ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خفتگانِ خاک – خالی ہاتھ – بنتِ سحر

اصل رونق تو دو بوڑھے وجود تھے جن کے دم سے زندگی ہنستی تھی!

 

دسمبر شروع ہے۔ ہڈیوں میں گھستی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ شاعر لوگ دسمبر کو اداس کہتے ہیں ، ہم شد و مد سے اس تصور کی نفی کر دیا کرتے تھے۔ جب تک کہ امی جی (نانی امی) کا گرم نرم محبت میں پور پور بھیگا وجود دسمبر کی ایک سرد ٹھٹھرتی سہہ پہر ساکت جامد پڑا نہ دیکھا تھا۔
نجانے کس احساس کے تحت میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کا چہرہ چھو لیا ، مگر اس سے پہلے ہاتھ رگڑ کر گرم کرنا نہ بھولی ۔ اب خیال آتا ہے کہ تب یہ نہ سوچا کہ بھلا اب گرم سرد کہاں کچھ کہے گا!چھو کر دیکھ بھی لیا تو زندگی کی کوئی رمق نہ اس چہرے پر نظر آئی ،نہ ہمیں دیکھ دیکھ پیار چھلکاتی آنکھیں ہی وا ہوئیں۔ کرب سے آنکھیں میچ کر آنسوؤں کو راستہ دیتے دھیرے سے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
کبھی کبھی ہاتھ بالکل ہی خالی لوٹ آتے ہیں۔ اور ہم وقت کی تمسخر اڑاتی ہنسی سے بچنے کے لیے مٹھی زور سے بند کر کے خالی ہاتھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ گھر میں کئی تبدیلیاں ہو گئیں۔ وہ گھر بھی بدل لیا۔ کبھی سب کے کالج یونیورسٹی جانے کے بعد اماں کو کہیں اور مصروف پا کر اکیلی چھت پر جاؤں تو خاموش فضا میں پالتو طوطوں کی آوازوں یا محلے کے کسی قریبی گھر سے آتی چند منتشر آوازوں کے بے سبب شور میں عجیب سناٹا سا محسوس ہوتا ہے ۔ اس سناٹے میں سرسراتی ٹھنڈی ہوائیں مجھے بہت کچھ یاد کرا دیتی ہیں۔ بچپن کے دسمبر کی یادیں ذہن کے پردے پر لہرانے لگتی ہیں۔
ہمارے گھر میں بہت بڑا کھلا سا بھرا پرا صحن ہوتا تھا۔ جس کے درمیان میں بیری کا شاندار سا درخت اور اس کے نیچے ہم سب بہن بھائی رونق لگائے رکھتے تھے۔ مگر اصل رونق تو دو بوڑھے وجود تھے جن کے دم سے زندگی ہنستی تھی۔
ہمارے نانا ، آج بھی ویسے ہی نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔ ہر دم مستعد ، نمازوں کی تیاری کرتے، نواسوں کو مسجد لے جاتے، محلے والوں کو دعوت دیتے اور گھر کی چھوٹی بڑی فکریں کرتے ہوئے۔ میں نے انہیں سوائے آخری چند دنوں کے ، کبھی بستر پر لمبا آرام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
اور نانی امی تو اس گھر کا نیوکلیئس تھیں۔ ان کے پاس گھر اور باہر ہر طرف سے لوگ جمع رہتے۔ سارا دن ہمسائیاں اپنی ساس، بہوؤں ، دیورانیوں جٹھانیوں، بھابھیوں کے دکھڑے رونے آتی تھیں۔ کبھی کوئی کچھ مانگنے چلی آتی۔ کوئی یونہی پل دو پل کسی کام کا پوچھنے آ جاتی۔
”اماں جی! رضائیاں دھلوانی ، سلوانی ہوں تو دے دیں“۔
”ساگ پکوانا ہے تو دے دیں“۔ کبھی کچھ بنا کر ان کے لیے لا رہی ہوتیں۔
ہم کو ئی جدی پشتی رئیس تھے نہ زمیندار کہ جن کے مزارع انہیں یوں گھیرے رکھتے ہیں۔ وہ تو آبائی گاؤں تھا جہاں ہماری اماں وغیرہ کا بچپن گزرا۔ وہاں زمینوں میں ہی گھر بنا رکھا تھا تو ایسا ماحول ہوتا بھی تھا۔ یہاں شہر کے درمیانے سے علاقے میں کوئی زمین نہ تھی۔ نانا کی زمینیں تو کہیں اور تھیں۔ مگر عزت بھلا ان چیزوں کی محتاج کہاں ہوتی ہے؟
گھر کی بڑی خاتون ، نانی امی ایسی ہستی تھیں جو ایک مدار اور مرکز کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ لوگ جن سے ملنا باعث عزت سمجھتے ہیں اور جن کے اخلاق اور عاجزی کی کشش دوسروں کو کھینچ لاتی ہے۔ نرم دلی ان کا خاصا تھا اور سخاوت ان کی عادت۔ وہ ہاتھ سے دینا کبھی بھولتی نہ تھیں مگر اپنے ہاتھ میں رکھے پیسے بھول جایا کرتی تھیں کہ کہاں رکھ دیے۔
سردیوں میں صحن کی دھوپ میں بیٹھ کر نواسے نواسیوں میں سے کسی کے سر میں مالش کرتی، کسی کو کوئی گُر سکھاتی ، راتوں میں اپنے بستر میں ساتھ لٹا کر ہمیں پرانی باتیں بتاتی ، سادہ سی ہنسی ہنستی، صحن کی کیاری میں ہمارے ساتھ مل کر کوئی پودا لگاتی نانی امی ہمیشہ ایسے ہی یاد آتی ہیں۔
ان کو کبھی کسی کی شکایت ،کسی سے شکوہ کرتے ہوئے نہیں سنا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے انہوں نے کچھ ناقدروں کی طرف سے بہت کچھ برداشت کیا مگر کبھی شکایت نہ کی۔ اپنی پیاری بہوؤں سے بہت خوش تھیں۔ ان کی تعریفیں کرتیں، لاڈ اٹھاتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری ماؤں کے اور خود ہمارے دلوں میں بھی روایتی خاندانوں کے برعکس، ان خوبصورت رشتوں کے لیے بہت مان اور قدر ہے الحمدللہ۔
بڑے گزر جاتے ہیں تو بہت کچھ ساتھ ختم ہوتا نظر آتا ہے، اخلاص ، محبت، پیار یہ سب خود رشتوں میں گوندھنا پڑتا ہے، ساری شیرینی خود ڈالنی پڑتی ہے تو دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔ سوچتی ہوں کاش! ہم بھی خلوص کی دولت کو یوں لُٹانا سیکھیں۔ محبت اور قدردانی کے رشتے تا عمر نبھا سکیں۔ اور ایسی گواہیاں لے جائیں کہ جنتوں میں متقین اور صالحین کی صحبت نصیب ہو،آمین۔
دنیا کی جدائیاں بہرحال تکلیف دہ ہیں ۔ ابھی اس بغیر صحن کے گھر میں ، قدرتی ماحول بنانے کی کوشش کرتے ، ماضی کی طرح پرمسرت تازہ اور پرسکون فضا بنانے کے جتن کرتے ،چھت پر رکھے گملوں کی قطاروں کی رونق دل میں ساری یادوں کے ساتھ امڈ آئی۔ گملوں میں لہلہاتے ننھے پودوں کو دیکھتے دیکھتے نجانے کب ماضی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا اور احساس زیاں سا ہونے لگا۔ سوچ رہی ہوں کہ ہم یہ پودے ان کے شوق اور ان کی یاد کے ساتھ ان کے لیے صدقہ جاریہ کی نیت سے لگائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے باغوں میں سے کئی ان کو دیں گے۔ اللہ ان کی اولاد اور آگے ان کی بھی اولاد کو نانا نانی کے لیے صدقہ جاریہ بنائے،آمین۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x