ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

روداد – بیت احسن کی ادبی نشست کا احوال – ام ایمان(غزالہ عزیز)

لاہور پہنچے دوسرا دن تھاکہ حریم ادب کی نشست میں شرکت کی دعوت ملی۔ یہ بیت احسن میںہونے والی ماہانہ نشست تھی ۔ ہماری رہائش سے ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا ۔ فرزانہ چیمہ اس میںشرکت کا کراچی میںہی وعدہ لے چکی تھیں، لانے لے جانے کا وعدہ بھی کر لیا تھا جو انہوں نے نبھایا۔ ان سے بہترین قلم کار کے لحاظ سے تو خوب واقفیت تھی اب دوستی بھی ہو گئی اور وہ بھی با وفا دوست ثابت ہوئیں ۔ ایک گھنٹے کا سفر کچھ عدم واقفیت اور کچھ راستے کی خرابی کے باعث ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہؤا اور ان کی پیشانی خندہ ہی رہی۔
سو کراچی سے لاہور پہنچنے کے وقت کے برابر وقت میں ہم بیت احسن پہنچ گئے۔ یہ اسلامیہ پارک میں واقع ہے گلی میں داخل ہوئے تو پہلے لال اینٹوں کے احاطے والے تاریخی گھر ’’ فصیح منزل‘‘ کو بھی دیکھا ۔ ہاں بھئی تاریخی ہی ہؤا کہ بنت الاسلام کا گھر تھا جن کی کہانیاں اور افسانے پڑھ پڑھ کر مجھ سمیت کتنی ہی نسلیں جواں ہوئیںاورلکھنے کے شوق میںبھی مبتلا ہوئیں۔
ہمیںفرزانہ باجی کی زبانی یہ سن کر بڑا مزا آیا کہ بنت الاسلام کے بھی ہماری طرح تین نام تھے ۔ پہلا رفعت اقبال جو ان کے والدین نے رکھا تھا ۔ دوسرا نسیم آرا جوشاید انہوں نے خود رکھا ہوگا اور تیسرا بنت الاسلام جس سے سارا جہان انہیں جانتا ہے ۔ اب سب کو تجسس ہوگا کہ ہمارے کون سے تین نام ہیں ۔ تو جناب پہلا نام غزالہ یاسمین ہے جوشناختی کارڈ پر تحریر ہے ۔ دوسرا ام ایمان ہے جس سے ہم کہانیاں اورافسانے لکھتے ہیںاور تیسرا غزالہ عزیز ہے جس سے کالم فیچر اورانٹرویوز کرتے ہیں، یعنی سارا صحافیانہ کام غزالہ عزیز کے نام سے ہوتا ہے ۔
فرزانہ باجی کے ساتھ باتوں میں راستہ مزے میںگزر گیا ۔ کہہ رہی تھیں کہ مولانا مودودی کی بیگم نے انہیں بتایا کہ ایک دفعہ مولانامودودی بنت الاسلام کے ہاں دعوت میں گئے تو واپس آکر مسکراکرکہنے لگے۔
بیوی ! انہیں کیسے پتہ چلا کہ میں کھانے کے ساتھ نیبو لیتا ہوں؟ بیگم مودودی بولیں، میاں ! نسیم آرا کو میں نے آپ کی پسند کے بارے میںبتایا ہؤا تھا ۔
ہاںتو بات ہو رہی تھی اسلامیہ پارک ، فصیح منزل، اوربیت احسن کی ۔ ہم فصیح منزل کو دیکھتے اور تصور کی آنکھ سے بنت الاسلام کو وہاںرہتے بستے دیکھتے ہوئے سعید ہ احسن کے گھر بیت احسن کے دروازے پر پہنچ گئے جہاںان کی بیٹیوںثمر ، فرات اور ذروہ سے ملاقات بھی ہوئی … ویسے ان کی پانچ بیٹیاں ہیں ۔جن میں سے دوذروہ احسن اورفرات احسن نے ان کی ادبی میراث پائی ہے۔
اندر پہنچے تو حریم ادب کی خوبصورت محفل سجی تھی ۔ مزے کی بات یہ تھی کہ پانچ سے لے کرپچاسی سال کی مصنفات جمع تھیں۔ ہم پہنچے توسعیدہ احسن کی چھوٹی بیٹی ثمر احسن غزہ کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں شرکا سے مخاطب تھیں۔
ادبی نشست کا آغاز ہؤا توسب سے پہلے ایک چھوٹی بچی ہالہ نے فلسطین کے حالات پرمبنی تحریر سنائی دوسری ننھی بچی مریم نے ’’ کانٹا پھنس گیا ‘‘ کے عنوان سے لکھا واقعہ سنایا جو ان کے منے بھائی کے ساتھ ہؤا تھا ۔ کانٹا کس جتن سے نکلا اس کا احوال خوب تھا۔ پھر چھوٹی تیمیہ نے نئے گھر جانے اور وہاںبنائے جانے والے اصول و ضوابط کے بارے میں بتایا جس میں سب بڑوں کے لیے یاد رکھنے والی باتیں تھیں ۔ ایک مزے کا اصول یہ بتایا کہ لائبریری کے شیلف میں ایک بکس رکھا جائے گا جس میں کسی کو کسی کے بارے میں کوئی شکایت ہو تو وہ وہاںلکھ کر ڈال سکتا ہے ۔
چھ سے نو سال کی یہ تینوںبچیاں بہنیں تھیں ۔اگر کوئی نہ بھی بتاتا تو پتہ چل رہا تھا کیوںکہ تینوںایک طرح کے لباس میں تھیں، انہیںدیکھ کر ہی مزا آرہا تھا ۔ اتنی چھوٹی عمر میںایسی پیاری باتیںلکھنے والی بچیوں کی والدہ بلا شبہ لائق تحسین تھیں۔
تعلیمی ادارے اسلامک انسٹیٹیوٹ کی طالبات بھی مضامین لکھ کر لائی تھیں ۔ عائشہ سجاد نے ’’ میرارب مجھ سے کیاچاہتا ہے ؟‘‘ کے عنوان سے مضمون سنایا ۔منیبہ نے نظم سنائی، عائشہ نے توحید پر تحریر سنائی۔ ننھی فاطمہ نے کہانی فاطمہ کی زبانی سنائی، عنیزہ فیصل نے اسرائیل اور فلسطین جنگ کیسے شروع ہوئی اس موضوع پر معلومات دیں بسمہ حسین نے آج کے نمائشی رویوں کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا تھا ۔ حاجرہ ایمان فاطمہ( جی ہاں یہ تینوں ایک ہی بچی کے نام ہیں ) نے آداب زندگی تحریر کیے تھے، سہیلہ حسنات نے اپنے آج کے حصے کے کام کے بارے میںبتایا ۔ فاخرہ نے فلسطین پر جذبات سے بھرپورمضمون سنایا ۔
نزہت وسیم نے اپنی انعام یافتہ کہانی ’’ درخت کے آنسو‘‘ سنائی ۔ مریم فاروقی نے مضمون پڑھا فرحت زبیر نے اپنے مانسہرہ اور ایبٹ آباد سفرنامہ کا کچھ حصہ سنایا ۔ صبیحہ نبوت بھی موجود تھیں انہوں نے خواتین کے حقوق پر مضمون پیش کیا ۔نصرت نے بھی اپنی تحریر پڑھی۔ ہر تحریر پر فرات احسن لکھنے والوں کی بہترین حوصلہ افزائی بھی کر رہی تھیں اور راہنمائی بھی کرتی جاتی تھیں۔ یہاں ہم اپنے ہاںہونے والی ادبی نشست کے اصول کا ذکر کرتے ہیں جس کی ضرورت کا احساس عقیلہ آپا (عقیلہ اظہر) نے دلایا تھا کہ پہلے کہانی افسانے اورشاعری پڑھی جائے گی بعد میں مضامین یا کالم پڑھے جائیں گے اورطبع شدہ ہونے کی صورت میں صرف وقت بچ جانے کی صورت میں انہیںسنا جائے گا جو عموماً ادبی نشستوںمیں کم ہی بچتا تھا۔
اب فرات احسن نے حالات کے مطابق اپنے چند اشعار سنائے کہتی ہیں ؎
کیا لکڑی کی اک میز کے گرد
بیٹھے ہوئے چند پتھر چہرے
چندا کوگگن دے سکتے ہیں ؟
سورج کوکرن دے سکتے ہیں ؟
اوردیس بدر کچھ لوگوں کو
پھر ان کا وطن دے سکتے ہیں؟
ام عبد منیب نے اپنی نظم’’ افغانیوں پر امریکی ظلم کی تصویر دیکھ کر ‘‘ کے عنوان سےکہےاشعار سنائے جو ان کی کتاب کا حصہ ہیںاوراب فلسطین کے موجودہ حالات سےمطابقت رکھتے ہیں۔
ابھی ایک ننھے میاں یحییٰ عبد اللہ جوکہیںکھیل میں مشغول تھے ۔ باقی تھے ،انہوںنے اپنی طرح ایک منی سی نظم سنائی ۔ اب ہماری باری تھی۔ ہم نے اپنا ایک افسانہ سنایا۔ ام عبدمنیب کی دعا پر اس ادبی محفل کااختتام ہؤا۔ اختتام پر اسلامک انسٹیٹیوٹ کی نگران بشریٰ شاہد سے علیک سلیک ہوئی جن کی طالبات نے آج اس ادبی محفل میں پہلی دفعہ شرکت کی تھی اور خوب ہی کی تھی۔ ہم نے ان سے کہا کہ یقیناً ان کی تربیت یافتہ یہ طالبات ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنیں گیں انشاء اللہ۔ ذروہ احسن نے آکر سب کو کھانے کو انتظار نہ کرانے کے لیےہدایات کیں اور سب مزیدار کڑی پکوڑا گلاب جامن اور مشروب کے ساتھ انصاف کرنے میں مشغول ہو گئے ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x