ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاص مضمون – سید ابو الاعلیٰ مودودی – میر بابر مشتاق

بیسویں صدی میں اسلام کی انقلابی دعوت کو اپنے علم ، فھم سے متعارف کرانے والے ، اہم ترین مفکر

 سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا سن ولادت 1321ھ بمطابق1903ء ہے۔ جائے پیدائش اور نگ آباد دکن ہے اور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتداءمیں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہؤا تھا ۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جوخواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے ۔
سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود ِ چشتی کے نام نامی سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلا تا ہے۔ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انہیں مذہبی تعلیم خود دیتے تھے۔ اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلا قی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انہیں کسی مدرسے میں داخل نہیں کرایا، بلکہ گھر پر ہی پڑھاتے رہے۔ ِ ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس انہوں نے اپنے بیٹے کو براہ راست اپنی نگرانی میں رکھااور کسی مکتب یا مدرسہ میں بھیجنا گوارہ نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم کا گھر پر اتالیق رکھ کا انتظام کیا تاکہ مدرسے اور اسکول میں زمانے کی بگڑی ہوئی رو سے وہ اپنے بچے کو بچا سکیں۔
سید مودودی کے والد محترم نے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان کی بہت اچھے اور عمدہ طریقے سے تربیت کی۔ سید صاحب کے گھر میں دہلی کے شرفاء کی صاف ستھری زبان بولی جاتی تھی۔ سید مودودی کے والد نے اس چیز کا بہت خیال رکھا کہ ا ن کی زبان پرکوئی غیر مناسب بازاری لفظ نہ چڑھ پائے۔ جب کبھی وہ ایسا کوئی لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہؤا محسوس کرتے تو ٹوکتے اور صحیح لفظ بولنے کی عادت ڈالتے۔
 سید صاحب نے 1914ء میں مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے لیکن یہ وہ دور تھا جب سید صاحب کے والدِ محترم کی مالی مشکلات بہت بڑھ گئیں تھیں۔ وکالت سے اجتناب اور دینداری میں شدید انہماک کے باعث گھر کے مالی حالات میں وہ اورنگ آباد چھوڑ کر حیدرآباد تشریف لےگئے اور سید صاحب کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرا دیا۔ اس زمانے میں دار العلوم کے صدر مولاناحمید الدین فراہی تھے جومولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ سید صاحب کے والد انہیں دارالعلوم میں داخل کراکے خود بھوپال تشریف لے گئے اورسید صاحب دارالعلوم میں زیرِ تعلیم رہے لیکن تعلیم کا یہ سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا، ایک روز بھوپال سے اطلاع آئی کہ سید صاحب کے والد محترم پر فالج کا سخت حملہ ہوگیا ہے۔چنانچہ مدرسے کی رواجی تعلیم ختم ہوگئی اور ڈیڑھ دوسال کے تلخ تجربات نے یہ سبق سکھایا کہ دنیا میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا لازمی ہے۔بہرحال والدِ محترم کے انتقال کے بعد سید مودودیؒ کو معاش کی فکر لاحق ہوئی۔ والد محترم کوئی جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں لکھنے کی زبردست قابلیت عنایت فرمائی تھی چنانچہ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ قلم کے ذریعے ہی اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچائیں گے اور اسی کو ذریعہ معاش بھی بنائیں گے۔ اس طرح ایک تو مسلمانوں کی بھلائی اور اسلام کی خدمت کاکام ہوگا اور دوسرے معاش کا وسیلہ بھی ہوجائے گاچنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے کیرئیرکاآغاز کیا اور پھر متعدد اخبارات میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیاجن میں اخبار’’ مدینہ‘‘ بجنور(یوپی)’’تاج‘‘ جبل پور اور جمعیت علماء ہند کا روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔ ایک بارمولانا محمد علی جوہر نے بھی سید مودودی کو اپنے اخبار’’ہمدرد‘‘ میں کام کرنے کی دعوت دی تھی مگر’’الجمعیۃ‘‘ والوں سے آپ کے پرانے تعلقات تھے،اس لیے آپ مولانا محمد علی جوہرکی پیش کش کو قبول نہ کرسکے۔اگرچہ سیاسی اختلافات کی بنا پر انہیں بعد میں روزنامہ الجمعیۃ کوبھی چھوڑنا پڑا۔ سیاسی تصورات میں سید مودودیؒ مولانا جوہر کے خیالات سےزیادہ ہم آہنگ تھے۔
جس زمانے میں سید مودودی’’الجمعیۃ‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضورﷺ کی توہین کی تھی جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتااس لیے کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ سید مودودی اس صورتِ حال پر بہت رنجیدہ تھے۔ ان کے دل میں اسلام کی محبت اور مسلمانوں کا درد بھرا ہؤا تھا۔ اسلام کی خدمت کرنے کے لیے ان کے دل میں بہت اضطراب تھا۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں ہی یہ کام کروں۔ چنانچہ انہوں نے’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس وقت سید مودودی کی عمر24برس تھی۔ اس چھوٹی سی عمر میں ایسی معرکۃ الآراکتاب آپ کا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس پر ہر طرف سے آپ کو داد ملی۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایاتھا:۔’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے‘‘۔
1938ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علماء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہندوئوں کے ساتھ مل گئی کانگریس یہ کہتی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اورہندو سب مل کر ایک قوم ہیں یہ ایک ایسی خطرناک بات تھی کہ اگر اسے مان لیا جاتا تو ہندوستان میںمسلمانوں کی علیحدہ حیثیت بالکل ختم ہوجاتی اور ان کا دین بھی خطرے میں پڑ جاتا۔ کانگریس کے اس نظریہ کو ’’ متحدہ قومیت ‘‘ یا ’’ایک قومی نظریہ ‘‘ کا نام دیا جاتا تھا ۔ سید مودودی نے اس خطرے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جوکتابوں کی صورت میں’’ مسئلہ قومیت ‘‘ اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئے ۔ ان مضامین میں سید مودودی نے زور دار دلائل دے ثابت کردیا کہ مسلمان اورہندو دو الگ الگ قومیںہیں کیونکہ دونوں کا تصور خدا ‘ مذہبی عقیدہ ‘ رہن سہن اور طور طریقے سب جدا جدا ہیں ۔ انہیں ایک قوم کہنا بالکل غلط بات ہے۔ چنانچہ سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابند اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے جولوگ اس تجویز سے اتفا ق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور’’ جماعت اسلامی ‘‘ قائم کی گئی جس کا مقصد قرآن پاک کے الفاظ میں یہ تھا ’’ ان اقیمو الدین ولاتتفرقوا فیہ‘‘ یعنی آپس میں اکٹھے ہوکر اللہ کے دین کو قائم کرو ‘‘ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے اس اجتماع میں سیدمودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔
مسلمانان پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تقسیم ملک کے وقت سید مودودی ہندوستان سے منتقل ہوکر پاکستان میں تشریف لے آئے لیکن یہاں آکر بھی انہوںنے کمانے ‘ جائیدادیں بنانے یا عہدے حاصل کرنے کی فکر نہیں کی ان کو فکر پاکستان کی تھی۔
قائد اعظم سید مودودی کو ایک نیک مخلص ‘ دیانتدار اور قابل انسان سمجھتے تھے قائد اعظم کی علامہ اقبال کے ساتھ بھی دوستی تھی دونوں ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی اور پاکستان کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ صلاح مشورے کیا کرتے تھے ۔قائد اعظم ‘ علامہ اقبال کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان کی باتوں کو بہت اہم سمجھتے تھے انہیں معلوم تھاکہ اقبال ہی نے سید مودودی کو حیدرآباد دکن سے پنجاب بلایا تھاچنانچہ ایک دفعہ جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا لوگوں نے قائداعظم سے پوچھا کہ مودودی کیسا آدمی ہے تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ وہ بہت مخلص ‘ نیک اور قابل شخص ہے‘ مسلم لیگ پاکستان بنائے گی اور جب پاکستان بن جائے گا تو پھر ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ پاکستان کو اسلامی سلطنت کیسے بنائیں ۔ سید مودودی اور ان کی جماعت اسلامی اس وقت کی تیاری کررہی ہے اس لیے وہ بہت ہی ضروری اورمفید کام کررہے ہیں۔
لیکن سید مودودی نےجب اسلامی نظام کا مطالبہ پاکستان میں کیا تو اس کے بجائے کہ پاکستان کی حکومت اس کا کام فورا ًکرتی اور سید مودودی کا تعاون حاصل کرتی ‘ اس نے اسلام کےلیے حاصل کیے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے جب اسلامی کی یہ سزا سید مودودی کو دی کہ انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا یہ بڑی زیادتی تھی جب تک قائداعظم زندہ رہے انگریز کے تربیت یافتہ افسر اور لیڈر سید مودودی کے خلاف کچھ نہ کرسکے مگر جب قائداعظم فوت ہوگئے تو ان کی وفات کے چند دن بعد ہی سید مودودی اور ان کے ساتھیوں کو اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا ‘ گرفتاری سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ان کی جماعت کے اخبارات ’’ کوثر ‘‘ جہان نو اور روزنامہ تسنیم بھی بند کردیے گئے تاکہ کوئی آواز احتجاج بلند نہ ہو۔
اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں سید مودودی کو گرفتار کیا گیا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہاد کشمیر کے مخالف تھے ۔ سید مودودی ؒ کی گرفتاری رنگ لائی اورمارچ 49ء میں قرارداد مقاصد پاس ہو گئی اس طرح یہ بات مان لی گئی کہ پاکستان میں اسلامی قوانین کا ہی نفاذ ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اشتراکی سازش کے بعد 1953ء میں ملک میںپہلی قادیانی سازش ہوئی ‘ مسلمانوں کامطالبہ تھاکہ قاد یا نیو ں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے لیکن حکومت کے مخصوص عناصر اور قادیانیوں نے ملک میںمارشل لاء نافذ کردیا تاکہ ایسا مطالبہ اٹھانے والوں سے انتقام لیا جاسکے اسلامی نظام کا راستہ روکنے کا یہ حکومت کا دوسرا حربہ تھا۔اس موقع پر سید مودودی نے ’’ قادیانی مسئلہ ‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب لکھ کر اصل مسئلے کو واضح کردیا اورساتھ ہی اپیل کی کہ یہ ایک دستوری مسئلہ ہے اس پر فساد اور خون خرابے کی ضرورت نہیں ہے ‘ اسے دستور کے ذریعے حل کیا جائے لیکن حکومت تو خود فساد کرنے پرتلی ہوئی تھی چنانچہ اس نے بڑے پیمانے پرفساد کرائے ہزاروں مسلمانوں کو گرفتارکر کے جیلوں میں بند کیا اور اس طرح مسلمانوں کو بتا دیا کہ ان کےلیے دین کی بنیاد پرکوئی مطالبہ اٹھانا اور حکومت سے منوانا ممکن نہیں ہے جو لوگ ملک میں دین کا نام لیں گے انہیں سزا ملے گی ۔
حکومت کے بے دین افسروں نے قادیانی مسئلے پر فسادات سے خوب فائدہ اٹھایا ‘ حکومت اور اس کے افسر تو سید مودودی سے پہلے ہی ناراض تھے انہوں نے سید مودودی کو بھی قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا اور پھر فوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ ( جو ہر جگہ فروخت ہورہا تھا اور اب تک فروخت ہورہا ہے اورکبھی خلاف قانون نہیں ہؤا) لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنا دیا یہ حکومت کا بد ترین جرم تھا وہ تمام لوگ جو اسلام اورپاکستان کے مخالف تھے اورنہیں چاہتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے حکومت کی اس کاروائی سے بہت خوش ہوئے کہ پاکستان میں اسلام کے سب سے بڑے سپاہی کو ختم کیا جارہا تھا مگر عام مسلمان تو صدق دل سے اسلام کو پسند کرتے تھے اور اس کارروائی کو جرم کہتے تھے سید مودودی کی سزا کی خبر سن کر انہیں بہت افسوس اور دکھ ہؤا پورے ملک میں حکومت کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا بڑے بڑے شہروں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک میں ہر جگہ جلوس نکالے گئے ہڑتالیں کی گئیں ‘جلوس نکلے ‘ جلسے ہوئے ‘ حکومت کوتار اور خطوط بھیجے گئے پاکستانی اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں اس فیصلے پر حکومت سے سخت احتجاج کیا پاکستان کے وکیلوں ‘ طالب علموں ‘ اساتذہ اور دوسرے مختلف طبقوں کی انجمنوں اورمجلسوں نے بھی سید مودودی کو سزائے موت کا حکم سنائے جانے پر حکومت کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار اور غم وغصے کا اظہار کیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ ملک کے اندر اور باہر عالم اسلام کی بے شمار شخصیتوں اور اخبارات نے نام نہاد فوجی عدالت کے حکم کو جو کہ ایک سیاسی انتقام تھا غلط قرار دیا اور اس سزا کو منسوخ کرنے کا مسلسل مطالبہ کیا ۔  پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے بھی بڑے بڑے علماء اور مسلم لیڈروں نے حکومت پاکستان پر اس سزا کی وجہ سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اس سزا کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ۔
سید مودودی کی جیل میں استقامت و پامردی سید مودودی کی سزا کے خلاف دنیا بھرمیں تو اس قدر احتجاج ہورہا تھا مگر سید مودودی کو فوجی عدالت کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی گھبراہٹ نہیں تھی جب ان کے ساتھیوں نے جیل میں ان سے پوچھا کہ کیا حکومت کے فیصلے کے خلاف آپ کی طرف سے رحم کی اپیل دائر کی جائے تو انہوںنے پھانسی کی کوٹھڑی میں کھڑے ہوکر فرمایا ’’ نہیں ہرگز نہیں میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے یا میرے خاندان کے کسی فرد کی طرف سے یا خود جماعت کی طرف سے کوئی رحم کی درخواست پیش کی جائے۔ اس کے بعد انہوںنے اپنے بیٹے عمر فاروق کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ’’ بیٹا ذرا نہ گھبرانا!اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے تو بندہ بخوشی اپنے رب سے جاملے گا اور اگر اس کا ہی ابھی حکم نہیں آیا تو پھرچاہے لوگ الٹے لٹک جائیں مجھ کو نہیں لٹکا سکتے‘‘۔
 چنانچہ سید مودودی نے اپنی سزا کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی ‘ انہوںنے کہاکہ اگر میں ظالم حکمرانوں کے سانے دب گیا اور اپیلیں کرنے لگا تو پھر اس ملک سے انصاف کا جنازہ اٹھ جائے گا بالآخر حکومت نے خود ہی سزائے موت کو چودہ سال کی قید میں تبدیل کردیا۔ سید مودودی کے ساتھی تو کچھ عرصے کے بعد جیل سے رہا کردیے گئے اور انہوں نے واپس آکر دین کے کام کو آگے بڑھایا لیکن سید مودودی کومزید دو سال اور گیاہ ماہ تک جیل میں رکھا گیا اور بالآخر وہ عدالت عالیہ کے ایک حکم کے ماتحت ہی رہاہوئے۔
‘ سید مودودی کی کوشش اور عوام کے مطالبے پر ملک کی دستور ساز اسمبلی نے سید مودودی کے دیے ہوئے نشانات کی بنیاد پر ایک اسلامی دستور ترتیب دیا ۔ جماعت اسلامی جو سیدمودودی کی رہنمائی میں اسلامی دستور کامطالبہ مدت سے کررہی تھی اس کی کوشش کامیاب ہوگئی ۔ چوہدری محمد علی وزارت عظمی کے دورمیں پاکستان کا اسلامی دستور 23 مارچ 1956ء کو ملک میںنافذ ہوگیا یہ دستور کچھ نقائص کے باوجودبڑی حد تک اسلامی دستور ہی تھا اور تمام تر جماعت اسلامی اور سید مودودی کی کوششوں کا نتیجہ تھا اگرسید مودودی اورجماعت اسلامی قیام پاکستان کے فورا ًبعد اسلامی دستور کی کوشش شروع نہ کرتے اور اسلامی نظام کےلیے قربانیاں بھی پیش نہ کرتے ‘ جیل نہ جاتے ‘ عوام میں بیداری پیدا نہ کرتے تو کون کہہ سکتا ہے کہ 1956ء میں پاکستان کا دستور ایسا اسلامی بن جاتا۔
سید مودودی صرف بہادر عالم دین اور سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ جانباز مجاہد بھی تھے انہوں نے تقسیم ملک کے وقت بھی دارالاسلام میں مسلمانوں کی حفاظت کی اور پہرے دیے۔ جب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے مکاری سے ستمبر965 میں پاکستان پرحملہ کر دیا تو سید مودودی نے اپنے تمام اختلافات ختم کر کے اور حکومت کے اپنے اورپر مظالم کو بھلا کر ایوب خان کی زیادتیوں کو معاف کر کے فی الفور جماعت اسلامی اور اپنی خدمات حکومت کو پیش کر دیں۔
حکومت بھی سمجھتی تھی کہ سید مودودی کی بات میں اثر ہے اور تمام دیندار اور سمجھدار لوگ انہیں مانتے ہیں اس لیے حکومت قائد اعظم کی وفات کے بعد پہلی بار سید مودودی کو ریڈیو پر تقریر کرنے کی دعوت دی۔ حالانکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی یہ ریڈیو ہمیشہ سید مودودی کے خلاف الزامات اور جھوٹ ہی اچھالتا رہا تھا۔ حکومت اور اس کے وزیروں نے بھی ہمیشہ سید مودودی کو بدنام کرنے کے لیے یہی مشہور کر رکھا تھا کہ مودودی تو پاکستان کے خلاف تھے مگر اس موقع پر ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ سید مودودی اور ان کی جماعت ہر مشکل وقت میں قوم کی خدمت کرتے ہیں وہ لوگوں کو طبی امداد دیتے ہیں‘ نادار طلبہ کو چندے جمع کر کے وظائف دیتے اور جنگ ہو یا سیلاب ہر حال میں قوم کے کام آتے ہیں۔ سید مودودی اور ان کی جماعت نے کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد میں پوری طرح حصہ لیا اور بھارت کے خلاف جہاد میں بھی۔ سیدمودودی نے ریڈیو پر بھی بہت سی تقریریں کیں اور مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ کفار کے خلاف جہاد میں پوری طرح حصہ لیں۔ دوسری طرف انہوں نے اپنی جماعت کو ہدایت کی کہ ہر کارکن اپنی اپنی ہمت کے مطابق جہاد میں حصہ لے۔ اس کے علاوہ دفاعی فنڈ کے لیے ملک بھر میں روپیہ پیسہ بھی جمع کیا گیا۔ قوم اول روز سے جماعت اسلامی اور سید مودودی کو امین اور دیانتدار جانتی ہے‘ چنانچہ جماعت اسلامی نے متاثرین جنگ اور جہاد فنڈ میں لاکھوںروپے‘ برتن‘ کپڑے اور دوسرا سامان جمع کرکے حکومت اور مہاجرین جنگ میں تقسیم کیا اس کے علاوہ کئی مقامات پر بیماریوں اور مہاجرین کے لیے شفاخانے بھی قائم کیے جہاں سے جنگی بیماروں اور متاثرین جنگ کا مفت علاج کیا جاتا رہا۔ خود سید مودودی نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ جگہ جگہ جہاد کشمیر کے حق میں تقریریں کیں۔ انہوں نے ریڈیو مظفر آباد پر بھی ایک تقریر کی۔ جو لوگ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر پہنچے تھے ان کے حالات سن کر انہیں تسلی دی اور جماعت اسلامی نے جس حد تک ممکن ہو سکا ان کی پوری پوری مدد کی۔ بھارتی فوج نے اپنے مکارانہ حملے میں سرحدی علاقوں کی جو مسجدیں شہید کر دی تھیں جماعت اسلامی نے انہیں تعمیر کرنے کا انتظام بھی کیا۔ جب جنگ ختم ہو گئی اور امدادی کام مکمل ہو گئے تو سید مودودی کے ساتھ ایوب خان کی حکومت کارویہ پھر ویسا ہی ہو گیا جیسا پہلے تھا۔ 1967 میں عید کے چاند کے مسئلے پر ایوب خان نے شریعت کا مسئلہ بتانے کے جرم میں سید مودودی کو پھر گرفتار کر لیا اور دو ماہ تک بنوں جیل میں رکھا۔ دو ماہ کی نظر بندی کے بعد انہیں رہا کیا گیا ۔ ایوب خان چاہتا تھا کہ شریعت کا مسئلہ اس کے سرکاری مولوی ہی بتائیں اور سرکاری مولوی وہی کچھ بتاتے تھے جو ایوب خان چاہتا تھا۔ وہ اسلام پر بھی کنٹرول کرنا چاہتا تھا۔ ایوب خان کا دور اسلام اور جمہوریت دونوں کے لیے تباہ کن دور تھا۔
جب مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی تو بھارت نے باغیوں کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کر دیا۔ اس وقت سید مودودی اور ان کی جماعت نے ملک بچانے کے لیے بھارتی فوجوں‘ ہندوئوں اور سوشلسٹوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں لیکن بقول سید مودودی کے ملک نہ بچ سکا اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ ایک سازش کے تحت پاکستانی فوج کو حکم دے کر یحیٰی خان نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈلوا دیے جس سے ایک لاکھ سے زائد پاکستانی فوج اور شہری بھارت کی قید میں چلے گئے۔ مشرقی پاکستان کا علاقہ ملک سے زبردستی علیحدہ کر دیا گیا اور 16دسمبر 1971 کو پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔
مشہوردانشور مسٹر اے کے بروہی قانون کے عظیم اسکالر اور عالمی سطح کے قانون دان تھے۔ ان کی قانون پر تصانیف عدالت ہائے عالیہ تک میں حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ سید مودودی نے جب تشکیل پاکستان کے بعد ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ اٹھایا تو اس وقت ملک و ملت دونوں اسلام میں کسی نوعیت کے دستور کے تصور سے بے خبر تھے۔ نعرے کے طور پر بلاشبہ یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ ہمارا دستور قرآن ہے لیکن دستور کے جدید تصورات کے پیش نظر پورے قرآن کادستور ہونا عام مسلمان کو مطمئن نا کرسکتاتھا نہ ایک قانون دان کو ۔ چنانچہ انہی ایام میں جناب بروہی صاحب نے یہ اعلان اخبارات میں شائع کرایا جو سید مودودی کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا کہ جو شخص قرآن سے جدید دستور کی بنیادیں نکال کر دکھائے اسے پانچ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ ایک بندہ مومن کے لیے اس سے بڑا انعام تو کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک بندہ خدا راہ راست پر آجائے چنانچہ سید مودودی نے ’’اسلامی دستور کی قرآنی بنیادیں‘‘ کے موضوع پر کراچی میں ہی تقریر کی اور قرآن میں سے کھول کھول کر جدید دستور کے مطابق حاکمیت سے لے کر بنیادی حقوق تک ساری دستوری بنیادی قرآن سے نکال کر دکھا دیں۔ اس کے بعد سے جناب بروہی سید مودودی کے علم و فضل کے پورے طرح قائل ہو گئے۔
1956سے لے کر 1974تک آپ نے کا سفر کیا۔ اس دوران وہاں موجود مسلمانوں کو آپ سے ذاتی طور پر مستفیض ہونے اور آپ کی صلاحیتوں کا لوہا ماننے کا موقع ملا۔ دوسری جانب یہ سفر خود دیکھا اور لوگوں سے استفادہ کیا ۔ اپنے متعدد دوروں کے دوران انہوں نے قاہرہ‘ دمشق‘ عمان‘ مکہ‘ مدینہ‘ جدہ‘ کویت‘ رباط‘ استنبول‘ لندن‘ نیویارک‘ ٹورنٹو کے علاوہ کئی بین الاقوامی مراکز پر لیکچر دیے۔ انہی سالوں میں آپ نے 10عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1959 اور960 میں قرآن پاک میں مذکور مقامات کی جغرافیائی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کے لیےسعودی  عرب‘ اردن(بشمول یروشلم)‘ شام اور مصر کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کیا۔ انہیں مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں مدعو کیا گیا۔ اس یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے 1962تک اس کے قیام سے رکن تھے۔ آپ رابطہ عالم اسلامی کی فائونڈیشن کمیٹی کے رکن بھی تھے اور اکیڈمی آف ریسرچ آن اسلامک لاء مدینہ کے بھی رکن تھے۔ مختصر یہ کہ سید مودودی مسلمانوں پر اثرات کے حوالے سے ایک مینارہ نور تھے انہوں نے مسلمانوں کی فکر کو بالکل اسی طرح متاثر کیا ہے جیسے ہمالیہ اور الپس اپنی جگہ سے ہلے بغیر ایشیاء اور یورپ کے موسم اور آب و ہوا کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
بیرون ملک بھی سید مودودی نے اسلام پاکستان اور مسلمانوں کی خدمات سرانجام دی ہیں۔ سید مودودی نے بے شمار کتابیں لکھ کر مسلمان قوم کو اسلام سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ کتابیں بیشتر اردو میں ہیں لیکن سید مودودی کی تصنیفات کا عربی‘ انگریزی‘ فارسی‘ ترکی‘ بنگالی‘ جرمن‘ فرانسیسی‘ ہندی‘ جاپانی‘ ساحلی‘ تامل‘ تلنگو سمیت بائیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ پوری دنیا انہیں ایک عظیم اسلامی مفکر‘ پختہ عزم مسلمان‘ اسلامی رہنما اور ایک بہت بڑے مصنف کی حیثیت سے جانتی ہے۔ عرب ملکوں میں خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ ان کا بے حد مداح ہے اور ان کا بے حد احترام کرتا ہے اور انہیں’’الاستاد مودودی‘‘ اور ’’السید مودودی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ جبکہ مدینہ یونیورسٹی‘ ریاض‘ سوڈان‘ مصر‘ اور دیگر کئی ممالک میں سید مودودی کی کتابیں نصاب تعلیم کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر بھی عربی زبان میں مختلف مضامین اور کتابچے لکھے اور اپنے وسائل سے انہیں عرب ملکوں میں پھیلایا اور یوں عرب مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے آگاہ ہوئے۔ اس طرح ان میں پاکستان کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں ان کو بھی دور کیا۔ بہت سے غیر مسلم سید مودودی کی کتابیں پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ ان کی یہ کتابیں ہر پڑھنے والے کا دل اسلام کے لیے کھول دیتی ہیں۔ اسلام سمجھانے میں اللہ تعالیٰ نے سید مودودی کو ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔
سید مودودی دین اسلام کے عظیم مجاہد اور بہادر سپاہی ہیں۔ انہوں نے باطل کے طوفانوں میں بھی ہمیشہ اسلام کی بات کی ہے اور صرف اسلام کے لیے کی ہے وہ ہر دور میں یہی کہتے رہے ہیں کہ اگر ملک میں اسلام نافذ کر دیا جائے تو میں اسلام نظام میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے بھی کام کرنے کو تیار ہوں۔ ان کے ایثار و قربانی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی لاکھوں روپے کی آمدنی والی کتابیں اسلام کے کام کے لیے وقف کر دیں۔
1979 میں سید مودودی کے گردے کی پہلے سے موجود خرابی بگڑ گئی اور اس پر مستزاد دل کی تکلیف تھی۔ آپ علاج کے لیے بفیلو‘ نیویارک چلے گئے جہاں ان کے بڑے سے چھوٹے صاحبزادے بطور معالج کام کر رہے تھے۔ بفیلو میں بھی آپ کی فکری مشغولیت جاری رہی۔ آپ رسول اللہؐ پر مغربی مفکرین کے کام کو ملاحظہ کرتے یا پھر مسلم رہنمائوں‘ اپنے خیرخواہوں اور ہم خیالوں سے ملاقاتیں کرنے میں اپنا وقت گزارتے۔ آپ کے چند آپریشن بھی ہوئے مگر 76 برس کی عمر میں 22ستمبر 1979 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کا پہلا جنازہ بفیلو میں پڑھایا گیا اور پھر آپ کا جسد خاکی پاکستان لایا گیا اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آپ کا جنازہ قطر یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘سابق صدر اخوان المسلمون شام علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھایا۔ اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق سمیت عالم اسلام کی اہم شخصیات اور ملک بھر کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے اس محسن عظیم اور صدی کے عظیم مفکر کو دارفانی سے دارقرار کی طرف الوداع کیا۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x