ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

فر ابھی طے کرنا ہے – بتول اگست۲۰۲۲

صبح کے دس بج رہے تھے۔ نور فاطمہ سست روی سے گھر کے کام سمیٹ رہی تھیں ۔ آج نجانے کیوں ان کا دل زیادہ ہی بوجھل ہورہا تھا۔ شاید موسم کا اثر تھا یا گزرتے حالات کا۔اگست کا آخر ہونے کو آیا اور برسات کا سلسلہ رکنے کو نہ آرہا تھا۔
کام والے لڑکے نے ڈیوڑھی کا کنڈا بجا کر متوجہ کیا اور کہا۔
’’بی بی بیگم کھیت سے کامو کاکا آئے ہیں‘‘۔
کاموکی آمدبھی ایک کام ہی کا آغاز ہوتی ۔ وہ ڈیوڑھی کے دروازے پر آم اور ناشپاتی کے ٹوکرے رکھوارہے تھے ۔
’’ کاکا آپ بھی بس ذرا بارش رکنے کے منتظر تھےجیسے… ابھی کل ہی اناج کے بورے رکھواکر گئے ہیں اور آج یہ اتنے پھل !ابھی گودام میں رہتے تو حفاظت رہتی برسات میں گھر پر سنبھالنا مشکل ہوگا‘‘۔
نور بی بی نے پردے کی اوٹ سے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
کامو کاکا پردے کے باوجود نظریں جھکائے بیٹھے تھے مؤدب ہوکر بولے۔
’’بی بی ہر سال کی طرح برسات نے پھلوں میں رس اور خوشبو تو بسادی لیکن یہ کیسی ہوا چلی ہے کہ انسان کڑوا ہوگیا ۔بھری برسات میں بیرسٹر صاحب کے گودام ان کے مزارع نے بلوائیوں سے مل کر لوٹ لیے کھیت اجاڑ دیے ۔ تب میں نے حکیم صاحب کی امانت گھر پہنچادینا مناسب سمجھا‘‘۔
نور بی بی گھبرا گئیں ، دور سے سنے واقعات اب قریبی رونماحادثات میں بدل رہے تھے حالات تیزی سے ابتر ہورہے تھے ،
طویل جانگسل جدوجہد کے بعد قیام پاکستان کا اعلان ہوچکا تھا، یہ وہ سودا تھا جس کی قیمت ابھی ادا کرنی تھی ۔
’’ کاکا آپ یہ اناج اور پھل لے جاکر کسانوں میں بانٹ دیجیے، بس گھر کی ضرورت کا کچھ چھوڑ کر‘‘۔
بی بی نے کا کا کو الٹے قدموں واپس کیا اور مزید بوجھل دل سے حکیم صاحب کا انتظار کرنے لگیں ، دیکھیں آج کیا خبر لاتے ہیں !
عصر تک مطب سے حکیم صاحب کی واپسی ہوتی اورنمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد وہ مردانے دالان کے بیٹھک میں آنے والوں سے مل کر گھر کے اندرونی حصے میں آتے، روزمرہ کی ضروریات سے فارغ ہوکر وہ بی بی نور کو حالات ضرور گوش گزار کرتے مگر سینسر کرکے۔سنے سنائے واقعات توتفصیل سے روز سلیقن بوا بی بی کو سناتیں ۔نور فاطمہ کو گھر بیٹھے حالات کا بخوبی اندازہ ہورہا تھا ۔
عصرکی نماز اور وظائف سے فارغ ہوکر وہ پائیں باغ میں آبیٹھیں۔ بادام اور جامن کے گھنے درخت کسی بھی پل ٹپ ٹپ اپنے پھل گرادیتے ۔ان سے بچتے ہوئے وہ اپنی مرغیوں کے پاس آگئیں جہاں کبوتر اور مرغیاں اپنا اپنا دانہ کھانے میں مصروف تھیں۔ ایک ہی پانی کے کونڈے سے باری باری پانی بھی پی لیتے۔
’’ اللہ نے تو اپنی مخلوق میں مفاہمت کی فطرت رکھی ہے پھرآج انسان کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
حالات کے تناظر میں نور بی بی کی سوچ ابھری تھی کہ کووّں کا ایک غول دیوار پر آبیٹھا۔ کبوتروں نے اڑان بھری اور مرغیوں نے سینہ تان کر شور ڈال دیا ۔کوّے کچھ دیر کائیں کائیں کرکے بھی کوئی داؤ نہ لگا سکے اور اڑ گئے ۔ایک مطمئن سی مسکراہٹ نور کے لبوں پر کچھ دیر کو بسیرا کرنے آگئی ، کچھ دل بہل سا گیا ۔
سیلقن بوا اب قریب آبیٹھیں ۔وہ بتارہی تھیں کل کچے کے راستے جانے والی دو گاڑیوں کولوٹ کر مسافروں کو قتل کردیا گیا ہے۔
’’یا اللہ رحم ‘‘ نور بی بی ڈھےسی گئیں، رہی سہی جان بھی ان کے ہاتھوں سے نکلی جارہی تھی۔
’’اماں جان ! ابا میاں کے آنے کا وقت ہورہا ہے ،میں نے روٹیاں بنا دی ہیں، آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔یہ ایک پیالا دودھ پی لیجیے‘‘۔
نور فاطمہ نے پلٹ کر اپنی بیٹی کو دیکھا ،اپنی نوخیز حیا فاطمہ کو،اور دونوں بازو پھیلا کر اسے آغوش میں سمیٹا کہ جیسے اپنے کلیجے میں کہیں چھپا لیں گی۔
دل کی بے کَلی اب سِوا ہورہی تھی، عشاء ہوئے اب دیر ہوگئی تھی ، حکیم صاحب ابھی تک بیٹھک میں آنے والوں سے بات کررہے تھے ۔ رات کا کھانا مہمانوں کے لیے بیٹھک میں منگوالیا گیا تھا ۔آج کیا ہونے والا ہے؟ یہ سوال بار بار نور بی بی کے دل میں سر اٹھارہا تھا۔
نو بجے حکیم صاحب نے زنان خانے کے دروازے پرکھنگار کر آمد کی اطلاع کی،ماں بیٹی بے چینی سے استقبال کو آگے آئیں ۔حکیم صاحب نے خلاف معمول آج اچکن اور ٹوپی اتار کربیٹی کے بجائے بیوی کو تھمائی اور چارپائی پرآ بیٹھے۔ بیٹی نے بڑھ کر پشت پر گاؤتکیہ لگایا۔ وہ باپ کا تھکا ہؤا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔
’’ابا میاں پاؤں دبادوں تھکن اتر جائے گی‘‘۔
حکیم صاحب نے شفقت سے منع کیا اور اسے سونے بھیج دیا ۔ اب خاموشی چھا گئی، نور بی بی کچھ پوچھنے سے بھی خود کو روک رہی تھیں کہ حکیم صاحب نے بیوی کو مخاطب کیا ’’میں نے حیا کا نکاح سلیم الدین سے طے کردیا ہے‘‘۔
’’کیا…. ‘‘نور فاطمہ کا دل اچھل کر حلق میں جیسے اٹک گیا ۔’’وہ آپ کے چچیرے بھائی کی زوجہ کا بھائی ؟ مگر پچھلے سال تو دور نہ بھیجنے کی وجہ سے آپ نے منع کردیا تھا‘‘ گھر کی خاموشی اب سناٹا بن کر نور کے لہجے میں سما گئی۔
’’حالات بدل گئے ہیں ،ہمارا جانا بھی اب طے ہے اورسفر کا اعتبارنہیں ،میں بن بیاہی بیٹی کو لے جانا مناسب نہیں سمجھتا‘‘۔
وہ نور بی بی کی بے چینی دیکھتے ہوئے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔
’’ میں نے لڑکے کو آمادہ کرلیا ہے وہ رخصتی کے بعد حیدرآباد چلا جائے اور رشتہ داروں کی مدد سے روزگار کا انتظام کرکے مقیم ہوجائے کہ پاکستان سے اس کا الحاق متوقع ہے ‘‘۔ اب کہنے کو کچھ نہیں تھا حکیم صاحب نے مضبوط اعصاب سے آنے والی زندگی کا فیصلہ کردیا۔
وہ بے چین رات گزر گئی اور آنے والی زندگی کا فیصلہ کرنے والی صبح طلوع ہوئی۔
جاتی برسات اور نور کے بات بات پر امنڈتے آنسوؤں نے آج گویا برسنے کی شرط لگائی تھی۔ماں باپ کی آنسوؤں سےبھیگی آنکھوں نے معصوم بیٹی کا چہرہ دل میں بسا لیا۔باپ نے اپنے تئیں بیٹی کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے ایک خطیر رقم ساتھ دی۔
مگر نور فاطمہ تو ماں تھی بلک گئی۔ کیا میں جیتے جی اپنی بیٹی کو دیکھ پاؤں گی کہ اب دور کی مسافت طے کرنی ہے!
اور یہ گھڑی کچھ یوں آنی طے تھی کہ سب تیاری جوں کی توں رہ گئی۔ بلوائیوں کے حملے کی اطلاع بروقت محلے میں پہنچ گئی ، لمحوں کو ضائع کیے بنا بچوں بزرگوں کو کسی نہ کسی طرح لے کر گھر کھلے چھوڑ کر نکل گئے ۔ پشتوں کی بسی بسائی وسیع حویلی ، پائیں باغ کےقد آور درختوں نے اپنے مکینوں کو خامشی سے الوداع کہا کہ جن کو اب پلٹ کر نہ آنا تھا ۔
محض عزت کا اثاثہ لیے یہ بےاماں مسافر کچے پکے راستوں سے گزرتے ہوئے صرف اپنے اللہ کو چپکے چپکے مددکےلیے پکار رہے تھے جو جانتا تھا اس کے بندے کس پاداش میں اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔
قسمت نے ہاتھ پکڑا اور دوسرے قصبے کی حدود سے پاکستان جانےوالی گاڑی میں انہیں تلے اوپر بٹھا لیا گیا۔
دلوں میں جگہ کا نکلنا کوئی اس سفر میں دیکھتا جہاں انجان مسافر ایک خاندان کی مانند تھے۔ ان کے دلوں کے اندر اور خاموش لبوں کے پیچھے کلمہ لَااِلٰہ اِلاا للہ کا ورد تھا جس کی برکت سے یہ ایک دوسرے کے لیے پرخلوص تھے، اپنی روٹی دوسرے کو کھلا کر بھوکے رہ جانے والے مہربان!
سرحد کی ایک لکیر عبور کرتے ہی فضا بدل گئی۔
حکیم یٰسین نے گلوگیر آواز میں بلند آہنگ سے کلمہ طیبہ پڑھاکہ یہی کلمہ اس سرزمین کی پہچان تھا۔جذبات کی یورش آواز پر حاوی ہوگئی۔ ان کے پانچ سالہ بیٹے نے کھڑے ہوکر پوری جان سے کلمہ شہادت پڑھ کر باپ کی آواز کو توانائی دی اور سب بہتے آنسو اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج میں سر زمین پاک پر سجدہ ریز ہوگئے ۔
آنے والے غیرت مند تھے ،وہ بوجھ بننے نہیں بوجھ بانٹنے آئے تھے ، ایک نوزائیدہ بچے کی طرح سمجھ کر مملکت خداداد کو پروان چڑھانے میں انہوں نے اپنا خلوص وہنر وار دیا۔ وقت نے دہائیوں کا سفر طے کیا ۔ حوصلے اورصلاحیتوں کے طلسم نے ریت کے بگولوں کو صورت دل پذیر میں بدل دیا ۔
اُدھر نور فاطمہ کے ہر خوشی غم میں ہمکنے والے دل نے ایک دن خاموشی اختیار کرلی ۔ایک نور فاطمہ ہی کیا،دو نسلوں نے اس شہر کی خاک اوڑھ لی…. دو نسلوں کا عہد تمام ہؤا….مگر کہانی زندہ رہی !
ردا فاطمہ اپنے بھتیجے کا ہاتھ تھامے اس کی نظروں میں نظریں ڈالے اعتماد سے کہہ رہی تھیں۔
’’تمہیں آج حق تلفی کا شکوہ ہے تو میرے بچے ! جان لو آزادی کا حق بھی ہمیں خوان میں سجا کر نہیں دیا گیا تھا ۔ہمارے بزرگوں نے کلمہ حق کے زیر سایہ اپنے علم و ہنر اورخلوص کوآزمایاتب یہ راستہ گلزار کیا‘‘۔
آج 14 اگست تھی۔ پھوپی جان نے بھتیجے کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کے ماتھے کا بوسہ لیا، نوجوان نسل کے نمائندے کے سینے پر لَااِلٰہ اِلا اللہ ‘ کا بیج لگا کر سبز ہلالی پرچم تھما کرفرض اور حقوق کی وہ اصل راہ دکھائی جس پرسفر ابھی طے کرنا ہے ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x