ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رونے والا دل ایک نعمت – بتول جولائی ۲۰۲۱

زندگی میں کبھی کبھی بہت ہی ناقابل یقین غیر متوقع طور پہ انسان ایسے مقام پہ آجاتا ہے جب وہ اپنے اندر کی جان لیوا اذیت کو لفظوں میں نہیں ڈھال سکتا۔
جب وہ اپنی داستان کسی کو نہیں سنا سکتا…… اپنے پیاروں کو نہیں، عزیز و اقارب کو نہیں، حتیٰ کہ شیشے میں سامنے کھڑے اپنے عکس کو بھی نہیں۔ اپنے آپ کو سنانے کی بھی ہمت نہیں پاتا۔ زمانے بھر میں اپنے کمائے ہوئے اعتماد اور عزت نفس کے نازک آبگینے کو کرچیوں میں بکھرا نہیں دیکھ سکتا۔ عمر بھر کی مشقت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نیک نامی داغدار نہیں دیکھ سکتا۔ وہ انسان کہیں بھی کوئی بھی ہو سکتا ہے، وہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ جب اذیت ناک کشمکش توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔ جب زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں، ہمت جواب دے جائے، جب اذیت جان لینے کے در پے ہو جائے اور اس کا وجود بھی خوف سے لرزا دے، نہ جیا جائے اور نہ ہی مرا جائے۔
سوال ایسی کیفیت طاری ہونے کا نہیں……سوال یہ ہے کہ یہ کیفیت کس وجہ سے ہے۔ دراصل ہر انسان کی شخصیت اپنے رویے، جذبات اور ردعمل کی وجوہات پہ اپنی شناخت کرواتی ہے۔
غصہ ور کا غصہ کس وجہ سے ہے اور ردعمل میں کسی کا غصہ پہ ضبط کر لینا کس وجہ سے ہے؟ کیا یہ دو متضاد رویے شخصیت کی الگ الگ پہچان نہیں ہوتے؟
اسی طرح اگر کوئی فرد اپنی چھوٹی معمولی سی ان جانے میں ہو جانے والی غلطی پہ بہت سی ندامت محسوس کرے اور بے چین رہے اور کفارے اور اصلاح کی راہ تلاش کرے، اور ایک فرد ایسا ہے جو حق تلفی کی انتہا کر دے اور احساسِ ندامت چھو کر بھی نہ گزرے……کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟
وہ کیا احساس، اور کیا جذبہ ہے جو ایک ہی جیسے انسانوں کو دو مختلف مقام پہ کھڑا کر دیتا ہے؟ وہ کیا سوچ ہے کہ گھر میں سکون و اطمینان سے بیٹھے ہنستے بولتے یکایک اس خوف میں بدل جاتی ہے کہ ’’کیا حنظلہ منافق ہوگیا‘‘۔ اس فکر میں مبتلا وہ شخص دنیا کی پرواہ نہیں کرتا اور دیوانہ بن جاتا ہے۔ روتا، چیختا چلاتا گلیوں میں بھاگتا ہوا صدیق اکبر کا بھی دل ہلا جاتا ہے۔ دو دیوانے سر پیٹتے در محبوب پہ پہنچ جاتے ہیں کہ کیا ہمارا ایمان ہمارے رب کی نظر میں مشکوک تو نہیں ہوگیا…… یہی تو دیوانے ہیں جو مطلوب ہیں! کیا آپ اور ہم کبھی اس جان لیوا کیفیت سے گزرے ہیں؟
ایمان کی فکر کہ خالص رہے، دل کی فکر کہ شفاف آئینہ پہ بال نہ آجائے اور اعمال کی فکر کہ ھادی خفا نہ ہو جائے۔ آقا کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے۔ سب جانتے ہیں محبت کا معیار ہی یہی ہے کہ اپنے محبوب کی خفگی کا تصور ہی سوہان روح ہو۔
جی ہاں! جب محبوب کی شان میں گستاخی ہو جائے۔ اس کے خفا ہو جانے، روٹھ جانے اور منہ پھیر لینے کا خوف ماہیِ بے آب کی کیفیت میں مبتلا کردے، تو بے بس انسان پہ یہی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ جب اپنی کوتاہیاں، خطائیں اور گستاخیاں اپنی ہی نظروں میں گرا دیتی ہیں تو یہی اذیت محسوس ہوتی ہے۔ مگر ٹھہریے، سوچیے، محبوب سے محبت کا معیار متعین ہوگا تو اسی تناظر میں خفگی بے قرار کرے گی اور احساسِ ندامت کی بے چینی سے اندازہ ہوگا کہ آپ کس نوعیت کی غلطی کو گستاخی گردانتے ہیں۔ محبوب جس شان کا ہوگا اور محبت جس معیار کی ہوگی خفگی کا خوف اور بے قراری بھی اسی کے مطابق ہوگی۔
پہلے تو یہ متعین کرنا ہوگا کہ وہ محبوب کون ہے؟ اور اس کی شان کیا ہے؟ اور اس کے حضور کیسے قول و عمل کو آپ کےدل کی نگری میں گستاخی سمجھا جاتا ہے؟ ہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اپنے محبوب کی نظر میں کوئی مقام

حاصل کرنے کے لیے آپ کی کاوش کیا ہے؟ اور محبوب نے آپ پہ نظر کرم ڈالی ہے تو اس کی قدر کیا ہے؟
بس یہی احساس’’خود احتسابی‘‘ ہے۔ جو’’خود سازی‘‘ اور’’اپنی اصلاح آپ‘‘ اور ’’تزکیہ نفس‘‘ کا بنیادی نکتہ ہے۔ جب خود احتسابی کے بعد احساسِ ندامت نہ جینے دے نہ مرنے دے اور نہ ہی کسی سے کچھ کہنے دے۔
جب آپ کے ساتھ بیٹھا انسان آپ کو ہنستا مسکراتا دیکھے اور یہ اندازہ بھی نہیں لگا سکے کہ آپ کس محاذ پہ ہیں۔ آپ کے اندر کیا طوفان برپا ہے۔
جب سارے آپ کے ہوتے ہوئے بھی کوئی آپ کا نہیں ہوتا۔
جب سب کے کاندھے موجود ہوتے ہیں لیکن آپ کسی کے کندھے پہ سر رکھ کے رو بھی نہیں سکتے…… کیونکہ آپ کی اذیت قابلِ ذکر نہیں اور کسی کے لیے قابلِ فہم ہی نہیں ہے، یہ تو درد کی وہ باطنی شدت ہے جس کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن ہی نہیں۔ دل میں ناقابلِ بیان کسک ہے کہ محبوب کے سامنے سر جھکانے میں دیر ہوگئی۔ ملاقات کا اذن تو ملا تھا مگر حضوری نصیب نہ ہو سکی۔ سر کٹانے کے دعوے کرنے والے نے سر جھکانے میں غفلت برت لی۔ جب اس محبوب نے چاہا کہ میرے عطا کردہ انعامات میں سے میرے لیے بھی کچھ’’خرچ‘‘ کرو تو محبت کے تقاضے جھوٹے پڑ گئے۔ جب آنکھ میں حیا کا دیا جلانے کو کہا تو اس میں ہوائے نفس کے بھانبڑ جلنے پہ کچھ ندامت نہ ہوئی۔ جب محبوب نے منع کیا کہ اپنے بھائی کی لاش کو نوچ نوچ کے مت کھاؤ تو محبت کے سارے دعوے دھرے رہ گئے اور لاشوں کے’’بوفے‘‘ پہ ٹوٹ پڑے۔
لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آپ کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور آپ خود کو ایک جنگ میں مبتلا پاتے ہیں۔ یہ جنگ ایک نعمت ہے۔ یہ کشمکش زندگی کی علامت ہے۔ کشمکش کا مثبت پہلو غالب رہے تو زندگی کا نیا رنگ نکھرنے لگتا ہے۔
یہ ایک ایسی اذیت ناک کشمکش ہوتی ہے جس کی شدت کا تعلق انسان کی اپنی عزت آپ کرنے سے ہوتا ہے یعنی وہ اپنی self-respect کے بارے میں جس قدر حساس ہوگا اذیت اسی مناسبت سے ہوگی۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ محبوب سے جدائی اور اس کی خفگی کا ڈر جتنا زیادہ ہوگا self-respect بھی اسی مناسبت سے ہوگی یا یوں کہہ لیجئے کہ جس کو اپنی عزت خود کروانے کا احساس ہوگا وہ اپنے محبوب کی خفگی سے خوفزدہ ہوگا۔ یہ کس قدر کمال احساس ہے کہ آپ کے اندر کا جمال خود احتسابی کی اذیت سے وابستہ ہے، باطن کا درد جس قدر ناقابلِ برداشت اور غم جتنا جان لیوا ہوگا نجات کی راہ اسی قدر آسان ہوگی۔ ان بے قرار لمحوں میں جب کوئی سر رکھنے کو کندھا نہ ملے اور سر پہ کسی کا دست شفقت نہ محسوس ہو اور جب ہاتھ پکڑ کر منزل کی طرف جاتے راہ پہ لے جانے والا نہ ملے تو پھر وہی سہارا ہوتا ہے
جو علیم بذات صدور ہے
جسے دل کا حال،
جنگ کی تفصیلات،
غم کی شدت،
محاذ کی سنگینی،
سمجھانے، سنانے، بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی
اُسے خبر ہے……
محبت کا درد کتنا جان لیوا ہے، نافرمانی ہو جانے کا غم کتنا اذیت ناک ہے، دل کے تار کس اداس نغمے کے اتار چڑھاؤ کے لیے بے تاب ہیں…… وہ جانتا ہے کہ غلطی کس نوعیت کی ہے اور ندامت کس پیمانے کی ہے اور وہ تسلی بخش، راحت افزا احساس جگاتا ہے کہ شاعر کی زبان سے کہلوا دیتا ہے:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کےاپنے افکار، اقوال اور اعمال کی کڑی نگرانی کرنا اور اپنے نفس کو آزاد نہ چھوڑنا ہی مومن کے شایان شان ہے۔
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔ (الحشر ۱۸:۵۹)

انسان کے اندر بہت سی خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں لیکن سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے بہرہ ور ہو اور اپنی خامیوں سے متعارف کرانے والوں کا دل کی وسعتوں سے سامنا بھی کر سکے اور ان کو دور بھی کرے- گناہوں کی اصل جڑ اور بنیاد ہمارے اپنے اندر کا شیطان ہے، انسان کے اندر دو قوتیں ہوتی ہیں، ایک انسانیت اور ایک شیطانیت کی، انسانیت شیطانیت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اس وقت تک جب تک انسان اس کو جگائے رکھے اور اس کی تجدید کرتا رہے۔ جب انسان اپنے اندر پنپنے والی انسانیت کو بیدار کرنا اور اس کی تجدید کرنا چھوڑ دے تب اس کے اندر کی شیطانیت غلبہ پانے لگتی ہے اور انسانیت مرنے لگتی ہے۔ انسانیت مرتی ہے تو اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لے جاتی ہے جن میں سرفہرست حیا آتی ہے۔ تب انسان کو اس کے برے افعال بھی اچھے لگنے لگتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے سب اچھا ہے۔
وقتاً فوقتاً اپنے اندر انسانیت کی پرورش کرتے رہیں، اور اس کی پرورش کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی جانیں بلکہ ان کی خوشی کے اسباب پیدا کریں، ان کے دکھ کا مداوا کریں۔ جب آپ یہ سب لوگوں کے لیے کریں گے تو یہی سب کچھ لوگ آپ کے لیے بھی کریں گے۔ شیطانیت کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہمیں خود احتسابی و خود شناسی کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
کہتے ہیں کسی میوزیم میں ایک قدِ آدم تصویر آویزاں تھی۔ یہ تصویر جھیل کی تھی جس پر پُل بنا ہوا تھا۔ دیکھنے والے آتے، دیکھتے، پھر اس کی خوب صورتی اور حقیقت سے قریب تر ہونے کی داد دیتے۔ بعض لوگ اس جھیل کو حقیقی سمجھ کر پار کرنے کی کوشش بھی کرتے، لیکن قریب جانے پر انہیں احساس ہوتا کہ یہ حقیقی جھیل نہیں، بلکہ تصویر ہے۔
کسی نے یہ بات اس تصویر کے مصور تک پہنچا دی۔ مصور اُداس ہو گیا۔ کہنے لگا ’’افسوس! میری تصویر حقیقت سے زیادہ قریب نہیں ہے۔ یہ تصویر ایسی ہونی چاہیے تھی کہ جب تک کوئی اسے چھو نہ لے اُسے یقین نہ آئے کہ یہ تصویر ہے یا حقیقت‘‘۔
اُس نے تصویر کو از سرِنو بنایا۔ دن رات محنت کی اور کئی ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایسی تصویر تیار کر لی کہ جب تک اسے چُھوا نہ جاتا کوئی یقین نہ کرتا کہ یہ حقیقت ہے یا تصویر۔
مصور کے اپنی غلطی کے احتساب والے اس نظریے کو ’’خود احتسابی‘‘ یا’’self-accountability‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت اچھا عمل ہے۔
حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت و دانائی کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے’’نادانوں سے…… کہ جب وہ کوئی نادانی والا عمل کرتے، میں فورا ًاپنا محاسبہ کرتا کہ کہیں مجھ میں تو یہ خامی نہیں۔ اگر میرے اندر ہوتی تو میں فوراً اسے چھوڑ دیتا‘‘۔
خود احتسابی، محاسبہ یا سیلف ٹرائل کی عادت کامیابی کا پہلا زینہ کہلاتی ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یا منفی رجحانات کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھ سکتے ہیں۔ اپنے اخلاق و کردار کو سنوار سکتے ہیں۔ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے نقصانات اٹھا کر بڑے اور کٹھن مصائب سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مستقبل کے آئینے میں اپنی حقیقی اور واضح تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
لاپروائی کی عادت سے جان چھڑا سکتے ہیں، کیوں کہ بہت سے معاشرتی، معاشی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی مسائل کی جڑ، لاپروائی ہی ہے۔ خود احتسابی سے محروم شخص ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، کیوں کہ اسے اپنی کمی کوتاہیوں کا علم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلاح نہیں کر سکتا اور سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتا، نتیجتاً زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسا شخص اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔ اس کے نزدیک معاشرہ اس کا دشمن اور قسمت اس کے مخالف ہوتی ہے۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے۔
جن معاشروں میں خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے، وہاں

لاقانونیت، افراتفری، بدامنی، بے قاعدگی، بے ضابطگی، انارکی اور بدعنوانی پھیل جاتی ہے اور اُسے تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ’’سب سے عظیم انسان وہ ہے جو اپنے ساتھ مناظرہ کر کے سچا ہو جائے‘‘۔
جب دوسرے ہمارا محاسبہ کرتے ہیں تو ہر انسان کو اپنی عزت نفس کا خیال دامن گیر ہوتا ہے اس لیے خود احتسابی ایک خوبصورت عمل ہے۔ کاؤنسلنگ کے لیے وہ موجود ہے جس سے’’ون ٹو ون‘‘ ملاقات ہے مکمل رازداری کے ساتھ، کہ وہ ہماری ہر بد خصلت سے واقف ہے مگر نہیں جتاتا، مکمل بات سنتا ہے نہیں ٹوکتا، وہ جانتا ہے کہ خود کو توڑنے پھوڑنے کا ساماں بھی ہم نے ہی کیا ہے۔
مگر ایک احساس اور توکل،
کہ اُسے پتہ ہے……
اور جیسے پہلے کئی مراحل گزار دیے، کئی self-destructive mode سے بچا لیا،
ایک بار پھر بچا لے گا
خود کو توڑنے پھوڑنے کا جتنا بھی سامان کر لیا ہو،
انسانی شکل میں کوئی ایک سہارا نہ ہو،
اپنی ذات سے کوئی اُمید نہ ہو،
لیکن اس ایک واحد القہار کا سہارا
جسے مضبوطی سے تھاما ہو
اور اس سہارے میں چھپی اُمید……
کہ وہ ہماری اپنی لگائی آگ سے ہمیں بچا لے گا۔
تو کسی ماہر نفسیات کے پاس جا کر کاؤنسلنگ کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا۔ انہوں نے پوچھا:’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔ کہا: ’’جو چاہو پوچھو‘‘۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ’’ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا‘‘۔
الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ’’اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضا ہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے‘‘۔
ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ ’’یاد رکھو! تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا اپنا نفس ہے۔ اس کی تخلیق ہی برائی کے حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔ تمہیں اس کو سدھارنے، اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تم اس کو اپنے رب کی اطاعت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گا جس پر تم پھر کوئی زور نہ رکھو گے۔ اور نتیجتاً محبوب کے ناراض ہو جانے اور اس کی محبت چھن جانے کے خوف میں جو دل روتا ہے اس نعمت سے محروم ہو جاؤ گے‘‘۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x