بھائی کھڑے بہت پیار سے ان کو اُن کے اصل نام سے پکار رہے تھے ۔
’’ اٹھو گھر آنے والا ہے ۔ صبح ہو گئی ہے ‘‘ ۔
چھوٹی چونک کر آنکھیں ملتی جھٹ سے اٹھ بیٹھی تھی ۔ اُس نے بڑی کی طرف دیکھا بے تحاشا سوجی ہوئی سرخ آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ ساری رات روتی رہی ہے ۔ چھوٹی فاطمہ کوبڑی بہن کی صورت میں ماں کا عکس نظر آ رہا تھا ۔ اب اُسے بڑی کی انگلی پکڑ کر چلنا تھا ۔ وہ اماں ابا کی جدائی کو بڑی کی وجہ سے زیادہ محسوس نہیں کر رہی تھی لیکن اُس کے رونے سے بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔ وہ دونوں دس اور بارہ سال کی تھیں ۔ بھائی اُن کو گائوں کے سکول سے نکال کر شہر کے اعلیٰ سکول میں پڑھانے کیلئے اپنے ساتھ لے کر جا رہے تھے ۔ دُور بہت دُور جیسے کوہ قاف میں! پتہ نہیں ابا نے کیسے اجازت دے دی تھی ۔ وہ تو کبھی اُن کو اپنی آنکھوں سے دُور نہ ہونے دیتے تھے ۔ وہ گائوں کے سکول میں چوتھی کلاس سے پانچویں اور بڑی پانچویں جماعت پاس کر کے چھٹی میں آئی تھی ۔وہاں اُن کی ایک ہی اُستانی جی تھیں ۔ وہ بھی دُور دوسرے گائوں سے آتی تھیں اور انہی کے گھر میں ٹھہرتی تھی۔ پھر وہ بھی واپس چلی گئیں ۔ ابا کے ایک دوست پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔ انہوں نے ابا کو راضی کر لیا کہ میں آپ کی بچیوں کو اپنے ساتھ سکول لے کر جایا کروں گا جو کہ دوسرے گائوں میں تھا ۔ اُس وقت اُن کے ابا بڑی مشکل سے مانے تھے اس شر ط پر کہ یہ باقی لڑکیوںکے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آئیں جائیں گی ۔ ابا کو ان پر بہت اعتماد تھا ۔ ماسٹر صاحب نے بھی اس کا حق ادا کیا ۔ وہ لڑکیوں کی پڑھائی کے زبردست حامی تھے۔ وہ ایک سال کا عرصہ بھی اُن کی زندگی کی بہترین یاد گار تھا ۔ اب ابا نے انہیں اتنی دُور بھیج دیا اپنے بیٹے کے ساتھ۔پتہ نہیں وہ کیسے مان گئے تھے ؟
سب گاڑی سے اُتر نے کی تیاریوں میں تھے ۔ چھوٹی فاطمہ کا ذہن بھی گاڑی کی سی تیز رفتاری کے ساتھ محو سفر تھا۔
بڑی ،اماں کے ساتھ بہت اٹیچ تھی ۔ ایک پل بھی اِدھر اُدھر نہ ہوتی۔ چھوٹی کی طبیعت میں کھلنڈرا پن اور الھڑ پن تھا ۔ وہ زیادہ وقت ابا

کے ساتھ گزارتی ۔ کھیل کو د میں زیادہ دلچسپی لیتی ۔ذہین و فطین تھی ۔پڑھنے کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ عمر چھوٹی تھی بڑی بہن کا سائبان میسر تھا۔ کہاں جا رہے ہیںکیوں جا رہے ہیں اُسے اس کی زیادہ پروا نہیں تھی۔
بھائی آوازیں دے رہے تھے۔ وہ دونوں نیچے اُتر آئیں ۔ منہ ہاتھ دھلوایا گیا ۔ ناشتہ کیا ،بھائی فاطمہ کو سمجھا رہے ہیں کہ تم نے آج سے بڑی بہن کو باجی کہنا ہے ۔نام نہیں پکارنا ۔ کیا مشکل کام بتا رہے ہیں بھائی۔وہ بظاہر سن رہی تھی ۔ ذہن سوچوں کی آماجگاہ بنا ہؤا تھا ۔ اب ہر بات تمیز سے کرنا ہوگی ۔ ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا ۔ یہ اماں ، ابا کا گھر نہیں ہے ۔وہ سمجھنے کی کوشش میں تھی ۔
ضلع جہلم کے شہر ہیڈ رسول میں بھائی واپڈا میں اوور سیر تھے ۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ دونوں بہنوں کو ساتھ لے آئے تھے ۔ انہیں سکول میں داخل کروا دیا گیا ۔ اب وہ ان کے ابا بن گئے تھے ۔ چھوٹے ابا ۔ پڑھائی کا بہت خیال رکھتے ۔ خوشخطی سکھاتے حساب کراتے ۔ اساتذہ سے ملتے ۔ اپنی گاڑی میں روزانہ اُن کے سکول کے سامنے سے گزرتے ۔ اسکول کی چادر دیواری نہ تھی ۔ فاطمہ سکول پہلے چلی جاتی اور اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ کھیلتی رہتی، دوستی صرف کھیل کی حد تک تھی۔بڑی نے ایک پکی سہیلی بنا لی تھی۔ اچھا ہوا اُس کا بھی دل لگ گیا ۔ چھوٹی کا کام حسب عادت مشاہدہ کرنا تھا سووہ ذہن میں محفوظ کرتی رہتی ۔ بڑی کے ساتھ چپکی رہتی ۔ چھوٹی کو تو اماں ابا دونوں کا متبادل مل گیا تھا ۔ بڑی کو شاید کچھ نہیں ملا تھا اسی لیے وہ ہر وقت روتی رہتی ۔ اُس نے حسبِ سابق خود کو گھر داری میں مصروف کرلیا تھا ۔ چھٹی کلاس میں ہی اس کو ساری عقل آگئی تھی پتہ نہیں کیسے ؟چھوٹی سوچتی اور سر جھٹک کر دوبارہ کھیل میں مصروف ہو جاتی ۔
شام کو بھائی گھر آتے ہی دونوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے ۔ صبح کا دیا ہؤا کام چیک کرتے ۔حساب سے چھوٹی کی جان جاتی تھی ۔ ذرا ڈانٹ پڑتی تو وہ روتی ہوئی واش روم میں گھس جاتی ۔ بڑی کام سے زیادہ بھائی کی رفاقت کا فائدہ اٹھاتی اور رو رو کر فرمائش کرتی کہ مجھے اماں کے پاس چھوڑ آئیں ۔ میرا یہاں دل نہیں لگتا اوروہ حسبِ معمول اس سے وعدہ کرتے کہ میں اپنے گائوں کے قریبی بڑے شہر میں اپنا تبادلہ کروا لوں گا پھر ہم سب وہاں چلے جائیں گے اور بڑی ان طفل تسلیوں سے وقتی طور پر بہل جاتی ۔ تنہائی میں روتی رہتی ۔ دونوں کا کمرہ الگ تھا ۔ سونے سے پہلے وہ پھر سسکیوں سے رونا شروع کر دیتی ۔چھوٹی کچھ دیر دیکھتی رہتی پھر وہ بھی اُسے دیکھ کر رونا شروع کر دیتی ۔ دونوں کے رونے کی آواز سن کر بھائی کیسے سو سکتے تھے ۔ درمیانی دروازہ کھول کر دونوں کے پاس آ بیٹھتے اور بڑی کو چپ کرانا شروع کر دیتے ۔
’’ عائشہ چپ کر جائو ۔ فاطمہ تمہیں دیکھ کر رورہی ہے ۔ تم چپ ہو جائو گی تو وہ خود بخود چپ ہو جائے گی‘‘۔ اور بڑی کی حسبِ سابق جانے کی فرمائش اور بھائی کی طفل تسلیاں جار ی رہتیں۔ بالا ٓخر سمجھوتا ہو ہی جاتا اور یوں جھٹ سے چھوٹی کے آنسو بھی خشک ہو جاتے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہو تا تو وہ دونوں پھر سکول کے لیے تازہ دم ہو جاتیں ۔ جیسے ہی رات چھاتی بھائی اُن دونوں کو اپنے ساتھ لٹا لیتے اور کہتے۔
’’ آئو تمہیں ابا کی طرح امیر حمزہ کی کہانی سنائوں‘‘۔
اصل میں وہ بڑی کا دل بہلانے کو یہ سارے جتن کرتے مگر وہ نہ جانے کون سے غم میں دبلی ہوتی جا رہی تھی ۔ کہانی کب شروع ہوتی کب ختم ہوتی ۔ ہوتی بھی تھی یا نہیں ۔ چھوٹی کو کوئی خبر نہ ہوتی ۔ وہ تو بھائی کی میٹھی آواز کے ساتھ ہی نیند کی وادیوں میں جا پہنچتی ۔ بھابھی اُسے اُس کی چار پائی پر لٹاتی ہوںگی یا بڑی، اُسے کچھ خبر نہ ہوتی ۔
صبح جاگنے پر وہ رات کے قصے بھول بھال سکول کھیلنے کے لیے بڑی سے پہلے ہی جا پہنچتی ،بڑی آٹا گوندھتی ، روٹی پکاتی، اُسے ہنڈیا بھی پکانا آتی تھی۔ حیرت کی بات یہ کہ ساتویں کلاس میں اُس نے بھابھی سے اُون سلائیاں بھی سیکھ لی تھیں ۔ وہ کپڑے بھی سی لیتی تھی ۔چھوٹی حیرت سے اُسے اور اس کے ہاتھوں کو دیکھتی رہتی ۔ میری بہن کتنی ذہین ہے، فخر سے وہ سینہ تان لیتی ۔میں اس کا رونا کیسے کم کر سکتی ہوں ۔ اُسے کوئی تدبیر نہ سوجھتی ۔ اُس کی اس کیفیت کو دیکھ کر اب اُس کے دل میں بھی کچھ چبھنے لگ گیا تھا ۔
بھائی اکثر بڑی سے کہتے ’’ اس کو کام سکھایا کرو‘‘ بڑی اس کو پاس

بھائی اکثر بڑی سے کہتے ’’ اس کو کام سکھایا کرو‘‘ بڑی اس کو پاس بٹھاتی کنالی میں آٹا ڈال کر بتاتی کہ تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر اس کو گوندھو ۔ اُس سے ایک دم بہت سارا پانی پڑ جاتا تو وہ فوراً اور آٹا ڈال دیتی ۔ آٹا سخت ہو جاتا تو گٹھلیاں بن جاتیں۔چھوٹی پریشان ہو کر آہستہ سے بڑی سے کہتی ’’ یہ آٹے کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘ بڑی دیکھتی اُس کی آنکھیں بھیگ جاتیں ۔ وہ تو ہر وقت ہی بھیگی رہتی تھیں ۔ غم ہجراں میں برسنے کو تیار ۔’’ چھوڑو میں خود گوندھ لو ں گی‘‘۔ وہ پیار سے اُسے دیکھتی ہوئی کہتی اور چھوٹی یہ سنتے ہی آٹے کے جھنجھٹ سے یکدم الگ ہو جاتی ڈھائی تین سال کا تو فرق تھا دونوں میں ۔ بھائی کے لاکھ کہنے پر بھی وہ اُسے باجی نہ کہہ سکی۔ رات کو بڑی کی رفاقت میں وہ خوب غل غپاڑہ کر رہی ہوتی۔ بھائی خاموش کروانے کو آوازیں دیتے رہتے ۔ چھوٹی پر کوئی اثر نہ ہوتا ۔ وہ بڑی کا ساتھ پا کر شوخ ہو جاتی ۔ بڑی بھی سمجھاتی پر اُس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔ یکدم درمیانی دروازہ کھلتا ۔ بھائی اندر آتے اور بڑی سے کہتے جو سراسیمہ اُن کو تک رہی ہوتی۔
’’ فاطمہ کو چُپ کرانے کا مجھے بہت اچھا طریقہ آتا ہے ‘‘۔وہ حیرانی سے منہ اٹھا کر بھائی کو تکنے لگتی ۔ وہ کیا طریقہ ہو سکتا ہے بھلا؟
’’ ذرا عائشہ کو باجی تو کہو‘‘
اور چھوٹی کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ۔چلتی زبان یکدم رُک جاتی اور بھائی ہنستے ہوئے اپنے کمرے میں چلے جاتے ۔ فاطمہ کی صبح تک کوئی آواز سنائی نہ دیتی ۔ سب سو جاتے تو سناٹے کو عائشہ کی دبی دبی سسکیاں توڑتی رہتیں ۔ یا اللہ اس کو کیا غم ہے ۔ اس نے تو پکی سہیلی بھی بنائی ہوئی ہے پھر بھی روتی رہتی ہے ۔ اس کے آنسو خشک کیوں نہیں ہوتے۔ چھوٹی کا دل چاہتا کہ بہت ساری باتیں کر کے بڑی بہن کا دُکھ کم کرے۔ لیکن بھائی کی آمد اور ان کی فرمائش کے ڈر سے بڑی سے لپٹ کر خاموش لیٹی اُس کی برستی برکھا کو محسوس کرتی ۔ دل پر کچھ گرتا رہتا تھا ۔ بڑی شبِ ہجراں کاٹتی رہتی۔
دن مہینوں میں تبدیل ہوتے ، بھائی عید کی عید گائوں جاتے ۔ عائشہ اماں سے چپک جاتی اور چھوٹی کھلے قدرتی ماحول میں مدغم ہو جاتی۔ مشاہدہ کی قوت بڑھتی جا رہی تھی۔ اماں واری صدقے جاتیں ۔ گائوں کی سوغاتیں کھلاتیں ۔ بڑی ، اماں کو نجانے فرقت کے لمحات کے کیا کیا قصے بتاتی رہتی ۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہتا جدائی کے لمحات قریب آجاتے ۔ ریل گاڑی اور بسیںانہیں دور پردیس میں لے جاتیں پھر ملنے کی آس پر شبِ فراق کاٹنے کے لیے ۔
اور ایک عید پر تو غضب ہی ہو گیا ۔ بڑی تو اپنا بن باس چھٹیوں کی امید پر کاٹتی رہتی تھی۔بھائی نے بتایا کہ اس عید پر مجھے چھٹی نہیں ملے گی لہٰذا ہم گائوں نہیں جا سکتے ۔
بڑی جو دِن گن رہی تھی اُس پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ اُس نے سنتے ہی وہ رونا پیٹنا مچایا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی۔ چھوٹے بھیا کراچی سے آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے دونوں بہنوں سے مل کر گائوں جانا تھا اور واپسی براہ راست کراچی کی تھی۔ وہ ہم دونوں بہنوں کے لیے حیدر آبادی کا نچ کی بہت نفیس ، رنگین اور خوبصورت چوڑیوں کے سیٹ لائے تھے ۔ چھوٹی تو دیکھتے ہی نہال ہو گئی ۔ چیزوں سے بہلنے والی گڑیا، چوڑیوں پر مر مٹی ۔ اسکول جانے کا وقت ہو رہا تھا ۔
’’ چلو بھئی، عائشہ ، فاطمہ تمہیں سکول چھوڑتا چلوں ‘‘۔
بڑے بھائی کی آواز دونوں کو حواس کی دنیا میں لے آئی ’’ بھائی سے ملو یہ اب گائو ں چلے جائیں گے‘‘۔
بھائی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بڑی چھوٹے بھائی سے چمٹ گئی ۔ چھوٹی کے نین کٹورے بھی چھلکنے کو تھے کہ بڑے بھائی نے سسکتی ہوئی عائشہ کو بھائی سے الگ کر کے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور سر کو سہلانے لگے ۔ ’’ ہم بھی بہت جلد جائیں گے تم فکر نہ کرو‘‘۔ وہ بڑی کو تسلی دے رہے تھے ۔
بڑی نے آنکھوں کو رگڑا اور بغیر کسی کی طرف دیکھے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ۔ چھوٹی بھی بستہ گلے میں ڈالے پیچھے بھاگ گئی ۔ دونوں بھائی دیکھتے رہ گئے۔
’’ شام تک ٹھیک ہو جائیں گی‘‘ بڑے بھائی نے چھوٹے کو پریشان خاموش کھڑے دیکھ کر کندھا تھپتھپایا۔

دونوں بہنیں تیز تیز سکول کی طرف رواں تھیں ۔ بڑی بظاہر سمندر کی طرح پر سکون نظر آ رہی تھی چھوٹی اس بات سے لا علم تھی کہ اس سمندر کی گہرائی میں کیا لاوا پک رہا ہے ۔ بڑی کی پُر اسرار خاموشی سے چھوٹی کو خوف محسوس ہو رہا تھا۔
یکدم بڑی رُک گئی چہرہ جذبات کی شدت سے سُرخ ہو گیا ۔ آنکھیں گنگا ، جمنا بہانے لگیں ۔ سونامی اُبلنے کو تیار تھا ۔ چھوٹی سر اسیمہ اُس کو دیکھ رہی تھی۔ بڑی نے اپنا بستہ کھولا ۔ کچھ باہر نکالا اور پورے زور اور غصے سے پکی سڑک پر دے مارا۔ چھن چھنا ، زور دار دھماکہ ہؤ ا اور سڑک پر چاروں طرف قوس قزح کے رنگ بکھر گئے ۔ رنگ برنگی چوڑیوں کی خوبصورت کرچیاں دور تک بکھری، محبت و فراق کی داستان سنا رہی تھیں ۔
چھوٹی دم بخود کھڑی تھی اور بڑی آہوں اور سسکیوںکے ساتھ بے تحاشا آنسو بہا رہی تھی۔ طوفان کا بند ٹوٹ گیا تھا ۔ سونامی زوروں پر تھا ۔ ہر چیز تہہ و بالا ہو رہی تھی ۔ بڑی نے چوڑیوں کو توڑنے پر ہی بس نہیں کیا تھا بلکہ جذبات کی شدت سے ووہ اُن پر زور زور سے پیر مار کر اُن کو مزید چکنا چور کر رہی تھی ۔ چھوٹی کے دل میں بھی عجیب سی اتھل پتھل ہو رہی تھی کچھ چبھ رہا تھا ۔ جذبات کی کوئی چنگارئی بڑی سے چھوٹی میں منتقل ہو رہی تھی ۔ کچھ کھونے کا غم، کوئی انوکھا درد ، کوئی انجانی کسک چھوٹی کو محسوس ہو رہی تھی ۔
بڑی نے چھوٹی کا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتی ہوئی سکول کی جانب چل پڑی۔ چھوٹی دیکھتی رہ گئی ، بڑی بالکل پر سکون تھی ، گویا طوفان گزر چکا تھا ۔ چھوٹی کے دل میں کچھ دیر پہلے جومدو جزر پیدا ہو رہا تھا اُس نے بھی دم توڑ دیا مگر ایک پھانس چبھ گئی تھی۔وہ چوڑیوں کی تھی ، اماں کی جدائی کی تھی، بڑی کے رونے دھونے کی تھی یا چھوٹے بھائی کے مل کر بچھڑنے کا غم تھا ۔ چھوٹی کی عقل اس کا ادراک نہیں کر پا رہی تھی البتہ ان تمام غموں اور وچھوڑوں نے دل کے ساتھ کشمکش شروع کردی تھی ۔
دو سال بعد وہ اپنے آبائی گھر اماں ، ابا کے پاس پہنچ گئیں ۔ کیونکہ بھائی کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا ۔ اس شہر کے سکول میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے ۔ ابا کو یہ گوارا نہ تھا ۔ لہٰذا وہ دونوں بیٹیوں کو واپس لے آئے ۔ بڑی ساتویں اور چھوٹی ششم جماعت میں تھی ۔ بڑی اب اپنی پکی اور غم خوار سہیلی کے فراق میں آنسو بہا تی رہتی چھوٹی اُسے تسلی دیتی اور آہیں بھرنے سے منع کرتی اور کہتی۔
’’ سہیلیوں کا کیا ہے وہ تو نئی جگہ بھی مل جائیں گی ‘‘۔
آبائی گھر جا کر عائشہ تو اماں کے ساتھ چپکی اپنی فرقت کی کہانیاں سناتی اور چھوٹی فاطمہ اپنی بچھڑی ہم جولیوں کے ساتھ مل کر ماضی کی تلخیوں کو بھول چکی تھی ۔
اسی اثنا میں چھوٹی آپا بیمار ہو گئیں۔وہ ہارون آباد کے ایک انتہائی پسماندہ گائوں میں خالہ زاد سے بیاہی ہوئی تھیں ۔ ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا ۔آپا پڑھی لکھی علم کی شوقین اور قدر دان تھیں ۔ تعلیم و تربیت کی خاطر انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو ننھیال بھیج دیا تھا جہاں بڑی عائشہ اور چھوٹی فاطمہ موجود تھیں ۔ چھوٹی کو پڑھنے اور بڑی کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ اماں کے ساتھ چپکنے اور گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کا جنون تھا ۔ بچوں کو پڑھانے کا کام اماں نے چھوٹی کو سونپ دیا تھا۔آپا کی بیٹی سات سال اور بیٹا چار سال کا تھا ۔دونوں بہت روتے رہتے تھے ۔ بیٹی کو چھوٹی خالہ کی صورت میں سہیلی اور بہن مل گئی اور وہ وقتی طور پر سنبھل جاتی لیکن بیٹا کسی طور نہ سنبھلتا۔ ذہین ہونے کے باوجود تعلیم میں نہ چل سکا۔ اُس کے ضبط کے بندھن ہر وقت ٹوٹے رہتے ۔ تمام جتن ناکام ہو جاتے ۔
چھوٹی پڑھاتے سمجھاتے تھک جاتی، سوچ میں پڑ جاتی ’’ان کومسئلہ کیا ہے ؟ ہم سب اتنی محبت کرتے ہیں ۔ پھر بھی یہ ہر وقت روتے رہتے ہیں ‘‘۔
ایک جھماکا سا ہوتا اور بڑی عائشہ کا رونا دھونا اُس کی نگاہوں میں گھوم جاتا ۔’’ کیا ان کو وہی غم لگا ہؤا ہے ؟ یہ بھی ماں کی جدائی میں روتے رہتے ہیں ۔ ان کو بھی وچھوڑے کے درد میں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی‘‘۔
تھوڑی دیر کو یہ سوچیں اُسے گھیرے میں لے لیتیں اور دوسرے ہی لمحہ وہ پھر اپنی فطری جہت کے تحت ماحول میں گم ہو جاتی ۔ آپا آتیں تو وہ شکایات کا پنڈورا بکس کھول دیتی ۔
’’ آپا! دیکھیں یہ روتے بہت ہیں ۔ یہ صحیح طرح سے پڑھتے نہیں

۔ آپا ہم ان کا بہت خیال کرتے ہیں پھر بھی آپا، آپا یہ… آپا وہ… ‘‘ آپا خاموش نگاہوں سے دور کہیں تکتی رہتیں اور کبھی اُسے تسلی دیتے ہوئے کہتیں ۔’’ کوئی بات نہیں فاطمہ ! فکر نہ کرو آہستہ آہستہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے ۔ بس تم ہمت نہ ہارنا پڑھاتی رہنا ‘‘۔
اور وہ پھر دور دیس سدھار جاتیں ۔ بچے تانگہ کچھ دور جاتا دیکھتے اور آنسو بہاتے رہتے۔ چھوٹی کے دل پر کچھ گرنے لگتاٹپ ٹپ کی آواز آتی ۔ وہ ادھر اُدھر چور نظروں سے دیکھتی دل و نگاہ کو مسل کر دوبارہ اپنے مشن پر جت جاتی ۔ وقت گزرتا رہا ۔ آپا کے بچے روتے رہے اور آپا ان کو چھوڑ دور بہت دور ایسے دیس سدھار گئیں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ بچے دنیاکے سمندر میں ڈبکیاںکھانے کے لیے رہ گئے ۔ عائشہ اور فاطمہ کی شادیاں ہو گئیں ۔ اُن کے بچے بھی پڑھ لکھ کر بیاہے گئے ۔ وقت نے فرقت کے غموں کو مندمل کردیا ۔
ابا رخصت ہوئے پھر اماں بھی ملک عدم سدھار گئیں ۔ اماں کے سات ماہ بعد بڑی کے شوہر جو چچا زاد اور بڑی بہن کے دیور بھی تھے تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوگئے یکے بعد دیگرے اتنے غم سہے مگر بڑی عائشہ تو اب صبر کا پیکر بن گئی تھی ۔ کوئی گلہ نہیں ، شکوہ نہیں، بالکل خاموش ہو گئی ۔ جوانی میں بیوگی کا جوگ کاٹا لیکن وہ تو یکسر بدل گئی تھی ۔ چھوٹی فاطمہ حیران تھی کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ عائشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی تھی۔
چھوٹی کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔ سب بچوں کی شادیاں ہو گئیں ۔ زمانہ کے سرد و گرم چکھتے چکھتے وقت بیت گیا ۔ چھوٹی فاطمہ کی سب سے چھوٹی بیٹی شادی کے تین سال بعد ، ڈیڑھ سال کا بیٹا چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ زخمِ فراق کے تمام ٹانکے کھل گئے۔ وہ عقدہ جو چھوٹی سے کبھی حل نہ ہو سکا تھا چھپاک سے حقیقت آشکار کر گیا تھا ۔ بچپن میں اماں ، ابا کی جدائی ، آپا کے بچوں کی اپنی ماں سے جدائی اور اب اپنی بیٹی کی جدائی ، ان سب نے تمام راز فاش کر دیے ۔ بڑی عائشہ کا بے تحاشہ رونا ، تڑپنا ، بلکنا ، آپا کے بچوں کا بے قابو ہو جانا ، کسی طور پر نہ سنبھلنا، بے آواز آنسوئوں کا چھوٹی کے دل پر گرنا ، سب کچھ سمجھ میں آگیاتھا ، سب کچھ ۔
’’ اللہ تو نے کیسے رشتے بنائے ہیں ۔ کیسی انمول محبتیں پیدا کی ہیں۔ میرے مولا ! تو ہی لگاتا ہے ، تو ہی بجھاتا ہے ‘‘۔
چھوٹی خود ہی دل کو طفل تسلیاں دیتی رہتی ۔ گزری باتوں کو یاد کرتی ۔ بڑی کا چوڑیوں کو توڑنا یاد آتا ۔ چھوٹی کے دل میں ایک کرچی چبھ جاتی ۔ بڑی فراق کے جس کرب سے گزری تھی تو ٹوٹے شیشے کا کوئی کونہ اُس کے دل میں بھی چبھ جاتا تھا ۔ آپا کے بچوں کو روتے دیکھ کر بھی اُس کا دل کرچی کرچی ہو جاتا اور وہ لمحہ تو اُس کے لیے بہت صبر آزما تھا ۔ اُس نے اپنی جوان لخت جگر کو اپنے ہاتھوں نہلا دھلا کر رخصت کیا ۔ اُس پر بھی جدائی کے تمام راز فاش ہو چکے تھے ۔بڑی کے شوہر کی وفات پر اس کے صبر کو دیکھتے ہوئے چھوٹی کا حیرت کے سمندر میں ڈوب جانا ایسا راز تھا جو اب اُس پر آشکار ہو چکا تھا ۔ جب وہ بڑی کو دیکھتی تھی کہ چھوٹی چھوٹی جدائیوں پر سسکنے اور بلکنے والی بڑی عائشہ اپنے شوہر کی فرقت پر کیسے خاموش اور صبر سے آنسو بہا رہی تھی ۔
بڑی آپا ، بڑے بھائی ، چھوٹی بہن سب شہرِ خاموشاں کے باسی بن گئے تھے ۔ ایک لمبی قطار تھی جس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ دل کرچی کرچی ہوتا گیا ۔آنکھوں کے رستے بہنے والے اشک دل پر گرتے اور زخموں میں اضافہ کرتے رہے ۔ چھوٹی فاطمہ کو بھی بیٹی کی دائمی رخصتی کے وقت درد ِ فراق کے کچھ انوکھے راز کی سمجھ آئی جو وہ بڑی کے سراپے میں تلاش کر رہی تھی ۔ انہی دِنوں چھوٹی کی ایک دوست نے فون پر اُس کی بیٹی کی تعزیت کرتے ہوئے اُسے ایک حدیث پاک کا مفہوم سنایا تو اُس کو اپنے سارے غم ہلکے لگنے لگے ۔ اُس کے درِ دل وا ہو گئے اور اسے حقیقی غم اور کرب فراق کا اندازہ ہؤا۔ دوست سنا رہی تھی، وہ دل میں اتار رہی تھی۔
آپ ؐنے فرمایا’’جب تمہیں اپنے کسی پیارے کی جدائی کا غم بے قرار کرے تو تم میری جدائی کے غموں کو یاد کر لیا کرو۔ تمہارے بے قرار دل کو قرار آ جائے گا ‘‘۔
چھوٹی کا دل آنکھ کے رستے بہتا رہا وہ کہاں سے کہاںپہنچ گئی ۔ اُس کے تار تار زخموں پر کوئی مرہم رکھ رہا تھا ۔ کرچی کرچی دل سے خون

چھوٹی کا دل آنکھ کے رستے بہتا رہا وہ کہاں سے کہاںپہنچ گئی ۔ اُس کے تار تار زخموں پر کوئی مرہم رکھ رہا تھا ۔ کرچی کرچی دل سے خون اب بھی رِس رہا تھا ۔ سب پیارے بچھڑے ہوئے اب بھی یاد آ رہے تھے لیکن یہ سب چھوٹے چھوٹے غم ایک بڑے غم میں ضم ہو گئے تھے ۔ فداۃَ امی وابی و والدی محمد رسول اللہ ؐ، باپ کا سایہ نہیں ،ماں صغر سنی میں رخصت ہو گئی، سر پرست چلے گئے ۔ تین بیٹیاں ، دو بیٹے ، بیوی ، سب رشتے ساتھ چھوڑ گئے اس سے بڑے غم کیا ہو ں گے ۔مقصد زندگی ، مقصد آمد نہ چھوٹا نہ بھولا۔
’’ میرے ماں باپ ، آل اولاد ، جان و مال آپؐ پر قربان‘‘۔ چھوٹی بے ساختہ پکار اُٹھی ۔
اُس کے بے قرار دل کو قرار مل گیا ۔ اُس کو زخموں کا مرہم میسر آگیا ۔ اُس کو اپنے سارے غم ہیچ لگنے لگے ۔ ایک بہت بڑا غم جو لگ گیا تھا اور وہ سرکارؐ سے جدائی کا غم تھا ۔ وہ ہر وقت زیرِ لب بڑ بڑاتی رہتی ہے کہ کاش مجھے میرا سوہنا رب تمام بچھڑنے والوں کے ہمراہ حضورؐ کی رفاقت عطا فرما دے ۔ اس غم میں بہنے والے خون کے آنسو جب زخموں سے چور دل پر گرتے تو آبِ حیات بن جاتے اور وہ اس عطائے رب پر عش عش کر اٹھتی تمام وچھوڑوں کا درد اُسے عجیب لذت دینے لگتا اور وہ ہر غم سے بے نیاز ہو کر اپنے مشن میں جت جاتی۔
چھوٹی فاطمہ نے بڑی عائشہ کے صبرو تحمل سے بھی سبق سیکھا ہے ۔ حیرت کا وہ سمندر جس میں وہ غوطے کھاتی رہتی تھی اور بڑی کو دیکھ کر وہ سوچتی تھی کہ وہ ذرا ذرا سی جدائی پر کیوں بلکنے لگتی ہے ، اب اس نے کون سا ایسا راز پا لیا تھا کہ وہ اتنی بڑی بڑی جدائیوں پر نہ بلک رہی تھی نہ بے قرار ہو رہی تھی ۔ بس خاموش آنسو بہاتی یا چپ چاپ خلائوں میں گھورتی رہتی۔
چھوٹی فاطمہ کو جب سے سہیلی نے سرکارِ دو عالمؐ کا فرمان سنایا ہے اُس کے کرچی کرچی دل پر مرہم رکھ دیا ہے ۔ روتی تو وہ آج بھی ہے ، بے قرار بھی ہوتی ہے مگر حقیقی سکون و قرار پانے کے لیے اُسی عظیم ہستیؐ کے غموں اور جدائیوں کو یاد کرتی ہے اور ایک نیا حوصلہ پا کر انہیں کے بتائے ہوئے رستہ پر گامزن ہوجاتی ہے اور زبان پر بے اختیار فرمان مقدس کے الفاظ جا ری ہو جاتے ہیں ۔ وہ جانے والوں کے نام لے لے کر پکارتی ہے ’’ میں تمہاری جدائی میں غم زدہ ہوں ۔ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ۔ دل روتا ہے ، لیکن زبان وہی کہے گی جو میرے رب کو پسند ہے ‘‘۔ اللھم اشکو بثی و حزنی الی للّٰہ ۔بڑی عائشہ کو بھی اپنے شوہر کی وفات پر سکون و قرار کا یہی نسخہ ملا ہوگا جو اُسے اپنی جوان بیٹی کے رخصت ہونے پر میسر آیا ۔ اب وہ سنہرے مستقبل کو حاصل کرنے کے لیے جدائی کے تمام غم ہنسی خوشی سینے سے لگائے جی رہی ہے۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x