ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پیاری – بتول جنوری ۲۰۲۳

ہ بہت دیر سے تکیہ پر سر رکھے، چہرہ دوپٹے میں چھپائے روئے جا رہی تھی۔ اپنا دُکھ کہتی بھی تو کِس سے؟ اس کی تو کوئی بہن بھی نہ تھی۔ بس ایک بھائی تھا۔ پھپھو کا بیٹا! وہ بھی اتنا چھوٹا تھا۔ ابھی تیسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ اسے بھلا کیا سمجھ آنی تھی۔ ہاں! اُسے بینا سے محبت بہت تھی۔ جب کبھی وہ دُکھی ہوتی یا آنسو اس کی آنکھوں میں سما نہیں پاتے تو وہ اس کے بہتے آنسو پونچھنے پتہ نہیں کہاں سے آجاتا۔ جانے اُسے کون بتا دیتا تھاکہ باجی اس وقت دکھی ہے ۔
آج بھی یہی ہؤا۔ وہ اس کے بستر پر آکر بیٹھ گیا۔ آہستہ سے اس کے ہاتھ ہٹا کر آنسو پونچھنے لگا۔
’’کیا ہؤا باجی؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ چُپ ہو جاؤ۔ دیکھو میں تمہیں اپنی چاکلیٹ کھلاؤں گا….‘‘ یہ عامر کا بہت بڑا احسان ہوتا تھا۔ اس لیے کہ بینا کی طرح اُسے بھی چاکلیٹ بہت پسند تھی۔ اُسے یکدم اس پر ڈھیروں پیار آیا۔
میرا پیارا بھائی!‘‘ اُس نے آنسو صاف کر کے عامر کو گلے سے لگا لیا۔
دونوں مل کر چاکلیٹ کھانے لگے۔
’’ارے کیا بینا! اسکول سے آکر تمہیں صرف سوتے رہنے کا کام ہے؟ چلو جلدی سے کچن میں آکر دوپہر کے برتن دھوڈالو ‘‘پھپھو کی غصے والی آواز سنتے ہی وہ اٹھ بیٹھی۔
بینا کی امی کے انتقال کو پانچ سال ہو چکے تھے۔ جب امی اسے چھوڑ کر گئیں تو وہ چوتھی کلاس میں پڑھتی تھی۔ چھوٹی سی پیاری سی بینا….تتلی کی طرح گھر میں اُڑتی پھرتی تھی۔ امی ابو کے دل کی بہار…. اتنی دعاؤں سے تو اللہ نے امی ابو کو عطا کی تھی۔ مگر اوپر والے کے راز وہی جانے…. اللہ نے اس کی امی کو بلالیا۔ اب اس کو لگتا تھا ہر کوئی ہی کینسر سے مر جائے گا۔
امی نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اُسے لپٹا لپٹا کر کتنی بڑی بڑی باتیں سمجھا دی تھیں۔اُس وقت تو بس وہ معصومیت سے آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے ان کی سب باتیں سُن رہی تھی۔ مگر پھر وقت اور حالات نے اسے بتایا کہ امی نے کب کب کی باتیں اسے سمجھا دی تھیں۔ ذرا بڑی ہونے لگی تو ابا کو آفس میں بھی اس کی فکر رہنے لگی۔ اسی دوران ان کی چھوٹی بہن بیوہ ہو گئیں تو وہ اپنی بہن اور کمسن عامر کو اپنے گھر لے آئے۔ یوں ہر دو بہن بھائی ایک دوسرے کا سہارا بن گئےاور گھر کا بکھرا بکھرا نظام سنبھلنے لگا ۔
کچھ دن تو بڑے پیار کے گزرے۔ بینا کو لگا کہ اس کی امی اس کو مل گئی ہیں اور ساتھ ہی ایک پیارا سا بھائی بھی۔ مگر کچھ ہی دن بعد امی تو کہیں کھو گئیں اور بس کھڑی نظر رکھنے والی پھپھو رہ گئیں۔ وہ جو پھولوں کی تتلی تھی اب اپنے نازک ہاتھوں سے ہر کام کرتی۔ موٹی استری اٹھا اٹھا کر پھپھو کے کپڑے استری کرتی، کبھی ابو کے کپڑے، کبھی عامرکے…. برتن تو لگتا تھا کہ کبھی ختم ہی نہیں ہوں گے۔ ناشتہ کے برتن سمیٹ کر اس کول جانا، دوپہر کے برتن بھی دھونا۔ پھر چائے کے برتن اور رات کے کھانے کے برتن اور پھر کچن بھی تو سمیٹنا ہوتا تھا۔ یہ سب سمیٹتے وہ خود بکھرنے لگتی۔اس دوران پھپھو اپنے موبائل پرسسرالی عزیز و اقارب کی خیرخبر لیتی رہتیں ۔وہ اس بات کا خیال رکھتیں کہ عامر کا ددھیال سے رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔ عامر کے چچا پھپھو بھی آتے رہتے تھے۔ مہمانداری بھی ہوتی۔لیکن بینا کے ننھیال سے کبھی کبھار ہی کوئی آتا۔ وہاںسب کو اطمینان تھا کہ بینااپنی پھپھوکے ساتھ ہے۔ جب سے وہ نویں جماعت میں آئی تھی نہ جانے وہ کتنی بڑی ہو گئ تھی۔

اب یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ ’’اللہ جی! امی کیوں چلی گئیں!‘‘
اور ابو، وہ اپنی ملازمت کے چکروں میں ایسے پڑے ہوتے کہ ان سے کچھ بھی نہ کہہ پاتی۔ اور وہ بھی کچھ نہ دیکھ پاتے۔ وہ سوچتی کہ کیا بچوں کی آنکھوں کے آنسو صرف امیوں کو نظر آتے ہیں؟ ہاں شاید، ابو کی نظر بھی تو کمزور ہو گئی ہے ناں…. چلو چھوڑو!
یہ لفظ بھی کتنا پیارا ہے ۔ کتنی وسعت ہے اس میں…. سب کچھ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے….! ’’چلو چھوڑو‘‘۔
جب بھی دل ڈوبنے لگتا تو امی خواب میں آکر اسے خوب پیار کرتیں، اسے سمجھاتیں۔ پھر اس کے لیے سب کچھ پھر سے آسان ہو جاتا اور وہ آنسو پونچھ کر کہتی ’’چلو چھوڑو‘‘۔
اتنے کاموں اور بکھیڑوں سے اسے اتنی بے چینی نہیں ہوتی تھی جتنی اس نئی مصیبت سے تھی۔
پچھلے کئی دنوں سے پھپھو اسے دوکان پر سودا لینے بھیجتی تھیں۔ اسے بہت برا لگتا تھا…. بہت ہی برا۔ دوکان والے انکل عجیب عجیب نظروں سے اُسے دیکھتے تھے۔ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں وہ کلاس میں سب سے آگے بڑھ رہی تھی وہیں فطرت اپنی طے شدہ رفتار سے اس پر اثر اندازہو رہی تھی ۔ بھرے بھرے چہرے کے ساتھ اب وہ بہت پیاری بھی ہوتی جا رہی تھی۔ اب اس میں اُس کا کیا قصور تھا؟ اسکول میں ٹیچر نے اسے نائب ہیڈ گرل بھی بنا دیا تھا۔ اس کی معصوم صورت، بہترین تعلیمی ریکاڈر اور اچھا اخلاق…. اسے سب میں ہر دل عزیز بنا رہا تھا۔ کسی سے جھگڑا کرنا اور بحث کرنا تو اُسے آتا ہی نہ تھا۔ وہ اس سب سے بے نیاز اپنی امی کی نصیحت پر عمل کر رہی تھی۔
’’بیٹا! دل لگا کر پڑھنا اور کسی کا دل نہ دکھانا‘‘۔
مگر یہ دوکان پر جانے کی مصیبت اس کا دل مسوس کر رکھ دیتی تھی۔
کل تو حد ہی ہوگئی۔ اسکول سے آکر حسبِ معمول وہ اپنا بستہ رکھنے اپنے کمرے میں گئی ۔ ساتھ ہی پھپھو آگئیں اور اسے دوکان جانے کو کہا۔ اس نے اپنا بڑا دوپٹہ اٹھانا چاہا تو پھپھو نے کہا ’’ ارے بس چادر کو چھوڑو اور فوراًجاؤ۔ نمک کے بغیر میری سبزی کیا پکے گی؟‘‘ بادلِ نخواستہ وہ چلی گئی۔
جب وہ وہ سامان لے کر پلٹی۔انکل سے شاپر لیتے وقت حسبِ عادت اس نے شکریہ ادا کیا۔
انکل تیزی سے آگے بڑھے اور قریب آکر عجیب لہجے میں بولے ’’کبھی ہمیں بھی شکریہ کا موقع دو پیاری ‘‘ اس کی تو جان ہی نکل گئی۔
بھاگ کر وہ دوکان سے نکلی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی اس کے پیچھے آرہا ہو۔
’’کبھی ہمیں بھی تو…. پیاری….‘‘اس کے کان بج رہےتھے۔
گھر میں جا کر اس نے جلدی سے اپنا دوپٹہ یوں لپیٹ لیا جیسے وہ ساری دنیا سے چھپ گئی ہو۔ کئی دفعہ انکل بہانے بہانے سے چیزیں پکڑاتے اس کے ہاتھوں کو چھوتے رہتے تھے۔ کبھی اس کی چادر ان کے پاؤں کے نیچے پتہ نہیں کیسے آجاتی تھی….ایسے میں کوئی گاہک آجاتا اور وہ دوکان سے نکل جاتی۔ اکثر جنید چاچا دوکان پر کھڑے ہوتے۔ وہ سارے محلے کے چاچا تھے۔ سب سے سلام دعا رکھتے تھے۔ اور ایسے لگتا تھا کہ جیسے انہیں ہر ایک کی فکر رہتی تھی۔ آج سب باتیں ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے آرہی تھیں ۔ وہ جسے اتفاق سمجھ کر نظر انداز کرتی تھی، ایسا نہ تھا۔ آخر انکل اُسے کیوں کہتے تھے کہ ’’تم خود چیزیں اٹھا کر تھیلی میں ڈال لو۔ میں کام کر رہا ہوں….‘‘ وہ بیچاری آگے بڑھ کر سامان تھیلی میں ڈالنے لگتی…. کتنی بیوقوف ہے ناں وہ…. شاید جن کی امیاں نہیں ہوتیں وہ ایسے ہی بے وقوف ہوتی ہیں….آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
اب میں ابو کو بتاؤں گی کہ میں اب دوکان نہیں جاؤں گی۔ مگر ابو…. پھپھو…. ہائے میں کیا کروں؟ اس کا دماغ الجھنے لگا تھا۔
یونہی روتے روتے وہ سو گئی۔ پتہ نہیں کب عامر اس کے کمرے میں آکر نیچے قالین پر سو گیا۔ رات امی پھر خواب میں آئیں۔آج وہ بڑی پریشان لگ رہی تھیں۔
’’بینا گڑیا! اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔ سودا لانا تمہارا کام نہیں

ہے۔‘‘
’’امی ! وہ …. پھپھو…. ‘‘
’بس میں نے کہہ دیا ۔ اب اکیلے دوکان پر مت جانا‘‘۔
پھر اس کی آنکھ کُھل گئی۔ ایک دم اس کی نظر عامر پر پڑی۔’’ میرا بھائی!‘‘اسے ایک تحفظ کا احساس ہؤا اور اس کا ذہن بہت کچھ سوچنے لگا۔ جانے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے دن پھپھونے اس کوایک بڑی لسٹ پکڑا دی۔ اس نے منع کرنے کی بہت کوشش کی تو وہ ناراض ہوگئیں۔
’’کیا میرا ہی کام رہ گیا ہے گھر چلانے کا؟ایک کام کہہ دو تو منہ بسور لیتی ہو‘‘۔
وہ چُپ چاپ لسٹ لے کر چلی گئی۔ اس نےوقت دیکھا تو عامر کے اسکول سے آنے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔ مگر دل کو چین کہاں تھا۔ اس نے عامر کو صبح ہی صبح کچھ نہ کچھ سمجھا دیا تھا۔ اب وہ چھوٹا تھا تو وہ کیا کرے۔ کچھ تو سمجھا ہی ہوگا!
امی نے بھی تو اُسے بچپن میں سب سمجھا دیا تھا…. سب کچھ….وہ آہستہ قدموں سے دوکان کی طرف جا رہی تھی۔ وہ آج خوفزدہ تھی۔ دوکان والے انکل تو جیسے اس کے انتظار میں ہی تھے۔
’’آؤ بھئ آؤ! آج تو بہت کام ہے۔ تم پھر ایک لسٹ لے کر آگئیں ‘‘ کچھ سامان انہوں نے تھیلی میں ڈالا اور غور سے اُسے دیکھتے ہوئے بولے ’’بھئی تم اندر آکر یہ صابن وغیرہ خود ہی اُٹھا لو‘‘۔ بینا جھجکی تو وہ بولے ’’ تم میرا اتنا کام کردو ، میں تمہیں چاکلیٹ دوں گا ‘‘۔
انکل کی آنکھوں کی چمک بہت عجیب لگ رہی تھی۔ اس نے آج اپنی چادر بہت اچھی طرح لپیٹی ہوئی تھی۔ وہ آگے بڑھ کر تھیلی میں صابن ڈالنے لگی۔ انکل نے اپنا پاؤں اس کی چادر پررکھ دیا۔ بینا تیزی سے پیچھے ہٹی تو صابن گر گئے۔ انکل اس کا ہاتھ پکڑ کر سختی سے بولے’’صابن گِرا دیا۔آج تمہاری خیر نہیں! اب تمہیں اس کی سزا ملے گی ‘‘۔
بینا باہر کی طرف لپکی تو انکل کے پاؤں کے نیچے اس کی چادر کھنچتی چلی گئی۔ چیخ اس کے منہ سےنکلی ’’انکل پلیز مجھے چھوڑ دیں۔ مجھے معاف کردیں ‘‘ مگر انکل کہاں ماننے والے تھے۔
’’امی ! امی….!‘‘ وہ چلانے لگی تو انکل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اندر کی طرف کھینچنا چاہا۔ اس کشمکش میں ریک پر رکھے ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو نیچے آگرے۔ اس کی چادر سرک کر کندھے سے نیچے اتر گئی تھی۔
’’یا اللہ مدد کر….یا اللہ بچا لے ‘‘ اس کا پورا جسم لرز رہا تھا کہ اچانک جنید چاچا دوکان پر نمودار ہوئے۔ انہیں گڑ بڑ کا احساس ہؤا اور وہ چیختے ہوئے اندر ہی آتے چلے گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے عامر بھی تھا جسے بینا نہیں دیکھ سکی تھی۔
’’چھوڑبچی کو…. ورنہ تیرا سر توڑ دوں گا….!‘‘ انہوں نے سامنے پڑی قینچی اٹھائی اور اس کے سر پر دے ماری۔ بد بخت انکل پیچھے کو گرنے لگا ۔ آگے بڑھ کر جنید چاچا نے بینا کو اس کی چادر اوڑھائی اور آہستہ سے کہا ’’بیٹا! جلدی گھر جاؤ اور اپنی امی سے کہنا کہ سودا لینے خود آیا کریں…. زمانہ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
’’امی…. امی….‘ ‘ بینا کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں۔ عامر نے بھاگ کر بینا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کے ہاتھ پکڑنے سے بینا کو بڑا سکون محسوس ہؤا ورنہ تو اس میں دو قدم چلنے کی بھی ہمت نہ تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ لوگ اپنی بچیوں کو اکیلا دوکانوں پر کیوں بھیج دیتے ہیں؟
پھپھو کی کوئی بیٹی نہیں شاید اسی لیے انہیں یہ بات پتہ نہیں ہوگی کہ بچیوں کو دوکانوں پر اکیلا نہیں بھیجتے ۔ عامر کے ساتھ چلتے ہوئے خالی ہاتھ گھر جانے کا جواب تو شاید عامر ہی دے سکتا تھا۔بس اسے یہ معلوم تھا کہ وہ حفاظت میں ہے،اب عامر خود پھپھو کو سمجھا لے گا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x