ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اداریہ – ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون!
محرم الحرام سے نئے قمری سال کا آغاز ہے۔ اللہ اس سال کو امت کی بیداری کا سال بنائے آمین۔ساتھ ہی اگست ہے، وہ مہینہ جس میں ہم نے آزاد وطن حاصل کیا، یہاں آکر بسنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں تاکہ لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر لیے گئے خطہِ زمین کو اسلام کی سربلندی کا مظہر بنائیں، نبی کریمﷺ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنا ڈالی آج کے دور میں اس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں، سچ، دیانتداری، امانت کا پاس، عدل و انصاف، برابری،شجاعت، خودداری، محنت، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیرخواہی، بھائی چارہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال حاصل کریں، غیر اللہ سے کنارہ کش ہوجائیں، شرکیہ اعمال ہماری مجبوری نہ رہیں،ہم صرف خدا کی ذات سے ڈرنے والے ہوں، اسی کے آگے خود کو جوابدہ سمجھیں، قرآن کے احکامات کو اپنے ریاستی و سیاسی امور، معیشت اورمعاشرت سازی میں رہنما اصول بنائیں۔ سیرت ِ نبیؐ سے رہنمائی لے کر خارجہ و داخلہ حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ تعلیم وتربیت کے ذریعے ایسے انسان تیار کریں جو اس مملکتِ خداداد کو سنبھالنے والے ہوں اور اس کے قیام کے مقاصد کو بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پوارا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
محرم الحرام اسلامی تاریخ کے اس عظیم واقعے کا بھی امین ہے جب حق کی گواہی کا فرض پورا کرتے ہوئے امام حسینؑ نے اپنا پوراخانوادہ قربان کردیا تھا۔ یہ اصول پسندی ، جرأت و شجاعت، فرض شناسی اور حق گوئی کی ایک ایسی قدآور مثال ہے جس کے سامنے دورِ جدید کی انسانی تاریخ کی سب ایسی مثالیں بونی نظر آتی ہیں۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

جس بات کو درست سمجھا اس کو طاقت کے ایوانوں میں ببانگِ دہل کہنے کے لیے چل پڑے۔ وہ لاالٰہ جس کے نام پہ یہ سرزمین ہمیں حاصل ہوئی، اس کا حق ادا کرنے والے امام عالی مقام تھے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:

سردار نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؑ

آج لاالٰہ کے وارث اس ملک کو ہمیشہ سے زیادہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے۔ سیاست خاندانوں کی جاگیر ہے اس لیے ہر اصول اور قانون سے مبرّا، ذمہ داریاں عہدے ہیں اور عہدے مراعات کے حصول کا ذریعہ، چھوٹا سااختیاربھی ملے تو وہ حرام کمانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ، آئین شکنی اور اپنے دائرہ کار سے تجاوز ایک معمول جس میں کوئی عجیب بات نہیں۔خدا کو حاضر ناظر جان کر اٹھائے ہوئے حلف آرام سے توڑ دیناجیسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ طاقت کی بنیاد پہ فیصلے دینا، دباؤ اور لالچ کے تحت ضمیر فروشی ایک روٹین جس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی،غریب پر ظلم اور صاحبِ حیثیت کے لیے چھوٹ ایک نارمل بات،ملکی خزانوں کی لوٹ مارایسا عیب جس کی ہمیں عادت ہوچکی،باہم تعاون نیکی اور تقویٰ پر نہیں بلکہ ظلم اور عدوان پر،نہ ایماندار رہیں گے نہ رہنے دیں گے، نہ باضمیر بنیں گے نہ بننے دیں گے، یہ ہماراقومی وتیرہ بن چکا ہے۔ جب غلط اور صحیح کے تصورات اس حد تک گڈمڈ ہوگئے ہوں وہی تو وقت ہے کارِ حسینیؑ انجام دینے کا۔امام کربلا کی جدوجہد نے بگاڑ کے پہلے قدم پر ایسی کاری ضرب لگائی جو اگرچہ بگاڑ کا راستہ تو نہ روک سکی مگر امت کے لیے حق اور باطل کو واضح کرگئی۔ اب یہ فرق قیامت تک غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کے خواہش مند باضمیر لوگوں کی رہنمائی کرتا رہے گااور امام حسینؓ کے نقشِ قدم اس کےراستوں میں جگمگاتے رہیں گے۔
جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورسے متعلق بے راہروی کی سرپرستی کا سکینڈل بھی زبان زدِعام ہے۔ پولیس کے مطابق چیف سیکیورٹی افسرجس کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈسپلن اور چیکنگ کے لیےتعینات کیا تھا، وہی منشیات اور بے راہروی کے پورے نیٹ ورک کاسرغنہ نکلااور ساتھ انتظامیہ اور کچھ اساتذہ بھی ملوث ہیں، سیاسی شخصیات کے نام بھی آرہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری تعلیم گاہوں میں اب شیطانیت ننگا ناچ رہی ہے۔ خدا خوفی تو رہی ہی نہیں۔ایلیٹ مافیا کے ہاتھوں ملکی سیاست میں جو بگاڑ آچکا ہے، تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہونے سے نہیں بچے۔ایسے سکینڈلز

کے ڈانڈے ہمیشہ بااثر افراد اور سیاسی و کاروباری خانوادوں سے جا ملتے ہیں ،اتنے گھناؤنے جرم کے ملزم کو جس پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں پیش کیا گیا ہے اسی سے بہت کچھ اندازہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں کون کس کو سزا دے گا،کون کسے مجرم ٹھہرائے گا یہ سوچنا مزید مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹی کا موقف سنا جائے جس کے مطابق یہ سب جھوٹ گھڑا گیا ہے تو مزید بدقسمتی کی بات ہے کہ خفیہ مقاصد کے تحت یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لیے ایک ایسا سکینڈل گھڑا گیا جس کو زبان پر لانا بھی باعثِ شرم ہے اور شرفا پریشان ہیں کہ اپنے بچے یا بچی کو بدنامی سے کیسے بچائیں۔ کیا پولیس کے ایک اے ایس آئی کی اتنی اوقات ہے کہ وہ کسی بااثر فرد کے خلاف مدعی بنے؟جن شیطانی دماغوں میں ایسے منصوبے آتے ہیں وہ سرِ عام پھانسی کے مستحق ہونے چاہئیں۔ فحاشی کے حقیقی واقعات بھی پیش آجائیں تو قرآن نے ان کی تشہیر کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے کجا یہ کہ فرضی اور من گھڑت قصوں کو پھیلایا جائے۔ دونوں صورتوں میں اصولاً یہی ہونا چاہیے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہوں اور بلا تخصیص ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں تاکہ جرم کی بجائے سزا کی تشہیر ہو۔
منی پور بھارت میں میتئی ہندؤں کے ہاتھوں عیسائی خواتین پر تشدد اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک نے اس نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ ایک بار پھر دنیا کو دکھایا ہے۔میتئی کمیونٹی کے زیادہ تر افراد ہندو ہیں اورصوبے میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدارہے ۔اس اعتبار سے ریاست براہ راست اسی طرح ان فسادات کی ذمہ دار ہے جس طرح دیگر کئی شہروں میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور قتل عام میں بھارت کی ریاستی حکومتیں ملوث رہی ہیں۔پولیس ظلم کو روکنے کی بجائے تماشا دیکھتی ہے بلکہ ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔ ہندو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ہاتھوں بھارت میں کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے اوربی جے پی کی مرکزی حکومت کےتحت ان جرائم کو کھلی حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔منی پور کے فسادات ملازمتوں اور دیگر حقوق کی بنیاد پر شروع ہوئے مگرسیاسی اختلافات میں مخالف فریق کی عورتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک ہندو انتہا پرستوں کی ہمیشہ سے روایت ہے۔ تین ماہ سے یہ فسادات جاری تھے مگر انٹرنیٹ پر پابندی لگا کر یہ خبریں روکنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اب دوماہ پہلے بنی ہوئی انسانیت سوز سلوک کی ویڈیو وائرل ہوئی تو وزیر اعظم مودی کو بھی پہلا بیان دینا پڑا۔ہر جاہلی معاشرے میں انتقام کے لیے عورتوں پر جنسی تشدد کو ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے ،افسوس کہ اکیسویں صدی میں جبکہ بھارت اپنے تئیں ترقی میں چاند پر پہنچنے کو ہے، اور خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے،معاشرتی اقدار کے لحاظ سے اس حد تک غیر انسانی،پسماندہ اور جاہل ہے۔
منی پور میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم پر یورپی یونین نے بھی احتجاج کیا ہے ۔ لیکن مغرب کی اخلاقیات کا دہرا معیار دیکھیے کہ اس سے زیادہ سنگین مظالم گزشتہ 75 سال سے بھارت کی حکومت کشمیر میں اور خود بھارت میں مسلمانوں پر روا رکھے ہوئے ہے لیکن یورپی یونین نے کبھی نرم لفظوں میں بھی ان مظلوموں کی حمایت میں کوئی مذمت کا بیان جاری نہیں کیا ۔ہندو، یہودی اور عیسائی مسلم دشمنی میں سب ایک ہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما سابق ممبر پارلیمنٹ مولانا عبد الخالق جیل میں انتقال کر گئے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے ۱۹۷۱ میں پاکستان کی سالمیت کے لیے جدوجہد کرنے اور قوم پرست بنگالیوں کے مقابل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مخالفت کرنے پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دینے اور جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ بین الاقوامی قانون ان گرفتاریوں اور سزاؤں کی بالکل اجازت نہیں دیتا، اورملکی قانون کے تحت بھی کسی شہری کا اپنے ملک سے وفاداری نبھانا بھی کسی طورسے جرم نہیں کہلایاجا سکتا، مگر افسوس کہ پاکستان کی افواج اور حکومتوں نے اس پربنگلہ دیشی حکومت کےفیصلوں کو چیلنج کرنا تو دور کی بات ، ان پر صدائے احتجاج تک بلندنہ کی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا فرض ادا کرکے خدا اور اپنے ضمیر کے آگے سرخرو ہوئے۔اللہ کی عدالت وہ ہے جہاں ان کی پوری قدردانی کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد قبول فرمائے اور ان کو اعلیٰ درجات سے نوازے آمین۔
عابیؔ لکھنوی کے ان اشعار کے ساتھ اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی ؎

اُٹھا لے زَر کی رنگینی، فقیری کا ہُنر دے دے
عطا کر جان لفظوں کو، دُعاؤں میں اَثر دے دے
فرشتے ہم نے کیا کرنے ہمیں کوئی بَشر دے دے
ترستی ہے یہ دُنیا یا خُدا کوئی عمرؓ دے دے

دعاگو، طالبہِ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
2 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x