ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قولِ نبیؐ – بیوی کے حقوق – ندا اسلام

آج بہت ضروری ہو چکا ہے کہ عورت کےمصنوعی حقوق کی آوازوں کو بے نقاب کیا جائے ۔مگر اس سے پہلے اور اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ عورت کے ان حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا اور بنوایا جائے جن کی ادائیگی میں غفلت،تساہل نے عام گھریلو عورت کو بھی باغی بنا دیا۔آخر معاشرے میں یہی دو گروہ کیوں پنپ رہے ہیں جن میں سے ایک عورت کو مادر پدر آزاد کر کے قابل رحم حالت تک پہنچا دینا چاہتاہے اور دوسرا، ظلم پر احتجاج کے سارے راستے بند کرکےعورت کو کولہو کا بیل بنے رہنے پر مجبور کرتا ہے؟بحیثیت امت وسط ہم اعتدال کی روش پر چل کر دنیا کو عورت کے مثالی حقوق سے روشناس کیوں نہیں کروا دیتے؟
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنی بیویوں کے ساتھ احسان،نیکی،اور بھلائی کا سلوک کیا کرو۔تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر تمہارے کچھ حق ہیں اور تمہاری بیویوں کے لیے تمہارے اوپر ان کے کچھ حق ہیں۔پوچھا گیا وہ کیا ہیں؟فرمایا:زوجیت کی وجہ سے بیویوں پر فرض ہے کہ شریعت نے جو انہیں دیا ہے اس حق میں کسی اور کو شریک نہ کریں۔ (بخاری)
اسود کا بیان ہے کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور نبی کریم ؐ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیا مشغلہ ہوتا تھا؟فرمایا کہ حضور اپنے گھر والوں کے کام میں مشغول رہتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔
یہ روایات بتاتی ہیں کہ عورت اسلام میں جینے کا بھرپور حق رکھتی ہے۔بحیثیت مرد ہم نے نہ جانے کیسے یہ سمجھ لیا کہ شوہر کی اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ عورت گھٹ گھٹ کر جئے،شوہر کے گھر کو زندہ عورت کا قبرستان بنا دیا جائے،دیکھیے،اطاعت تو معروف میں ہی ہوتی ہے نا۔خواہ امیر،خلیفہ عمر ہی کیوں نا ہو۔آئیے دیکھتے ہیں کہ شوہر کی اطاعت کے معنی کیا ہیں۔
ترجمہ:لوگو!اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو،تم نے ان کو اللہ کے امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا گھر میں آنا اور تمہارے بستر پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں،پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو تنبیہ اور تادیب کے طورپر تم سزا دے سکتے ہو،جو زیادہ سخت نہ ہو۔اور ان کا تمہارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ تم مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے وغیرہ ضروریات کا بندو بست اور انتظام کرو۔(خطبہ حجۃ الوداع)
یعنی بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ وہ ان کو کھانے،کپڑے وغیرہ کی ضروریات اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں،اس معاملہ میں بخل سے کام نہ لیں۔ گویا کہیں بھی شوہر کی اطاعت کے معنی یہ نہیں کہ جبر کو سہا جائے،عزت نفس کی تو اللہ نے بھی اتنی قدر فرمائی کہ کبر یعنی بڑائی کو اپنی ردا قرار دیا۔یاد رکھیے، شوہر کی اطاعت ایک پہلو ہے اور عورت کا علیحدگی کا حق دوسرا پہلو۔یقیناً ایک کو دوسرے سے خلط ملط کرنا درست نہیں۔نزاع کی صورت میں اطاعت کے حق سے بلیک میل کر کے بیوی کو واپس بلانے کی بجائے دونوں خاندانوں کے اہل حل و عقد کے سپرد معاملہ کیا جائے گا کی تصفیہ کیا جائے مگر عورت کو ساتھ رہنے پر مجبور کوئی نہیں کر سکتا یہاں تک کہ ولی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ عورت کی طبیعت جس مرد سے اباح کرتی ہے اس کے ساتھ رہنے پر اسے مجبور کیا جائے۔
بریرہ نامی ایک لونڈی کی ایک نوجوان مغیث نامی سے اس وقت شادی اس کے مالکوں نے کروائی تھی جب وہ ان کی غلامی میں تھیں۔آزاد ہوئیں تو خیار عتق(وہ حق جو آزاد عورت کو نکاح کے وقت حاصل ہوتا ہے)کا استعمال کرتے ہوئے مغیث کے نکاح میں رہنے سے انکار کر دیا۔ مغیث پریشانی کے عالم میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر صاف جواب ملا کہ اس کا حق ہے۔اب مغیث صاحب مختلف لوگوں سے سفارشیں کروا رہے ہیں کہ بات بن جائے،صلح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ مغیثؓ گلیوں میں روتا ہوا بریرہؓ کے پیچھے پھر رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں۔ حضورؐ نے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے کہا کہ اس کی محبت دیکھو کہ بیچارہ گلیوں میں روتا پھر رہا ہے جبکہ وہ اس کا نام نہیں سننا چاہتی۔مغیثؓ کی درخواست پرحضورؐ نے بریرہؓ سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بریرہؓ بطور خادمہ حضرت عائشہؓ کے پاس ہی رہتی تھیں۔ حضورؐ نے بریرہؓ سے پوچھا کہ مغیثؓ کا کیا قصہ ہے؟بتایا کہ یا رسول اللہ!میں نے اسے چھوڑ دیا ہے۔فرمایا، وہ تو بیچارہ گلیوں میں روتا پھرتا ہے۔کہا،یا رسول اللہ! میں نے تو اپنا حق استعمال کیا ہے۔حضورؐ نے پوچھا،کیا تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہو؟آخر وہ تمھارے بچوں کا باپ ہے۔ حضورؐ نے مغیثؓ کی سفارش کی۔ اب آپ خیال فرمائیے کہ سفارش کون کر رہا ہے؟وہ لڑکی بھی بہت سمجھدار تھی،حدود سمجھتی تھی،معاملہ کو بھانپ گئی۔آخر حضرت عائشہؓ کے گھر میں رہتی تھی۔ پوچھا،یا رسول اللہ!حکم فرما رہے ہیں یا مشورہ دے رہے ہیں؟مطلب یہ تھا کہ اگر تو یہ حکم ہے تو پھر کسی مسلمان کی کیا مجال ہے؟حضورؐ نے فرمایا،حکم نہیں ہے بلکہ مشورہ ہے۔تو فوراً کہتی ہے لاحاجۃ لی بہ ،پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یعنی میں نے فیصلہ کر لیا بس کر لیا بات ختم ہوگئی۔ (بخاری)
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہؓ سے معاملے کی کرید نہیں کی،تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ بریرہؓ کے اس فیصلے پر عام لوگوں نے بے جا تبصرہ کیا ہو۔بے شک یہ وجہ کافی سمجھی گئی کہ وہ اس کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتیں۔آج مگر ہم جانے کون سے اسلام کے پیروکار ہیں اور کون سے مذہب کے دعویدار ہیں۔اس ہندو ازم سے متاثر معاشرہ کے فرد کی حیثیت سے ہم ہر ایسے معاملے کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں جس کے تجسس کا ہمیں حق ہی نہیں۔جب ہم قدم قدم پر اپنے حقوق سے آگاہ ہیں اور اس حق کے استعمال میں ہمیں کسی کا ڈر نہیں تو عورت اگر اپنے حق کا استعمال کرتی ہے تو ہمیں عجیب کیوں لگتا ہے؟یقیناً یہ اسی جاہلی معاشرے کی صحبت کا اثر ہے جو عورت کو ستی کر دینے کا قائل ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر اس عورت کو جو سسرالی سیاست سے دلبرداشتہ ہو یا شوہر کو نا پسند کرتی ہو، علیحدگی کی ترغیب یا مشورے دیے جائیں جبکہ وہ نباہ کرنے میں اپنی بھلائی سمجھتی ہو لیکن وہ عورت جو اپنا حق استعمال کرتے ہوئے ایسے گھٹن زدہ ماحول سے خلاصی چاہتی ہو اسے مجبور کر کے واپس اسی ذہنی طور پر نا قابل قبول اور اذیت دہ ماحول میں بھیجنا زیادتی ہے،عورت کا استحصال ہے۔کیا ہم سے عمر ؓ کا وہ فیصلہ مخفی ہے جس میں عورت نے خلع کا مطالبہ کیا تو بطور جج بہترین نتیجہ تک پہنچنے کے لیے عادل و منصف اور حکیم جج نے عورت کو ایک باڑے میں بند کروا دیا مگر جب صبح کو رات کے احوال کی بابت عورت سے سوال کیا گیا تو عورت نے جواب دیا کہ اس کی یہ رات سب سے بہتر اور پرسکون تھی بہ نسبت شوہر کے ساتھ گزاری راتوں کے۔اب جج سمجھ گیا کہ صلح کی کوئی صورت نہیں۔ مگر ہمیں نہیں ملتا کہ عمر ؓنے معاملے کی کرید کی ہو یا عورت کو واپس اسی شوہر کے ساتھ نباہ کی تلقین کی ہو۔
عورت وہ صنف ہے جو ظلم کی چکی میں سب سے زیادہ پسی،کبھی جاہلیت کی بنا پر اس کا استحصال کیا گیا تو کبھی وومن امپاورمنٹ کے نام پر اس کے جسم وروح کو رگڑا لگایا گیا۔اسلام مگر صدیوں قبل عورت کی حیثیت واضح کر چکا ہے۔
عورت ما تحت ہوتی ہے باپ جیسے مشفق،بھائی جیسے غیور،شوہر جیسے محافظ کے۔اگر چہ عورت بحیثیت ماں، بیٹے کی نگران ہوتی ہے مگر یہ ماں جب بیٹے کا گھر بسا دیتی ہے تو اب ایک اور عورت کا گھر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اب بیٹا شوہر بھی ہے اور اپنی بیوی کا محافظ،نگران اور قوام بھی ہے۔اب اسے ماں کی فرمانبرداری اور بیوی کے حقوق میں فیصلہ ساز کا کردار ادا کرنا ہو گا اور نافذالعمل کرنا ہو گا ورنہ ماں کی فرمانبرداری اور بہنوں کے حقوق کے سحر میں بیوی کی حق تلفی کرتا رہے گا اور یہی مظلوم عورت طاقت پا جانے پر شوہر کی زندگی اجیرن کر دے گی۔ دوسری طرف اگر مرد بیوی کی جانب اتنا جھکاؤ رکھتا ہے(یاد رہے، التفات برتنا اور حسن سلوک سے پیش آنے کا مطلب زن مریدی نہیں)کہ ماں اور بہن بھائیوں کے حقوق سے تغافل برتتا ہے تو یہ بھی مرد کی کمزوری ہے جس کی اصلاح ضروری ہے ورنہ فساد کا ذمہ دار مرد ہی کو ٹھہرایا جائے گا۔
ہم عورت کے علیحدگی کے حق کو اور ماتحت کی حیثیت میں اس کے استحصال کو موضوع بنانے کو اس لیے ترجیح دیں گے کہ عورت کا قدیم سے جدید تک استحصال ہو رہا ہے اور مرد ہمیشہ اپنا دامن بچا کر عورت کو عورت کا دشمن ٹھہرا کر دامن بچاتا رہا ہے۔آپ سوچیں اور فیصلہ کریں اس عورت کے متعلق جو معصومیت کی مثال ہو،خوشیوں کے ہنڈولے اور حسین خوابوں میں بسی والدین کی شہزادی کی حیثیت سے مستعفی ہو کر شوہر کی ملکہ بننے اس کے گھر آ جاتی ہے اور مخلصی اور وفا شعاری میں جواب نہیں رکھتی، فرمانبردار ہوتی ہے، شوہر کی عزت کی محافظ ہوتی ہے مگر اس کے جذبات اس وقت چکنا چور کر دیے جاتے ہیں جب اس کے محافظ اور نگران کے سامنے اسے بے وقعت ثابت کیا جاتا ہے،اس وقت جب اس کا بس نہیں چلتا کہ کم مائیگی کے احساس کے تحت زمین میں گڑ جائے۔ وہ جس کے والدین نے اسے جاہلیت کے طور طریقوں سے کنارہ کش ہو کر پالا ہوتا ہے اسے جب زندہ لاش بنا دیا جاتا ہے،ایک جاندار روح اور حسین جذبات سے لبریز عورت کو جب بار بار زمین زمین میں گاڑے جانے والا رویہ شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی برتا جانے لگے،تمسخر اڑایا جائے،تذلیل کی جائے اور شوہر کی نظروں سے گرانے کی کوشش کی جائے تو بتائیے شوہر کا یہ رویہ مبنی بر انصاف ہو گا کہ بحیثیت ’بزدل اور بے غیرت شوہر‘ماں کا پلو تھامے رہے اور آگے بڑھ کر ہر اس آواز کو خاموش کروا دینے کی بجائے،جو اس کی بیوی پر کیچڑ اچھال رہی ہو یا اسے بے وقعت کر رہی ہو،بیوی کو برداشت کرنے کا درس دے، یا خود بھی اس کے وہ وہ نقائص ڈھونڈ کر بتانے لگے جو بجائے خود نقائص ہی نہ ہوں؟کیا شادی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ اپنی حیوانی خواہش کی تسکین کر لی جائے اور اپنی نسل میں چند ناموں کا اضافہ کر لیا جائے۔کیا الگ رہائش مہیا کرنا اس استطاعت رکھنے والے شوہر پر واجب نہیں ہو جاتا جس کی بیوی کی تذلیل اس کی موجودگی میں کی جا رہی ہو؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیوی کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ اچھی صحبت اختیار کرو،اس کو کپڑے اور لباس دو اور مناسب ومعقول رزق اور کھانے پینے کا سامان دو۔ (الدر المنثور)
حدیث کا ترجمہ ہے:مسلمانوں میں اس کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاق اور برتاؤ سب کے ساتھ بہت اچھا ہو،اور خاص کر بیوی کے ساتھ ۔ (ترمذی)
نگران اور محافظ جب شوہر کو بنایا گیا ہے تو کیا شوہر اپنی بیوی کو پرسکون ماحول دینے کا پابند نہیں؟معاشرے کی بہترین بچیاں جب گھر کی چاردیواری میں غیر محفوظ کر دی جائیں،والدین کا گھر انہیں عافیت کا گوشہ لگے تو کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ گھروں کے ٹوٹنے کے ان نا خوشگوار حادثات کی تلافی کیسے کی جائے۔ہم یہاں مشترک یا جداگانہ نظام سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ دیکھیں گے کہ عورت کو بحیثیت بیوی وہ مقام کیوں نہیں ملتا جو اسلام نے اسے دیا ہے۔یہ تو خوش آئند پہلو ہے کہ بیٹی،بہن اور ماں کی حیثیت سے عورت کے حقوق سے آگاہی اکثر لوگوں کو ہے اور اکثر گھرانوں میں بیٹیاں بہت پیار سے رکھی جاتی ہیں، بہنیں لاڈ اٹھواتی بھی ہیں اور اٹھاتی بھی ہیں،ماؤں کا احترام کیا جاتا ہے مگر بیوی کو جانتے بوجھتے بھی اس کے حقوق دینے میں تساہل برتا جاتا ہے،مصلحت کوشی اختیار کی جاتی ہے۔
آپ معاشرے کی اس قبیح سوچ کا خاتمہ کر سکتے ہیں جو بیوی کو اس کا جائز مقام دینے سے روکتی ہے۔آج کسی کی بیٹی کو عزت دیں گے تو کل اپنی بیٹی کو خوشیوں کے ہنڈولے میں بیٹھا دیکھ سکیں گے،اگر کسی کی بیٹی آپ سے عزت اور تحفظ پانے میں نا کام رہتی ہے اور پل پل آپ کی قربت کا اذیت میں گزارتی ہے تو گویا آپ اپنی بیٹی کے لیے بھی یہی راہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔مکافات عمل ایک الگ چیز ہے مگر بیٹی، ماں کی دبی شخصیت کے سائے میں جنم لے گی تو گھٹ گھٹ کر رہنا اور ذلت کو سہتے چلے جانا صبر سمجھنے لگے گی اور کبھی بھی اپنے حق کی بات کرنے کا حوصلہ اور سلیقہ نہیں پا سکے گی۔یا پھر ماں پہ جو گزری اس کے ردِعمل میں رشتے نبھانے سے باغی ہوجائے گی۔اس لیے اپنی بیٹی کی خاطر مردکو اپنی بیوی کے لیے اچھا ماحول بنانا ضروری ہے۔جب بیوی اپنی پسند کا کھانا بنانے،اپنے لباس کے انتخاب میں بھی خود مختار نہیں ہوتی،اپنے کمرے کی تزئین و آرائش بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتی،حتیٰ کہ کھانا اور کپڑا دینے کے عوض اس کا حق آزادی سلب کر لیا جائے،اس کے خلاف محاذ بنا لیا جائے، اس کی بات چلنے نہ دی جائے،خاموشی سے ان زیادتیوں پر صبر کرنے والیوں کو جب چاہے بے عزت کیا جائے،بد کلامی کی جائے،کرخت چہرے اور کرخت لہجے ان کے لیے مخصوص کر دیے جائیں اور پھر توقع رکھی جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے شوہر اور سسرال کے لیے اچھا اظہار کرے،ان کے رشتہ داروں کے سامنے ڈری سہمی اور دبی ہوئی شخصیت کی بجائے خوش باش اور پر اعتماد دکھائی دے، یہ کیسے ممکن ہے!
اب اس عورت کی مثالیں دے کر آپ آج کی عورت کو رام نہیں کر سکتے جو جبر و زیادتی کو سہہ کر صبر کا گھونٹ پی جاتی تھی مگر باپ کی عزت اسی میں سمجھتی تھی کہ نا موافق حالات میں بھی زندگی کو جیسے تیسے گزار دے۔یقیناً ماتحت ہمارے سپرد ہوتے ہیں جو غلط رخ پر جا رہے ہوں تو انہیں درست راہ پر ڈالنا ہم پر واجب ہے مگر ذہن نشین کرلیجیے کہ ما تحت جو بھی ہوں،جہاں بھی ہوں،جس کے بھی ہوں،اپنے حقوق رکھتے ہیں اور ان حقوق کی پامالی کے وقت آواز بلند کرنے کی جرأت اسلام نے ان میں پیدا کی ہے۔
ملازمین،مزدور،خواتین،بچے سبھی ماتحت ہیں اور ان کے نگران ان کے بارے میں جواب دہ ہیں نہ صرف یہ کہ حسن سلوک کے تناظر میں بلکہ ان کی تربیت و پرورش،تعلیم اور اس بارے میں کہ انہیں آگ سے بچانے کے لیے کتنی جان ماری۔اللہ ہمیں بحیثیت نگران اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانے کی توفیق دے،بحیثیت ماتحت، نگران کی اطاعت کی توفیق دے،ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی توفیق دے اور غیر ضروری معاملات میں مداخلت کرنے سے باز رکھے اور انہی ماتحتوں کی جوابدہی کے لیے اپنا نامہ اعمال حسین بنانے کی توفیق دے جن کے حقیقتاً ہم نگران ہیں،آمین۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x